Friday 18 August 2023

نو ٹس ، جما عت گیا ر ہو یں ، حصہ غز لیا ت: Notes 11th Class Gazal

نوٹس، جماعت گیارہویں،حصہ غزلیات:
شعر1: آج جو شخص اپنی طاقت اور حکومت پر غرور کرتا ہے۔آخر وہ مٹی میں مل جا تا ہے۔
جو شخص اختیار/اقتدار،دولت،طاقت اور ظلم وجبر کے زور پر ،اپنی حیثیت بھول بیٹھا ہے۔اور غرور کرتا ہے۔اکڑ اکڑ کر چلتا ہے۔دوسرے لوگوں کو کم تر سمجھتا ہے۔اور اپنی بے ثباتی(فانی ہونا) پر غور نہیں کرتا ۔چند دن کی زندگی میں وہ بھول گیا ہے۔کہ وہ اور اس جیسے بے شمار اس دنیا میں آئے اور نہیں رہے۔بے شمار لوگوں نے خدائی دعوے کیے۔زمین پر 'ارم؛ نامی جنت بنائی۔لیکن ان کی بے بسی دیکھیے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ بھی نہیں سکے۔کیوں کہ انسان ایک بے بے مخلوق ہے۔اور خالقِ کائنات کو غرور پسند نہیں ہے۔حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے تو زمین سے آواز آتی ہے۔ کہ کل جب تو میرے اندر سمائے گا ۔تب تجھ سے پوچھوں گی کہ تم میں کتنا کس بل ہے۔کیوں کہ "کل نفس ذائقۃ الموت" لہذا ایک فانی چیز کا اترانا مناسب نہیں ہے۔دنیا کا اصل مالک خود خالق ہے۔ہم لوگ چند روزہ زندگی میں اپنی حیثیت بھول جاتے ہیں اور دنیا کی چمکتی ہوئی دلدل کو ترقی کا زینہ سمجھنے لگتے ہیں۔لیکن دلدل میں گرنے کے بعد بے بس ہو جاتے ہیں۔نہ جائے  ماندن،نہ پائے رفتن"اور جو شخص دنیا کی دلدل سے نکلنے کی جتنی کوشش کرتا ہے دھنستا چلا جاتا ہے۔لہذا ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ کل ہماری میت پر لوگ رو رہے ہوں تو ہمارے چہرے پر خوف اور پژ مردگی (حزن) کے آثار نہ ہوں ۔بلکہ ہمارے چہرے پر مسکراہٹ ہو۔لیکن کیسے؟ اور طریقہ ہے عَجز اور انکسار سے دنیا میں رہنا۔ورنہ کبر  و نخوت  انسان کی تباہی میں پہلی اور آخری کیل ثابت ہوتا ہے۔
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو پڑ گیا                     
یک سر وہ استخوانِ شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا! کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر           
        میں بھی کبھو،کسو کا سرِ پر غرور تھا
شعر2:دنیا میں آنے والے ہر شخص کو پریشانی اٹھانی پڑی(الد نیا دارالسجن)اور کوئی فرد تکلیف اٹھائے بغیر نہیں گیا۔
آفاق کے معنی آسمان ہیں ۔یہ افق کی جمع ہے۔دور ڈوبتے سورج کو افق کہا جاتا ہے۔شاعر نے پہلے مصرعے میں سوالاً جواب دیا ہے۔ کہ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے دنیا میں کوئی دکھ ،درد یا غم نہیں سہا۔
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ ہر مسافر راستے میں لوٹا گیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مسافر کیوں لوٹا گیا؟لوٹنے والا کون تھا؟اس مسافر کے پاس کون سی قیمتی چیز تھی جس کی وجہ سے راستے میں چور پڑ گئے۔؟کایا وہ مجبور و بے بس لٹا رہا؟ اس نے بچنے کی کوئی کوشش کی یا نہیں کی۔اور اگر وہ بے بس تھا تو کیا وجہ تھی؟ اور شاعر نے اس قدر یقین سے کیوں کہا ہے کہ "اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا"۔اب دنیا، دنیا کا قیام، اور اس دنیا کے قیام کی وجہ اور انسان کا تخلیق ہو نا،اس دنیا میں بھیجا جانا۔اور روزِ ازل سے  دشمن کا کھل کر سامنے آنا اس بات کو کافی حد تک واضح کر دیتا ہے۔اب ہم نے ثآبت یہ کرنا ہے کہ ہمرحمٰن کے بندے ہیں یا شیطان کے بندے ہیں۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
                ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
شاعر خبردار کرتا ہے کہ اے انسان! سوچ سمجھ کر چل اور لٹیروں پر نظر رکھ،یہ لٹیرے صرف باہر ہی نہیں تیرے اندر بھی ہیں۔ خواہشات،تمنائیں،آرزوئیں،امنگیں، حسرتیں، حرص وحوس،بغض، عناد،لالچ،خود غرضی،خود فریبی، اور خود پسندی جس سے انسان میں خوشامد کا مرض بھی پیدا ہوتا ہے۔اور انسان راہ سے بھٹک جاتا ہے۔اور پھر وہی دنیا کی دلدل اور بے بس انسان۔اس لیے غرور نہیں کرنا۔اور عاجزی کے سہارے،اللہ اور اس کے رسول سے مدد طلب کرتے ہوئے ،گزر جانا ہے۔تاکہ کم سے کم نقصان ہو۔
شعر 3:قیامت کے دن ،ہمارا ہر زخم،عادل حشر سے ،تیرے ظلم کی شکایت کرے کا اور انصاف چاہے گا۔
شاعر اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ آؤ اس دنیا میں ہم ایک دوسرے سے حساب کر لیں۔ورنہ کل قیامت کے دن،جب ساری مخلوقات جمع ہوگی۔اور ہم مالک یوم الدین سے اپنے اوپر کیے گئے مطالم بیان کریں گے۔تو نام تمھارا تو آئے گا۔اب تمھاری مرضی ہے کہ تم ان مظالم کا مداوا دنیا میں کر دو  ورنہ آخرت میں پوری دنیا کے سامنے جگ ہنسائی ہو گی۔
کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو چہ جائے غم ہے،شَیخ             
    یہ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

حد سے زیادہ جورو ستم خوش نما نہیں     
              ایسا سلوک کر جو تدارک پذیر ہو

دس جملوں کی معلو ما ت Essay 10 Senrences Informations