Wednesday 22 October 2014

ایک مشاعرے کی روداد

ایک مشاعرے کی روداد

نوٹ:یہ مشاعرہ "دلی کا ایک یاد گارمشاعرے "کی طرز پر خیالی طور ہرلکھا گیا ہے۔
روہی اور تھر کے سنگم پر ،پنجاب کے دور افتادہ علاقے ماچھی گوٹھ میں بہار کی آمد آمد تھی۔یہ علاقہ سونے جیسی ؛سونا یوریا' زمین کا سونا پیدا کرنے میں مشہور ہے۔اور زمیں میں جب سونا ڈالا جاتا ہے،زمینیں سونے جیسی فصلیں اگاتی ہیں۔یہ علاقہ جہاں بادِ صبا دن چڑھے تک 'لُو'بن جاتی ہے۔لیکن آج ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے؛ویرانے میں چپکے سے بہار آگئی ہو'۔ شام ڈھلنے سے پہلے ہی پنڈال سج گیاتھا۔ سورج دیوتا کے رخصت ہوتے ہی  ہر طرف  قمقموں کی بہار آگئی تھی۔کئی چاند اورتارے  زمین پر اتر آئے تھے۔جس کی وجہ سے کئی بیماروں کو بے وجہ قرار آگیا تھا۔
آج ایسا لگتا تھا پوری ایف  ایف سی پنڈال میں آگئی تھی۔ آخر کارانتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور معزز مہمان شعرا تشریف لے آئے۔آج کے محفلِ مشاعرہ کی خوبی یہ تھی کہ  پروین شاکر آج کی معتمدِخصوصی تھیں۔ یعنی آج کی محفلِ مشاعرہ کی میزبانی کا حق انھیں دیا گیا تھا۔آج کی محفل کے  مہمان اعزاز جنابِ سراج اورنگ آبادی تھے۔ لیکن آج کی محفل کے مہمانِ خصوصی جنابِ میر تقی میر ،خدائے سخن' تھے۔ انھوں نے احساس کو اشعار کی زباں دی۔ آج کی محفل کے صدر ،جنابِ  اسداللہ خاں غالب تھے۔ جواردو زباں کی آبرو ،روحِ غزل، جانِ شاعری اسلامیانِ ہند کی زبان کا سرتاج   ہیں۔شاعروں میں احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض،حسرتِ موہانی،مرزا خاں داغ،مؤمن خاں مؤمن،اور حیدر علی آتش تھے۔پروینِ شاکر میزبانی کی خدمات انجام دے رہی تھیں۔
جونہی معتمدِخصوصی پروین شاکر سٹیج پر تشریف لائیں۔لوگوں نے تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔انھوں نے آتے ہی اپنے چند اشعار پیش کیے۔ہر شعر پر داد وتحسین حاصل کی ۔لیکن جب یہ شعر پڑھا تو پنڈال میں جیسے آگ لگ گئی۔
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا                  
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
دیر تک واہ واہ کی آواز بلند ہوتی رہی۔ اب انھوں نے آج کی محفلِ مشاعرہ کے دوسرے شاعر 'احمد ندیم قاسمی کو دعوتِ کلام دی۔جنھیں وہ پیار سے' عمو' بلاتی ہیں۔انھیں شاعرِ انسانیت بھی کہا جاتاہے۔انھیں برگد کے پیڑ سے تشبیہہ بھی دی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب نے آکر اپنے کچھ اشعار اور ایک غزل پیش کی۔لیکن جب اس شعر کو پڑھا تو جیسے محبت کے
 رنگ اور بہار کے رنگ میں فرق نہیں رہتا۔ ہر دل سے تعریفی الفاظ بغیر سوچے سمجھے پھسل رہےتھے۔
انداز ہو بہو تیری آ وا زِ   پا  کا  تھا             
دیکھانکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کاتھا
اس کے  بعد شاعرِ انقلاب وشباب ،لیلیٰ وطن کا پرستار،الفاظ کا جادو گر ،رومان وسوہان کا پیکر جنابِ فیض احمد فیض کو دعوتِ سخن دی گئی۔فیض کادھیما پن اور تمبہ نوشی کا رومانی انداز اک اندازِ دگر رکھتا ہے۔فیض کے آنے سے پہلے ہی منچلوں نے ان کا ایسا استقبال کیا کہ محفل میں مردے بھی کفن پھاڑ کے اٹھ بیٹھے۔ فیض   کی  طلسمی شخصیت نے دلوں کو جکڑ رکھا تھا۔جوں ہی انھوں  نے پہلا ہی شعر پڑھا اور داد وتحسین کا طوفان کھڑا ہو گیا۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے             
وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
اور جب مقطع پر پہنچے تو محفل کا رنگ ہی اور تھا۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں                       
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اس کے بعد اپنے دل نشین انداز میں پروین شاکر نےتحریکِ آزادی کے سچے مجاہد، رئیس المتغزلین مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کو دعوتِ کلام دی۔اور تعارف کراتے ہوئے کہا:
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی                اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
مولانا حسرت موہانی کے آنے پر 'چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے'کا غلغلہ بلند ہوا۔فرمائشیں پوری ہوئیں ۔لیکن جب حسرت نے یہ غزل شروع کی منظر  ہی بدل گیا۔جسے لفظ محبت نہیں بھی معلوم تھا آج وہ مجنوں ہوا۔
تاثیرِ   بر قِ حسن ،جو ان کے سخن میں تھی                                    
اک لرز شِ خفی مرے سارے بدن میں تھی
اب پروین شاکر آئیں تو لہجے  میں اک شوخی کے ساتھ احترام کا عجب اہتمام تھا کیوں کہ شاعرِ شراب وشباب ،شوخی وبانکپن کامنبع،ساتھ ہی ساتھ شاعرِ مشرق کا استاد ،مرزا خاں داغ،کو دعوتِ کلام دی گئی۔داغ اپنے تما م تر طمطراق کے ساتھ جب    پڑھنے کے لیے آئے تومحبت نےشوخی اور عقیدت نے بانکپن  کا جامہ پہنا۔ ہر شعر پر داد سمیٹی ۔لیکن جب یہ غزل شروع کی تو آہوں کو پر لگ گئے۔
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا                 
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
اب کی بار پروین شاکر سٹیج پر آئیں تو ،تو انھوں نے حکیم ،حقیقی اور زمینی محبت کا علم بردار،تیکھے اور تیز تیوروں کا شاعر جسے لوگ مؤمن خاں مؤمن کے نام سے جانتے ہیں کو دعوتِ کلام دی۔'تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو'جیسی غزل تخلیق کرنے والے،اور خدا خدا کر کے مسجد میں شب گزارنے والے نے جب اپنی غزل شروع کی تو غالب بھی پھڑک اٹھے۔
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
                      رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے        
             ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا         
               جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا!
اس آخری شعرپر غالب نے کئی بار مقرر کہا۔ رات ڈھل رہی تھی محفل کا رنگ جنوں خیز ہورہا تھا۔ لیکن دیوان گانِ شاعری اُسی شد ومدکے ساتھ موجود تھے۔ اب کی بار پروین شاکر نے لکھنوی اسلوب کے بے مثل شاعر کو دعوت کلام دے ڈالی۔ سارے پنڈال میں آتش آتش ہونے لگی کیوں کہ ،پروین شاکر نے جنابِ حیدر علی آتش کو سٹیج پر بلا لیا تھا۔ ہزار ہا محبتوں کے سائے  سائے، گل وبلبل کی سنگت  میں ،پھولوں کی خوش بو میں بسے جب سٹیج پر آئے۔ تو غزل شروع کی۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے                       
ہم اور بلبلِ بے تاب گفت گو کرتے
ساری غزل مرصع تھی۔ ہر شعر پر داد سمیٹی۔ ہر شخص بلبل تھا  اور پھول سے گفت گو کرنے کا متمنی ۔لیکن ہزار ہا شجرِ سایہ دار کے نیچے بیٹھ کر سستانے لگا۔اب کی بار پروین شاکر نے آکر کہا، کہ میں کیسے اس کا تعارف کراؤں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ جس کا پیرہن کاغذی ہے۔ جس کے لیے گنبدِ بے  در کھولا گیا۔ جس کی نطق کے بوسے زبان لیتی ہے۔ جو اسلامیاںِ ہند کی نشانی ہے۔ جس نے اردو زباں کو وقار دیا۔ جو روحِ غزل ٹھہرا۔  جو نہ بولے تو شاعری کی سانس رک جائے۔ ندرتِ خیال کا مالک۔ انسانی نفسیات کا خوشہ چیں۔ اسداللہ خاں غالب۔ اعلان کیا ہوا کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ مجمعے کے جوش کے آگے بند باندھنے کے لیے گزارش کی گئی۔ غالب نے آتے ہی اک نشتر چلا دیا:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟                      تمھی کہو کہ یہ اندازِ گفت گو کیا ہے؟
اب تو لوگ سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے۔ مقرر، مقرر، واہ واہ اور نرحبا مرحبا کی آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ شعر موتیوں کے طرح لبِ لعلیں سے پھسلتے رہے۔ کہ پھر ایک تیر مارا کی ہائے  ہائے۔
کوئی دن گر زندگانی اور ہے                      
ہم نےاپنے جی میں  ٹھانی اور ہے
کئی دل مسل کے رہ گئے۔کئی ٹرپ گئے۔ اور بلا مبالغہ کہا جانے لگا 'غالب علی کلِ غالب'۔
بارِ خدایا ہونٹوں پہ یہ کس کا نام آیا                         
کہ مرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے
واہ واہ کی آسماں گیر داد کے ساتھ غالب رخصت ہوئے۔تو پروین اب کی بار سٹیج پر نمودار ہوئیں۔ خدائے سخن، اردو شاعری کا باوا آدم، احساسِ جمال  کاشاعر، بَہتر(72)نشتر کا مالک، میر تقی میر کو دعوتِ کلام دی گئی۔ سادگی میں پرکاری ،نہ صرف لباس سے عیاں تھی بل کہ حرزِ جاں تھی۔ سارے میں اک عقیدت اور خاموشی طاری ہوگئی۔
دل سے اٹھتا ہے یا کہ جاں سے اٹھتا ہے                    
یہ دھواں سے کہاں سے اٹھتا ہے
حیرت تحسین کا غلغلہ بلند ہوا اور اکثر لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ غزل بھی میر کی ہے۔ ہر شعر پرداد ۔دوسری غزل شروع کی:
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم          
       ہو گئے اب خاک انجام ہے یہ
لوگوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے یہ غزلیں کن کن ناموں سے سنتے رہے تھے۔ آج تمام پردے ہٹ چکے تھے۔ واہ اور آہ کا حسین امتزاج تھا۔
اور ایک اور شعر پر پنڈال بے حال ہوگیا:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
                      پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
پروین شاکر سٹیج پر ظاہر ہوئیں تو فضا وجد آفریں ہو چکی تھی۔ ایک ایسی شخصیت  جو وجد وحال کا پیکر نظر آرہی تھی ۔ان کے ہونٹوں پر ایک دل آفریں مسکان تھی۔ پروین شاکر نے سراج اورنگ آبادی کو بلایا گیا۔ انھوں نے آتے ہی مشہورِ زمانہ غزل شروع کی :
خبرِ تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو ،تُو رہا ،نہ میں رہا ،جو رہی سو بے خبری رہی

جائے استاد خالیست کی صدائیں بلند ہوئیں۔ وجد وحال کی عجب کیفیت دیکھنے والی تھی۔ہر شعر پر شاعری کے پروانے پھڑکتے رہے۔ سراج شعر پڑھتے رہے۔ اور انہی کے کلام پر یہ روح پرور حفل اپنے اختتام کو پہنچی۔

Tuesday 22 July 2014

احمد ندیم قاسمی(مظہرفریدی)/شائع شدہ" الزبیر" اردو اکیڈمی بہاول پور

افسانہ"بین"احمد ندیم قاسمی(مظہرفریدی)/شائع شدہ" الزبیر" اردو اکیڈمی بہاول پور
قاسمی مشاق کوزہ گرہے۔۔۔جوبھی کوزے بناتاہےوہ نقشِ لازوال بن جاتے ہیں۔وہ 'بین' کی' رانو'ہو یا'رئیس خانہ' کی 'مریاں '،اپناجواب آپ ہیں۔
o     جوہرِ انسانیت قاسمی کے افسانوں کابنیادی جوہرہے۔قاسمی نے ہرمزاج کے افسانے لکھے ہیں اورزندگی کے ہرانگ کوہررنگ  سے ظاہر کیا ہے۔ افسانہ 'گنڈاسا'کا ۔۔۔'مولا'، 'پرمیشرسنگھ 'کا۔۔۔۔ پرمیشرسنگھ ، 'عالاں 'کی۔۔۔۔۔عالاں،'الحمدللّلہ' کا۔۔۔۔۔،قاسمی نے روحِ عصر کے کرب کوجاننے کی کوشش کی ہے۔ کرداروں کے باطن سے اس کرب کوعیاں کیاہے۔جوقاری کے ضمیرکوجھنجھوڑاکر رکھ دیتاہے۔اور ایک لمحے کو شقی القلب انسان بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔انسانیت کو کیاہوا؟
افسانہ 'بین' میں"یہ روحِ انسانی کا'بین 'ہے جورانوکی ماں کی شکل میں ظاہرہواہے"۔
افسانے کا مختصر خلاصہ:غریب دیہاتی کے ہاں ایک پری وش بیٹی ،رانوکی پیدائش ہوئی۔وہ علاقہ سائیں دولھے شاہ کے مریدین کا تھا۔رانو کو فطرت نے لحنِ داؤدی عطا کیا۔جب قرآن پڑھتی تو محسوس ہو تا ہر چیز ساکت ہو گئی ہے۔وقت تھم گیا ہے۔اس کے حن کی شہرت دولھے شاہ کے گدی نشینوں تک بھی پہنچ گئی۔اور ابلیس کی مکاری بھی شروع ہوئی۔جب گدی نشیں نے اس علاقے کا دورہ کیا تو اس نے رانو کو دیکھا۔اور کہا کہ اس بار اسے سالانہ میلے (عرس) پر ضرور لانا۔والدین بیتی کو مزار اور گدی نشیں کے گھر والوں کو سپرد کر آئے(یہی ان کی خطا تھی)۔رانو نے مزار پر تلاوت شروع کی تو ایسا لگا کہ قرآن اتر رہا ہے۔لوگ نور، ایمان اور معرفتِ حق کو روح سے ادراک کرنے لگے۔لیکن ابلیس کا فریب رانو کی آواز اور عصمت کو کھا گیا۔جو آخرش رانو کی موت پر اختتام پذیر ہوا۔اور اپنے پیچھے ان گنت سوال چھوڑ گیا۔
یہ ا فسانہ پڑھنے کے بعد "دل وہ دھڑکاکہ قیامت کردی"۔روح بے چین تھی،سوچ رک گئی تھی۔کچھ بھی تونہیں بچاتھا۔حواس بحال ہوئے تواپنے آپ پر ترس آنے لگا۔'رانو'رنگ ونورکاپیکر۔۔۔خوش شکل ،خوش گلو۔دوسری طرف دولھے شاہ کا"چوہا"۔۔سالانہ عرس،وہ'رانو'جس کی آواز کاجادو، ہرکس وناکس، شقیق سے شقیق قلب کواشک آلود کرتارہا۔وہیں 'ابلیس ،فریبی جال بن رہاتھا'۔ آواز کی معصومیت کوداغ دارکردیاگیا۔خانقاہ کو"خونِ عفت"سے غسل دیاگیا۔ جانشیں،اس کے گرگے(دولے شاہ کے چوہے )'رانو'کومارتے ہیں۔افسانے میں کمالِ مکاری سے جا نشیں فرماتے ہیں:
"یہ نہیں بول رہی اس کے اندرکاکافرجن بول رہاہے"۔جوحالتِ وضومیں ہواس پر ابلیس حملہ آورنہیں ہوسکتا؟اورجواپنی آوازکوقرآن کے کلمات سے روشن کرچکی ہو!؟اوروہ بھی درگاہِ  دولھے شاہ پر!؟سوچ حیرت وحسرت میں کھوجاتی ہے۔
افسوس!ہم نے لذتِ نفس کے لیے 'اپنے بزرگان اورخانقاہوں کوبھی داؤپرلگادیا'۔
 "جب تک یہ مزارشریف پرقابض ہے۔ہمیں اورہمارے خان دان کے کسی مردعورت کوادھرنہیں آناچاہیے۔ورنہ کیاخبرجن کیاکربیٹھے" ۔  (قاسمی کے منتخب چالیس افسانے،سنگِ میل پبلی کیشننز لاہور،ص۱۱)
اگر دولھے شاہ کے مزارپرجن قابض ہوسکتاہے۔توپھروہ لوگ جوکہتے ہیں کہ مزار اورخانقاہیں ،فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں(نعوذ باللہ)،توکیاوہ سچ کہتے ہیں۔جو صاحبِ مزاراپنے گھروالوں کی دست گیری نہیں کرسکتا۔وہ عامۃ الناس کوکیافیض پہچائے گا؟ لیکن یہاں تومعاملہ دوسراہے۔ایک ابلیس نے ،نفسی خواہش سے مغلوب ہوکر ایک کلی کوبے کل کردیاہے۔روشی کی آواز کوکمالِ مکاری سے اندھیروں میں گم کردیاہے۔
ایسے عناصر جونہ صرف اسلام بلکہ خانقاہی نظام میں چورراستے سے داخل ہوتے ہیں۔ انھوں نے یقین کوشک اوراعتقادکوبدعت بنانے میں کلیدی
کردارادا کیاہے۔یہ افسانہ نہ صرف انسانی معاشرے کاالمیہ ہے۔بلکہ ایسے واقعات مسلم عقائدمیں نقب لگانے کے مترادف ہیں۔یہ سطورلکھتے ہوئے بھی ،میری سوچ میرا ساتھ نہیں دے رہی کہ میں کیالکھوں اورکیانہیں لکھوں۔احمدندیم قاسمی نے ایساشاہ کاافسانہ تخلیق کیا ہے کہ بس!معلوم نہیں ایسانادراحساس الفاظ کے پیکرمیں کیسے ڈھلا۔
"بین "میں انسانی اکائی دونیم ہوگئی ہے۔شخصیت کوریزہ ریزہ کردیاگیاہے۔اورمعاشرتی سطح پرعقائد کوایسی ضرب لگائی گئی ہے کہ عقیدت متزلزل ہوگئی ہے۔ شعورولاشعورمیں ایسی کش مکش اوربغاوت پیداہوئی ہے،جویقین کو بے حس اوراعصاب  کوشل کردیتی ہے۔
اس افسانے میں نفسیاتی سطح (روحانی سطح) پرمربوط معاشرہ، فکری انتشارسے دوچارہوگیاہے۔
ع                     میں کس کے ہاتھ پہ اپنالہوتلاش کروں
عام آدمی کی سادگی اورغیرمصنوئی رویے۔۔۔ریاکاری سے کوسوں دور۔۔۔مٹی سے رشتہ۔جب معصومیت  کے اعتبارکی دیوارٹوٹی توجنوں میں بدل گئی۔جب اس میں دیوانگی کاعنصرشامل ہوا تو جھوٹ اور مکر کو دامنِ فریب مین پناہ کے سوا چارہ نہیں رہا۔
 ہمیں دیکھتے ہی تم چلا پڑی تھیں "مجھ سے دور رہو بابا، میرے پاس نہ آنا اماں۔ میں اب یہیں رہوں گی۔ میں اس وقت تک یہیں رہوں گی جب تک سائیں دولے شاہ جی کا مزار شریف نہیں کھلتا اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک نہیں نکلتا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا میں یہیں رہوں گی۔ جب تک انصاف نہیں ہوگا میں یہیں رہوں گی اور مزار شریف کھلے گا۔ آج نہیں تو کل کھلے گا۔ ایک مہینہ بعد، ایک سال بعد، دو سال بعد سہی، پر مزار شریف ضرور کھلے گا اور دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔تب میں خود ہی اپنے بابا اور اپنی اماں کے قدموں میں چلی آؤں گی اور ساری عمر ان کی جوتیاں سیدھی کروں گی اور ان کے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی۔ پر اب میں نہیں آؤں گی، اب میں نہیں آ سکتی۔ میں بندھ گئی ہوں۔ میں مر گئی ہوں۔"
لیکن نہ قبرکھلی نہ ہاتھ نکلا انصاف تونہیں  ہوا۔معاملہ قیامت پہ ٹل گیا!؟
نسل درنسل انتظاررہا
قفل ٹوٹے نہ بے  نوائی گئی
ردِ عمل شدید تھا(عموماًایساہوتانہیں تھا)۔اس لیے مکروفریب نے ایک اورپینترابدلا،اورقلعہ نشیں ہوگیا۔ممکن ہیں لوگ سمجھے ہوں؟لیکن بظاہر خاموشی تھی۔طوفان سے پہلے کی خاموشی۔افسانہ ختم کیے،طویل وقت گزرگیا۔لیکن دل اورروح،'حالتِ بین 'میں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصنف نے یہ افسانہ ماں کی زبانی کیوں بیان کیاہے؟حالاں کہ جب یہ ظلم ہوا،ماں موجودنہیں تھی۔اولادکادرد۔۔۔ماں کی
یادداشتیں ۔۔۔ ماں سے بہتر،شایدکوئی بھی کرداراس خون کی بوند"کوبیان نہیں کرسکتاتھا؟اگرکوئی سہیلی بھی ہوتی توپیدائش ۔بچپن اورسولہ سال تک کی عمرکے وہ حالات جو گھرمیں وقوع پذیرہوتے ہیں،اورکوئی ان کے بارے میں کم ہی جانتاہوتاہے، عادات،اطوار،رویے،اوربہت سے حالات ہم سے مخفی رہتے۔باپ کاخوف۔۔۔ عفریت بن گیااورآخر سچ بن کررانوکونگل گیا۔ماں خودکلامی کرتے ہوئے کہتی ہے۔" جب تمھارے بابا نے موقع پا کر تمھیں دیکھا تھا تو اداس ہو گیا تھا اور میں نے کہا تھا: ’’تم تو کہتے تھے بیٹا ہو یا بیٹی سب خدا کی دین ہے، پھر اب کیوں منہ لٹکا لیا ہے۔‘‘ اور اس نے کہا تھا: ’’تو نہیں جانتی نا بھولی عورت، تو ماں ہے نا۔ تو کیسے جانے کہ خدا اتنی خوب صورت لڑکیاں صرف ایسے بندوں کو دیتا ہے جن سے وہ بہت خفا ہوتا ہے۔"
رانوکی ماں نے رانوکوخدااوربیبیوں کوامانتاً سپردکیاکہ میں تین دن بعداپنی امانت واپس لے جاؤں گی۔قرآن اور احادیث دونوں میں ا مانت کی جواہمیت بیان کی گئی ہے۔وہ ایک عام مسلمان سے مخفی نہیں ہے۔امانت میں خیانت کیسے ہوئی؟اس کاجواب توپورے معاشرے کودینا ہے۔
لوگ خاموش ،لیکن شدتِ غم میں برابرکےشریک۔ایک نادیدہ خوف کے جال نے انھیں جکڑرکھاتھا۔زبانین گنگ تھیں۔کیوں کہ مزارکے متولی جانشیں کم،نفس پرست زیادہ تھے۔اس نفس پرستی میں ہرجائزوناجائزطریقہ روارکھتے تھے۔ان کامزاج جاگیردارانہ تھا۔جس کے مطابق عام  لوگ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اورصرف ان کی خدمت کے لیے پیداکیے گئے تھے۔
دکھ اتنا گھمبیرہے کہ روح کی سسکیاں(سسکاریاں)گنبدِ بدن کو' ماہیٔ بسمل بے آب  'بنادیتی ہیں۔حیرت اس بات پرہے کہ احساس کی اس شدت کے ساتھ یہ افسانہ کیسے تکمیل ہوا۔دل کی شریانوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتالہو!کہاں ماں کی کرلاہٹ ہے؟اورکہاں مصنف کی روح کاروگ،قاری کے لیے فیصلہ کرنا،ممکن نہیں رہتا۔قاسمی یہ افسانہ تخلیق کرتے ہوئے کرب کی جس منزل سے گزراہے۔وہ المیہ(Tragedy) کی تاریخ کابذاتِ خود ایک الگ باب ہے۔المیہ کی اک نئی تاریخ اورتعریف رقم ہوئی ہے۔احسا کا یسا پیکر بہت کم نصیب ہوتا ہے۔
کتاب'چالیس افسانے'تومیرے ہاتھ میں تھی مگرمیراپوراوجودڈھے گیاتھا۔ایسااحساس کہ جذبے بے جان،جسم ساکت ،یقین جوکبھی متزلزل نہیں تھا۔ہوا!؟ اوروہ 'دردِزہ'جوبین کی جان ہے۔پیکرِ ماں، میں تھا۔مجھے بھی ویسادرداپنے اندرسے ،کہیں ،اٹھتاہوامحسوس ہوا۔کیوں کہ میرا بدن بھی توایک تماشائی کی طرح 'خالی اور بے حس کھڑاتھا'۔بظاہرمجھے کوئی آوازسنائی نہیں دے رہی تھی مگریہ پیکرِ گِل کہ گنبدِ جاں تھا۔ایسا گنبد کہ جس میں کوئی طاق،کوئی روشنی کانشاں تک نہیں تھا۔ بس اک بین کرتی "آواز" اورپھر گنبدِ بدن میں گونجتےآوازوں کے سائے ،مجھے گھیرے ہوئے تھے۔ ایسے ہی کئی لمحے ساکت وصامت گزرے،یہ مراخوف تھاکہ : 
'میراشعوراورلاشعورایک ہوگئے تھے'۔
افسانے کاابتدائیہ میں مختصر،جامع اورواضح اور ممکمل طور پرافسانے کاتانابانا بن دیاگیاہے۔
"بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی، جب تم سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھیں ۔ بکائن کے اودے اودے پھول اسی طرح مہک رہے تھے اور بیریوں پر گلہریاں چوٹی تک اسی طرح بھاگی پھرتی تھیں اور ایسی ہوا چل رہی تھی جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی۔ جب تم میری گود میں آئی تھیں تو دیے کی کالی پیلی روشنی میں اونگھتا ہوا کوٹھا چمکنے سا لگا تھا اور دایہ نے کہا تھا کہ ہائے ری، اس چھوکری کے تو انگ انگ میں جگنو ٹکے ہوئے ہیں ! اس وقت میں نے بھی درد کے خمار میں اپنے جسم کے اس ٹکڑے کو دیکھا تھا اور مجھے تو یاد نہیں پر دایہ نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ میں مسکرا کر تمھارے چہرے کی دمک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو یوں دیکھنے لگی تھی جیسے کوئی خط پڑھتا ہے"۔(چالیس افسانے،ص9)
افسانے کااختتام،ایک دائرہ مکمل ہوتاہے۔غلام عباس نے آنندی میں یہی تکنیک استعمال کی تھی۔ابتدا اوراختتام ایک ہی ہے۔وہی احساس جو ابتدامیں تھا۔لیکن اس میں اب ایک کرب جوجسم کے ساتھ ساتھ روح کو بے کل کیے دیتاہے،شامل ہے۔
اب میرے جگر کی ٹکڑی، میرے نیک اور پاک، میری صاف اور ستھری رانو بیٹی! آؤ میں تمھارے ماتھے کے بجھے ہوئے چاند کو چوم لوں ۔ دیکھو کہ بکائن کے اودے اودے پھول مہک رہے ہیں اور بیریوں پر گلہریاں تنے سے چوٹی تک بھاگی پھر رہی ہیں اور ایسی ہوا چل رہی ہے جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی اور چار طرف تمھاری تلاوت کی گونج ہے اور سائیں حضرت شاہ کے بھیجے ہوئے کفن کے جلنے کی بو اب تک سارے میں پھیل رہی ہے اور میرے اندر اتنا بہت سا درد جمع ہو گیا ہے جیسے تمھیں جنم دیتے وقت جمع ہوا تھا۔

Tuesday 15 April 2014

مثالی پرچہ اورنصاب ساتویں جماعت 2014 (سالانہ امتحان)

مثالی پرچہ اورنصاب ساتویں جماعت 2014 (سالانہ امتحان)
سوال نمبر1:مختصر سوالات(مشقی سوالات میں سے) کے جوابات،ہر سوال ایک نمبر کا ہو گا۔                                                             کل نمبر10
سوال نمبر2 : بڑےسوالات(مشقی سوالات میں سے)کے جوابات،ہر سوال تین(3) نمبر کا ہو گا۔                                                     کل نمبر20
سوال نمبر3:الفاظ /محاورات کا جملوں میں استعمال۔                                                                                                                      کل نمبر10
سوال نمبر4:مذکر /مؤنث"یا"واحد/جمع۔                                                                                                                                 کل نمبر5
سوال نمبر5:متضادالفاظ"یا"مترادف الفاظ۔                                                                                                                                               کل نمبر5
سوال نمبر6:نظم کےاشعار'یا'بند کی تشریح،نظم کانام،شاعر کانام۔                                                                                                  کل نمبر10
سوال نمبر7:نظم کا خلاصہ 'یا'مرکزی خیال۔                                                                                                                                  کل نمبر5
سوال نمبر8:کہانی نویسی ۔۔۔۔)دو کہانی میں سے ایک کہانی لکھنا)                                                                                                     کل نمبر10
سوال نمبر9: خط نویسی۔۔۔۔۔(دو خطوط میں سے ایک خط لکھنا)                                                                                                       کل نمبر10
سوال نمبر10:مضمون نویسی۔۔۔۔۔(دوعنوانات میں سے ایک عنوان پر مضمون لکھنا)                                                                     کل نمبر15
نصاب سالانہ امتحان 2014 ،جماعت ہفتم
حصہ نثر:
·        آدابِ معاشرت
·        تحریکِ پاکستان میں خواتین کا کردار
·        ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
·        یومِ دفاعِ پاکستان
·        زراعت ۔۔۔پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی
·        شہیدکی جو موت ہے،وہ قوم کی حیات ہے۔
حصہ نظم:
·        سفر ہورہا ہے
·        برسات
·        قائدِ اعظم
·        خضرکاکام کروں،
راہ نمابن جاؤں
قواعدِ زبان:
·        واحد/جمع"یا"مذکر/مؤنث
·        مترادف الفاظ/متضادالفاظ
·        کہانی نویسی
·        خط نویسی
·        مضمون نویسی

*    مضامین:1)علامہ محمد اقبالؒ۔2)محسنِ انسانیت۔3)حبِ وطن۔4)ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔
*    کہانیاں:1)محنت کی برکات۔2)نیکی کردریا میں ڈال۔3)سانچ کو آنچ نہیں(سچ کی برکت)۔4)لالچ بری بلا ہے۔
*    خط نویسی:1)چھوٹے بھائی کو نصیحت کا خط کہ بری محفل سے بچے۔2)دوست کو مل کر چھٹیاں گزارنے کے لیے خط لکھیں۔
نوٹ:ٹیسٹ کا نصاب  -
ٹیسٹ نمبر1: آدابِ معاشرت،تحریکِ پاکستان میں خواتین کا کردار، سفر ہورہا ہے(نظم)، واحد/جمع"یا"مذکر/مؤنث، مترادف الفاظ/متضادالفاظ۔
ٹیسٹ نمبر2: ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا، یومِ دفاعِ پاکستان، برسات(نظم)، کہانی نویسی۔
ٹیسٹ نمبر3: زراعت ۔۔۔پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی، شہیدکی جو موت ہے،وہ قوم کی حیات ہے، خضرکاکام کروں،راہ نمابن جاؤں، خط نویسی۔
ٹیسٹ نمبر4: تحریکِ پاکستان میں خواتین کا کردار، شہیدکی جو موت ہے،وہ قوم کی حیات ہے، قائدِ اعظم(نظم)، مضمون نویسی۔
فُعُول:جمع بنانے کادوسرااُصُول ہے۔(فُ۔ عُ ۔و۔ ل)پہلے اوردوسرے حرف پر پیش ہوتاہے۔تیسراحرف "و" ہوتا ہے۔ اورچوتھا حرف ساکن ہوتاہے۔
واحد
جمع
واحد
جمع
واحد
جمع
اَصل
اُصُول
اَمر
اُمُور
بَحر
بُحُور
برج
بُرُوج
برق
بُرُوق
بیت(گھر)
بُیُوت
حَب(گولی)٭
حُبُوب
حد
حُدُود
حَرب(جنگ)
حُرُوب
حرف
حُرُوف
حق
حُقُوق
خط
خُطُوط
دہر(زمانہ)
دُہُور
راس
رُؤُس
رسم
رُسُوم
رمز(اشارہ)
رَمُوز
سجدہ
سُجُود
سیف(تلوار)
سُیُوف
سطر
سُطُور
شک
شُکُوک
شمس(سورج)
شُمُوس
شمع
شُمُوع
صف
صُفُوف
ضرب(چوٹ)
ضُرُوب
طائر(پرندہ)
طُیُور
ظرف(برتن)
ظُرُوف
ظن(خیال)
ظُنُون
عرق(پسینہ)
عُرُوق
عقل
عُقُول
علم
عُلُوم
عہد(وعدہ)
عُہُود
عیب(خامی)
عُیُوب
فیض
فُیُوض
قبر
قُبُور
قرن(وقت)
قُرُون
قلب(دل)
قُلُوب
قید
قُیُود
کسر(خامی)
کُسُور
مَلِک(بادشا)
مُلُوک
*   
مَلِک(بادشاہ) کی جمع مُلُوک          اسی طرح مِلک(ملکیت) کی جمع اِملاک           اورمَلَک(فرشتہ) کی جمع مَلائک اورمُلک کی جمع ممالک ہوتی ہے۔
٭گولی۔Tablet
واحد
جمع
واحد
جمع
واحد
جمع
نجم
نُجُوم
نفس
نُفُوس
نقل
نُقُول
وجہ
وُجُوہ
وحش
وُحُوش
ہم
ہُمُوم
*    فِعلاَن:پنج(پانچ)حرفی وزن ہے۔جس میں پہلا حرف زیر والا(مکسور)،دوسرا حرف ساکن اور تیسرا حرف زَبَروالا (مفتوح) ہوتا ہے۔
واحد
جمع
واحد
جمع
واحد
جمع
اَخ
اِخوَان
غُلام
غِلمَان
نار
نِیرَان
*    فَعَالِلَہ:شش(چھ) حرفی وزن ہے۔جس کا پہلا حرف  اور دوسرا حرف زَبَر والا(مفتوح)، تیسرا الف،چوتھا اور پانچواں  زَبَر والا(مفتوح)ہوتا ہے۔
واحد
جمع
واحد
جمع
واحد
جمع
اُستاد
اَسَاتِذَہ
تِلمیذ
تَلَامِذَہ
مَلعون
مَلَا عِنَہ
مُلحد
مَلَاحِدَہ
اَفغان
اَفَا عِنَہ
فَیلسوف
فَلَاسِفَہ
*    فُعَّال:چا رحرفی وزن ہے۔جس کا پہلا حرف پیش والا(مضموم)،دوسرا حرف مشدد مفتوح(شد کے اوپر پیش والا)  اورتیرا حرف الف ہوتا ہے۔
واحد
جمع
واحد
جمع
واحد
جمع
تاجر
تُجَّار
عامل
عُمَّال
جاہل
جُہَّال
خَادم
خُدَّام
حاجی
حُجَّاج
حاضر
حُضَّار
طالب
طُلَّاب
زاہد
زُہَّاد
ساکن
سُکَّان
ناظر
نُظَّار
عابد
عُبَّاد
عاشق
عُشَّاق
کافر
کُفَّار
صانع
صُنَّاع


فَوَاعِل و مَفَاعِل:پنج(پانچ)حرفی وزن ہے۔جس کا پہلا حرف اور دوسرا حرف  زَبَروالا(مفتوح)،تیسرا الف،چوتھا زِیر والا(مکسور) اور پانچواں ساکن ہوتا ہے۔
واحد
جمع
واحد
جمع
واحد
جمع
اجنبی
اَجَانِب
ارذل
اَرَاذِل
اعظم
اَعَاظِم
افضل
اَفَاضِل
اکبر
اَکَابِر
اقرب
اَکَارِب
امر
اَوَامِر
باعث
بَوَاعِث
بصیرت
بَصَائِر
تابع
تَوَابِع
تجربہ
تَجَارِب
تحفہ
تَحَائِف
جانب
جَوَانِب
جریدہ
جَرَائِد
جوہر
جَوَاہِر
حاجت
حَوَائِج
خزینہ
خَزََائِن
دائِرہ
دَوَائِر
درہم
دَرَاہِم
دفینہ
دَفَائِن
دلیل
دَلَائِل
مَلک
مَلَائِک
مُلک
مَمَالِک
نفیس
نَفَائِس


نادر
نَوَادِر
مانع
مَوَانِع
*    الفاظ/محاورات کو جملوں میں اسعمال کریں۔
عمل پیرا۔نظرانداز۔راست بازی۔دروغ گوئی۔اذیت۔تمسخر۔بے داری۔دم لینا۔پابندِ سلاسل۔خراجِ تحسین۔منزلِ مقصود۔ولولہ انگیز۔تعلیم یافتہ۔پاداش۔جوق در جوق۔لبیک کہنا۔خبر گیری کرنا۔ناگہانی آفت۔ایثار۔بے سروسامانی۔حسنِ سلوک۔ساجھے دار۔درخشندہ۔فلاح وبہبود۔ہلا بولنا۔عملی جامہ پہنانا۔سرپر کفن باندھنا۔دانت کھٹے کرنا۔سیسا پلائی دیوار۔ناکوں چنے چبوانا۔ریڑھ کی ہڈی ہونا۔شبانہ روز۔خدانخواستہ۔اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا۔خود کفالت۔زرِ مبادلہ۔بروقت۔کمر بستہ۔حتی الوسع۔نظامِ تنفس۔افاقہ۔پیش قدمی۔پلک جھپکنے میں۔جان کی پروا نہ کرنا۔کان بہرے ہونا۔خاطر میں نہ لانا۔جارحانہ۔
*    الفاظ اور متضاد الفاظ
الفاظ
متضاد
الفاظ
متضاد
الفاظ
متضاد
الفاظ
متضاد
منفی
مثبت
بد گمانی
خوش گمانی
خوش گوار
ناگوار
امن
جنگ

گورا
کالا
امیر
غریب
مہذب
اجڈ
بہادر
بزدل
محفوظ
غیر محفوظ
میلا
اجلا
ترقی
تنزلی
آمد
رفت
بے داری
مدہوشی
اعلیٰ
ادنیٰ
عوام
خواص
بہادری
بزدلی
مسلم
کافر
عام
خاص
ضروری
ٖفضول
عروج
زوال
نا م ور
گم نام
انسان
حیوان
نقصان
فائدہ
خود غرضی
ایثار
تنگی
کشادگی
انکار
اقرار
زندہ
مردہ
زندگی
موت
انسانی
حیوانی
دیہاتی
شہری
اکثریت
اقلیت
زرخیز
بنجر
خوش حال
بد حال
ترقی
تنزلی
سستا
مہنگا
ڈوبنا
تیرنا
باقاعدہ
بے قاعدہ
بے احتیاطی
محتاط
عوام
خواص
کمی
زیادتی
دھوپ
چھاؤں
ٹھنڈا
گرم
آگ
پانی
شادماں
پریشاں
جواں
بوڑھا
آباد
ویراں
گلستاں
صحرا
رہنما
رہزن
داخل
خارج
خواب
حقیقت
دشمن
دوست
درد
آرام
بیمار
تن درست
دکھ
سکھ
بینا
نابینا/اندھا
مسافر
مقیم/مکین
مذکر/مؤنث

مذکر
مؤنث
مذکر
مؤنث
مذکر
مؤنث
مذکر
مؤنث
خاوند
بیوی
غلام
باندی
خصم
جورو
صاحب
میم
نواب
بیگم
داماد
بہو
سقا
سقن
گویّا
گویّن
بڑھئی
بڑھائن
دھوبی
دھوبن
گھوی
گھوسن
نائی
نائن
منیار
منیارن
چمار
چماری
نٹ
نٹنی
ڈوم
ڈومنی
مہتر
مہترانی
کھتری
کھترانی
پنڈت
پنڈتانی
رائے
رانی
جیٹھ
جیٹھانی
مَلِک
مَلِکہ
زوج
زوجہ
ناگ
ناگن
مینڈھا
بھیڑ
بھوت
بھتنی