Saturday 4 August 2012

آنس معین۔ایک نامکمل نظم(میرے پاس مکمل نہیں)مظہرفریدی


آنس معین(نامکمل نظم )

آج میری آنکھوں نے تم کوگرتے دیکھا
میں نے چاہا
تم کوبڑھ کے تھام لوں۔۔۔لیکن
میرے دونوں ہاتھ کسی نے کاٹ دیے تھے
یہ کربِ ذات کی وہ منزل ہے کہ انسان کچھ کرنابھی چاہےلیکن مجبوراوربے بس ہو۔ ایک ایسی ہستی جو آپ کے لیے زندگی سے بڑھ کر ہو،اوروہ خاک بسر ہونے والی ہو۔آپ اسے تھامناچاہیں۔اورتھام نہ سکیں۔ خواجہ فریدرحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں"گل لاون کوں پھتکن باہیں"کی منزل پر ہوں لیکن ایک نادیدہ ہاتھ،آپ کے ہاتھ نہ رہنے دے۔اس سے زیادہ بے بسی اورکیاہوسکتی ہے؟
آنس معین جدیدادب کا ایک روشن ستارہ ہے جو کہیں آسمان کی وسعتوں میں گم ہے۔لیکن آسمانِ ادب پروہ آج بھی جگ مگارہاہے۔کہیں یادکے بے نشاں جزیروں سے اس کی آوازکی روشنی آرہی ہے۔اس کی شاعری روحِ عصر کے ایسے مخفی گوشے ،بااندازِ دگرواکرتی ہے،کہ حیرت ہوتی ہے۔آنس نے خودہی کہاتھا:

حیرت سے جوتم میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتاہے کبھی تم نے سمندرنہیں دیکھا

Thursday 2 August 2012

پانی سے کار چلانا

 یہ بات حیرت ومسرت میں مبتلاکردیتی ہے کہ "پانی سے کارچلا دی ہے" لیکن دنیانے دیکھا،کہ یہ سچ ہے۔اورپھراس ملک کے ایک اہم میزبان(اینکر) نے نہ صرف اس شخص کوڈھونڈ نکالا بل کہ اس نے اہم سیاسی شخصیتوں کوجمع بھی کیا۔اورپھرپوری دنیانے اس کارکواسلام آبادکی سڑکوں پر دوڑتے ہوئے دیکھا۔حامد میر نے اپنافرض اداکردیا۔ساسی جماعتوں کے نمائندے وعدےاور دعوے کرکے چلے گئے۔یہ وقت تھا کہ بغیر کسی شرط یالیت ولعل کے اسے اسی وقت ملک کےاہم ترین" فرد" ہونے کااعلان کرتے۔ اوراس کی حفاظت فی الفورحکومت اپنے ذمے لیتی۔باقی جوباتیں ہوئیں ہم یہ کردیں گے،ہماراتعاون ان کے ساتھ ہے۔ میرے نزدیک غیرضروری باتیں ہیں۔
پاکسان کے غیور عوام!اسلام کے فرزندان!
کیاہم لوگ ،جواپنے آپ کوپاکستانی کہلاتے ہیں کبھی ہوش میں بھی آئیں گے۔کیوں نہ ہم سب مل کرملک کے اس عظیم بیٹے کے لیے ایک ایسافنڈ اکٹھاکریں ،جواسے کسی حکومت،وڈیرے،صنعت کار یاابن الوقت لٹیروں کے ہاتھ میں کھلونا نہ بننےدے۔پھرہم سب مل کراس ملک کو ترقی کی ان شاہ راہوں پرلے جائیں۔لیکن ہم بھی تو باتیں بناتے ہیں۔سب سے اہم مسئلہ اس وقت اس عظیم بیٹے کی زندگی اورحفاظت کا ہے۔ نہ جانے کون کس وقت کسی دہشت گردی کی آڑ لے کر اس عظیم بیٹے کوکیاکردے۔خدارا ہوش میں آئیے۔ ہم سب مل کراس فرض کونبھائیں۔وعدے ،دعوے،اورہماری جماعت اورہم جیسے کھوکھلے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے۔ عملی اقدام اٹھائیں۔آگے بڑھیں۔کہیں ایسانہ ہوکہ"دوڑوکہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا"اوراگرکوئی نہیں تومیں "عمران خاں صاحب" کو درخواست کروں گا کہ "آواز سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا" یہ سب کھسیانی بلیاں ہیں، جوکھمبانوچ رہی ہیں۔ان باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے نعرہ لگائیے"۔
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لاالہ الا اللہ
 اوراگرایساممکن نہں اے پاکستان کی غیورعوام،اپنے پیٹ پرپتھرباندھ لو۔ہم سب اس محنتی بیٹے کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ پھر کوئی ستم گرہمیں بلیک میل نہیں کرسکے گا۔اٹھو!کہ حشر بپانہ ہوجائے،سوچنے کی ساعتیں گزرگئی ہیں۔پنجابی،سندھی،پٹھان،بلوچی ، براہوی،پھوٹوہاری اور سرائیکی  کوئی نہیں۔ ہم سب مسلمان اور پاکستانی ہیں۔امت محمد یہ کے فردہیں۔وہ جہاں بھی جائے جہاں بھی رہناچاہے۔اسے آزادی حاصل ہو۔کیاہم ایک انسان کے ناطے ایک ہوسکتے ہیں۔اورانسانیت کادین اسلام ہے۔کیوں خوداللہ نے اہنے بندوں کے لیے یہی دین پسندکیاہے۔یہ میری یاآپ کی پسندنہیں ہے۔یہ پروپیگنڈابھی نہیں ہے۔یہ انتہاپسندی بھی نہیں ہے۔ کتاب اول وآخرمیں خود ربِ ذوالجلال فرماتاہے"ان دین عنداللہ الاسلام"۔اگرہم سب کسی نادیدہ خوف میں مبتلاہیں توآئیں اسی عظیم بیٹے کے نام کاایک اکاؤنٹ کھولیں۔اور پورے پاکستان سے اس میں ہم سب اپنی اپنی بساط کے مطابق چندہ ڈالیں۔اوراگروہ عظیم بیٹا!میری یہ گزارش بڑھ رہاہے تووہ اپنااکاؤنٹ کھول لے۔بنیکوں کو یہ درخواست کی جاتی ہے کہ اگرچہ اس کے پاس صرف ایک روپیہ کیوں نہ ہو،تمام اصول وضوابط بالائے طاق رکھ کر اس کااکاؤنٹ کھولیں۔ہم (پاکستانی مسلم)یقین دلاتے ہیں کہ چنددن میں یہ بہت بڑااکاونٹ ہوگا۔اوروہ تمام اہل ثروت وحیثیت جواس استطاعت کے حامل ہیں اوراپنی دین ودنیاسنوارناچاہتے ہیں تووہ بھی آگے آئیں۔اے اہلِ پاکستان "ہم جنس بہ ہم جنس پرواز"،ہمیں ،ہم اس ملک کی مظلوم عوام کوخود ہی کچھ کرناہوگا۔یہ اہلِ دول تواپنی اوراپنی تجوریوں کی حفاظت کے سواکیاسوچھ سکتے ہیں۔کچھ عہدے۔احترام اورعزت اختیار کے بغیرہوتے ہیں۔ ڈاکٹرعبدالقدیرکی شخصیت ہمارے سامنے ہے۔ایک کمانڈو سپہ سالار!؟ نے اسے کیاکچھ کرنے کی کوشش کی مگر"وتعز من تشاء وتزل من تشاء "،اس بار بھی ہم سب مل کریہ ذمہ داری نبھاسکتے ہیں۔آج پھرتخلیقِ پاکستاں اورتعمیرِ پاکستان کامرحلہ درپیش ہے۔اس بوڑھی عورت کی طرح جسے معلوم تھاکہ وہ یوسف کو خرید نہیں سکتی مگر خریداروں میں ،شامل توہوسکتی ہے۔آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔
یہ دوراپنے براہیم کی تلاش میں
صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الاللہ
اگرچین کے لوگ ایک ایک اینٹ دے کردنیاکاسب سے پرا اسٹیڈیم قائم کرسکتے ہیں۔توکیامسلمان آج صرف ایک روپیہ بھی اپنی جیب سے نہیں لکال سکتا۔چودہ کروڑ عوام،یعنی چودہ کروڑ روپے۔یہ قوم انقلاب لاسکتی ہے۔کسی کاانتظارکیے بغیراپنی مددآپ کے تحت قدم بڑھائیں۔۔۔۔
شایدمیری باتوں کو مجذوب کی بڑھ نہ سمجھ لیاجائے۔بس اتناکافی ہے۔یہ ملک اہل دل۔ہم درد اورمحبِ وطن مسلمان پاکستانیوں سے خالی نہیں ہے۔اے کاش ۔بارِ الہ! اس ماہِ مقدس کے صدقے ۔ایک بے نواکی نواکواپنی بارگاہ میں شرف قبولیت دے دے۔(آمیں)