Wednesday 22 October 2014

ایک مشاعرے کی روداد

ایک مشاعرے کی روداد

نوٹ:یہ مشاعرہ "دلی کا ایک یاد گارمشاعرے "کی طرز پر خیالی طور ہرلکھا گیا ہے۔
روہی اور تھر کے سنگم پر ،پنجاب کے دور افتادہ علاقے ماچھی گوٹھ میں بہار کی آمد آمد تھی۔یہ علاقہ سونے جیسی ؛سونا یوریا' زمین کا سونا پیدا کرنے میں مشہور ہے۔اور زمیں میں جب سونا ڈالا جاتا ہے،زمینیں سونے جیسی فصلیں اگاتی ہیں۔یہ علاقہ جہاں بادِ صبا دن چڑھے تک 'لُو'بن جاتی ہے۔لیکن آج ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے؛ویرانے میں چپکے سے بہار آگئی ہو'۔ شام ڈھلنے سے پہلے ہی پنڈال سج گیاتھا۔ سورج دیوتا کے رخصت ہوتے ہی  ہر طرف  قمقموں کی بہار آگئی تھی۔کئی چاند اورتارے  زمین پر اتر آئے تھے۔جس کی وجہ سے کئی بیماروں کو بے وجہ قرار آگیا تھا۔
آج ایسا لگتا تھا پوری ایف  ایف سی پنڈال میں آگئی تھی۔ آخر کارانتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور معزز مہمان شعرا تشریف لے آئے۔آج کے محفلِ مشاعرہ کی خوبی یہ تھی کہ  پروین شاکر آج کی معتمدِخصوصی تھیں۔ یعنی آج کی محفلِ مشاعرہ کی میزبانی کا حق انھیں دیا گیا تھا۔آج کی محفل کے  مہمان اعزاز جنابِ سراج اورنگ آبادی تھے۔ لیکن آج کی محفل کے مہمانِ خصوصی جنابِ میر تقی میر ،خدائے سخن' تھے۔ انھوں نے احساس کو اشعار کی زباں دی۔ آج کی محفل کے صدر ،جنابِ  اسداللہ خاں غالب تھے۔ جواردو زباں کی آبرو ،روحِ غزل، جانِ شاعری اسلامیانِ ہند کی زبان کا سرتاج   ہیں۔شاعروں میں احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض،حسرتِ موہانی،مرزا خاں داغ،مؤمن خاں مؤمن،اور حیدر علی آتش تھے۔پروینِ شاکر میزبانی کی خدمات انجام دے رہی تھیں۔
جونہی معتمدِخصوصی پروین شاکر سٹیج پر تشریف لائیں۔لوگوں نے تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔انھوں نے آتے ہی اپنے چند اشعار پیش کیے۔ہر شعر پر داد وتحسین حاصل کی ۔لیکن جب یہ شعر پڑھا تو پنڈال میں جیسے آگ لگ گئی۔
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا                  
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
دیر تک واہ واہ کی آواز بلند ہوتی رہی۔ اب انھوں نے آج کی محفلِ مشاعرہ کے دوسرے شاعر 'احمد ندیم قاسمی کو دعوتِ کلام دی۔جنھیں وہ پیار سے' عمو' بلاتی ہیں۔انھیں شاعرِ انسانیت بھی کہا جاتاہے۔انھیں برگد کے پیڑ سے تشبیہہ بھی دی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب نے آکر اپنے کچھ اشعار اور ایک غزل پیش کی۔لیکن جب اس شعر کو پڑھا تو جیسے محبت کے
 رنگ اور بہار کے رنگ میں فرق نہیں رہتا۔ ہر دل سے تعریفی الفاظ بغیر سوچے سمجھے پھسل رہےتھے۔
انداز ہو بہو تیری آ وا زِ   پا  کا  تھا             
دیکھانکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کاتھا
اس کے  بعد شاعرِ انقلاب وشباب ،لیلیٰ وطن کا پرستار،الفاظ کا جادو گر ،رومان وسوہان کا پیکر جنابِ فیض احمد فیض کو دعوتِ سخن دی گئی۔فیض کادھیما پن اور تمبہ نوشی کا رومانی انداز اک اندازِ دگر رکھتا ہے۔فیض کے آنے سے پہلے ہی منچلوں نے ان کا ایسا استقبال کیا کہ محفل میں مردے بھی کفن پھاڑ کے اٹھ بیٹھے۔ فیض   کی  طلسمی شخصیت نے دلوں کو جکڑ رکھا تھا۔جوں ہی انھوں  نے پہلا ہی شعر پڑھا اور داد وتحسین کا طوفان کھڑا ہو گیا۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے             
وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
اور جب مقطع پر پہنچے تو محفل کا رنگ ہی اور تھا۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں                       
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اس کے بعد اپنے دل نشین انداز میں پروین شاکر نےتحریکِ آزادی کے سچے مجاہد، رئیس المتغزلین مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کو دعوتِ کلام دی۔اور تعارف کراتے ہوئے کہا:
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی                اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
مولانا حسرت موہانی کے آنے پر 'چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے'کا غلغلہ بلند ہوا۔فرمائشیں پوری ہوئیں ۔لیکن جب حسرت نے یہ غزل شروع کی منظر  ہی بدل گیا۔جسے لفظ محبت نہیں بھی معلوم تھا آج وہ مجنوں ہوا۔
تاثیرِ   بر قِ حسن ،جو ان کے سخن میں تھی                                    
اک لرز شِ خفی مرے سارے بدن میں تھی
اب پروین شاکر آئیں تو لہجے  میں اک شوخی کے ساتھ احترام کا عجب اہتمام تھا کیوں کہ شاعرِ شراب وشباب ،شوخی وبانکپن کامنبع،ساتھ ہی ساتھ شاعرِ مشرق کا استاد ،مرزا خاں داغ،کو دعوتِ کلام دی گئی۔داغ اپنے تما م تر طمطراق کے ساتھ جب    پڑھنے کے لیے آئے تومحبت نےشوخی اور عقیدت نے بانکپن  کا جامہ پہنا۔ ہر شعر پر داد سمیٹی ۔لیکن جب یہ غزل شروع کی تو آہوں کو پر لگ گئے۔
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا                 
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
اب کی بار پروین شاکر سٹیج پر آئیں تو ،تو انھوں نے حکیم ،حقیقی اور زمینی محبت کا علم بردار،تیکھے اور تیز تیوروں کا شاعر جسے لوگ مؤمن خاں مؤمن کے نام سے جانتے ہیں کو دعوتِ کلام دی۔'تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو'جیسی غزل تخلیق کرنے والے،اور خدا خدا کر کے مسجد میں شب گزارنے والے نے جب اپنی غزل شروع کی تو غالب بھی پھڑک اٹھے۔
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
                      رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے        
             ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا         
               جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا!
اس آخری شعرپر غالب نے کئی بار مقرر کہا۔ رات ڈھل رہی تھی محفل کا رنگ جنوں خیز ہورہا تھا۔ لیکن دیوان گانِ شاعری اُسی شد ومدکے ساتھ موجود تھے۔ اب کی بار پروین شاکر نے لکھنوی اسلوب کے بے مثل شاعر کو دعوت کلام دے ڈالی۔ سارے پنڈال میں آتش آتش ہونے لگی کیوں کہ ،پروین شاکر نے جنابِ حیدر علی آتش کو سٹیج پر بلا لیا تھا۔ ہزار ہا محبتوں کے سائے  سائے، گل وبلبل کی سنگت  میں ،پھولوں کی خوش بو میں بسے جب سٹیج پر آئے۔ تو غزل شروع کی۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے                       
ہم اور بلبلِ بے تاب گفت گو کرتے
ساری غزل مرصع تھی۔ ہر شعر پر داد سمیٹی۔ ہر شخص بلبل تھا  اور پھول سے گفت گو کرنے کا متمنی ۔لیکن ہزار ہا شجرِ سایہ دار کے نیچے بیٹھ کر سستانے لگا۔اب کی بار پروین شاکر نے آکر کہا، کہ میں کیسے اس کا تعارف کراؤں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ جس کا پیرہن کاغذی ہے۔ جس کے لیے گنبدِ بے  در کھولا گیا۔ جس کی نطق کے بوسے زبان لیتی ہے۔ جو اسلامیاںِ ہند کی نشانی ہے۔ جس نے اردو زباں کو وقار دیا۔ جو روحِ غزل ٹھہرا۔  جو نہ بولے تو شاعری کی سانس رک جائے۔ ندرتِ خیال کا مالک۔ انسانی نفسیات کا خوشہ چیں۔ اسداللہ خاں غالب۔ اعلان کیا ہوا کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ مجمعے کے جوش کے آگے بند باندھنے کے لیے گزارش کی گئی۔ غالب نے آتے ہی اک نشتر چلا دیا:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟                      تمھی کہو کہ یہ اندازِ گفت گو کیا ہے؟
اب تو لوگ سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے۔ مقرر، مقرر، واہ واہ اور نرحبا مرحبا کی آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ شعر موتیوں کے طرح لبِ لعلیں سے پھسلتے رہے۔ کہ پھر ایک تیر مارا کی ہائے  ہائے۔
کوئی دن گر زندگانی اور ہے                      
ہم نےاپنے جی میں  ٹھانی اور ہے
کئی دل مسل کے رہ گئے۔کئی ٹرپ گئے۔ اور بلا مبالغہ کہا جانے لگا 'غالب علی کلِ غالب'۔
بارِ خدایا ہونٹوں پہ یہ کس کا نام آیا                         
کہ مرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے
واہ واہ کی آسماں گیر داد کے ساتھ غالب رخصت ہوئے۔تو پروین اب کی بار سٹیج پر نمودار ہوئیں۔ خدائے سخن، اردو شاعری کا باوا آدم، احساسِ جمال  کاشاعر، بَہتر(72)نشتر کا مالک، میر تقی میر کو دعوتِ کلام دی گئی۔ سادگی میں پرکاری ،نہ صرف لباس سے عیاں تھی بل کہ حرزِ جاں تھی۔ سارے میں اک عقیدت اور خاموشی طاری ہوگئی۔
دل سے اٹھتا ہے یا کہ جاں سے اٹھتا ہے                    
یہ دھواں سے کہاں سے اٹھتا ہے
حیرت تحسین کا غلغلہ بلند ہوا اور اکثر لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ غزل بھی میر کی ہے۔ ہر شعر پرداد ۔دوسری غزل شروع کی:
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم          
       ہو گئے اب خاک انجام ہے یہ
لوگوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے یہ غزلیں کن کن ناموں سے سنتے رہے تھے۔ آج تمام پردے ہٹ چکے تھے۔ واہ اور آہ کا حسین امتزاج تھا۔
اور ایک اور شعر پر پنڈال بے حال ہوگیا:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
                      پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
پروین شاکر سٹیج پر ظاہر ہوئیں تو فضا وجد آفریں ہو چکی تھی۔ ایک ایسی شخصیت  جو وجد وحال کا پیکر نظر آرہی تھی ۔ان کے ہونٹوں پر ایک دل آفریں مسکان تھی۔ پروین شاکر نے سراج اورنگ آبادی کو بلایا گیا۔ انھوں نے آتے ہی مشہورِ زمانہ غزل شروع کی :
خبرِ تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو ،تُو رہا ،نہ میں رہا ،جو رہی سو بے خبری رہی

جائے استاد خالیست کی صدائیں بلند ہوئیں۔ وجد وحال کی عجب کیفیت دیکھنے والی تھی۔ہر شعر پر شاعری کے پروانے پھڑکتے رہے۔ سراج شعر پڑھتے رہے۔ اور انہی کے کلام پر یہ روح پرور حفل اپنے اختتام کو پہنچی۔