Sunday 31 March 2013

مہر میاں ،یہ خوف بھی عجیب ہے۔مظہرفریدی

مہر میاں ،یہ خوف بھی عجیب ہے
تیراجو نورِ عین تھا
وہ مندروں میں سج گیا
یہ خوف بھی عجیب ہے
کہ مندروں کی کوئی مورت
ہو ،ہوبہو تری صورت
کہ نگاہ دل فریب ہو
حسن میں ہو دل کشی
تمھارے من کو موہ سکے
مگر یہ اب ، سوال  ہے
 یہ سانحہ ہوا تو کیوں؟
اگرکسی کی چاہ تھی
نگاہ بے نگاہ تھی
تم ایک کائنات تھے
تمھارا اک وجود تھا
وجودمیں اک گھر بھی ہے
وہی کہ جس کو دل کہیں
اسی کو تم سنوارتے
کسی بھی ایک شکل میں ،پھر اسے پکارتے
 اگر اس میں کوئی صنم بھی تھا
کعبۂ دل سے پھر بتوں کوہم اتارتے
بہشت اس حسین کی
دل میں ہم سنوارتے
نہ خوف ہوتا مورت کا
نہ ملتی ہوئی صورت کا



ہمیں پہچا ن کون دے گا؟۔مظہرفریدی

ہمیں پہچان کون دے گا؟
لاوارث!بے شناخت بچے!جنھیں  وقت کا دھارا دارالامان یا ایدھی سنٹر پہنچا دیتاہے۔ایک گم نام راہی یا ایک ہم درد فرد کچرے کے ڈبے،کوڑے دان،کسی گلی کی نکڑ یا سرِ راہے دیکھتا ہے اور کسی 'امان'میں دے دیتاہے۔ایک پہلو اس کا با لکل الٹ بھی ہے،وہ ہے "اغوا" یا معذوربنا کر عمر بھر کے لیے ہاتھوں میں کشکول تمھا دینا!یہ ایک اورمسئلہ ہے(پھر کبھی سہی)۔
معاشرے کا وہ پہلو جسے ہم نہیں جانتے!اس کی شدت سے آشنا نہیں ہیں!ان کے مسائل کو نہیں جان سکتے!وہ کربِ ذات ۔۔۔جس سے یہ بچے دوچارہیں۔۔۔ناقابلِ بیاں ہے!جب کوئی بھی شخص اوروہ کالی وردی والابھی ہو،اورپوچھے،تم کون ہو؟والد کانام بتاؤ؟کہاں جاناہے؟شناختی کارڈ دکھاؤ؟توان سوالات کو سننے کے بعد۔۔۔وہ فقط منہ دیکھتاہے؟یہ سب کس چڑیا کے نام ہیں۔والد،گھر،کہاں،شناختی کارڈ!!
وہ اپنے آپ سے،معاشرے سے سوال پوچھتاہے!"ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیاہے؟"اوربے بس اورخاموش نگاہوں میں فقط ایک جواب ہوتاہے۔"کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلاویں کیا؟"
شناخت میرااورآپ کا مسئلہ نہیں ہے؟اوراس مسئلےکی شدت کابھی علم نہیں ہے۔وہ ننھے فرشتے جو کسی دارالامان یا ایدھی سنٹر کی روشنی بن کر پرورش پاتے ہیں،اور خوب صورت تاروںکا جھرمٹ سجاتے ہیں تو زمیں پوچھتی ہے،تم تارے تو ہو مگر کس زمیں کے؟جب چاند پیکر میں ڈھلتے ہیں،اورچاندی کی کرنیں کسی زمیں کی طرف پرواز کرتی ہیں تو زمیں پوچھتی ہے تم چاند تو ہو مگر کس زمیں کے؟جب سورج کی آب و تاب بن کر دنیا کی ترقی کو بالیدگی دینا چاہتے ہیں تو زمیں پو چھتی ہے۔تم سورج تو ہو مگر تمھاری زمین کہاں ہے؟
وہ بچے جو کسی ہم درد کی توجہ سے زندگی کے دھارے میں تو شریک ہوگئے لیکن اب کوئی اور دھارا انھیں قبول نہیں کرتا؟کسی خیراتی ادارے نے ان پر زندگی کا بوجھ تو لاد دیا لیکن انھیں پہچان نہیں دے سکتا؟انھین شناخت نہیں دے سکتا؟یہ زمیں کے سپوت،یہ دھرتی کے جائے،یہ ارضِ وطن کے بیٹے ،انھیں اب نام کون دے گا؟اور اگر کوئی ان سے پوچھے تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ اگر ان سوالات کےجوابات ان کے پاس ہوتے تو ،کیا ہمیں پوچھنا پڑتا کہ 'تم کون ہو؟'۔کیا ہم نہیں جانتے،کیا پورا معاشرہ نہیں جانتا؟کیا اقتدارِ اختیار کی کرسیوں پر سجنے والے اس بات سے بے بہرہ ہیں؟کیا آپ کیا میں،یہ سب نہیں جانتے؟ہم سب اس جرم میں برابرکے شریک ہیں۔لیکن یہ سوچتاکون ہے؟کسے فرصت کہ 'ان بے نام و نسب،بے شناخت اورمجھے کہنے دیں(تلخ سہی مگر سچ یہی ہے)بے چہرہ بچوں  کو چہرہ ملے گا،شناخت ملے گی،نام ملے گا؟ہم سب خاموش ہیں،خاموش تماشائی ہیں،'سب کچھ جلے ،مگر ایک میرا گھر نہ جلے'۔کیا یہ بچے ایک معاشرے کا حصہ بن سکیں گے؟
انھیں پہچان کون دے گا؟
کہ مامتا انھیں وقت کے خارزارِ زیست میں
خاموش آندھیوں کی زد پہ رکھ کر
کسی اور دائرے کی زدمیں آکر
زمانے کے گرم وسردمیں کھو چکی ہے!
اسے اپنے لختِ جگرکی
اوراس پھول سے چہرے کو اپنی مامتاکی
نہ کوئی پہچان ہے ،نہ ہوگی
فقط خیرات میں ملا ہے،اک نام اس کو
جو اس کی ذات پر اک داغ بنتاجارہاہے
نام ہے مگر گم ناموں سے کم تر
(کیانام ہے اسے ہم نام کہہ سکیں گے)
مگروہ قوم جو نام ونسب اورقبائل کو
فقط ایک تعارف جانتی ہے
تو کیا ان نام ونسب کے گم شدوں کو
کوئی ،کیا نام دے سکے گا؟
کہ ان کی سوچ میں اک واہمہ ہے!
میں کیاہوں؟
کہ ان کی روح پہ کچھ زخم ہیں کیسے؟
جو ان کے شعورولاشعورمیں پنپتے ہیں وہ جذبے کیا ہیں؟
مگران کی ایک سادہ سی یہ خواہش
ہمیں کوئی پہچان دے دو؟
مگر یہ بچے یہ نہیں جانتے کہ
جن سے یہ اپنی پہچان کا پوچھ بیٹھے ہیں
وہی تو ہیں جو ان کے گم نام ہونے کا سبب ہیں
انھی نے کبھی جاہ وحشم سے
انھی نے کبھی تیغ وتفنگ سے
انھی نے کبھی مال و کفن سے
ڈرایا اور اپنی اک اک ہوس سے
حواسِ ظاہری کے چہرے کو داغا
اگر یہ ،ان بے نام جسموں کو، نام دیں گے
تو کئی اک نام پردہ نشینوں کے عیاں ہوں گے
تو مرے معصوم بچو! یہ بے چہرگی ہی تمھارا نام ہے اور تمھاری پہچان ہے!

Thursday 7 March 2013

انسان اوراس کاماحول


انسان اوراس کاماحول
سوال:گزستہ صدی میں کتنی ایجادات ہوئی ہیں۔
جواب:گزستہ ایک صدی میں اجدات آج تک کی سائنسی ایجادات سے زیادہ ہیں۔
سوال:سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی پر کیسے اثرات مرتب کیے ہیں؟
جواب:سائنسی ایجادات نےجہاں انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں ،وہیں اس کے منفی اثرات سے بھی انکاربھی ممکن نہیں۔صنعت وحرفت میں انقلاب پیداہوااورآلودگی نے انسانی معاشرے کو دیمک زدہ کردیا۔
سوال:سائنسی ترقی سے ہماری زندگی میں کون مون سی سہولتیں پیداہوئیں۔
جواب:سفری ذرائع میں انقلاب پیداہوا،مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتاہے۔
سوال:سائنسی ترقی سے ہماری زندگی میں کون کون سے مسائل پیداہوئے۔
جواب:فیٹریاں لگیں تو دھواں اور فاسد مادے اگلنے لگیں۔زہریلی گیسوں نے ہوا اورفضاکو آلودہ کردیا۔زہریلے اورفاسد مادوں نے زمیں اورپانی کو آلودہ کردیا۔پودے،جانور،پانی ،آبی جانور یہاں تک کہ ہوابھی آلودہ ہوئی۔اورانسانی زندگی مختلف بیماریوں کاشکارہوئی۔شوراوربے ہنگم آوازوں سے شورکی آلودگی بڑھی اورنفسیاتی بیماریاں پیداہوئیں۔
سوال:آلودہ پانی سے کون سے مسائل پیداہورہے ہیں۔
جواب:آلودہ پانی سے ہیضہ،ٹائی فائیڈ،یرقن،اسہال اورکئی طرح کی دوسری بیماریاں پیداہوئیں۔
سوال:دھواں ہماری فضاکوکس طرح آلودہ کررہاہے؟
جواب:دھویں نے ہوا اورفضاکوآلودہ کریا۔دمہ ،کینسر اوردل کے عوارض عام ہوئے۔یہاں تک کہ اوزون کی تہہ بھی متأثر ہوئی۔

ہماراوطن


ہماراوطن
سوال۔پاکستان کاقومی ترانہ کس نے لکھاہے۔
جواب۔پاکستان کاقومی ترانہ حفیظ جالندھری نے لکھاہے۔
سوال۔نظم'ہماراوطن'میں ٹیپ کامصرعہ کون ساہے؟
جواب۔پیاراپیراوطن ہے ہماراوطن۔ نظم'ہماراوطن'میں ٹیپ کامصرعہ ہے۔
سوال۔ٹیپ کے مصرعے سے کیامرادہے؟
جواب۔وہ مصرعہ جو ہربند کے آخر میں دہرادیاجاتاہے۔ نظم'ہماراوطن'میں ٹیپ کامصرعہ” پیاراپیراوطن ہے ہماراوطن"ہے۔
سوال۔قافیہ سے کیامراد ہے۔
اشعارکے آخر میں استعمال ہونے والے ہم آوازالفاظ کو قافیہ کہتے ہیں۔مثلاً۔ہمارا۔سہارا وغیرہ۔
سوال۔نظم کے دوسرے بندمیں"سونااگاتی ہوئی کھیتیاں"سے کیامرادہے؟
جواب۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔اورہمارےپاکستان میں ہر قسم کی فصلیں ،پھل اورخشک پھل پیداہوتے ہیں۔

صحت اور صفائی


صحت اور صفائی
سوال۔حضورِ اکرمﷺ کاصفائی کے بارے میں کیافرمان ہے؟
جواب:صفائی اورپاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔"الَطَھُورُشَطَرَالاِیمَانِ"اورایک جگہ آتاہے۔صفائی نصف ایمان ہے۔
سوال۔متوازن غذاسے کیامرادہے؟
جواب۔ایسی غذاجس میں حیاتین صحیح مقدارؐین شامل ہوں۔کھانا زیادہ پکاہوا ہو ۔اورنہ ہی بہت کچاہو۔
سوال۔دانتوں کی صفائی کے کون سے طریقے ہیں۔
جواب۔بہترین طریقہ مسواک ہے۔یہ سنتِ نبویﷺ ہے۔منجن اورٹوتھ پیسٹ سے بھی دانت صاف ہوسکتے ہیں۔
سوال۔وضوکے کیافوائد ہیں؟
جواب۔وضو سے ہمارے ہاتھ،کہنیاں،ناخن،ناک،کان،حلق،اورپاؤں صاف ہوجاتے ہیں۔اگر ہم دن میں پانچ مرتبہ وضوکریں تو ہمارا جسم صاف ہوجاتاہے۔"طہارت ایمان کی شرط ہے۔(الحدیث)"

سائنس کے کرشمے


سائنس کے کرشمے
سوال(الف)۔انسان نے سائنس کاعلم کیسے سیکھا؟
جواب:پتھروں کو رگڑکر آگ جلانے،اپنے بدن کوکپڑوں سے ڈھانپنے،اوردیگرچیزوں کاشعورحاصل کرنے سے ،انسان نے سائنس کا علم سیکھا۔
سوال(ب)۔انسان نے زمین کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد کیا کیا؟
جواب:زمیں کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد چاندتک رسائی حاصل کی۔اورآج مریخ اوردوسری دنیائیں اسکی لپیٹ میں ہیں۔
سوال(ج)۔انسان نے کس طرح اپنی زندگی کو پر آسائش اورسہل بنایا؟
جواب:پہیا کی ایجاد،بسیں ،کارین،ریل گاڑیاں اورہوائی جہاز بنا کر انسان نے اپنے زندگی کو پر آسائش اورسہل بنایا۔
سوال(د)۔صنعت وحرفت کادارومدارکس چیز پرہے؟
جواب:صنعت وحرفت اورروزمرہ زندگی کے کم وبیش تمام معاملات کادارومدار بجلی پر ہے۔
سوال(ہ)۔سائنس کی ہلاکت خیز ایجادات کون سی ہیں؟
جواب:سائنس کی ہلاکت خیز ایجادات ،گولہ بارود،ایٹم بم،ہائیڈروجن بم وغیرہ ہیں۔
سوال(و)۔یہ زمین اورمعاشرہ کس طرح پرامن،محبت اوربھائی چارے کانمونہ بن سکتے ہیں؟
جواب:اگرہم سائنس اورسائنسی ایجادات کو انسانی فلاح وبہبوداوربہتری کے لیے استعمال کریں تو یہ زمیں اورمعاشرہ امن،محبت اوربھائی چارے کانمونہ بن سکتاہے۔
سوال۔انسان کی ہمیشہ سے کیاآرزورہی ہے؟
جواب:انسان پرندے کی طرح اڑنے کے خواب دیکھاکرتاتھا۔یہی انسان کی آرزوتھی۔لیکن آج انسان ہوئی جہازوں میں بیٹھا پرندے کی طرح اڑتاپھرتاہے۔