Friday 28 December 2012

منیر نیازی پر ایک طویل مضمون سے اقتباس۔مظہرفریدی


منیر نیازی پر ایک طویل مضمون سے اقتباس
" ویران درگاہ میں آواز"ایک اہم نظم ہے۔اس سے ہمیں منیرنیازی کے لاشعورکوسمجھنے میں مددمل سکتی ہے۔سناتھاکہ منیرنیازی اتنا اناپرست یا نرگسیت زدہ ہے کہ اگروہ "داتا گنج بخش علی ہجویری"کے دوارے بھی جائے تو وہ یہ دعامانگے کا،یااللہ میری وجہ سے اسے بخش دے،'واللہ اعلم باثواب'۔ اس نظم میں :ہلکی چاندی کامنظرہونے کے باوجود،اسے ایک مسکراہٹ محسوس ہوئی(شعر میں حوالہ نہیں ہے)، ایک پیلے آدمی کی نعش کی مسکراہٹ۔ اب شاعر آگے کوبڑھ بھی رہاہے اورسرسراہٹ کے ساتھ ،کوئی آہٹ سن رہاہے جورفتہ رفتہ اس کے قریب آرہی ہے۔بظاہر وہاں معبدکاسایہ تھا۔اور کچھ بھی نہ تھا۔لہٰذا شاعراپنے ہی قدموں کی آواز سے درنے لگا۔اب عالمِ خوف میں ایک 'آہ'لی۔لیکن جس طرح گنبدمیں دیرتک کوئی آواز گونج بن کرسرٹکراتی رہتی ہے۔اسی طرح شاعرکی 'آہ'بھی گنبدِجاں یا گنبدِ درگاہ میں گونجتی رہی۔اب خوف نے شاعرکے سارے وجود کو ہپناٹائز(مسحور) کر دیا۔اورجو خوف لاشعرمیں جاگزین ہوگیاتھا۔ صحنِ درگاہ میں جب اپنی آہٹیں گونجیں،توشاعرکووہ بھی سیمی سہمی سی محسوس ہوئیں۔ساتھ ہی ایک اور اندیشے نے سرابھاراکہ کوئی ہے'جومیری طرف برھ رہاہے۔لاشعوری طور پر زباں سے نکلا،'کون ہے؟'
"کون ہے؟"
"کون ہے؟"میں اک عجب موجودگی سے ڈر گیا
جیسے کوئی تھا وہاں پر،پھربھی وہ روپوش تھا
پھر ایک دھیما،مگرکنٹرول ہیجانی انداز،کون ہے؟،اورشاعرکویوں محسوس ہواکہ جیسے کوئی "بے چین لَے"ہو،کوئی "لَے"یعنی وہ بے چین روح کسی اضطراب میں گرفتارتھی؟"سازکی گہرائی میں نالے ہیں نغمات نہیں"۔شاعرخودہی جواب دیتاہے۔،یہاں کوئی نہیں ہے۔پھردیرتک 'ہے؟'،'نہیں ہے؟'،کی گردان ہوتی رہی۔
درگاہ،ویرانی،خوف،اندیشے،سرسراہٹ،گنبدِ بے درمیں گونج،آہٹ،دشمن وغیرہ۔۔۔اگرچہ شاعرنے ان تمام چیزوں کو'درگاہ'کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔لیکن نظم کوعنوان اورشاعرکی اضطراری حالت کچھ اوربیان کررہے ہیں۔ایک تو درگاہ میں کوئی 'آواز'نہ پیداہوئی نہ سنائی دی۔اگرشاعر "آہ" یا"آہَ سرد" کوآوازکہہ رہاہے تو یہ بھی اس بات پہ دال ہے کہ شاعرکسی زہنی خلش مین مبتلاتھا یاہے؟اب شاعر جن حالات سے بھاک کر یاویسے ہی پناہ کی غرض سے درگاہ میں آیاہے تو کیاوہ درگاہ ویرانے میں تھی؟کیوں کہ وہاں شاعرکے علاوہ کوئی نہیں تھا؟دوسرا وہ واقعی درگاہ تھی یاایک خیال کودرگاہ بناکرایک نظم تراشی گئی ہے۔بہرحال شاعرکا لاشعورجن اوہام اوراندیشوں میں مبتلا تھا،یہ نظم اس کی عکاسی کرتی ہے۔

Sunday 16 December 2012

اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں،مظہرفریدی


اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
آج کی دل کش ودل فریب دنیا،یہ نیویارک ہے ،دنیاکااہم ترین شہر،یہ ٹوکیوہے تجارتی دنیاکابے تاج بادشاہ،یہ لندن ہے ، یہ پیرس ہے،یہ پیکنگ ہے،یہ واشنگٹن ہے،یہ ہانگ کانگ ہے،دنیاکی چمک دمک نے لوگوں کودنیاکااس قدراسیرکردیاہے،کہ خواب میں بھی اب چاند ستارے نہیں اترتے بل کہ ہوائی کے کناروں اوراٹلی کے بازاروں میں گھومنے کی امنگ پیداہوتی ہے۔محترمۂ صدر!مغربی استعماروں نے ترقی کاایسا غلغلہ اوررنگ وجل ترنگ ،نمود ونمائش،خواب وخواہش اورسائنس اورٹیکنالوجی کے آسماں کوچھوتی ہوئی ترقی،اورمشرق کاپساہوادرماندہ وپس ماندہ،مجبور ومقہور،مسدودومعذورانسان جب اردکردکاجائزہ لیتاہے توفضاء کی سرگوشیاں یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔
 جنتگربر روئے زمیں است
امریکہ وانگلستان ویورپیں است
محترمۂ صدر!میری مٹی کاسونا مغربی ممالک میں سرف ہورہاہے۔میری قوم کی ذہانت وفطانت،یورپی ممالک کی ترقی میں گل گارے کاکام دے رہے ہیں۔میرے نوجوانوں کی ہڈیاں اینٹ اورپتھربن رہے ہیں۔وجہ محترمۂ صدر!وہ استعماری نظام ہے۔جس نے پوری دنیاکے انسانوں پر ایک دبیز غلاف کی تہہ بٹھارکھی ہے۔شوکت وحشمت،دولت وطاقت،کے دکھاوے نے بہلاپھسلارکھاہے۔جس طرح امیرِشہرکولوٹنے کی عادت ہوتی ہے۔امیرِ دنیا،اسیرِ کبرونخوت یورپی اقوام نےہمیں اپنے ریشمی لبادوں  اورکاغذی چہروں کے طلسم میں اسیرکررکھاہے۔یہ طلسم ، طلسمِ سامری سے کم نہیں۔
محترمۂ صدر! مفکرِ اسلام ،حکیمِ الامت،شاعرِ مشرق سے جب اس کے معصوم بیٹے نے معصوم سی فرمائش کی اورمغرب سے کوئی تحفہ لانے کامتمنی ہواتواس بلبلِ ہندوستاں نے ،اس طوطیٔ ہندنے ،اس صاحبِ ایمان نے اپنے بیٹے کوچنداشعار تحفے میں لکھ بھیجے۔
اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہندسے میناوجام پیداکر
مراطریق امیری نہیں فقیری ہے               
خودی نہ بیچ ،غریبی میں نام پیداکر
اے بیٹے تجھے فرنگیوں کااحسان مندہونے کی ضرورت نہیں ہے۔تجھے فریب خوردہ لوگوں سے مرعوب ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ فریب خوردہ شاہیں ہیں جوگرگسوں میں پلے ہیں۔جن کے غلط مرعوب کن خیالات لوگوں کومسحورکررہے ہیں۔اے نورِ نظر تجھے درویشی ،قناعت اورانسان دوستی کواپنانا چاہیے۔
محترمۂ صدر! شاعرِ مشرق نے یہ وصیت تین چوتھائی صدی پہلے اپنے بیٹے کوکی تھی۔کیوں کہ وہ حکیم الامت ریخت ہوتی ہوئی یورپی تہذیب کانہ صرف گواہ ہے بل کہ نقیب بھی ہے۔اسے یورپ کی ترقی متأثر نہیں کرتی بل کہ خیال کادھارا اس ریخت میں چھپی شکست اور گم نامی کے اندھیروں کودیکھ رہاہے۔
                تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
                شاخِ نازک پہ جوآشیانہ بنے گا,ناپائے دار ہوگا
محترمۂ صدر!اک طرف ہمارے عاقبت نااندیش حکمران اور لوگ ہیں،جنھیں یورپی کلچر بہت "رِچ" نظرآتاہے۔طائفے ہیں ،بے حیائی ہے، آزادی ہے۔اورحکمرانوں کوپونڈ اورڈالر کی خوش بوسے سرورآتاہے۔اوروہ ایسے بدمست ہاتھی بن جاتے ہیں کہ ملک ہربارداؤپہ لگ جاتاہے۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک خاک روب کومحملِ شاہی کی صفائی کاموقع ملا۔جواس سے پہلے کبھی بھی اس حصے میں داخل ہواتھا،خوش بوؤں کے سمندرمیں غرقاب ہوکردھڑام سے زمیں بوس ہوا۔سب پریساں ہوگئے یہ کیاماجراہوا؟وہ روزانہ صفائی کرنے والی کنیزکہیں نزدیک ہی موجودتھی۔بولی جان کی اماں پاؤں توکچھ کوشش کردیکھوں۔اشارہ ملتے ہی جوتااتار،ناک پر رکھا۔فوراً!ہوش میں آیااوراستفسارکرنے لگاکہ کیاہواتھا؟
محترمۂصدر!ہمارے اذہان،افہام،اوہام توپہلے ہی اسیرِ نیرنگ فرنگ ہیں ۔جب بھوکوں ننگوں،حرص وہوس کے پجاری مفلوک الحالوں کو،دولت لکشمی کے چرن نصیب ہوتے ہیں۔وائٹ ہاؤس کی آب وہوامیں پہلاسانس لیتے ہیں۔ان کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔انھیں وہاں حور و غلماں ٹہلتے دکھائی دیتے ہیں۔اب ہوش کس ظالم کوآئے۔"مرکے پہنچے ہیں اس دل رباکے واسطے"اب ہرمعاہدہ عالمِ مدہوشی میں ہوتاہے۔آپ ہی بتایے محترمۂ صدر!کوئی مدہوش آدمی معقول کام کرسکتاہے؟محترمۂ صدر!جس طرح ہرچمکتی چیزسونانہیں ہوتی،ہربہتی چیزکمبل نہیں ہوتی،ہرروشن چیزسورج نہیں ہوتی،ہررات تاروں بھری اور چاند سے سجی نہیں ہوتی۔اسی طرح مغربی استعماروں کی محبت ومروت، امدادو احساں، نہ معلوم کس بغض وعِناداورحرص وہوس کاپیش خیمہ ہیں۔
محترمۂ صدر!سفال ہندسے میناوجام پیداکرنے کاعمل،ہمیں حیدروٹیپو،سراج الدولہ،فضلِ حق خیرآبادی،نواب سلیم اللہ خاں ، سردارعبدالرب نشتر ، بہادریارجنگ،علامہ محمد اقبال ،اورمحمد علی جناح جیسے بطلِ جلیل عطا کرچکاہے۔دریوزہ گری نے ہمیں اقوامِ عالم میں گداگراوربھیکاری بنادیا ہے۔اس لیے حکیم الامت نے فرمایاتھا:
                                دیارِ عشق میں اپنامقام پیداکر
نیازمانہ نئے صبح وشام پیداکر
                                خدااگردلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ وگل سے کلام پیداکر

'آج بھی رائج ہے دنیامیں وہی اندھاقانون'،مظہرفریدی


'آج بھی رائج ہے دنیامیں وہی اندھاقانون'
تاریخ کے اوراق جل رہے ہیں ،ہرواقعہ اک آگ ہے،ہرسطرمیں شعلوں کارقص، ہرحقیقت ہے دھواں دھواں  ،الفاظ ہیں سسکاریاں،ہربات اک آہ وفغاں،کس سے کہیں ظلم کی یہ داستاں،کہ:' آج بھی رائج ہے دنیامیں وہی اندھاقانون'
جنابِ صدر:میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں ،جہاں ہیں سسکیاں زمانے کی ،جہاں ہواکی سانسوں میں اک سرسراہٹ ہے، جہاں ہر اک خیال، ہراک خوف ایک آہٹ ہے،جہاں فکرکوبالیدگی نہیں ملتی،جہاں نگاہ کوروشنی نہیں ملتی،جہاں امیدیں دلدلوں میں چلتی ہیں ،جہاں سانسیں کانٹے اگلتی ہیں،جہاں خورشید جہاں تاب تیرگی کانشاں،جہاں مہتاب جبینِ نازپراک داغ لگتاہے،جہاں جینے کی امنگیں بیوہ کی گود کی مانندخالی ہیں،میں حالتِ خواب میں بھی اک خوف سے چونک اٹھتاہوں،تو صلیبِ فکرپراک جسم ٹنگا ہے،کہیں دوشیزاؤں کی آہیں ہیں ،کہیں بوڑھی آنکھیں اشکوں کوترستی ہیں،کہیں معصوم سے لاشے اپنی بے زبانی میں فقط اتناہی کہتے ہیں۔' آج بھی رائج ہے دنیامیں وہی اندھاقانون'کیوں کہ:
دستوریہاں بھی گنگے ہیں،فرمان یہاں بھی اندھے ہیں 
اے دوست خداکانام نہ لے،ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
میرے اس اُور ہچکیاں ہیں ناگاساکی کی ،میرے اُس اُورکرلاہٹیں ہیں ہیروشیماکی ،مجھے مظلوم ویت نامیوں کاخوں سونے نہیں دیتا، میری زباں پر آج تک کڑواہٹ ہے اس زہرِ ہلاہل کی،فقط اک آہ اٹھتی ہے،اُن بے نور آنکھوں سے' آج بھی رائج ہے دنیامیں وہی اندھاقانون'جنابِ صدر ،مجھے حسن کی ان بے نام وادیوں کے سندیسے بھی آتے ہیں ،جہاں کلیاں کھلنے سے پہلے مسلی جاتی ہیں ،مجھے ان چناروںکی کتھامعلوم ہے کہ جن میں غنچے پھول بننے سے پہلے روندے جاتے ہیں ،مجھے ان اندھی راتوں اوروادیوں کی پکار بھی سنائی دیتی ہے،جہاں معصومیت اپنی عفت کاجنازہ خود اٹھاتی ہے،
                جہاں جوانیاں حسنِ شباب دیکھنے سے پہلے خوں رنگ میں نہاتی  ہے،اورخمیدہ کمرکاہرزاویہ سوال کرتاہے،' آج بھی رائج ہے دنیامیں وہی اندھاقانون'جنابِ صدر ،اب ہرایک سرگوشی مجھ سے یہ سوال کرتی ہے،ہم اگرانسان تھے توکس جرم کی پاداش میں یوں وقت کے چرنوں میں ہماری جانوں کے نذرانے پیش کیے گئے،مجھ سے پوچھتے ہیں افغانیوں کے طنطناتے ،پتھربدن،فلسطینیوں کے زخم،نجف اشرف اوربغدادکے دریدہ دہن، ارضِ منت نشاں کی ہڈیوں سے نکلتادھواں،کیاعہد پتھر یاغار کی کوئی چال ہے،کہ بے خبری میں ہم کوہے لوٹاگیا، اگرہم آج تہذیب کے اس موڑپربھی سچ کے اس زہرکوپینے سے قاصر رہے توکون بتلائے گا،کہ قانون کیاہے،اورکب تک چلے گایہ اندھا قانون ،کہ ہم جب چلے تھے توہمارے کانوں میں اک آواز یہ تھی کہ سارے جہانوں کے انسان ایک ہیں ،اورانسانیت ایک ہی بدن کانام ہے،کہاں ہے وہ نغمہ خواہ،کیا وہ انسانیت پرستی کےدعوے دھرے کےدھرے رہ گئے؟
چلواٹھوکہ اب وقت آگیا،ان سے پوچھیں ذرا،یہ قتل گاہیں سجائی تھیں کس لیے،کیوں کہ تم توکہتے تھے ایک انسان کاقتل انسانیت کا قتل ہے،وہ دعوؤں کے طومار کیاہوئے،اگر قانون کی انکھیں  نہیں تواس کوآنکھیں دینے کوتیار ہیں،کہ کب تک یہ اندھا قانون مظلوم و مجبور کاخوں بہاتا رہے گا،چلوکہ اس قانون کوبھی تو 'گویائی 'دیں،ساتھ سننے کی طاقت سے توقیردیں،کہ اب جوبھی حرفِ احساس پر فیصلہ رقم ہو،نہ کوئی زخم ہو،آج اک فٖیصلہ ہم بھی کریں ،یاتوجنگل کےعہد  کی طرف لوٹیں سبھی ،یاپھراس قانوں کواک نئی شکل دیں جس میں کوئی ،فرعون ہویاکہ نمرود ہو،شدادہویاکہ طلسمِ سامری،کوئی یزیدہویاکہ بش ہوکوئی ،جب بھی اپنے گھمنڈپہ اترا کرے اک شرارہ اٹھے ،جو بھسم کردے ہرایک کے کبرکو،اوراگرآج ہم پھرکسی مصلحت ،یاکسی خوف کی دیوار میں چھپ گئے،کل ہمارے بدن اس اندھے قانون کی تلوار سے زخم خوردہ تڑپتے نظر آئیں گے،کیوں کہ اس اندھے قانوں کی ہراداقتل ہے،یہ احساس سے عاری پلندہ ہے چند دساتیر کا،اس کو معلوم کیا ،نہ تڑپنے کی اذیت اس نے چکھی،نہ معصوم کلیوں کے درد کوہے جانتا،اٹھو تہذیب کے غم گسارو اٹھو!،اٹھو آدمیت کے علم بردارو اٹھو!، اس اندھے کی آنکھوں سے کالی پٹی کواتار پھینکیں،اور اک جاگتا،بولتا،دیکھتا،سوچتا،ایسامنشور دیں ، کہ ہرایک اندھااسے دیکھ لے۔ایسانہ ہو کہ کل نئی نسل پھر اسی عذاب سے گزرے۔
سوچ ۔۔،جیسے وسعتِ کون ومکاں                               
درد۔۔۔۔،جیسے جوشِ بحرِبےکراں
خواہشیں۔۔۔۔،جیسے شکستہ کشتیاں                  
ولولے۔۔۔۔۔،جیسے دریدہ بادباں
خواب۔۔،جیسے ساحلِ امکاں پہ دھند                
یاد۔۔۔۔،جیسے بجھتی مشعل کادھواں
جستجو۔۔۔۔۔۔۔،جیسے تھاہارا پرند                                            
جھاگ میں ڈھونڈے آشیاں
ہم سفرعمرِ گریزاں!                                                   
کچھ تو بول۔۔۔!!
کس طرف جاؤں؟                                                    
کہاں پاؤں اماں؟
آبنائے خوف کے اس موڑسے                                    
دورکتنی ہیں سکوں کی بستیاں

اندرسے آدمی آج بھی درندہ ہے،مظہرفریدی


   اندرسے آدمی آج بھی درندہ ہے
معصوم عفتوں کی قبا چاک ہے،چٹکتی کلیوں کی حیاچاک ہے،کھلتے غنچوں کی رداچاک ہے،تھرکتے بدن کی ہراداچاک ہے،شامِ الم ہی نہیں بادِ صباچاک ہے،کوہ ودمن ہی نہیں صحراچاک ہے،خزاں ہی نہیں بہاراورفضاچاک ہے،چاک دامانی پہ لکھاہواچاک ہے،پھربھی بے حس، مردار کھانے والوں نے درندگی کی انتہا یہ ہے کی ،مظلوم ،مجبور،مقہور،چور چور ،تنِ آدمی کونوچتے رہے،امنِ عالم کےنعروں تلے،دہشت و درندگی کی حدیں پار کیں،کہیں ملک کی سرحدوں میں زہر گھلنے لگا،حواکی بیٹی بدن کے ایک ایک تار کوچننے لگی،یوں بھی درندہ صفتی ابھرنے لگی۔
میرے شعورنے جب آنکھ کھولی تومیں اکیسویں صدی میں تھا۔میرے سامنے روشنیاں ہی روشنیاں تھیں۔قمقموں کی دیوں نے یہاں سے وہاں تک، نیلے نیلے ،پیلے پیلے،اودھے اودھے،پیرہن پہن رکھے تھے،فلک بوس عمارتیں تھیں،چلتی مشینوں کا سیلاب تھا، پرندوں کی طرح اڑتی پھرتی تھیں اڑن طشتریاں ،کیمروں میں قید تھیں ان گنت شکلیں ،تصویروں میں رقصاں کئی پیکروں کے خطوط،سینہ ساگر میں آبدوزوں سے بھونچال تھے،رنگ تھے ،ہرانگ میں فرہنگ تھے، میری زباں توگنگ تھی،مدہوش تھا،یوں ہی بے دھیانی  میں آگے بڑھا،توڈش انٹینا، کمپیوٹر، اورموبائل کی دنیاآباد تھی، اور پھرموبائل کمپیوٹر دیکھا دنیابھرکی معلومات،اوررابطے آپ کے ہاتھ میں تھے۔یہ خوش کن مناظردیکھ کرجی سے بوجھ اتر گیا ،میں سمجھ گیا کہ یہ عنوان کسی قنوطی یاسادیت پرست کے ذہن کی پیداوار ہے،کہاں جنگل کاقانون ،کہاں غاروں کی زندگی ،کہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،کہاں اپنے ہی بھائیوں کاگوشت نوچتے وحشیانہ رقص کرتے اجڈجنگلی ، کہاں اپنے محسنوں کو آتش و ہن میں ڈالنے والے ،اورکہاں آج کامہذب معاشرہ اورترقی یافتہ انسان ،تودل سے یہ سوال اٹھا،کہ دنیا شانت اور پرسکون ہو گی، اگرانسان کی وہ وحشت اور بربریت ختم ہوچکی ہو گی،توخیال آیاطاقت کادیوتا ، اہرمن اور یزداں بن کردل میں کیوں بیٹھ گیا،اچانک چشمِ تصور میں یونان کی تہذیب کاایک منظر چلنے لگا،پوری تہذیب کے حلق میں زہرتھا ،اگر درندگی ختم ہوگئی تھی تووہ معصوم بچی کہ جس کاگناہ صرف یہی تھاکہ وہ بیٹی یابہن تھی، صحراکے ذروں سے اس کی بے نور آنکھیں پوچھتی تھیں ،مجھے کس جرم کی پاداش میں زندہ گاڑھاگیا،اچانک ہوانےتاریخ کے اوراق الٹ دئیے،ایک میدان میں موت کاکھیل تھا، اک طرف آدمی اک طرف جنگل کاشیرتھا،تماشائیوں کے قہقہے امنڈتے ہوئے،اہلِ یونان آزاد لباس کی قید سے ،مصروف تھے اپنے اپنے کھیل میں،کہیں زندہ کنیزوں کو بھونا گیا، کہیں دیوی کے چرنوں میں معصوم اٹھتی جوانی سلائی گئی،داسیوں کومندروں کی زینت بنایا گیا،اچھوت اور شودر لوگوں  کے کانوں کوابلتاسیسہ پلایاگیا،باوفا بیوی تو خاوندکے ساتھ ستی ہوئی اورجوبچ رہی سر اس کا منڈوایاگیا،اورباقی عمرنشانِ عبرت بنایاگیا ،اچانک ایک تیزآواز نے سارے مناظر دھندلا دئیے،دریا کنارہ ہے، العتش العتش، معصوم حلقوم میں،ترازو ہواتووہ تیرتھا ، جنابِ صدر سچ ہے کہ 'اندرکاآدمی آج بھی درندہ ہے'۔ہنستے بستے شہرہیں، اک طرف سروں کے مینارہیں،وہ بھی جھنوں نے اپنے ضمیرکاسودانہیں کیا،وہ بھی جوشہ کے وفادار تھے،اندرکے وحشی پن نے شہروں کوکھنڈر  بناڈالا،جنابِ صدر ۔ اک نظر آج کی تہذیب کاریشمی لبادہ بھی دیکھیں چلیں،اپنی مرضی سے جینے اورقانون فطرت پہ چلنے کی ایسی سزا،جبر کی اس شکل کو دیکھ کر ظلم خود بھی لرزنے لگا،وہ بھی امن کی گود میں بیٹھ کر،افغانستان پربموں کی بارش برسائی گئی،عراق ہے غلطیدۂ خاک وخون ،اور دنیاکی واحد سپرپاور جوتہذیب کی دعوے دار ہے،فرعونی طرزِ عمل سے معصوم انسانیت کے خون سے ہولی کھیلتی رہی،اوراس کالے پالک،جو انسانیت     کے جسم کاناسور ہے، اوردوسری  طرف مظلوم ،مجبور عزتوں ،عفتوں کی قربانیاں دے کربھی باغی بنے،یہ حالت جودیکھی تو وادیوں  کی اُور چل دیا ممکن ہے وہاں ہوسکوں کا نشاں،وادیوں کی سرزمیں ،جھرنوں  کے تانوں کی امیں،غیچے اورکلیاں تھیں مکیں،وہاں بھی نم تھی چشمِ سرمگیں ، چناروں کے مسکن سلگتے ہوئے،لٹی عفتوں کی جنازہ گاہ تھے، معصوم قلقلوں کامدفن بنے،یہ اعلان تھے کررہے،یہ سچ ہے کہ 'اندرسے آدمی آج بھی  درندہ ہے'۔
سرمقدس پاک،بزم آب وگل کی روشنی                                        جسم انبارِ غلاظت،پست،بدفطرت،'دنی'
یہ توسب کچھ ہے بجا،لیکن بحدِ جاں کنی                                           افتراقِ جان وسر کرب بھی ہے دیدنی
کرب ،روحانی اذیت،روح  کی پیہم جلن                                          اک سفرموہوم سابے جادہ ومنزل تھکن
سرکی زینت ہوگئے،ایسے ہی کچھ رنگیں پر                                      اے خدائے بحر وبر
جدیدتہذیب نے اندازبدلا،معصوم انسانیت کوبے وقوف بنایا،وحشی اورجنگلی قانون ،کیمونزم،شوشلزم،پرویزی حیلوں،سامری ہتھکنڈوں ، مادیت پرستی کی چالوں ، صنعتی ترقی کے جالوں،انسانیت پرستی کے نام نہاد نعروں،سے ایسے گھناؤ نے کھیل کھیلے،کہ آدھی سے زیادہ دنیاکوپس ماندہ  رکھ کر جنگل کے بادشاہ کی طرح پوری دنیاپرحکومت کرنے کاواب شرمندہ کرنے کے چکرمیں ،مغربیت نے جنسیت کے ایسے قوانین  بنائے  اورجبلی عفریت کوایسی ہوادی کہ مردوزن اس کی چکی میں پستے ہوئے بے بس پنچھی کی طرح سوے کے اس پنجرے میں پھڑپھڑارہے ہیں۔جنابِ صدر :وہ درندگی جوجنگل میں ناچتی تھی سب کے سامنے تھی ، وہ لوگ اجڈ ،غیرمہذب ،وحشی تھے لیکن مکار اور دھوکاباز نہیں تھے،ان اجڈ وحشیوں کے بھی اُصُول تھے،برہنہ تن تھے لیکن جبلت میں برہنگی نہیں تھی،لیکن انسانیت کابہروپ بھرکر آج کاوحشی آدمیت کالبادہ سجائے،معصوم آدمیت کوتارتارکررہاہے، سسکتی انسانیت کی آنکھیں خشک ہیں،بلکتی معصومیت کی نظریں پتھرا گئی ہیں،کوئی مسیحا،کوئی احسنِ تقویم کا نمونہ آئے اور ظلم  کوظلم کہے،جبرکوجبر،وحشی کووحشی کہے کہ بے حس ہوتی روحیں اب زبانِ حال سے پکارتی ہیں۔
میرے خدایا!
میں زندگی کے
عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
یہ میراچہرہ ،یہ میری آنکھیں ،
بجھے ہوئے سے چراغ جیسے ،
جوپھر سے جلنے کے منتظرہیں

Saturday 15 December 2012

وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی


وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے“……”ایک ۔۔۔ ہوا کرتا تھا“۔ یہ ایسے جملے ہیں جن کو سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں فوراً بچپن میں سُنی ہوئی کہانیوں کی آواز گونجنے لگتی ہے اور تصور میں کہانی سنانے والوں کی تصویر محوِ رقص ہوتی ہے۔ یقینا یہ کہانیوں کی وہ تاثیرہے جو ہمارے ذہنوں پر نقش ہو کر زندگی کے حصے بن جاتی ہیں۔
قصہ گوئی یا کہانی سنانا ایک ایسا فن ہے جس میں الفاظ، تصویر اور آواز کے ذریعے ایک حقیقی یا افسانوی واقعہ کی نقشہ کشی یا عکاسی کی جاتی ہے۔ کچھ کہانیاں صرف تفریحی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں جبکہ اکثر کہانیاں سبق آموز ہوتی ہیں اور اخلاقی قدریں بیان کرتی ہیں۔
تاریخی اور علمی اہمیت
فن تحریر کے وجود میں آنے سے قبل اقوام یا افراد قصہ گوئی کے ذریعے اپنی روایات اور ورثے کو اپنے آنے والی نسلوں تک پہنچاتے تھے۔ کہانیوں نے نہ صرف تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام سرانجام دیا بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل میں زندگی کے تجروبات منتقل کرنے اور تہذیبوں کو زندہ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔رسمی نظام تعلیم کے وجود میں آنے سے قبل کہانیاں ہی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی تعلیم کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ لہٰذا اگر کہانی سنانے کے رواج کو ابتدائی ذریعۂ تعلیم اور طریقۂ تدریس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانیوں کا راوج نہ صرف ماضی میں مقبول تھا بلکہ آج بھی تقریباً تمام معاشروں میں بھی موجود ہے اور انھیں اہمیت دی جارہی ہے۔
مذاہب عالم اور تہذیبوں کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں نے اپنے اخلاقی اقدار اور اصولوں کا بیان اور تشہیر کے لئے کہانیوں کا راستہ اختیار کیا۔ اور یہی کہانیاں اور اساطیر ان کے عقائد اور اخلاقی قدروں کی ترجمانی کرتے ہےں۔ اور ان تہذیبوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کہانیوں کے ورثے کو محفوظ رکھےں اور اس روایت کو اپنے آنے والی نسلوں میں منتقل کرے۔
مسلمانوں نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں اہم تخلیقات کیں وہاں کہانیوں اور حکایات کا ایک بیش بہا ادب بھی تخلیق کیا جو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ دوسری قوموں میں یکساں طور پر آج بھی مقبول ہیں۔ جن میں مولانا رومی اور شیخ سعدی کی حکایات، اخوان صفا کی کہانیاں، کلیلہ و دمنہ اور دوسرے قصے شامل ہیں۔ اور سالہاسال یہ کہانیاں اور حکا یتیں مسلمانوں کی رسمی اور غیر رسمی تعلیم کا حصہ رہے ہیں۔کہانیوں کی افادیت اور تاثیر کو مدنظر رکھتے ہوئے آج بھی ماہرین تعلیم کہانی سنانے کو ایک اہم طریقۂ تدریس قرار دیتے ہے۔ بلکہ ابتدائی تعلیم کے نصاب کو کہانیوں کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔
ابتدائی تعلیم اور کہانیاں
ہماری ذاتی تجروبات اور ماہرین کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابتدائی عمر میں سنی ہوئی کہانیوں کا ہماری شخصیت پر گہری اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کہانیوں کی مدد سے بچوں کے اندر مخفی صلاحیتوں اور مہارتوں کو اجا گر کیا جاسکتا ہے۔ کہانیاں کے ذریعے تعلیم صرف سکول تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا شروعات گھر میں بہت ابتدائی عمر سے ہوتا ہے۔ آج کل بچے چونکہ بہت جلد مختلف ناموں سے سکول جاتے ہیں مثلا کندڑ گارڈن(kinder Garden) ، مونٹسوری ، یا ای سی ڈی وغیرہ۔ ان ابتدائی نظام تعلیم میں کہانیوں کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے اور نصاب کا اہم حصہ قرا ر دیا جاتا ہے۔
کہانیاں کیوں اہم ہیں ؟
٭۔ کہانیاں دلچسپ ہوتی ہیں اس لیے بچے شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں ۔
٭۔ کہانیاں بچوں کے تخیلات کو وسعت دینے میں مددگار ہوتی ہیں۔ جس سے ان کی تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
٭۔ ان سے زبان فہمی میں بہتری آتی ہے۔
٭۔ ان سے بچوں کے ذوق جمالیات (aesthetic sense)میں اضافہ ہوتا ہے۔
کہانیوں کے ذریعے مشکل اور مجرد تصورات(abstract concepts) کو سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔
کہانیوں کو کیسے پڑھایاجائے؟
کہانیوں کو پڑھانے اور پیش کر نے کے لیے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے چند مختصراً یہاں بیاں کیے جاتے ہیں۔
(
۱)کہانی سنانا: یہ ایک روایتی طریقہ ہے کہ ٹیچر کہانی خود پڑھ کر سناتا یا سناتی ہے اور بچے سنتے ہیں۔اس طریق¾ہ تدریس میں بچے صرف سنتے ہے۔اس طریقہ میں ٹیچرکو زبان، تلفظ اور حرکات و سکنات کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بچے اس ایک طرفہ عمل میں دلچسپی کم لینگے۔
۲(بچوں سے پڑھوانا:اس طریقہ میں ٹیچر کہانی سنانے سے پہلے بچوںکو تیاری کیلیے وقت دیتاہے اور بعد میں بچوں سے کلاس کے سامنے زور سے پڑھنے کے لیے کہتا ہے۔
۳ (کہانی پر غور: ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ٹیچر کہانی کو ریکارڈ کرکے کلاس میں بچوں کو ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے سنا دے۔سنانے سے پہلے بچوں کو کہانی سے متعلق سولات پہلے دینا چاہئے۔تاکہ بچے توجہ کے ساتھ سنے۔
۴( کہانی کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنا: ایک اور طریقہ جو آج کل بہت مقبول ہے وہ یہ ہے کی کہانی کو ڈرامے کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔جس میں بچے جسمانی لحاظ سے شرکت کرتے ہے۔ اس طریقہ میں ٹیچر اور طلبہ دونوں کو زیادہ محنت اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
۵(تصویری کہانی: طلبہ کو کوئی تصویر دکھا کر ان سے کہانی تیار کرنے کے لیے کہا جائے۔بچے اپنے تخیل استعمال کر کے کہانی تیار کرتے ہے۔ یا اس کے بر عکس سنائی گئی کہانی کو تصویری صورت میں پیش کرنے کو بھی کہا جاسکتاہے۔
۶(فلمی کہانی: آج کل بہت سی کہانیوں کو فلمایا گیا ہے ۔ اگر ٹی وی یا ملٹی میڈیا کی سہولت موجود ہوں تو بچوں کو دیکھایا جاسکتا ہے۔ اور بعد میں بچوں کے ساتھ اس کہانی پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔
کہانی پڑھاتے وقت کن باتوں کا خیال رکھا جائے؟
٭۔ کہانی پڑھانے سے قبل مقصد(objective) کا تعین ضروری ہے، یعنی کہانی صرف تفریح کے لئے نہ ہو بلکہ اس میں طلبہ کے علم (knowledge)، ہنر (skill) اور رویہ (attitude) میں بہتری لانا مقصود ہو۔
٭۔ کہانی کا انتخاب بچوں کی عمر اور ذہنی سطح کے مطابق ہو۔
٭۔ کہانی پڑھاتے وقت کہانی کا مرکزی خیال اور اخلاقی نکات واضح ہو اور بار بار طلبہ کی توجہ انکی طرف مبذول کیا جائے۔
٭۔ کہانی کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے سے قبل بچوں کو تیاری کے لیے مناسب وقت دیا جائے اور ٹیچر کو چاہئے کہ وہ تیاری کے دوران بچوں کی مدد کرے۔
٭۔ کہانی پڑھاتے وقت تمام بچوں کو سرگرمیوں میں حصہ لےنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خاص طور پر خاموش اور شرمیلے بچوں کو زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے تاکہ ان میں خود اعتمادی آجائے۔
الغرض کہانی یا قصہ گوئی جہاں تاریخی طور پر ایک اہم ذریعہءتعلیم رہا ہے وہاں جدید تحقیق نے بھی اس کو ایک مؤثر طریقۂ تدریس قرار دیا ہے۔ خاص طور پر پرائمری سطح پر کہانیوں کو نصاب کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتاہے۔ اخلاقی اور سماجی تعلیم میں کہانیوں کی اہمیت اور زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں بچوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی ایک اہم مقصد ہوتا ہے اور کہانیوں کو اس مقصد کے حصول میں ممد و معاون تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں ضروری ہے کہ کہانی کے مؤثر تدریس کے لئے ٹیچر ز یا والدین کے پاس مناسب علم،تجربہ اور مہارت موجود ہو۔

Thursday 13 December 2012

خواب"سنائیں تمھیں بات اک خواب کی"مظہرفریدی


خواب"سنائیں تمھیں بات اک خواب کی"مظہرفریدی
کل شب تھکن سے بدن چور تھا،لیٹا تو ،مدہوش ایسا ، مجھے اپنی کو ئی خبر نہ رہی تھی ،تخئیل کی پریاں مجھے ایسی وادی میں لے کے چلی تھیں،کہ جن کی فضاؤں نے بے سدھ کیا تھا ،خواب ایسی حالت ،وہ سپنے سہانے ،تو کیا دیکھتا ہوں!،فضائیں معطر،سورج کہ اپنی سپیدی میں خود بھی دھلا تھا، اورچرخِ کہن تھا شفاف ایسا کہ نیلا گگن ہو،خود نیل گوں روشنی سے جھجھکنے لگا تھا ، ہوائیں دور دیس کے سندیسے تھی لاتیں، شجر اور حجر دونوں مسرور ایسے،کہ دیکھے نہ پائے،تو بھی وہیں تھا ،مگر اک سنگاسن پہ  جلوہ نشیں تھا ،تیرے چار جانب حسینوں کا جھرمٹ، اپنے جِلو میں تجھے وہ لیے جا رہی تھیں،جاتے ہوئے تو ذرا دیر کوہی رکا تھا،تیرتی ہو ئی تیری نظریں ،نہ جانے کسے ڈھونڈتی تھیں، اچانک مجھے تو نے دیکھا ،تو حیران آنکھیں پرسکوں ہو گئی  تھیں،خاموش مسکان ہونٹوں پہ تیرے،بے چین نظریں دمکنے لگی تھیں ،کہ جیسے کوئی کنول کھل گیا ہو،تری اس ادا پہ ،میں بھی ذراسامچل سا گیا تھا ،کیا یہ واہمہ تھا؟
       یہ باتیں مگر ایک خواب کی ہیں،اس خواب نے مجھ کو یوں ہے بسایا،میں جاگتا ہوں مگرخواب میں،بظاہر میں ایک دیوانہ مجنوں،مگر میرے اندراک دنیا بسی ہے،جہاں سپنے سہانے بنتے رہے ہیں،جہاں خواب پریاں مچلتی رہی ہیں،مسلسل کئی سال سے ،وہی ایک خواب دیکھے چلے جا رہا ہوں،یا مجھ میں کوئی آ کے ٹھہرا ہوا ہے۔
       میرے خواب کی وہ سکھی سہیلی،کچے گھروندے ،گھروندوں میں پانی ،وہ گڑیا کی شادی،وہ شادی کی بارات میں غل مچانا،وہ ٹوٹےکھلونے،کھلونوں میں کھانا،مگر اپنے اپنے گھروں کو جو جانا،وہ گڑیا کا جھومر،وہ کنگن ،وہ مالا،ایک ایک گن کے ،ساری چیزیں چھپانا،وہ ہنس ہنس کے ساری کہانی ماں کو سنانا، وہ معصوم خوشیاں ،وہ معصوم جھگڑے،لڑنا جھگڑناآخر  منا نا،یہ باتیں مگر خواب سے بھی پہلے کی ہیں۔

میرااقبال.حیاتِ شاعر,مظہرفریدی


میرااقبال(حیاتِ شاعر)
۱۔نام:علامہ محمداقبال ہے۔                         ۲۔تخلص:علامہ محمد اقبال کاتخلص اقبال ہے۔
۳۔لقب: علامہ محمد اقبال کےا لقاب شاعرِمشرق،حکیم الامت اورمفکرِ  پاکستان ہیں۔
۴۔خطاب:حکومتِ برطانیہ نے انھیں "سر"کاخطاب دیا۔              ۵۔والدکانام"شیخ نورمحمد"تھا۔
۶۔والدہ کانام"امام بی بی"تھا۔                     ۷۔عربی اورفارسی "مولوی میرحسن"سے سیکھی۔
۸۔ایم اے گورنمنٹ کالج لاہورسے کیا۔     ۹۔لندن سے" بیرسڑایٹ لا"کی ڈگری حاصل کی۔
۱۰۔میونخ یونیورسٹی جرمنی سے "پی ایچ ڈی" کی ڈگری حصل کی۔
کچھ سوالات خود بھی بنائیں۔
جگنو
بنیادی تصورات:
                اللہ کی بنائی ہوئی کوئی چیز بھی حسن سے خالی نہیں ہے۔جگنو اورپروانہ دونوں ہی پتنگے ہیں لیکن خداکی  قدرت یہ ہے کہ دونوں متضاد صفات رکھتے ہیں۔جگنو روشنی رکھتاہے لیکن قربانی کاجذبہ نہیں رکھتا۔جب کہ پروانہ قربان ہوناجانتاہے لیکن روشنی پرقربان ہوتاہے۔ اس لیے دنیامیں موجودہرایک چیزمیں کوئی نہ کوئی خوبی موجودہے۔
سوال:پروانےا ورجگنومیں کیافرق ہے؟
جواب :پروانہ روشنی کو تلاش کرتاہے۔اورآخرکارروشنی کوتلاش کرکے اپنی جان قربان کردیتاہے۔یعنی پروانے میں جان  قربان  کرنے کا حوصلہ اورجذبہ موجودہے۔جب کہ جگنو خودروشنی ہے۔اسے روشنی کے لیے کسی دوسرے کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اس لیے علامہ محمداقبالؒ نے جگنوکوپروانے سے بہتربتایاہے۔چاہے روشنی کم ہے لیکن اپنی توہے۔
 سوال:دوسرے بندمیں شاعرنے قدرت کے کن کن کمالات کاتذکرہ کیاہے؟
جواب:دنیامیں اللہ نے ہرچیزکوحسن عطاکیاہے۔مثال کے طورپر
۱۔جگنو کوروشنی اورپروانے کوحرارت دی۔                                  
۲۔پرندوں کواچھی آوازدی۔
۳۔پھول کوحسن دے کرخاموش رہنے کا حکم دیا۔
۴۔ڈھلتے سورج کی وجہ سے آسمان پرسرخی ظاہرہوئی اورایک حسین منظر بن گیا۔
۵۔صبح کے منظرکومعصوم حسن دے کرشوخ دلھن کاروپ عطاکیا۔
۶۔شبنم کے قطرے کوسرخ پھول پرگراکرآئینہ بنادیا۔                   
۷۔درختوں کوسایہ اورہواؤں کواڑناسکھادیا۔
۸۔پانی میں بہنے کی صلاحیت رکھ دی اورموجوں میں بے چینی بھردی۔
۹۔جگنو کادن اس وقت شروع ہوتاہے جسے ہم رات کہتے ہیں۔کہ جگنو کے حسن کے اظہار لیے اندھیراہوناضروری ہے۔
سوال:شاعر نے سحرکوبانکی دلھن کیوں کہاہے؟
جواب:جس طرح دلھن  شوخی ومعصومیت  میں حسن کی علامت ہوتی ہے۔اسی طرح صبح کاحسن بھی شوخی اور معصومیت میں ایک الگ پہچان رکھتاہے۔دوسری بات یہ کہ لال چوڑایاشرم وحیاسے دلھن کے چہرے پرسرخی ہوتی ہے اسی طرح سبح سورج طلوع ہونے سے پہلے آسمان پرسرخی ظاہر ہوتی ہے۔اس لئے شاعر نے تشبہیہ دی ہے۔
خطاب بہ جوانانِ اسلام(نظم)
سوال :گردوں سے شاعرکی کیامرادہے؟
جواب:گردوں کے معنی ہیں "آسمان"لیکن اس شعرمیں شاعرمسلم قوم کی ترقی اوردنیاپرحکم رانی کاحوالہ دے رہاہے۔
سوال:پچھلے زمانے کے مسلمانوں کاکردارکیساتھا؟
جواب:پچھلے زمانے کے مسلمان سادہ تھے۔اورسادہ زندگی بسرکرتےتھے۔شان وشوکت کے باوجوداورحکم رانی میں بھی فقیری اوردرویشی کی زندگی بسرکرتے تھے۔اور انھوں نے دنیاکونہ صرف تہذیب وتمدن سکھایابلکہ اخلاق وکردار کاوہ اعلیٰ معیار قائمکیاکہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
سوال:مسلمانوں نے جب اپنے آباواجدادکاطریقہ چھوڑدیاتوتوان کاکیاحشرہوا؟
جواب:جب مسلمانوں نے اپنے آباواجدادکاطریقہ چھوڑدیاتو آسمان کی بلندیوں سے زمیں کی پستیوں میں گرگئے۔اوربزرگوں کی وراثت سے بھی محروم ہوگئے۔اوران کاعلمی سرمایہ بھی مغربی اقوام لے گئیں۔اس لیے مسلمان دنیامیں رسواہوگئے۔
سوال:شاعرکادل کس بات پردکھتاہے؟
جواب:اپنے آباواجدادکے علمی سرمائے کومغربی اقوام کے قبضے میں دیکھ کرشاعر کادل خون کے آنسوروتاہے۔
سوال :اس نظم میں مسلمانوں کی نوخصوصیات بیان کی گئی ہیں۔آپ ان خصوصیات کوترتیب وارنیچے لکھیے۔
جواب:     ۱۔تمدن آفریں                          ۲۔خلاقِ آئینِ جہاں داری                          ۳۔جہاں گیر              ۴۔جہاں دار
۵۔جہاں بان             ۶۔جہاں آراء             ۷۔صاحبِ کردار                       ۸۔متحرک(باعمل)                  ۹۔علم کے متلاشی
سوال: شعربطورعنوان:۵۷۱ء      تا             ۷۳۶ء
جواب:   
 ؎ غرض میں کیاکہوں وہ صحرانشیں کیاتھے 
جہاں گیروجہاں داروجہاں بان وجہاں آراء
سوال:شعربطورعنوان:۷۳۷ء      تا             ۱۱۵۰ء
جواب:                
    ؎ مگروہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی                                          
جودیکھیں ان کویورپ میں تودل ہوتاہے سی پارا
سوال:شعربظورعنوان:۱۱۵۱ء        تا             ۱۴۹۲ء
جواب:                     ؎ حکومت کاتوکیاروناکہ وہ اک عارضی شے تھی                                نہیں دنیاکے آئینِ مسلًم سے کوئی چارا
سوال:شعربطورعنوان:سولھویں صدی تاحال۔
جواب:                     ؎ گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی                               ثریاسے زمیں پرآسماں نے ہم کودے مارا
(اوپروالے چاروں سوالات کی  جوابی تفصیل کتابّ میرااقبالؒ) میں پڑھیں)۔
سوال: خطاب بہ جوانانِ اسلام(نظم)میں کس شعرمیں استعارہ استعمال کیاگیاہے؟
جواب:                   
  ؎ کبھی اے نوجواں مسلم تدبربھی کیاتونے                     
وہ کیاگردوں تھاجس کاہی توٹوٹاہوااک تارا
نوٹ:اشعار کی تشریح پہلے کرائی جاچکی ہے۔
٭سچ بولنے کاانعام،اس پرایک کہانی لکھنی ہے۔کہانی لکنھا کاطریقہ بتایاہواہے۔
تشبہیہ:
کیسی خصلت(خوبی یاخامی)کی بنیاد پرکسی ایک چیزکودوسری چیزکی طرح قراردینا(سمجھنا)تشبہیہ کہلاتاہے۔
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں                 
یاشمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
اس شعر میں جگنوکوشمع سے تشبہیہ دی گئی ہے۔
صنعتِ مرأ ۃالنظیر:
کسی شعرمیں ایسے الفاظ استعمال کرنا جوایک ہی مفہوم(بات) کی وضاحت کرتے ہوں، صنعتِ مرأ ۃالنظیر کہلاتاہے۔
مثال:      
توشاہیں ہے پروازہے کام تیرا                      
ترے سامنے آسماں اوربھی ہیں
اس شعرمیں شاہین کی مناسبت سے ،پروازاورآسمان کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
استعارہ:
لغوی معنی ادھارلینا،علم البیان میں اس سے مرادہے کہ کسی خوبی کواس طرح استعمال کرناکہ لغویمعنی اور اصطلاحی معنوں میں تشبہیہ کاتعلق ہو،استعارہ کہلاتاہے۔
مثال:      
؏کس شیرکی آمدہے کہ رں کانپ رہاہے      (رن کی معنی ہیں میدانِ جنگ)
اس شعر میں کسی بہادر)حضرتِ امام حسینؓ) کو تشبہیہ کے بغیرشیرکہاگیاہے۔یعنی اس کانام استعمال کرنے کی بجائے اسے شیر کہ دیا گیاہے۔اسے استعارہ کہتے ہیں۔
دعا
بنیادی تصور:
اے اللہ !مسلمانوں کے دل محبت اورمودًت سے بھردے۔ان میں اپنی،اپنے رسولﷺ کی اوردین کی اطاعت کاجذبہ پیداکردے۔علم کی جستجواورعمل کاشوق عطافرمادے۔اس بھٹکی ہوئی امت کوپھرسے اپنے راستے پرچلنے کی توفیق عطافرما۔اپناقرب عطاکر۔(آمین)۔
سوال:شاعراللہ تعالیٰ کوکس نا م سے مخاطب کرکے دعامانگ رہاہے؟
جواب:                     ع یارب دلِ مسلم کووہ زندہ تمنادے
شاعراللہ تعالیٰ کو"یارب"کے نام سے مخاطب کرتاہے۔یارب کے معنی ہیں پالنے والا،پروردگار۔کیوں کہ تمام جہانوں کوپالنے والاہے۔چاہے کوئی اسے مانتاہے یانہیں مانتا۔
سوال"میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلِستاں کا"سے شاعرکی کیامرادہے؟
جواب:                     ع میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
شاعر نے اپنے آپ کوایک خزاں رسیدہ(اجڑاگلستاں)کابلبل کہاہے۔بلبلِ نالاں سے مراد خودشاعرہے۔اوراجڑے گلستاں سے مراد زوال پذیرمسلم امت ہے۔بلبلِ نالاں ایک استعارہ ہے۔اسی طرح اجڑاگلستاں بھی اک استعارہ ہے۔
سوال:نظم دعامیں کن کن اشعارمیں صنعتِ تضادپائی جا؂تی ہے؟
جواب ۔              ؂    
پھروادیٔ فاراں کے ہرذرے کوچمکادے                    
پھرشوقِ تماشادے،پھرذوقِ تقاضادے
محرومِ تماشاکو،پھردیدۂ بینادے  
دیکھاہے جوکچھ میں نے اوروں کوبھی دکھلا
بھٹکے ہوئے آہوکوپھرسوئے حرم لے چل 
اس شہرکے خوگرکوپھروسعتِ صحرادے                    
سوال: نظم دعا میں شاعرنے کل نودعائیں مانگی ہیں؟آپ وہ دعائیں ترتیب وارلکھیں۔
جواب: :علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے لیے یہ دعائیں مانگی ہیں۔
۱۔زندہ تمنا                                ۲۔دل کی زندگی                         ۳۔روح کی بے چینی                    ۴۔وادیٔ فاراں کے ہرذرے کوچمکانا(مسلمانوں کوپھرعروج دینا)                     ۵۔دیکھنے کاشوق                         ۶۔مانگنے کی لگن                         ۷۔جوکچھ اس(شاعر)نے دیکھاہے اوروں کوبھی دکھانے کی خواہش                               ۸۔بھٹکی ہوئی مسلم امت کوایک مرکزپراکٹھاکردے۔                   ۹۔شہرکے عادی کوصحراکی مشکلات برداشت کرنے کاحوصلہ۔
سوال:نظم  دعاکے وہ اشعارلکھیں جن میں ایک سے زیادہ دعائیں مانگی گئی ہیں۔
جواب:                     پھروادیٔ فاراں کے ہرذرے کوچمکادے                         پھرشوقِ تماشادے،پھرذوقِ تقاضادے
 یارب دلِ مسلم کووہ زندہ تمنادے                       جوقلب کوگرمادے،جوروح کوتڑپادے
پھروادیٔ فاراں کے ہرذرے کوچمکادے                        پھوشوقِ تماشادے،پھرذوقِ تقاضادے
سوال:نظم دعاکاوہ شعرلکھیں جس میں استعارہ استعمال کیاگیاہے۔
جواب:                     میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
                                تاثیرکاسائل ہوں ،محتاج کوداتادے
بلبلِ نالاں،شاعرنے اپنے لیے استعمال کیاہے۔اوراجڑے گلستاں ،زوال پذیرامت کے لیے استعمال کیاہے۔
جوابِ شکوہ
سوال پہلے بندمیں مسلمانوں کوکس چیزکاطعنہ دیاگیاہے؟
جواب:اے مسلمانو!تم دعویٰ کرتے ہوکہ ہم مسلمان ہیں۔پوری "نظم شکوہ"کوسامنے رکھ کر،لیکن تم کہیں سے،اورکسی بھی عمل سے مسلمان دکھائی نہیں دیتے ہو۔تمھاری شکل وصورت عیسائیوں جیسی،تمھاری معاشرت ہندوؤں جیسی،تمھارے عمل دیکھ کریہودی شرمندہ (بہت برے)ہوجاتے ہیں۔تم اپنے آپ کومسلمان کہلوانے کی بجائے،سید،مرزااورافغانی کہلواناپسندکرتے ہو۔اب کوئی چیزتمھاری اپنی نہیں پھرتم کیسے مسلمان ہو۔لہٰذامسلمان دنیامیں نہیں رہے اورتم کچھ اورتوہوسکتے ہومگرمسلمان نہیں ہے۔
سوال:دوسرے بندمیں پچھلے دورکے مسلمانوں کی کیا خوبیاں بیان کی گئی ہیں؟
جواب:پچھلے دور کے مسمان کی مندرجہ ذیل خوبیاں بیان کی گئی ہیں۔
۱۔کفر(جھوٹ)کے لیے مسلمان ننگی تلوارتھے۔                           ۲۔اس کی زندگی بہترین عمل کانمونہ تھی۔
۳۔وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرتاتھا۔                                             ۴۔وہ خداسے ڈرتاتھا،دنیاسے نہیں۔
سوال نمبر۳۔تیسرے بندمیں مسلمانوں کی کیاخامیاں بیان کی گئی ہیں۔
جواب۔    ۱۔ہرکسی نے سستی اورکاہلی کواپنارکھاہے۔                  
 ۲۔حضرتِ علیؓ جیسافقر ،تم میں نہیں ہے۔                    
۳۔حضرتِ عثمانؓ جیسی غنا(سخاوت) تم میں نہیں ہے۔                   
 ۴۔تمھیں اپنے آباواجدادسے کوئی واسطہ(تعلق)نہیں ہے۔
سوال:جوابِ شکوہ کے بند نمبرایک سے خیالات کی مددسے کہانی لکھنا۔
عام مشہورہے کہ مسلمان دنیاسے ختم ہوچکے ہیں۔توکیاکبھی مسلمان دنیامیں موجودتھے؟کیوں کہ تمھاری شکل عیسائیوں جیسی،تمھاری معاشرت(رہن سہن)ہندوؤں جیسا اورتمھاراکرداریہودیوں سے بھی بدترہے۔تم ذات پات اوربرادریوں(قبیلوں)میں بٹ کرسید،مرزااورافغانی کہلواناپسندکرتےہو۔تم سب کچھ بنے مگرتم میں مسلمانوں والی کون سی خوبی ہے؟
کہانی:
ایک جدیداورنئے خیالات کادل دادہ نوجوان مسلم بڑے فخریہ اندازمیں یہ کہہ رہاتھا"ہم مسلمان دنیاکی عظیم ترین قوم ہیں۔ہمارے آباواجدادنے دنیاکے ہونے میں حکومت کی ہے۔"ہم اللہ کے نائب ہیں۔خلیفۃ اللہ ہیں۔مسجودِ ملائک ہیں۔بہترین امت ہیں۔احسن التقویم ہیں۔اچانک اس کے ضمیرنے اسے جھنجھوڑا،اے ناداں!ٹھر،ذراسوچ،مسلم قوم وملت پرنازکرنے سے پہلے یہ توسوچ لےکہ مسلمانوں والی کون سی خوبی تجھ میں موجودہے۔یون دل ودماغ میں ایک جنگ چھڑگئی اورمکا لمہ ہونے لگا۔دل نے کہا،اگرمسلمان ہوتو،تمھارااخلاق، کردار، افکار اورتہذیب وتمدن مسلمانوں والاہوگا۔تمھارااٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا،چلناپھرنا، پہنناسونا،عادات واطوار،رسومات،خیالات،تقافت،کلچر،مسلمانوں والاہو گا۔لیکن مجھے توتمھاری کوئی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی۔قول وفعل غیرمسلموں سے بدترہے۔امارت واقتدارکے نشے میں کھوکرتم دنیادار بن چکے ہو۔اپنے آپ کومسلمان کہلوانے کی بجائے سید،مرزااورافغانی کہلوانے میں فخرمحسوس کرتے ہو۔ذراسوچو!تم مسلمان ہو۔ذہن میں ایک ہل چل مچی،دماغ کے پاس نہ کوئی دلیل ،نہ جواب۔لہٰذا دل سے معذرت کی اورتوبہ کاطالب ہوا۔میں اپنے اندراپنے اسلاف کے اخلاق وکردار کے عمل کورائج کرکے دکھاؤں گا۔اورایک سچامسلمان بنوں گا(آمین)۔
سوال:جوابِ شکوہ کے بند نمبردو سے خیالات کی مددسے کہانی لکھنا۔
جواب۔
سوال:      ع            "ہرمسلماں رگِ باطل کے لیے نشترتھا"
بتائیے اس مصرعے میں کن چیزوں کواستعارۃًاستعمال کیاگیاہے۔
جواب:     ۱۔        رگِ باطل                کفر           ۲۔نَشتر                     مسلمان
کیوں کہ مسلمان کفر کے لیے خنجریاتلوار کی حیثیت رکھتاہے۔اس لیے یہ استعارہ استعمال کیاگیاہے۔