Sunday 16 December 2012

اندرسے آدمی آج بھی درندہ ہے،مظہرفریدی


   اندرسے آدمی آج بھی درندہ ہے
معصوم عفتوں کی قبا چاک ہے،چٹکتی کلیوں کی حیاچاک ہے،کھلتے غنچوں کی رداچاک ہے،تھرکتے بدن کی ہراداچاک ہے،شامِ الم ہی نہیں بادِ صباچاک ہے،کوہ ودمن ہی نہیں صحراچاک ہے،خزاں ہی نہیں بہاراورفضاچاک ہے،چاک دامانی پہ لکھاہواچاک ہے،پھربھی بے حس، مردار کھانے والوں نے درندگی کی انتہا یہ ہے کی ،مظلوم ،مجبور،مقہور،چور چور ،تنِ آدمی کونوچتے رہے،امنِ عالم کےنعروں تلے،دہشت و درندگی کی حدیں پار کیں،کہیں ملک کی سرحدوں میں زہر گھلنے لگا،حواکی بیٹی بدن کے ایک ایک تار کوچننے لگی،یوں بھی درندہ صفتی ابھرنے لگی۔
میرے شعورنے جب آنکھ کھولی تومیں اکیسویں صدی میں تھا۔میرے سامنے روشنیاں ہی روشنیاں تھیں۔قمقموں کی دیوں نے یہاں سے وہاں تک، نیلے نیلے ،پیلے پیلے،اودھے اودھے،پیرہن پہن رکھے تھے،فلک بوس عمارتیں تھیں،چلتی مشینوں کا سیلاب تھا، پرندوں کی طرح اڑتی پھرتی تھیں اڑن طشتریاں ،کیمروں میں قید تھیں ان گنت شکلیں ،تصویروں میں رقصاں کئی پیکروں کے خطوط،سینہ ساگر میں آبدوزوں سے بھونچال تھے،رنگ تھے ،ہرانگ میں فرہنگ تھے، میری زباں توگنگ تھی،مدہوش تھا،یوں ہی بے دھیانی  میں آگے بڑھا،توڈش انٹینا، کمپیوٹر، اورموبائل کی دنیاآباد تھی، اور پھرموبائل کمپیوٹر دیکھا دنیابھرکی معلومات،اوررابطے آپ کے ہاتھ میں تھے۔یہ خوش کن مناظردیکھ کرجی سے بوجھ اتر گیا ،میں سمجھ گیا کہ یہ عنوان کسی قنوطی یاسادیت پرست کے ذہن کی پیداوار ہے،کہاں جنگل کاقانون ،کہاں غاروں کی زندگی ،کہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،کہاں اپنے ہی بھائیوں کاگوشت نوچتے وحشیانہ رقص کرتے اجڈجنگلی ، کہاں اپنے محسنوں کو آتش و ہن میں ڈالنے والے ،اورکہاں آج کامہذب معاشرہ اورترقی یافتہ انسان ،تودل سے یہ سوال اٹھا،کہ دنیا شانت اور پرسکون ہو گی، اگرانسان کی وہ وحشت اور بربریت ختم ہوچکی ہو گی،توخیال آیاطاقت کادیوتا ، اہرمن اور یزداں بن کردل میں کیوں بیٹھ گیا،اچانک چشمِ تصور میں یونان کی تہذیب کاایک منظر چلنے لگا،پوری تہذیب کے حلق میں زہرتھا ،اگر درندگی ختم ہوگئی تھی تووہ معصوم بچی کہ جس کاگناہ صرف یہی تھاکہ وہ بیٹی یابہن تھی، صحراکے ذروں سے اس کی بے نور آنکھیں پوچھتی تھیں ،مجھے کس جرم کی پاداش میں زندہ گاڑھاگیا،اچانک ہوانےتاریخ کے اوراق الٹ دئیے،ایک میدان میں موت کاکھیل تھا، اک طرف آدمی اک طرف جنگل کاشیرتھا،تماشائیوں کے قہقہے امنڈتے ہوئے،اہلِ یونان آزاد لباس کی قید سے ،مصروف تھے اپنے اپنے کھیل میں،کہیں زندہ کنیزوں کو بھونا گیا، کہیں دیوی کے چرنوں میں معصوم اٹھتی جوانی سلائی گئی،داسیوں کومندروں کی زینت بنایا گیا،اچھوت اور شودر لوگوں  کے کانوں کوابلتاسیسہ پلایاگیا،باوفا بیوی تو خاوندکے ساتھ ستی ہوئی اورجوبچ رہی سر اس کا منڈوایاگیا،اورباقی عمرنشانِ عبرت بنایاگیا ،اچانک ایک تیزآواز نے سارے مناظر دھندلا دئیے،دریا کنارہ ہے، العتش العتش، معصوم حلقوم میں،ترازو ہواتووہ تیرتھا ، جنابِ صدر سچ ہے کہ 'اندرکاآدمی آج بھی درندہ ہے'۔ہنستے بستے شہرہیں، اک طرف سروں کے مینارہیں،وہ بھی جھنوں نے اپنے ضمیرکاسودانہیں کیا،وہ بھی جوشہ کے وفادار تھے،اندرکے وحشی پن نے شہروں کوکھنڈر  بناڈالا،جنابِ صدر ۔ اک نظر آج کی تہذیب کاریشمی لبادہ بھی دیکھیں چلیں،اپنی مرضی سے جینے اورقانون فطرت پہ چلنے کی ایسی سزا،جبر کی اس شکل کو دیکھ کر ظلم خود بھی لرزنے لگا،وہ بھی امن کی گود میں بیٹھ کر،افغانستان پربموں کی بارش برسائی گئی،عراق ہے غلطیدۂ خاک وخون ،اور دنیاکی واحد سپرپاور جوتہذیب کی دعوے دار ہے،فرعونی طرزِ عمل سے معصوم انسانیت کے خون سے ہولی کھیلتی رہی،اوراس کالے پالک،جو انسانیت     کے جسم کاناسور ہے، اوردوسری  طرف مظلوم ،مجبور عزتوں ،عفتوں کی قربانیاں دے کربھی باغی بنے،یہ حالت جودیکھی تو وادیوں  کی اُور چل دیا ممکن ہے وہاں ہوسکوں کا نشاں،وادیوں کی سرزمیں ،جھرنوں  کے تانوں کی امیں،غیچے اورکلیاں تھیں مکیں،وہاں بھی نم تھی چشمِ سرمگیں ، چناروں کے مسکن سلگتے ہوئے،لٹی عفتوں کی جنازہ گاہ تھے، معصوم قلقلوں کامدفن بنے،یہ اعلان تھے کررہے،یہ سچ ہے کہ 'اندرسے آدمی آج بھی  درندہ ہے'۔
سرمقدس پاک،بزم آب وگل کی روشنی                                        جسم انبارِ غلاظت،پست،بدفطرت،'دنی'
یہ توسب کچھ ہے بجا،لیکن بحدِ جاں کنی                                           افتراقِ جان وسر کرب بھی ہے دیدنی
کرب ،روحانی اذیت،روح  کی پیہم جلن                                          اک سفرموہوم سابے جادہ ومنزل تھکن
سرکی زینت ہوگئے،ایسے ہی کچھ رنگیں پر                                      اے خدائے بحر وبر
جدیدتہذیب نے اندازبدلا،معصوم انسانیت کوبے وقوف بنایا،وحشی اورجنگلی قانون ،کیمونزم،شوشلزم،پرویزی حیلوں،سامری ہتھکنڈوں ، مادیت پرستی کی چالوں ، صنعتی ترقی کے جالوں،انسانیت پرستی کے نام نہاد نعروں،سے ایسے گھناؤ نے کھیل کھیلے،کہ آدھی سے زیادہ دنیاکوپس ماندہ  رکھ کر جنگل کے بادشاہ کی طرح پوری دنیاپرحکومت کرنے کاواب شرمندہ کرنے کے چکرمیں ،مغربیت نے جنسیت کے ایسے قوانین  بنائے  اورجبلی عفریت کوایسی ہوادی کہ مردوزن اس کی چکی میں پستے ہوئے بے بس پنچھی کی طرح سوے کے اس پنجرے میں پھڑپھڑارہے ہیں۔جنابِ صدر :وہ درندگی جوجنگل میں ناچتی تھی سب کے سامنے تھی ، وہ لوگ اجڈ ،غیرمہذب ،وحشی تھے لیکن مکار اور دھوکاباز نہیں تھے،ان اجڈ وحشیوں کے بھی اُصُول تھے،برہنہ تن تھے لیکن جبلت میں برہنگی نہیں تھی،لیکن انسانیت کابہروپ بھرکر آج کاوحشی آدمیت کالبادہ سجائے،معصوم آدمیت کوتارتارکررہاہے، سسکتی انسانیت کی آنکھیں خشک ہیں،بلکتی معصومیت کی نظریں پتھرا گئی ہیں،کوئی مسیحا،کوئی احسنِ تقویم کا نمونہ آئے اور ظلم  کوظلم کہے،جبرکوجبر،وحشی کووحشی کہے کہ بے حس ہوتی روحیں اب زبانِ حال سے پکارتی ہیں۔
میرے خدایا!
میں زندگی کے
عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
یہ میراچہرہ ،یہ میری آنکھیں ،
بجھے ہوئے سے چراغ جیسے ،
جوپھر سے جلنے کے منتظرہیں

No comments: