Friday 25 March 2016

پاکستان کے قومی مسائل

پاکستان کے قومی مسائل
افراد (لوگوں) کے ملنے سے معاشرہ بنتا ہے۔اور معاشرے ہی قوم یا ملک کا وجود بنتے ہیں۔دنیا میں قوم کے متعلق دو بڑے نظریات پائے جاتے ہیں۔
1۔عقیدے کی بنیاد پر۔مثال:مسلمان(اسلام کی بنیاد پر)، عیسائی (عیسائیت/نصرانیت) کی بنیاد پر،انھیں نصرانی بھی کہا جا تا ہے۔ ہندو :ہندو مت کی بنیاد پر ،یوں ،ان کا ملک ہندوستان  کہلاتا تھا۔
2۔نسل  یا ملک کی بنیاد پر۔چینی قوم ،چین میں رہنے والے لوگ۔جاپانی:جاپان میں رہنے والے لوگ۔انگریز: انگلستان میں رہنے والے لوگ۔جرمن: جرمنی میں رہنے والے لوگ۔فرانسیسی: فرانس میں رہنے والے لوگ۔پاکستان میں رہنے والے لوگ پاکستانی کہلاتے ہیں۔لیکن پاکستان میں عموماً مسلمان رہتے ہیں۔مسلمانوں کے علاوہ ،پاکستان میں ہندو،عیسائی اور کچھ دوسرے مذہب کے لوگ بھی آباد ہیں۔اس لیے ہم پاکستانی سے پہلے مسلم امہ ہیں۔
کسے علاقے کے لوگوں کا قوم یا اس ملک کی پہچان بننا،دراصل ملکی یا قومی اتحاد اور اتفاق پر منحصر ہے۔اگر لوگوں کا اپس میں اتفاق نہیں ہو گا۔وہ ایک ملک میں رہ کر بھی اس ملک کے باشندے نہیں بن سکیں گے۔ملک ہمیشہ افراتفری کا شکار ہے گا۔اس کے علاوہ جو مسائل پریشانی کا سبب ہیں ۔درج ذیل ہیں۔لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم رہائش(مکان)،روٹی کپڑا اور صحت(علاج) ہیں۔
·         قیام وطعام ،سب سے اہم ضرورت گھر یعنی رہائش ہوتی ہے۔ گھر بن جانے کے بعد سب سے پہلے جو چیز پریشان کرتی ہے وہ کھانا یعنی خوراک ہے۔یعنی خوراک،کھانے پینے کی اشیا کو ہونایا کھانے پینے کی اشیا کہاں سے آئیں گی؟باعزت قیام کے بعد باعزت طعام اور یہ دونوں چیزیں ریاست(حکومت/ملک) کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔طعام کے ساتھ پانی کا لفظ جڑا ہوا ہے۔پاکستان میں 60 فی صد سے زیادہ آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت نے اس مسئلے کی طرف کوئی خاص توجہ بھی نہیں دی۔
·         روز گار(بے روزگاری کے مسائل) کے مسائل ہیں۔باعزت روزگار کیسے میسر ہو؟حکومت /ریاست ایسے اقدامات کرے کہ ہر کسی کو باعزت روز گار کے وسائل حاصل ہوں۔اگر کھانے پینے کی اشیا عام آدمی کی پہنچ میں ہوں گی،اور ہر شخص کو روز گار حاصل ہو گا تو لوگ مطمئن ہوں گے۔حکومت کو ایسے ذرائع   پیدا کرنے چاہیں کہ لوگوں کو روز گار کے بہتر مواقع حاصل ہوں۔ بد قسمتی سے عام آدمی کو بہتر روزگار کے مواقع حاصل نہیں ہیں۔
·         جب انسان قیام اور طعام سے مطمئن ہوتا ہے تو اسے صحت یعنی علاج معالجہ کی ضرورت پڑتی ہے۔جب عام آدمی کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو اس علاج کے لیے ہسپتال جانا پڑتا ہے۔زندگی کی اہم ضرورتوں میں تیری اہم ضرورت علاج ہے۔بیماری کی صورت میں سب سے زیادہ اہمیت علاج کی سہولیات کی ہوتی ہے۔پاکستان میں علاج معالجے کی سہولیات صرف بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ ڈاکٹر  چھوٹے علاقوں میں نہیں جانا چاہتے۔اور حکومت اس مسئلے کو ابھی تک سنبھال نہیں سکی۔
·         انسان جب بنیادی ضروریات سے مطمئن ہوتو سب سے اہم اور قومی ترقی کا سنگِ میل" تعلیم" ہوتی ہے۔تعلیم سے قوم مہذب بنتی ہے۔اور تعلیم سے ہی قوم دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کرتی ہے۔انسان کو باقی تمام مخلوقات پر فوقیت بھی "علم" کی وجہ سے حاصل ہوئی۔اور فرشتوں نے آدمؑ کو سجدہ کیا۔پاکستان میں تعلیمی نظام کئی مسائل کاشکار بھی ہے اور طبقاتی تفریق کا سبب بھی ہے۔اور غربت  کی زیادتی کی وجہ سے عام آدمی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتا۔دوسرا پمارا تعلیمی نظام اور طریقہ کار اور اعلیٰ اداروں میں داخلے کا نظام اس قدر آلودہ ہوچکا ہے کہ عام آدمی اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت زیادہ پریشان ہے۔
·         توانائی کے ذرائع(بحران):پاکستان میں پانی بھی توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ڈیموں کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ قدرتی گیس اور بجلی ہے۔لیکن  موجودہ وسائل بہت کم مقدار میں ہیں۔پوری قوم پچھلی ایک دہائی سے مسائل کا شکار ہے۔جس کی وجہ سے روز گار اور  دوسری تمام اہم صنعتیں(فیکڑیاں) بند پڑی ہیں یا مسائل کا شکار ہیں۔
·         بدعنوانی(اختیارات کا ناجائز استعمال،رشوت ستانی،ذخیرہ اندوزی،بے ایمانی وغیرہ):ہر شعبے میں قومی وسائل کا  بے دریغ استعمال ، نااہل لوگوں کی تقرری،اقربا پروری،اہل لوگوں کا حق مارنا،جس وجہ سے ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔بدعنوانی سے چور بازاری جنم لیتی ہے۔
·         دہشت گردی(خوف کی فضا):انسان کے مہذب ہونے کا دعویٰ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔اپنے آپ کو مہذب کہلانے والی قوموں یا ملکوں نے دنیا میں انسانیت پرستی اور امن کے نام پر ایسے غیر انسانی کام کیے ہیں کہ ان کے مقابلے میں جنگل کا وحشی اور غاروں کا باسی معصوم دکھائی دیتا ہے۔اس دور میں تو ایک دو مرتے تھے آج امن کے نام پر ملک نیست ونابود کردیے جاتے ہیں۔جس سے عام لوگوں اور پس ماندہ قوموں میں انتقامی جذبات پروان چڑھتے ہیں۔لیکن "قہرِ درویش بر جانِ درویش"لہٰذا وہ وگ اور زیادہ پستی میں گر جاتے ہیں۔اور چند کم فہم لوگ انھی طاقتوں کے آلہ کار بن کر اپنے ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
·         آلودگی(صاف ماحول کا خرب ہونا،ناخالص چیزوں کا شامل ہونا):جہاں دنیا میں ہر سو گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں اسی طرح ہمارا اندر بھی تعفن زدہ ہے۔ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔زمینی آلودگی،فضائی آلودگی،آبی آلودگی ۔پھر اخبارات،رسائل،ٹی وی،انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا  نے اخلاقی آلودگی کی انتہا کردی ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ "کوئی بُری چیز،بُری چیز نظر نہیں آتی"۔جس سے روح مفلوج ہو گئی۔اور بغض عناد ،حرص وہوس نے پہلے ہی انسانیت کو بے حال کر رکھا تھا۔اب تو حد ہی ہوگئی۔انسان کو باہر کی آلودگی کے ساتھ اندر کی آلودگی سے نجات پانے کے لیے بہتر اقدام کرے۔ ایٹمی دوڑ میں زمین کے ساتھ خلا کو بھی خطرے میں ڈآل دیا۔اور اووزون کی تہہ میں شگاف پڑ گیا ۔ابلیسیت کو عفریت انسان کے کھوکھلا کر رہا ہے۔اب انسان کو سوچنا ہے۔
·         دھوکا دہی(مکر وفریب)۔۔۔۔سوشل میڈیا کی سہولت کے بعد دھوکا دہی کے ایسے حیران کن طریقے دریافت ہوئے کہ عقل خود پریشاں ہے،کہ اسے کیا کہیے!؟اسی طرح اے ٹی ایم ،کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے اجرا کے بعد دھوکا  دہی کے نئے طریقے سر ابھارنے لگے ہیں۔مختصر یہ کہ انسان پریشان ہے اور شیطان مطمئن۔
·         لاقانونیت(قانوں کا احترام نہ کرنا):طاقت اور طاقت ور نے ہمیشہ دنیا کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے۔ہر وہ عمل جو انسان کی بھلائی کے لیے شروع ہو تا ہے۔اپنے اندر احتسابی کم زوریوں کی وجہ سے "منظم استحصال" کا روپ دھار لیتا ہے۔صرفاور صرف اللہ کا قانون ہی ایک ایسا دین فطرت ہے جو انسانیت کی فلاح اور بقا کا ضامن ہے۔
·         تعصب:سیاسی،مذہبی،لسانی،علاقائی،گروہی،ذات پات وغیرہ۔جب انسان اتنی زیادہ  نفرتوں اور فرقوں میں بٹا ہوا ہو تو معاشرتی ربط اور تعلق کم زور پڑ جاتا ہے۔محبت اور اخوت نہیں رہتی ۔ یوں انسان ایک دوسرے سے دور ہو جاتا ہے۔عصبیت احساسِ برتری سے جنم لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان مسائل کاحل صرفیہ ہے کہ ہرشخص اپنے آپ  کو ٹھیک کرے۔
دوسروں کی اصلاح کی بجائے اپنی اصلاح کری۔