Sunday 10 February 2013

شکیب جلالی فکروفن۔میراوجودہے ورنہ اب تک ایک سوال،مظہرفریدی


میراوجودہے ورنہ اب تک ایک سوال۔شکیب جلالی فکروفن
میں عالمِ استغراق میں گم،سوچوں کے جال میں جکڑا،اپنے آپ سے دست وگریباں،اپنی  ہی ذات  کے آئینے میں گم تھا،کہ تین مسافر مرے قریب سے گزرے،لاشعوری طورپرشعوران کی آہٹ کے پیچھے چل پڑا۔انھوں نے جوکچھ کہاآپ بھی سن لیجیے(شکیب کی نظم زاویے)۔:
پہلابولا:    دیکھ لوتن پہ خون کی فرغل،خون کی شال۔(یہ ایک خونی/قاتل ہے)۔
دوسرابولا: یہ توخزاں کاچاندہے،گھائل،غم سے نڈھال۔دنیاکے غم کاماراہے(کچھ غمِ دنیا،کچھ غمِ جاناں)۔
تیسرابولا"اندھیارےکے بَن  میں جیسے شب کاغزال۔یہ آہوئے شب ہے۔جواپنے وجود کی تنہائی اوراندھیروں سے سمٹ کریہاں آن چھپاہے۔
وہ خود تھے،اپنے اپنے غم سے نڈھال،جبرکی چکی میں پستے  بدحال،ان کی سوچوں میں عکس تھا ،ان کی اپنی روح کا،اپناتھاجنجال۔کیوں کہ شکیب تواب بھی کہہ رہاہے:"میراوجود ہےورنہ اب تک ایک سوال"۔
"انفرادیت پسند"میں شاعر کہتاہے کہ انساں کی حقیقت کیاہے،"ہم ہیں موجود سویہ بھی کیامعلوم"۔اس کے باوجودانساںاتراتاپھرتاہے۔اور دوسروں کوکچھ نہیں سمجھتا!
نظم "پاداش"میں شکیب جلالی ایک عجب اندازسے خوب صورت پیغام دیاہے۔اگر موسِم(موسموں کے ضبر)،تیزدھارپانی کی رفتار(شوکتی دھاریں، تلاطم خیزموجیں) پتھروں کو پاش پاش کرنے کی بجائے،انھیں مدھر گیت سناکر، ان کے نوکیلے کونوں کوچکنی گولائیں میں بدل سکتے ہیں۔تو ، تُونے جس پتھرکوناکارہ،کم قیمت،بے ڈول اورانگھڑسمجھ کرپرانی سنگلاخ چٹانوں پردے مارا،اوراس کے وجودکے ریزے چاروں بکھرگئے تھے۔تم ادائے بے نیازی سے چل پڑے لیکن،اس پتھرکی سلگتی ہوئی چنگاریاں ، جذبِ  محبت سے مجبورہوکرتمھارے پاؤں کابوسہ لے بیٹھیں تواب چیختے کیوں ہو؟اوراب یہ  پتھرکون ہے۔۔۔۔۔؟نظم"اندمال"میں دیکھیے:
کبھی اس سبک روندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمھیں کیا خبر ہے
وہاں ان گنت کھر درے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم رسیلے مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کی ادا سونپ دی ہے
وہ پتھر نہیں تھا
جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر
پرانی چٹانو ں سے ٹکرا کے توڑا
اب اس کے سلگتے تراشے
اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں
تو کیوں چیختے ہو؟                         ص441
محبت کوبہ اندازِ دگربیان کیاہے۔اوراتنے خوب صورت تمثیلی اندازمیں دل کاعندیہ پہنچایاہے۔ اگرتم ایک نظرِ التفات سے،ایک موہوم سی مسکاہٹ سے،نرم لہجے میں بات کرتے توکیاایک انسان پیارسے محبسِ ذات میں بکھرنے اورلخت لخت ہونے سے ،بچ نہ جاتا۔اگریہ کام موسموں کے جبراور موجِ طوفاں سے ہوسکتاہے کہ ایک کھردرے پتھرکوسڈول کردیں۔تو کیاتم سے۔۔۔۔۔!؟اب اپنے پاؤں میں چبھے شراروں کوچنو!۔دراصل اس نظم کے دوحصے ہیں۔ایک حصے میں فطرت کے مناظر اورعلائق کو تمثیلی انداز میں فاعل،مفعول دکھایاگیاہے۔اورکس طرح ایک نوکیلا پتھر خوب صورت شکل وصورت میں ڈھل جاتاہے۔دوسراحصہ ' وہ پتھر نہیں تھا')شدتِ غم سے بھی ہوجاتے ہیں پتھرچہرے) سے شروع ہوتاہے۔لیکن اسے بے وقعت سمجھ کراس پہاڑوں پرمارکرپاش پاش کردیا جاتاہے۔اوراس سنگ ریزے اورچنگاریاں دورتک بکھرجاتاہیں۔اب انداز بے پروائی،اوردل ربائی سے جووہ شعلہ اندام خراماں خراماں ،بے نیازانہ چلتاہے توانھیں بکھرے ہوئے ریزوں میں سے کچھ سلگتے ہوئے ریزے اس کے پاؤں میں چبھ جاتے ہیں۔جوایک لاشعوری کراہ سے بدل جاتے ہیں۔ شاعرکہتاہے کہ وہ پتھرنہیں تھا۔لیکن تم نے اسے اس حال میں پہنچایا،اب اس کانتیجہ بھی بھگتو!اب چیختے کیوں ہو؟
شکیب کی ایک اورنظم"یاد"جو اسی خیال کوآگے بڑھاتی ہے۔
رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چیر گئی                              ص445
اس نظم میں کچھ رمزوایماہیں۔کچھ اشارے ہیں،جوتلازمے کی صورت ،ایک واقعہ کوتمثیلی اندازمیں بیاں کرتے ہیں۔لیکن اس مختصرنظم میں ہڈبیتی کوجگ بیتی میں تبدیل کردیاہے۔محبت اورانا(عزتِ نفس) کالطیف احساس ،جب انساں خاموشی سے مقتل میں سج جاتاہے۔
'لڑکھڑاتے جھونکے'سے اچانک'سنگِ سرخ'پر'آئینہ'گرکرچورچورہوگیا۔بظاہریہ ایک معمولی سی بات تھی۔یااس جھونکے کی ایک غیرمحسوس لغزش، مگراس آئینے کی کرچیاں دل کو خون آلودکرگئیں۔یعنی اندازِمحبوبانہ کی  مست خرامی یاایک اندازِ بے نیازانہ کے نتیجے میں ہمارادل (احساس،جذبِ محبت، عزتِ نفس کچھ کہہ لیجیے) ایک قاتک سنگلاخ پتھر پر گرپڑا،اوریوں جوبھی کچھ تھا ریزہ ریزہ ہوا۔اب اس مست خرام پیکرِحسن کوتوکیاہوناتھا؟ مگراپنی اس پذیرائی اورشکستگی کے بعد ردعمل پر ایک محب گم نام کادل زخم آلودہوا۔اوراپنی عزت افزائی پر نوحہ کناں بھی۔
شکیب مظاہرِ فطرت کوان ان مٹ اورلافانی احساس اورجذبے کی علامت بنادیتاہے۔جسے 'محبت'کہتے ہیں۔وہ محبت کاروناخودنہین روتا،وہ قاری کے دل میں ایک احساس،ایک چنگاری رکھ دیتاہے اورپھرکہتاہے تم بھی میری طرح سلگتے رہو۔اورقاری اس دردکواپنے دل میں اسی طرح محسوس کرتا ہے،جیسے شاعرخود۔اندمال"بھی ایک ایسی ہی نظم ہے ۔جس میں شاعر مظاہرِ فطرت کوتلازمات کےطوراستعمال کرتاہے۔
'شام'ڈھلتی آس،مایوسی اورجبر کی علامت کے طورسامنے آتی ہے۔اورداسموم نے کئی ہربھرے پتے خزاں رسیدکردیے۔اوراس طرح کے بے شمار ستم کہ گننے والے "ان گنت"کہہ کے آگے چل دیے۔اور'مرہم'میسرنی ہوا۔'کوئی علاج اس کابھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں'،توجواب میں ایک طویل خاموشی کے سواکچھ نہیں تھا۔لیکن:
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نو زاد کا خندۂ  زیر لب
زخمِ دل مندمل ہو گئے سب کے سب                           ص442
ہزارجبروتشددکے باوجود جب ایک معصوم کے چہرے پہ نگاہ پڑی اوراس کی معصوم ہنسی کائنات ِ بسیط کوشرمارہی تھی۔دل کےتمام زخم خودبخود مندمل ہوگئے۔ایک ولولۂ تازہ مل گیا کہ جب یہ معصوم ہنسی،دنیاکااصل حسن ہے توپھر'غمِ دہرکاجھگڑاکیاہے'۔
شاعرجب شدتِغم سے باہرآتاہے تویقیناً کائنات کا حسن اسے اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔شش جہت کودیکھتاہے۔اچانک اے اپنی جہت (حیثیت، تہذیب وتمدن،ثقافت یاکلچر) کوجاننے کی امنگ پیداہوتی ہے۔"جہت کی تلاش"میں وہ 'درخت'کی علامت کوتہذیب'کاتلازمہ بنادیتاہے۔نظم کچھ یوں بتاتی ہے کہ"ایک عجب درخت اگاہے۔زمین نگ ہے۔ہوا اورنم ناپیدہیں۔فضااورسمندرکومتھ کرچندابرکے ٹکڑے بنے ہیں تا درازشاخوں نے انھیں چھین لیاہے۔یہاں تک کہ تنے کوخبربھی نہیں ہوئی۔اورجریں تاتاریکی میں غلطان،روسنی کی کرن کوترستی ہیں۔اوردرخت کی ہیئت یوں ہے کہ زمیں میں پاؤں دھنسے ہوئے ہیں اورہاتھ فضامیں بلندہین۔عجب حالتِ اضطرارہے ۔اب اس میں پیوندبھی نئی طرزکالگاناپڑے گا"۔
قدیم تہذیب وتمدن،اخلاق وروایات  اورانسانیت وآدمیت کوترک کرکے نئے اصول وضوابط ترشنے ہوں گے۔جوجدید کلچرکاساتھ دے سکیں۔اس لیے شاعرخود تہذیب کی تلاش میں ہے۔کہ کیابنے گا؟شکیب جلالی نے نئے لب ولہجے اورنئے زاویے سے نظم کوبُناہے۔بہت سی اہم نظمیں ہیں۔لیکن
اس وقت میرے سامنے" عکس اورمیں"ہے۔
'آب جومیں اک طلسمی عکس ابھراتھاابھی'،احاطۂ  خیال میں اس عکس کے ابھرنے کے ساتھ کتنے  ہی دیپ جل اٹھے۔اورکتنی ہی  حسرتیں ،امنگیں بن کرچمک گئیں۔اورپھرسے کچھ کرگزرے کے ولولے دل میں انگڑائیاں لینے لگے۔کچھ دیرتک تویہ کیفیت رہی۔ اچانک حالتِ خواب وخیال  اسے زندگی کی تلخ حقیقتوں میں دوبارہ پھینک دیتے ہیں۔
آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس                                ص451
کفِ ساحل اورفقط نقشِ پااورحدِ نظر تک ایک لامتناہی سلسلہ اوربس!؟
شاعر زمانے کی بے ثباتی میں گھِرکربھی قنوطی نہیں ہوتا۔وہ زمانے اورمحبوب کویہ توکہتاہے کہ تم نے خودہی ظلم ایجادکیا،اب اس کااثرتم تک آپہنچاہے تو چلاتے کیوں ہو؟پھراسے ایک معصوم کھکھلاہٹ زندہ کرجاتی ہے۔سپنے اسے زیادہ دیرتک خواب آلودنہیں کرتے اورشاعرساحل پر نقشِ پاکاسلسلہ دیکھتاہے۔جوجہدِ مستقل کی دلیل ہے۔"شہرِ گل"میں بھی یاس ،آس میں بدلتی ہوئی نظرآتی ہے۔"حلقۂ برق میں اربابِ گلستاں محبوس"لیکن ایک غلغلہ اٹھتاہے۔
دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں
زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں                      ص457
زنجیریزں ٹوٹ گئیں اور'مہربلب تصویریں'زمزمہ ریزہوگئیں۔اب یہ ہوا کہ کلیوں نے لب کھولے،پھول مسکائے،صبانے گھنگروباندھ لیے،لیکن یہ سب کچھ توعالمِ خواب میں تھا۔پھر:
یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے
شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے؟              ص457
پہلاجملہ استفہامیہ ہے۔لیکن استفہام اس طرح کاکہ لگتاہے،"تعبیربھی ہے"۔یہ سوال بھی ہے اورمیرے خیال میں جواب بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اب"دعوت فکر"دی جارہی ہے۔
لوگ معنی تلاش ہی لیں گے
کوئی بے ربط داستاں سوچو                       ص453
ریت کے سمندرمیں زندگی کی کشتی کیسے رواں ہے؟اورفضاکی سرگوشی جوکلیوں کے لیے حیات آفریں ہواکری ہے۔پتیاں سن کرلرزنے کیوں لگتی ہیں۔دکانِ آئینہ سازپتھرون کی امان مین کیوں؟الامان!،بے مہریٔ بتان کے باوجود وفا ختم کیوں نہیں ہوتی؟اس کاسرچشمہ کیاہے؟بستیوں کے اجڑنے کے باوجود،جذبۂ   تعمیر ختم کیوں نہیں ہوتا؟اوراب سب سے اہم سوال اتھتاہے۔جس کے لیے اتنالمباسفرکیاگیاہے۔عمرِ جاوداں کی وجہ 'فکرِ سقراط' ہے یا'زہرکاپیالہ'ہے؟یہ سب باتیں ہوتی رہیں گے۔'خلقتِ شہرتوکہنے کوفسانے مانگے'(آپ نے شکیب  کی فکرکی گونج سنی)،آپ کاکام یہ ہے۔کہ کوئی داستان سوچ ڈالو،پھر'اورسے اورہوئے عشق کے عنواں جاناں'۔
نظم' شعلۂ دل'میں ایک خوب صورت کلاسیکل شعرکی گونج بہ رنگِ دگرسنائی دیتی ہے۔
کبھی بہ پاسِ تقدس ہماری نظروں سے
الجھ کے ٹوٹ گئی ہے تمھاری انگڑائی                              ص566
انگڑائی نہ لینے پائے تھے،وہ اٹھاکے ہاتھ
دیکھامجھےتوچھوڑدیے،مسکراکے ہاتھ
شکیب نے بڑی پرامیداوررجائی نظم کہی ہے۔وہ اپنی ایک نظم"ہمارادور،ص455"میں کہتے ہیں۔
*    جہاں آج بگولوں کارقص جاری ہے۔
*    فضائیں زردلَبادے اُتارپھینکیں گی۔
*    نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہوں گے۔
*    بڑے سکون سے تعمیرِ زندگی ہوگی
کہیں یز ید ، نہ آ ذ ر ، نہ اہرمن ہوگا
*    بتانِ عصرکےخالق کوباخبرکردو۔
نظم "جشنِ عید،ص462"۔
*    عید کیسے منائی:میں' کسی نے پھول پروئے،کسی نے خارچنے'۔
*    جشنِ عید کیسے ہوا:'کہیں توبجلیاں کوندیں،کہیں چنارجلے'۔
*    منظرَ عید:بطورِ خاص قلبِ داغ دارجلے،کسی نےبادہ وساغر،کسی نے اشک پیے،اطلس وکم خواب کالباس پہنا،کسی نے گریباں،کسی نےزخم سیے۔
*    حاصلِ عید:یک رنگی پیدانہ ہوسکی۔طبقوں کاامتیازرہا۔
(نوٹ: یہ مضمون نامکمل ہے۔باقی حصہ کسی اوروقت)

شکیب کی غزل:"موت نے آج خودکشی کرلی"مظہرفریدی


شکیب کی غزل:
"موت نے آج خودکشی کرلی"
اس سے پہلے کہ اپنی گزارشات پیش کروں ماہرینِ علم وادب وفن کے خیالات سے استفادہ ضروری ہے۔
بقول احمدندیم قاسمی(مشمولہ،کلیاتِ شکیب جلالی۔سنگِ میل ،لاہور،2004ء)
*    جب کوئی پوچھتاہے گزشتہ دس بارہ سال کے اندرکون ساشاعرابھراہے جس نے صحیح معنوں میں بھرپورغزل کہی ہوتوبغیرکسی تکلف کے  میں شکیب جلالی کانام لیتاہوں۔)شکیب جلالی،فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص15)
*    شکیب نظم بھی کہتاہے اوراس نے بعض ایسی نظمیں کہہ رکھی ہیں کہ پوری اردونظم کاانتخاب پیش نظرہوتوشکیب کی ان نظموں کوآسانی سے نظرانداز نہیں کیاجاسکے گا۔)شکیب جلالی،فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص15)
*    شکیب کے دم سے اردوغزل نے ایک اورسنبھالالیا۔
*    شکیب کی غزل کاسب سے نمایاں حسن اس کی باشعوروجدانیت ہے۔اس نے غزل کونیالہجہ دیا،اس میں نئی کھنک پیداکی اورگہرے مفہوم اورخوب صورت اظہار کویوں ہم آہنگ کیا کہ اگروہ چندبرس اورزندہ رہتاتواردوغزل کے لیے نئے دورکاپہلاشاعرماناجاتا۔
*    جدیداردوغزل کوجس شاعرنے سب سے زیادہ بصیرت دی اورجس نے 25 برس کی عمر ہی میں  اپنامنفرداسلوبِ شعرپیداکرلیاتھا جس نے خاموشی کے ساتھآنے والی پوری نسل کوبے پناہ حدتک متأرکیا وہ شکیب جلالی ہی تھا۔
*    فیض اورناصر کاظمی خوب صورت غزلیں کہہ رہے تھے۔مگروہ شکیب ہی تھاجس نے غزل کوموضوع واظہارکے حوالے سے ایک متوازن جدّد کاموڑ دیا۔یوں وہ جدیدغزل نگاروں کاقافلۂ سالارہے۔
بقول احمدہم دانی"شعورِ ذات کے دوش بدوش معرفتِ ذات کاکواجاگر کرنے کاسلسلہ شکیب جلالی کی شاعری کامخصوص اورنمایاں عمل ہے۔اردومیں وہ علامتی شاعری کابانی ہے"۔
بقول ڈاکٹروزیرآغا"اس کے ہونٹ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعدایسے حزیں تبسم سے بھیگ جاتے تھے۔جس کاتجزیہ کرنے ے میں قاصرہوں۔ )شکیب جلالی، فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص17)           
شکیب جلالی کے تکیل کی اڑان ایسی منفرداورالگ تھی کہ ہر ذی ہوش اوربوالہوس نے لاشعور طورپر آنکھیں اٹھاکردیکھا،کچھ کی دستار ان کے اپنے قدموں پرکر پڑی کچھ اچنبے میں آگئے۔یہ کون ہے؟تحیر،تجسس اورپھرتمسخرسے ہوتاہواتضحیک تک پہنچا،اچھا یہ توشکیب ہے۔دکھوں میں گھرا،ہجرت کامارا،غمِ روزگارسے نالاں۔ان لوگوں کوایک گوناں گوں سکون ہو !کے دن۔پھرلوگوں نے دیکھا،آپ بھی وعدہ معاف گواہ بن گئے،چشمِ فلک بھی خندہ زن تھی۔پر شکیب جلالی جسدِ شاعری خصوصاً غزل(نظم بھی کم نہیں)کے مردہ ہوتے ہوئے جسم کواپنی روح کاامرت پلاتارہا۔اب بچے گاتوایک"ظہیرالدین بابر یاپھرہمایوں"۔آخرشکیب کاکلِ شاعری کوسنوارتے سنوارتے خود شعربن گیا۔
کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں
آنس نے بھی کچھ ایساہی کہہ رکھاہے۔نامعلوم ان دونوں روحوں میں زمانی بعدہونے کے باوجود کچھ کچھ ایک جیساکیوں لگتاہے؟
آخرکو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیرخوش بورہے گی گلاب میں
اس جہانِ فانی کی فنائیت میں کسے کلام ہے لیکن کوئی اس طرح بھی کرتا ہے،کہ جب روح میں سناٹا بھرجائے،جب حالات ایسے گھپ اندھیرے میں گم ہوں کہ رستہ سجائی نہ دے،پھربھی اپنے گھرکوآگ لگاکراندھیرے کومٹانے کی کوشش سے کیااندھیراختم ہوجاتاہے؟الٹالوگوں میں ایک خوف وہراس پھیل جاتاہے،ناجانے وہ گھرکیوں جلا؟کیاہوا؟ کیاکوئی۔۔۔؟اورپھرسوالات کاایک لامتناہی سلسلہ۔۔۔! پر شکیب نے تواس سے بھی ایک قدم آگے رکھا،گھر توکیاچیزتھی،اس نے روح کے چراغ جلاکے روشنی کردی!؟
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
شکیب جلالی کانقطۂ نظر ہی کچھ اورتھا؟زندگی کے اسرارِرموزاس وقت تک ظاہرہی نہیں ہوتے ،جب تک انسان معاشرے کے جہنم سے گزرتانہیں ہے؟ اور شکیب  جلالی نے اپنے آپ کوکندن کرنے کے لیے معاشرے کی کٹھالی میں رکھ دیا۔اب کندن تووہ ہوگیا۔لیکن ،"ہے کوئی جوہری اشکوں کے نگینوں کایہاں"، شکیب جلالی کواس بات کاشعورخطرناک حدتک تھا،کہ نہیں ہے!؟پھربھی" لکڑی جل کوئلہ بھیو!"۔ اب ایک عجب مشکل آن پڑی ہے۔جب سے ذولفقاراحسن کی کتاب "شکیب جلالی فن اورشخصیت"دیکھی ہے،کئی نادیدہ خوف ،سوالات کے پھن اٹھاکر کھڑے ہوگئے ہیں۔
*    دادااوروالد کا عاملوں کے چکرمیں پھنسنا(یا کسی سلسلے سے وابستگی)۔
*    والدجوپولیس میں ملازم تھے ان کی نوکری کاختم ہونا۔
*    والد کا بچوں کی آنکھوں کے سامنے اپنی بیوی کو ریل کے آگے دھکادینا (چاہے حالتِ دیوانگی میں دیاہو)۔
*    شکیب کے والد کو ذہنی امراض کے مرکز(پاگل خانے) میں داخل کرانا۔
*    شکیب کاخود دیوانوں جیسی حرکات کرنا (چاہے معاشرے کے جبر'یا'یارلوگوں کی سازش کے نتیجے میں ہوئیں)۔
*    شکیب کا ذہنی امراض (پاگل خانے) کے مرکزمیں داخل ہونایاکرایاجانا۔
*    شکیب جیسے عبقری کے لیے یہ ایک سانحہ تھا(تفصیل وزیرآغا کامضمون)۔اوروہ ایک ایسے کربِ روح میں مبتلارہنے لگا۔جس کاعلاج یاتدارک ان کے دوستوں یاملنے والوں میں سے کسی کے پاس نہیں تھا(حالات یہی بتاتے ہیں)۔
*    والدکاپاگل خانے سے رہاہونا۔65ء کی جنگ،جغرافیائی جبر،اورپھروالدکی موت۔والدکی نعش کاغریب الوطنی میں بے یارومددگاردفن ہونا۔
*    ہندوستاں سے ایک خط کاآنا(کسی نے مکمل یقین سے نہیں کہا اورکسی نے تیقن سے تردیدبھی نہیں کی(سوائے بیگم)۔
*    آخر شکیب بھی اسی کالے انجن کالقمہ بن گیا۔
*    یہ اورایسے کئی سوالات اٹھتے رہیں گے۔لیکن جواب کون دے گا؟جوجواب دے سکتے ہیں۔وہ چپ ہیں۔جواس راز کا محورتھا،نہیں ہے۔شاید انہی سوالات سے نئے مفاہیم نکلتے رہیں گے۔اورشاعری کی عجب عجب توجیہات بھی ہوتی رہیں گی۔
آئیے اب شکیب سے اس کے تخلیقی جہاں میں ملاقات کرتے ہیں۔وہ کون سی خوبیاں ہیں کہ جن کودیکھنے کے لیے جب بڑے بڑے سراٹھے تو "دستارنہ سنبھلی"۔
"کلیات شکیب جلالی" کی پہلی 71غزلوں میں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ کب کہی گئیں۔اس کے بعد غیرمدون کلام  کےعنوان کے بعدجو کلام درج ہے اس میں صرف
سال کاحوالہ ہے۔اس کے بعد جوغزلیں ص 377 سے شروع ہورہی ہیں ان میں بھی نہیں لکھاکہ کب کہی گئیں۔صفحہ 435 سے438 تک تین غزلیں درج ہیں۔ نوٹ لکھاہے کہ یہ غالباًآخری کلام ہے۔اسی طرح حصہ "نظمیں" میں صرف ایک نظم جوص482  سے ص 484 تک ہے پر سن درج ہےاورکسی نظم میں نہیں ہے۔ اس طرح "منظومات"کے عنوان سے جونظمیں درج ہیں ان میں ص 491 سے ص532 تک سن درج ہے۔بعدکی نظموں پر نہیں ہے۔"قطعات"کے عنوان کے نیچے 1950-53ء لکھ دیاگیاہے۔"رباعیات"کے عنوان کے نیچے بھی 1950-53ء لکھ دیا گیاہے۔آخری حصہ "بچوں کے لیے "عنوان کے تحت ہے۔کل تین نظمیں ہیں اورپہلی دونظموں پر سن درج ہے۔آخری نظم سن سے پاک ہے۔
اس لیے سنین کوسامنے رکھ کر کچھ کہنا زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔کیوں کہ جواہم غزلیں ہیں وہ سن کے بغیرہیں۔

Thursday 7 February 2013

آنس معین کی نظم نگاری،مظہرفریدی


آنس معین  کی نظم نگاری
آنس کابنیادی فلسفۂ شاعری توایک ہی ہے۔وہی حیات وممات کی کش مکش،وہی کربِ زیست،وجودوعدم کے اسرار، رموزجاننے کی بے طرح خواہش،جسن کے زنداں سے آزادہونے کامرحلہ،اس ماہی بے آب زندگی میں بسمل کیکی تڑپ سے چھٹکارااورآخرمیں ایک معصوم بچے کی طرح سونے کی تمنا۔
اپنے ہی سانسوں کے جھونکوں سے دیابجھ جائے گا
جسم کے زنداں کادر کھل جائے گا
ختم ہوجائے گاپھریہ کرب بھی تنہائی کا
اورمیں قطرے کی طرح
وسعتِ دریامیں گم ہوجاؤں گا
ایک بچے کی طرح سوجاؤں گا
قطرہ اپنابھی وسعت میں ہے دریالیکن/اسے منظورتنک تابیٔ  منصورنہیں
"عشق دی منزل دورتوں دوراے متاں سمجھیں اوہِے"اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت انساں اس کائنات کی اصل حقیقت ہے۔یہ کائنات اسی حجرت انساں کے لیے تخلیق کی گئی۔یہ مرکزومحورِ کن فکاں ہے۔یہ دستِ قدرت کاآخری بیاں ہے۔یہ احسنِ تقویم کی تصویرہے۔یہ تخلیقِ  زندگی کی  آخری لکیرہے۔آنس بھی ان الوہی انکشافات سے مصحفِ قلب کومنورکیے ہوئے ہے۔وہ زمیں کی حقیقت جانتاہے۔وہ زندگی کاحدوداربعہ سمجھتاہے۔وہ ازل وابدکی حدوں کاشناورہے۔وہ وجودوعدم  کے باریک فرق کارازدارہے۔آنس کی زبانی سن لیجیے۔
زمیں  توبس ایک نقشِ پاہے
اورعالموں پہ محیط ہوں میں
کہ دستِ قدرت میں زندگی کی لکیرہوں میں
ایک حدیث ہے کہ میں نے آدم کو اپنی صورت پر پیداکیاہے(بصورتہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں)۔ایک جگہ آتاہے کہ ہم نے آدمؑ کوچالیس دنوں میں تخلیق کیا۔یعنی دستِ قدرت نے اس ہیکرِ خاکی کو عجب اکرام واحترام بخشا کہ ہر نقش،نقشِ لازوال بنادیا۔اورآخرمیں "احنِ تقویم"کی مہربھی ثبت کردی۔اسے خلیفۃ اللہ بھی کہہ دیا۔اپنی ذات کامظہربھی قرار دے دیا۔"اَلْاِنْسَانُ سِرِیْ وَاَنَاسِرُہٗ"کہہ کرتمام راز فاش کردیے۔
میں تویہ سمجھتاہوں
اک بیاض ہے چہرہ
اورخطوط چہرے کے
حرف حرف تیرے ہیں
تجربہ بھی تیراہے
دستخط بھی تیرے ہیں
سرمد نے کھال کھنچوائی،منصور دار کی زینت(اناالحق)بنا۔میرے ان کھدرکے کپڑوں میں خداہے۔جوخداکی قربت میں پہنچ گئے ۔انھیں پھراپنے خبرنہیں ملی۔کیوں کہ قطرہ جب جذبِ شوق میں دیامیں گم ہوتاہے۔تودریاب جاتاہے،اب وہ دوبارہ قطرہ بنناچاہے! وہ اپنی تلاش میں سرگرداں" حسنِ الحق"مین گم رہتاہے۔یہی اس کی زندگی ہے۔
یہ زندگی بھی عجیب شے ہے
ہرایک انسان حصولِ منزل کی جستجومیں لگاہواہے
جوسب فصیلیں عبورکرکے
ہرایک معلوم حد سے آگے نکل گئے ہیں
خوداب وہ اپنی تلاش میں ہیں
آتشِ عشق نے آتشِ شوق کوہوادی اورعقل لب بام کھڑی تماشادیکھتی رہی۔عشق کی آگ کے ماسوا,عشق نے سب کچھ بھسم کردیا۔ہرفردکی معراج مختلف ہے۔"موسیٰ نے کوہِ طورپہ مردے جِلاکے پی"کوہِ طورجل گیا"وَخَرَ مُوسیٰ صَائِقَہ

میں ایک شفاف آئینہ ہوں
کہ جس سے ٹکراکے ساری کرنیں پلٹ رہی ہیں
تمام رنگوں کی اصلیت کاگواہوں میں
کہ ہرحقیقت
مری نگاہوں سے معتبرہے
مگروہ چہرہ
جومیرے چہرے پہ سایہ زن ہے
وجودجس کامری نظرہے
میں اس کاچہرہ بھی اس کی آنکھوں سے دیکھتاہوں
جب قرب کی ان منزلوں سے آشنائی ہو۔"من توشدی،تومن شدم"کی منزل ہو من وتو،من اورتو کا فرق نہ رہاہو۔پھر تمام باتیں اور تأویلیں ،حرفِ غلط ہوجایا کرتی ہیں۔اس کااپناوجودکائنات کرمرکزِ خاص  بن جاتاہے۔دنیا کی کسی شے میں اس کاجی نہیں لگتا۔لیکن ازل سے ابدتک کافاصلہ اپنے اندر مسافتِ دنیارکھتاہے۔ کوئی اورطریقہ یاراستہ نہیں ہے۔اس لیے اسی راہ گزرسے گزرکرجاناپڑتاہے۔اگرچہ یہ فاصلہ مختصر ہے(مختصر اس لیے کہ چندروزہ زندگی کرنے کے لیے دنیامیں قیام ضروری ہے۔باقی توقرب کی وہ منزلین ہیںکہ جاننے والے جانتے ہیں)۔
خودآگہی بھی عجیب شے ہے
میں تم سے کٹ کر
تمام دنیاسے کٹ گیاہوں
خوداپنے اندرسمٹ گیاہوں
تمھارے اورمیرے درمیاں جوبھی فاصلہ ہے
وہ اک گواہی ہے قربتوں کی
وہ مختصر ہے
مگرامر ہے
اب اس دنیامیں چوں کہ جی نہیں لگتا۔اس لیے ہرشخص اپنی اپج کے مطابق کچھ کر بیٹھتاہے۔بعض اوقات پکڑ بھی ہوجاتی ہے۔اوردلدلی دنیا میں اسیر بھی ہوجاتا ہے۔کچھ اس اسیری سے بچنے کے لیے ایساطریقہ استعمال کربٹھتے ہیں جو پسندیدہ نہیں ہوتا۔اورلذتِ وصال کے چکرمیں ہجروفراق کے سایوں میں "آخرِ شب دیدکے قابل تھی بسمل کی تڑپ"کامظہربن جاتے ہیں۔
کہ میری طرح یہ ایک سادہ ورق ہے  جس پر
لکھاتھاجوکچھ وہ مٹ چکاہے
حسین یادوں کے گہرےپانی میں
سوچ کاایک  ننھاکنکر
جومیں نے پھینکاتھا۔۔۔۔کھوچکاہے
وہ دائرے جوبکھرگئے تھے سمٹ چکے ہیں
مگرابھی تک
لرزتے پانی پہ ایک چہرہ ساکانپتاہے
اس یاد کے ننھے کنکرنے 'بات ادھم کہہ دی'کہ وہ خودتوکہیں کھوگیا۔لیکن اپناوجود گم کرکے بھی وہ سطحِ آب پر ایسی تبدیلی کرگیا کہ چندلمحوں کے لیے پانی اپنی تلاش میں پھرسے سرگرداں ہوا۔اپنے وجودکوسمیتنے کےلیے پھرسے عرفان ذات کے عمل سے گزرا،اس عمل میں اسے جس بے کلی اورپریشانی کاسامناکرنا پڑا۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ وہ جواس میں منعکس ہورہاتھا،کانپتاتھا" لرزتے پانی پہ ایک چہرہ ساکانپتاہے"۔ اسی خیال کو آنس نے غزل کے ایک شعرمیں بھی بیان کیاہے۔
ہاتھ میں لے کرپتھرجب میں پاس کھڑاتھا ندی کے
کانپ رہاتھاپانی پراک چہرہ سہماسہماسا
اب"گزراہوں اس شہرسے کریدارنہیں ہوں"لیکن شہرِ دنیاسے گزرتوہوا ہے۔اس لیے یہاں کی کچھ چیزیں بھی گفت گومیں درآئی ہیں۔
دانش ورکہلانے والو!
تم کیاجانو!
مبہم چیزیں کیاہوتی ہیں
خزاں رسیدہ بازوتھامے
نبض کے اوپرہاتھ جمائے
ایک صداپرکان لگائے
دھڑکن سانسیں گننے والو
تم کیاجانو!
مبہم چیزیں کیاہوتی ہیں
دانش ورکہلانے والوں کو ایک سوال داغ دیاہے۔تم کیاجانو!،مبہم چیزیں کیاہوتی ہیں۔چند علایق کاسہارالے کرتم اندازے لگانے کی کوششکرتے ہو،اوریہ کوشش بھی ہربار کام یابی سے ہم کنارنہیں ہوتی۔

مانوس اجننی۔آنس معین(مظہرفریدی)۔حصہ اول


مانوس اجننی۔آنس معین(مظہرفریدی)
پہلی باردیکھاتو،چشمِ آہوکے طلسم کااسیرہوکررہ گیا۔اتنی زندہ آنکھیں،زندگی کی ایسی چمک دمک اورللک بہت کم چہروں پہ سجی آنکھوں میں دیکھی تھی۔1993-94  میں لاہورمیں تھا کہ ایک دوست نے کہاکہ ایک دوست کے ہاں جاناہے،چلوگے۔پوچھاکہاں،توجواب دیا کہ "محفلِ مسافر" میں،بھائی یہ محفلِ مسافر کیا ہے؟جواب ملا فخرالدین بلے،جو آنس معین کے والدہیں۔ان کے ہاں ہر مہینے یہ محفل منعقدہوتی ہے۔آنس معین کانام آتے ہی ،رہانہ گیااورچل پڑا۔دعوت عام کےباوجود،وہاں چنیدہ لوگ تھے۔محفل ختم ہوئی تو"فخرالدین بلے صاحب سے گفت گو کی،اورپوچھا کہ "آنس معین"کی آنکھیں بہت کچھ کہتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔کبھی آپ نے بھی کچھ سنا' یا'محسوس کیا؟توطرح دے گئے اورفرمایاکہ وہ اپنی بہن سے زیادہ قریب تھا،زیادہ بہترہے کہ ان سے پوچھ لیں۔ ان سے گفت گوہوئی جوبارآور ثابت نہ ہوسکی۔البتہ کچھ چیزیں ان سے مل گئیں۔آج انہی صفحات کی مددسے کچھ لکھنے کاقابل ہواہوں۔
اس سے پہلے کچھ اپنی گزارشات پیش کروں ۔صاحب علم وفن کے خیالات پیش کردوں۔1977 میں شعری دنیامیں قدم رکھنے والاآنس،5فروری 1986ءکواس دنیاکو ہمیشہ کے لیے خیربادکہہ گیا۔وادیٔ ادب کوسوناکرنےوالے نے صرف نو سال شاعری کی۔
*    آنس معین کم سِن سقراط ہے۔(شبیرحسن خاں جوش ملیح آبادی، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
*    فیض احمد فیض نے آنس کی شاعری دیکھ کران جانے خدشے کااظہارکیاتھا۔اوربے ساختہ ان کے منہ سے  یہا  الفاظ نکلےتھے کہ:
I am yet to see a more grown up intellectual.  )آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور(               
وہ چھوٹی عمرکابزرگ دانش ورہے،میں نے ایسا زیرک دانش ور،اس عمرمیں نہیں دیکھا۔(فیض احمدفیض، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    مجھے وہ  ننھارومی نظر آتا ہے۔(جابر علی سید، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
*    آنس نئی سوچوں کاارسطوہے۔(نسیمِ لیہ، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
*    میں آنس معین کےا شعارپڑھ کردم بخودرہ جاتاہوں اوررشک کرتاہوں کہ اس جیسے شعرکہہ سکوں۔(احمدنادیم قاسمی،آوازجرس،ج 2،ش27،لاہور،ص 13)
*    آنس کی شاعری چونکادینے والی ہے۔(رازسنتوکھ سری، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    آنس کا شکیب اورمصطفےٰ زیدی سے موازنہ ،ادبی غلطی ہوگی۔(انورجمال، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    اس کے اشعارجدیدشاعری پر اثرات مرتب کررہے ہیں۔(تنویر صہبائی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    آنس کو شکیب اورن م راشد کے حوالے سےسمجھناافسوس ناک ہے۔(محمدفروز شاہ، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    مجھے جواں سال آنس کی موت پرشکیب جلالی بہت یاد آیا۔(انورسدید، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    لہجے کی الگ پہچان کے باعث ،اس کی شاعری زندہ رہے گی۔(عاصی کرنالی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    اگروہ چندبرس اور زندہ رہ جاتاتومجھے یقیں ہے کہ اس کاادبی مرتبہ کیٹس سے کم نہ ہوتا۔(ڈاکٹر وزیر آغا، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
*    آنس معین چھوٹی عمرکااتنابڑاشاعرنکلا کہ اس کی قدوقامت کاجائزہ لینے کے لیےگردن اٹھاکردیکھناپڑے تواپنی دستارضرورسنبھالنی پڑتی ہے۔(طفیل ہوشیارپوری،اظہاریہ،آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
*    آنس معین جدیداسلوب ہی کا نہیں  بل کہ منفردتوانالہجے کاخوب صورت شاعر تھا۔(مسعود ملک، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
*    آنس معین نے چھوٹی عمر میں ذات اورکائنات کے اسرارِرموزکوسمجھ کراتنے رنگوں میں بیان کیاہے کہ حیرت ہوتی ہے۔(بیدارسرمدی، گہراب، گوشہ ٔ آنس معین)
*    اسے زندگی حرف ناتمام کی صورت نظر آئی اوراس نے اپنے ادھورے پن کادکھ اپنی موت سے ختم کرلیا۔(مقصودزاہدی، گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    آنس نے اپنے اندر بسی ہوئی لامتناہی دنیاکاسفریونہی نہیں بل کہ بہ تقاضائے جستجواختیارکیااوراس سفرکے دوران کبھی وہ وجودی مناظر سے ماوراء ہوکرچلااورکبھی قلزمِ روح  میں غوطہ زن ہوا۔(فخرالدین بلے،گہراب،گوشہ ٔ آنس معین)
*    آنس معین کی کتابِ شعر بجنسہٖ ایک سمندرہے جس کاہرورق ایک موجِ لغت اورگنجینۂ معنی ہے۔وہ اس حیرت کدے تک بہت کم وقت میں پہنچا،جس کی مسافت طے کرتے ہوئے گیانیوں کو صدیاں لگ جاتی ہیں۔(پروفیسرانورجمال، آنس معین نمبر،محفل،ستمبر 1979،لاہور)
*    آنس معین کاہرشعری اظہاربھرپور،ایسامکمل اورایسا spontaneous ہے کہ اسے سوائے ایک تخلیقی معجزے کے کچھ اورنہیں کہاجاسکتا۔اس کے قطعی منفرداور چونکا دینے والے لہجے میں ایسے اشعارملتے ہیں کہ ان میں سے ایک شعر بھی کوئی  کہہ پائی تو اس کاسر فخر سے بلندہوجائے۔(اسلم انصاری،آنس معین نمبر، محفل،ایضاً، ص11)
*    ڈاکٹرخورشیدرضوی نے اس خوف کااظہارکیا کہ آنس معین کے اندر ایک جوالا مکھی سلگ رہاہے۔جو خدانہ کرے کہیں اسے بھسم کر دے۔ (محفل،ایضا!،ص35)
*    پروفیسر غلام جیلانی اصغر کے خیال میں لمحہ آنس معین کوقید کیے ہوئے تھا اوروہ اس قیدسےنکلنے کے لیے بے تاب ومضطرب  تھا۔ (آنس معین نمبر،محفل،ایضا!،ص35)
"توڑاجو توآئینہ تمثال دارتھا"،آنس آئینہ خانۂ دنیامیں ایک ایسی بے چین روح تھی،جس کے لیے زمان ومکاں کی وسعتیں بے معنی تھیں۔وہ عرفانِ ذات کی اس سرحدپرتھا،جہاں تک پہنچتے پہنچتے سانس اکھڑجاتی ہے،گیانیوں کااگیان حرف غلط ہوجاتاہے۔روایت ہے کہ بوعلی قلندرنے بارہ(12) سال پانی میں کھڑے ہوکر عبادت کی ،غیب سے نداآئی ،میرے بندے کیاچاہتاہے۔جواب دیا"علی"سناہے تمام عبادت مٹی ہوگئی۔لیکن سیدآنس معین بلے،خانوادۂ چشتیہ کاچشم وچراغ تھا۔ اس آئینہ خانہ میں اسے کیاکچھ نظر آیا،اوروہ کون حالات تھے کہ زیست نے ممات کالبادہ پہن لیا۔اس سوال کوتومیں حل نہیں کرسکتا۔اس کاکچھ جواب دے سکتے تھے تو ان کے والد،والدہ یابہن بھائی تھے۔جن کے سامنے اس کی تمام زندگی تھی۔آنس معین کچھ بھی تھا یانہیں تھا مگر"آنس"ضرور تھا۔ہم لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کے نام دے کرخوش ہوتے ہیں۔
ان آرامیں سے جو کچھ سمجھ میں آتاہے،وہ کم سِن سقراط ہو،یاننھارومی ہو،نئی سوچوں کاارسطوہویاچھوٹی عمرکابزرگ دانش ورہو ،وہ ایک ایسا عبقری تھا کہ وقت کی طنابیں اس کے سامنے ہیچ تھیں۔اسرارِ رموز کاایساپارکھ کہ عقل وخرد بے بس نظر آتے ہیں۔ورنہ اس عمر کاایسا شاعر آج تک کسی نے دیکھاہے؟یہ خوبی غالب میں تھی کہ اس کاپہلادیوان "گلِ رعنا"جب شائع ہوا تو غالباً 'غالب'کی عمر 21 سال تھی۔آنس کے مجموعے کاانتظارکرتے انکھیں ترس گئیں۔خداجانے کب شائع ہو، یا ہوگا کہ نہیں؟
آنس پرلکھے گئے مضامین میں سے سب سے بہترمضمون 'فخرالدین بلے'کاہے۔اس کا مطلب ہے کہ انھیں آنس کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا۔لیکن "عشقکی ایسی جست"شاید ان کے وہم وگماں میں نہ تھی۔
نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظرجیسی
بدن تھکابھی نہیںاورسفرتمام ہوا
انھوں نے آنس معین کے ایسے خیالات کوشاعرکاذہنِ رساخیال کیا۔کم سن سقراط ،جیسے الفاظ سن کرخوش ہوئے۔طھوٹی عمرکابزرگ دانش ور سمجھتے رہے۔ ننھارومی اورنئی سوچوں کے ارسطو کو سمجھنے کی کوش نہ کی۔وہ جوالا مکھی جواس کے شعورولاشعورمیں پک رہاتھا اسے کسی ہم دمِ نرینہ کی تلاش تھی،جونہ ملا۔وہ کم گودل میں ہزاروں اندیشے،ارماں اورراز لیے چلتابنا۔ہم سب منہ دیکھتے رہ گئے۔
فخرالدین بلے نے بھی اپنے مقالے کو مغربی مفکرین کے حوالہ جات سے بھردیاہے دوسرے تصوف کے حوالہ جات اوران سے آنس معین کے اشعار کاتطابق، بعض اوقات سوچنے پرمجبورکردیتاہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ گھرمیں تصوف پر کتابوں کاوافر ذخیرہ موجود رہاہوگا۔جس کا مطالعہ آنس نے دل جمعی سے کیا ہوگا۔لیکن زندگی کاآخری عمل تصوف کی تعلیمات،ذہن عجب مخمصے کاشکارہوجاتاہے؟یاپھر آنس نے منصور بننے کاسوچا اورخودہی فیصلہ صادر کردیا؟اس کے علاوہ کیاکہاجاسکتاہے؟آنس کے بعض افکارنہ صرف چونکادیتے ہیں بک کہ اندرسے ہلا دیتے ہیں۔چوں کہ ہمارے سامنے چندشیزیں ہیں جن کی بنیادپرگفت گوہورہی ہے۔اس لیے کوئی بات تیقن سے نہیں کہی جاسکتی۔لیکن چند نظمیں یا نظموں کے ٹکڑے ایسےضرورہیں جن میں اس کی روح کی پرواز کون ومکاں کی حدیں پھلانگ گئی ہے۔اوروہ "راز درونِ مے خانہ" کا واقف نظر آتاہے۔
آنس کی شاعری کو سامنے رکھ کر اس کی شعری جہات اورشخصیت کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔بقول شبیرحسین جعفری آنس کی زندگی کاپہلاشعر یہ تھا:
آخرکو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیرخوش بورہے گی گلاب میں
تحّیر کی وہ دنیا،جسے تسخیرکرنے میں زمانہ لگتاہے،یہاں پہلے ہی شعرکے انداز سے ظاہر وباہرہے۔آنس نے شاعری کی ابتدا وہاں سے کی جہاں اکثر شعرا کے دیوان ختم ہوجاتے ہیں۔ایسی اڑان کا یہ اختتام،مجھے کچھ حیرت نہیں ہوئی۔کیوں کہ جب غنچہ پھول بنا،اس کے مصھف سے نہ صرف حسن کے جلوے افروزاں ہوئے بل کہ اس کی روح(خوش بوپھول کی روح ہوتی ہے)آب وگل کی اس دنیاکومہکانے پرمصر ہوتی ہے۔اسے اس حقیقت کاادراک ہوتاہے کہ یہ عمل اسے ایک ایسی وادی میں لے جائے گا،جووادیٔ عدم ہے۔لیکن یہ اس کی فطرت ہے اور فطرت تبدیل ہونا تقریباًناممکن ہوتاہے۔ لہٰذا آنس بھی اپنی روح کو کائناتی تناظر میں قربان کرنے کی جلدی میں تھا۔اس لیے جلد ہی وادیٔ  ایک ایسی دنیاکی طرف روانہ ہوگیا۔جس کے اسرارِرموز سے ہم قریباً غافل ہیں۔فنی اعتبارسے دیکھ جائے تو آنس پہلے مصرع میں اپنی بات کہہ چکاہے۔لیکن شعری پیکر کی مجبوری نے اسے مجبورکردیا اوراس نے یہ تلازمہ تراشا کہ جیسے خوش بو 'پابند نہیں رہ سکتی'اسی طرح روح کو مقیدرکھناناممکن ہے۔
اب آنس کاکلام ترتیب میں نہیں ،کہ کون سی غزل کب کہی گئی اب جوبھی گزارشات ہوں گی،مختلف غزلوں کے تناظر میں ہوں گی۔تاوقتِ کہ ان کاکلام تاریخوار مرتب ہوکرسامنے آجائے۔آنس نے جب دیدۂ بینا واکیے توعالمِ حیرت سامنے تھا۔تمام عالم اسے "بازیچۂ اطفال"نظر آیا۔تووہ کہہ اٹھا:
جیون کودکھ،دکھ کوآگ اورآگ کوپانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے،کس سے کہانی کہتے
چوں کہ " وا کر دیے ہیں، شوق نے، بندِ نقابِ حسن "آنس نے آئینہ خانۂ حیرت میں جب نگاہ کی تو اسے  کئی رنگ اورانگ نظر آئے۔اب جو اس کے دل پر شگاف ہوئے تھے ان میں سب کو شامل کرنے کی لگن میں ،دنیا کی طرف متوجہ ہوتاہے۔لیکن اسے دنیامحوِ  خواب اور مدہوش نظر آئی۔
ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے
(اسداللہ خاں غالب)                
آنس کااندازاتنانیااوراچھوتاہونے کے ساتھ ساتھ روایت کوبھی اس طرح اخذ کرتاہے کہ شعربالکل نیامعلوم ہوتاہے۔گھرمیں علوم وفنوں کا ایک سرمایہ موجود تھا۔آنس نے اس علم وفن کو حرزِ جاں کرلیا۔اسے بدن کی کٹھالی سے گزارکرایساکندن کیاکہ فارس اوراردو زابان وادب کاعطرکشیدکرکے رکھ دیا۔لیکن اس خیال میں ب آنس شامل ہوا توچیزے دگر بن گیا۔لیکن آنس کو اس پربھی افوسوس ہوا۔
تیرالہجہ اپنایااب ،دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تواپنی زبانی  کہتے
جولوگ لہجہ بدلنے کومعمولی سی چیز یافن سمجھتے ہیں۔ان کےلیےسوچنے کامقام ہے کہ لہجہ بدلنے سے سوچ اور پھرلاشعوری طورپرجو فرق پڑتا ہے وہ اہلِ علم جانتے ہیں۔آنس کوخودبھی اس بات کاادراک تھاکہ وہ ایک نئے طرز کے اسلوبِ شاعری کو رواج دے رہاہے۔اس نے زندگی،زمان ومکاں اورانسانی روبط کی سائیکی کو اس آسانی سے اشعارمیں بیان کیاہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔اس عمر میں زنگی کاایساانوکھا اظہار، سوائے عطائے ربی کے علاوہ کیاکہاجاسکتاہے۔عملی زندگی میں وہ ادب کاطالب نہیں تھا۔وہ ایک بینکرتھا،لیکن اشعارمیں ایسی بایک باتوں کااس سہولت سے اظہاریہ ظاہرکرتاہے کہ جہاں ظاہری علم نے اس کی رہنمائی کی،وہیں باطنی علم کے خزانوں سے بھی اسے وافرحصہ ملاتھا۔
چپ رہ کراظہارکیاہے،کہہ سکتے توآنس
ایک علیحٰدہ طرزسخن کاتجھ کوبانی کہتے
جس معاشرے میں اسے رہنے اوردیکھنے کاموقع ملاتھا۔وہ اس معاشرے کاکھوکھلاپن،تصنع، دکھاوا،ریاکاری، فریب،جھوٹ اورمنافقت سے بدظن تھا۔اس کیروح جو خوش بو تھی،اس تعفن زدہ ماحول میں گھٹ کررہ گئی۔ممکن ہے وہ کچھ اوردن زندہ رہ جاتا،لیکن ظاہروباطن کے تضادات اور لوگوں کے رویوں نے اسے وقت سے پہلے آخری فیصلہ کرنے پرمجبورکردیا تھا۔تعلقات کوبھی،ریا سمجھتاتھا۔اس لیےکہ:
ہوجائے گی جب تم سے، شناسائی ذرااور
بڑھ جائے گی شایدمری تنہائی ذرااور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرااور
پھرہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکوگے
یہ الجھی ہوئی ڈورجوسلجھائی  ذرا او ر
اب وہ معاشرے کے ان زخم خوردہ حسوں کو سدھانہ اورسہلاناچاہتاہے۔لیکن لوگ اسے ناسور ماننے کوتیانہیں ہیں۔اس لیے "وہ الجھی ہوئی ڈورکوباوجوداس کے کہ سلجھاناچاہتاہے،نہیں سلجھاسکتا"۔اس کربِ مسلسل نے شکستِ ذات میں کلیدی کرداراداکیا۔اس لیے وہ کہہ اٹھتاہے۔ میرے ہاتھوں پہ زخموں کی تعداد تمھارے تصور سے زیادہ ہوگی۔
پتھرہیں سبھی لوگ ،کریں بات توکس سے؟
اس شہرِ خموشاں میں صدادیں توکسے دیں؟
ہے کون کہ جوخودکوہی جلتاہوادیکھے؟
سب ہاتھ ہیں کاغذکے دیادیں توکسے دیں؟
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ!
اورپاس ہے بس ایک ردادیں توکسے دیں؟
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں،توتھامے گابھلاکون؟
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصادیں توکسے دیں؟
بازارمیں خوش بوکے خریدارکہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتادیں توکسے دیں؟
آپ نے دیکھا،"پتھردل"لوگ ہیں یاپھر"شہرِ خموشاں "ہے۔اس میں صدادینا،نقارخانے میں طوطی کی آوازتو ثابت ہوسکتاہے۔کیوں کہ حقیقت کاسامناکرنے کی ہمت وجرأت مفقود ہے۔اس کے لیے'شاہیں کاتجسس اورچیتے کاجگر'،چاہیے۔اپنی زات کاسامناکرنے کادیوانہ پن درکارہے۔"سرِ بازارمی رقصم"کالافانی حوصلہ ساتھ ہو۔کیوں کہ اسے جوذمہ داری سونپی جارہی ہے۔اس کے لیے اسے اپنے وجودکوکٹھالی سے گزارکرکندن کرناپرتاہے۔خودکوجلتاہوادیکھنے کاحوصلہ کس مین اورکتنا ہے۔یہ زبانی نہیں عملی قدم اٹھانے کے بعد دیکھناہوگا۔کیوں کہ ہجومِ خلقت میں کوئی تو جو آگے بڑھ کے بِیڑااٹھالے۔وجہ بھی خودہی بیان کردی ہے"سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیادیں توکسے دیں"۔بے کلی اوربڑھ جاتی ہے۔روح کی پھڑپھڑا ہٹ اور بے خودکیے دیتی ہے۔
آنس تم بھی سامنے رکھ کرآئینہ
زورسے اک آواز لگاؤ ،لوٹ آؤ!
آنس اپنے اندرسمٹ جاتاہے۔اسے چاروں اوراندھیرانظر آتاہے۔ایک گہرااعصاب شکن سکوت،روح کاسناٹا،جواسے بےکل کیے دیتاہے۔
باہربھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریاکے اس پاربھی گہراسناٹاہے
کس سے بولوں ،یہ تواک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یاپھرگونگابہراسناٹاہے
محوِ خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والابس اک اندھاسناٹاہے
ڈ رناہے توانجانی  آوا ز سے  ڈ ر نا
یہ توآنس دیکھابھالاسناٹاہے
آنس معین کی شاعری معاشرتی رویوں پرنشترتوچلاتی ہے۔اوران ناسوروں کاعلاج بھی چاہتاہے۔لیکن گنگے ،بہرے لوگوں میں وہ کسسے کہے۔اک طرف شورِشر انگیزہے۔جس سے سناٹابھی سہم گیاہے۔اس پر ستم یہ کہ جودیدۂ بینا ہیں،وہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہیں۔آنس کی شاعری قنوطی نہیں ہے۔ اس کے اشعار زندگی کی للک سے معمورہیں۔آنس بارہا زیست کی طرف پلٹتااور لپکتاہے۔ کہ یہ سناٹاکوئی نئی چیز نہیں۔یہ تواب ہمارے ماحول کا حصہ ہے۔لہٰذااس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہاں ایک بات خوف وخطرسے خالی نہیں ہے کہ"کوئی انجانی آواز"جو محبت کالبادہ اوڑھ کرنفرتوں کے بیج بو دے۔اس سے احتیاط لازم ہے۔ مایوسیاں آنس پر سوارنہیں ہوتیں،پرآنس انتہائی محتاط شاہ شوارہے۔وہ وقتی فتح پریقین نہیں رکھتا۔اسے دائمی فتح سے پیارہے۔لیکن چاروں اور"اندھاسناٹا"ہونے کی وجہ سے خود میں سمٹ کررہ جاتاہے۔اسے کہیں سے کمک نہیں ملتی۔اندرکی روشنی اسے بار بار راستہ دیتی ہے۔
بدن کی اندھی گلی توجائے امان ٹھہری
میں اپنے اندرکی روشنی سے ڈراہواہوں
نہ جانے باہربھی کتنے آسیب منتظرہوں
ابھی بس اندرکے آدمی سے ڈراہواہوں
اب اماں ملی توکہاں ملی "اندھے سناٹے" سے بدن کی "اندھی گلی"میں،باطن جگ مگ تھا،اب گھپ اندھیرے سے ،انسان جب اچانک چکا چوندروشنی میں آتاہے تو اس کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔باہر آسیب زدہ ماحول کاحول،اس قدرشدید تھا کہ اسے روشنی سے بھی ڈر لگنے لگتاہے۔اوروہ اپنے آپ کواجنبی لگنے لگتاہے۔وہ اپنے آپ سے ڈر جاتاہے۔ حالاں کہ 'وہ تواندرکی روشنی' تھی ،جواسے جادہ منزل تک جانے کاراستہ سُجارہی تھی۔یہیں آنس کو کسی ہم دمِ نرینہ کی کمی کااحساس شدت سے ہوتاہے۔
اک آشنائے رازہے حیرت سے وہ بھی گنگ
اک آئینہ ہے وہ بھی مجسم سوال ہے
اب اک آشناتو ہے!لیکن وہ خود ورطۂ حیرت میں ہے۔اسے آنس کی وجود سے خوف محسوس ہونے لگتاہے۔وہ آنس کی اندرکی روشنی کوسمجھ نہیں پاتا۔اور مجسم سوال بن جاتاہے۔ادھر تحیرکی جستجو نے آنس کو خودبھی"مجسم سوال"بنا رکھاہے۔کیوں کہ آئینہ تو منعکس کرنے ولا ایک آلہ ہے۔اور آئینے کی سامنے "آنس"، یہ سوال اس کے چہرے پربھی ہے۔
جھیلوں کی طرح سب کے ہی چہروں پہ ہے سکوت
کتنایہاں پہ کون ہے گہرانہیں ۔ کھلا!
وہ پھرزندگی کی طرف لوٹتاہے۔"لیکن" جیسےاک طوفاں سے پہلے کی خاموشی"اندرکی دنیامیں ہل چل مچی ہے۔اندیشوں کے اژدر پھنکاررہے ہیں۔سفینۂ دل میں تلاطم بپاہے۔لیکن کسی کوبھی دیکھ کر محسوس نہیں ہوتاکہ کچھ ہونے ولاہے۔یاتوخوف نے سکتہ کردیاہے یاپھروہ سب بے خبرہیں۔آنس تھک کے بیٹھ جاتاہے۔ دوست دشمن کی پہچان نہیں ہوتی۔
ایک چہرہ نگاہوں کے دس زاویے
لوگ شیشہ گری کی دکاں ہوگئے
احمدندیم قاسمی نے کہاتھا کہ:
ہرآدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس آدمی کودیکھنا سوباردیکھنا
لیکن آنس کاانداز بیاں نہ صرف منفرد ہے بل کہ نئے خیال کومہمیز بھی لگاتاہے۔کس کس زاویے سے دیکھیں۔ہرلمحہ بدلتے چہرے،بدلتے رویے ،اعصاب شل کیے دیتے ہیں۔اب آنس کی پریشانی شروع ہوتی ہے،یہ انساں ہیں یا"شیشہ گری کی دکاں"ہیں۔
کچھ دیرمیرے ساتھ تماشابنے مگر
پھرتم بھی مل گئے تھے تماشائیوں کے ساتھ
اب بات"تم" تک آگئی ہے۔تم میں بھی ہو سکتاہوں،آپ بھی،اور'تم'وہ بھی ہوسکتاہے۔جواردو ادب کا'تم'ہے۔اب" تماشا"بنناکون ساآساں کام ہے؟اور ساتھ دینا،دنیاکامشکل ترین مرحلہ،جہاں اعصاب چٹک جاتے ہیں،رگیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔اس لیے تو بھرے بازارمیں،تماشا بناکے ،خود تماشائیوں میں شامل ہو گئے۔
جاگ اٹھتے ہیں کتنے اندیشے
ایک مٹی کاگھربنانے سے
من کی وحشت توکم نہیں ہوتی
د ر  و  دیوا ر  کے سجانے سے
جب فضاؤں سے ربط بڑھتاہے
ٹوٹ جاتاہے آشیانے سے
اب یہ کیوں اورکیسے ہوا؟اندیشوں نے طوفانِ بلاخیز کی شکل کب اورکیوں اختیارکی؟جواب بھی خود دیا ہے" ایک مٹی کاگھربنانے سے" ۔اس کاایک پہلو یہ بھی ہے۔جب اس فانی دنیامیں انسان گھربناتاہے۔تواس میں دنیاکی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔پھر گھرانہ شروع ہوتاہے۔اہل وعیال بنتے ہیں۔راستے ،رشتوں میں بدلنے لگتے ہیں۔موت کاخوف جاگزیں ہوتاہے۔اندیشے سر ابھارتے ہیں۔لیکن جو شخص اس دنیا کو ایک سنہری پنجرہ سمجھتاہو؟وہ اس میں گم نہیں ہوتا۔گھرسجانے سے "من کی وحشت "کم نہیں ہوتی۔جو آزاد فضاؤں کے طائر ہیں۔انھیں آزاد فضا ہی راس آتی ہے۔وہ زیادہ دیر اس قید کوبرداشت نہیں کرتے۔اور ان دیکھی، ان سنی دنیاؤں کی لگن انھیں بے خودکرتی ہے،تو وہ خواجہ غلام فریداحمت اللہ علیہ کے الفاظ"دنیاکوں چونچی لاڑ آ"کے مصداق اڑ جاتے ہیں۔پھرانھیں اس کاغم نہیں ہوتا کہ آشیاں تھا یا نہ تھا۔ان کا دنیاسے تعلق واجبی سارہ جاتاہے۔خلق سے بے گانگی انھیں فطرت کے حسن کی طرف متوجہ کرتی ہے۔لیکن فخرِانسانیت یہاں بھی آڑے آتاہے۔آنس عالمِ ناسوت کے حسن کے پاس جاتاہے۔حسن کیاہے؟علامہ محمد اقبال کی نظم"حقیقتِ حسن"سے پوچھتے ہیں۔
خداسے اک روز یہ حسن نے سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
اسے جواب ملا:
شبِ درازِعدم کافسانہ ہے دنیا
یہاں سے حسن کی سوگواری شروع ہوتی ہے۔مجیدامجد نے نظم"حسن" میں حسن کے عجب تیور بیان کیے ہیں۔
جمالِ گل ؟نہیں،بے وجہ ہنس پڑاہوں میں
نسیمِ صبح ؟نہیں،سانس لے رہا ہوں میں
یہ عشق توہے اک احساسِ بے خودانہ مرا
یہ زندگی توہے اک جذبِ والہانہ مرا
ظہورِکون ومکاں کا سبب!فقط میں ہوں
نظامِ سلسلۂ روزوشب !فقط میں ہوں
آنس نے ایک اورزاویہ واکیاہے۔ایک اورپہلوسے دیکھاہے۔
گیاتھامانگنے خوش بو، مَیں پھول سے لیکن
پھٹے لباس میں، وہ بھی، گدالگامجھ کو
آنس نے'پھٹے لباس'میں دیکھا۔اب آنس توشاہ کارِ حسن سے اس کا وہ حصہ، جو وہ پوری دنیامیں، بلا تمیز تقسیم کرتاہے،فیض اٹھانا چاہا۔لیکن جب آنس نے چشمِ بصیرت سے دیکھا تو وہ توخود کسی درکے سامنے کاسہ لیس تھا۔اشرفِ مخلوق کووہ مظلوم اورمجبوردکھائی دیا۔آنس کی غیرت نے گوارانہ کیا،وہ لوٹ آیا۔ 
ہمارے حسنِ طلب کولوگ کیاجانیں
شبِ سیاہ میں جگنواک استعارہ ہے
اترے والی ہے آنس تھکان آنکھوں کی
بہت بڑاہے افق اور ایک تارہ ہے
جو فرد ایک جگنو کوشبِ سیاہ میں روشنی کااستعارہ کہہ کر،اس کو امید کاپیام برسمجھتاہے۔یقیناً عام لوگ اس کے 'حسنِ طلب' کوسمجھنے سے عاری ہوسکتے ہیں۔ اور "لکڑی جل کوئلہ بھئی اور کوئلہ جل بھیو راکھ"( لکڑی جل کر کوئلہ بنی اور کوئلے ہو گئے راکھ)۔اب ایک تارہ ۔صرف ایک چنگاری اس خاکستر میں ہے۔تاحدِ فریبِ نظر افق کی پہنائیاں ہیں۔لیکن ایکتارہ ہے جوٹمٹماتاہے۔اب چہرےپرتھکن کے آثار نمایاں ہو چلے ہیں۔انکھوں میں نینس اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ہے صبح کے باطن میں وہی شب کی سیاہی
یہ صبح کامنظر اسی منظر سے اٹھاہے
اک چیخ سے مجروح نہ ہوگی یہ خموشی
طوفاں کبھی جھیل میں کنکرسے اٹھاہے
"یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحر"ایساکیوں ہوا۔اس کاجواب بھی آنس نے دیاہے کہ 'یہ منظر اسی منظر سے اٹھاہے'۔صبح کاانتظارکرنے والو،تم نے فقطِ انتظارِ سحر کیاہے!لیکن اسے اجالنے کاکوئی عمل۔۔۔!تو صبح کے باطن میں بھی شب کی سیاہی درآئی ہے۔اورآنس پکار پکار کے کہہ رہاہے۔تمھیں بارہا چلاچلاکرخبردار کیا گیاتھا۔ لیکن :
کشتی طوفاں کی طرف بڑھتی رہی
میں پکارتارہاتیزہواکے شورمیں
لیکن یہ چیخ گشتِ باز ثابت ہوئی اورجیسے ایک کنکرسے کبھی جھیل میں تلاطم پیدانہیں ہوتا،میری آوازبھی اک گونج بن کررہ گئی۔اوراب:
جیسے حاصل ہوصرف لاحاسل
خواب ،تعبیرِ خواب سے نکلے
اک غلط فیصلہ کیالیکن
عالمِ اضطراب سے، نکلے
کیاعجب ایک دوسراآنس!
ذات کے احتساب سے نکلے
حاصل کچھ نہیں۔لاحاصلی کوخوف آشیاں میں آبساہے۔اس پر بھی آنس نے اطمینان کرلیا۔اورمایوسی کوطاری نہیں ہونے دیا۔لیکن چاروں اوراک مجرم خاموشی نے اسے پھرسے معبدِ ذات میں قیدہونے پر مجبورکردیا۔
ذراتوکم ہوئیں تنہائیاں پرندے کی
اب اک خوف بھی اس آشیاں میں رہتاہے
محبسِ ذات سے طاہرِ روح نالاں ہے۔اس لیے 'خوف'سے بھی امید کشیدکرلیتی ہے۔کم ازکم تنہائی کے عذاب سے چھوٹے۔اب اس کاہم نشیں اک خوف بھی ہے۔آنس کی شاعری  میں بارہا، زندگی کی ہماہمی کی طرف لوٹنے کاذکرہے۔اب یاس سے آس کا پیداہونا کوئی آسان عمل نہیں،نہ ہی مذاق ہے۔ شاعر اس پربھی راضی ہے،فیصلہ چاہے درست ہویا غلط لیکن"عالمِ اضطراب سے نکلے"یہ روز کی کش مکش، گومگو،'ہے ،نہیں ہے' کی تلوار،کم سے کم اس سے تونجات ملی۔ آنس پھر ہمکتی زندگی کی طرف لپکتاہے۔ممکن ہے، اس دوران میں احتسابِ ذات کے عمل سے ،ایک دوسراآنس،سامنے آئے۔ایسے مثبت رویے رکھنے والاشاعر قنوطی یا موجودیت(Existentialismعام طورپراسے وجودیت لکھاجاتاہے) پرست نہیں ہوسکتا۔آنس میں سادیت نام کونہیں ہے۔وہ اس دنیاکو ایک ایسی کائنات کے تناظر میں دریافت کرنا چاہتاہے۔
مرے اندربسی ہوئی ہے اک اور دنیا
مگرتونے کبھی اتنالمباسفرکیاہے؟
یہ" تو" کوئی اورنہیں ہے۔یہ 'میں'اور'تو'ہیں۔یہ معاشرہ ہے۔جواقداروروایات،آداب واخلاق سے خالی ہوتاجارہاہے۔جہاں نفس پرستی ہی زندگی ہے۔جہاں خودپرستی ہی روشنی ہے۔جہاں خودنمائی ہی سب خوشی ہے۔ایسے میں آنس کیوں نہ کہے کہ کیاتم نے کسی حضرت انسان کوسمجھنے کی کوشش کی ہے۔خبثِ ذات سے نکلنے سےخوف،اور تعفن کے پھیلنے کے احساس نے،ہرکسی کو دھوکے میں مبتلاکررکھاہے۔اورکوئی بھی تو نہیں بولتاکہ:"بادشاہ سلامت آپ کےجسم پر لباس نہیں ہے۔جو بولے،وہ ولدالحرام ٹھہرے یاپھرگردن زدنی ہو۔تاوقتِ کہ ایک بچہ بول پڑتاہے۔بس پھرکیاتھا،سرگوشیان،چہ مگوئیاں جنم لیتی ہیں۔بادشاہ سلامت سوچنے پر مجبورہوجاتاہے۔بچہ جھوٹ کیوں بولےگا؟
ع            کبھی توبچہ صلیب جتنابڑابھی ہوگا
اب آنس  کو شدیدقحط الرجال کاسامناہے۔وہ بچہ کہاں سے لائے؟لیکن اسے اس بات کااحساس ہے اس لیے توکہہ اٹھتاہے" کبھی توبچہ صلیب جتنابڑابھی ہوگا"۔
لیکن مایوس اب بھی نہیں ہے۔
اک سردشام آئے گی تپتی سحرکے بعد
لاحاصلی کادکھ بھی ہے لمبے سفرکے بعد
اک دائرے میں گھومتی رہتی ہیں سب رتیں
ویرانیاں شجرپہ اگیں گی ثمرکے بعد
رہتاہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گامیں
جائے اماں اک اوربھی ہوتی ہے گھرکے بعد
اسے امیدہے کہ اب بھی ظلم تادیر طلم نہیں رہ سکتا۔یہ جھلسادینے والی دھوپ،یہ جلادینے والی "تپتی سحر"زیادہ دیررہنے والی نہیں ہے۔اس کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔اگرچہ لوگ ایک طویل جدوجہدکے بعد تھک چکے ہیں،'لاحاصلی کے سنپولیے بھی لپٹے ہوئے ہیں۔لیکن اسے پھر بھی امید ہے۔کرہ  اپنادائروی چکر مکمل کرنے والاہے۔اب درختوں پر شجر آئے گا۔اس کے بعد ویرانیوں کی باری ہوسکتی ہے۔لیکن میں مایوس نہیں ہوں اورنہ ہی گھر کے ہونے نہ ہونے کاغم ہے۔ کیوں کہ" جائے اماں اک اوربھی ہوتی ہے گھرکے بعد"۔دل کی گہرائیوں سے پھر ایک کرن پھوٹتی ہے۔
تھامے ہوئے گرتی ہوئی دیوارکواب تک
شایدمرے ہاتھوں کے سوااوربھی کچھ ہے
میں اکیلانہیں ہوں یہ'گرتی ہوئی دیوار' صرف میرے تھامنے سے نہیں رکی،کوئی اوربھی ہے۔جو مرے ساتھ ہے۔عرفانِ ذات آنس کو الہامی طورپر مدد کرتا ہے۔اسے نچلانہیں بیٹھنے دیتا۔اندرکی روشنی اسے زعمِ ذات میں مبتلانہیں ہونے دیتی۔اسے اپنی کم زوریوں کابھی علم ہے۔اوراپنی انتہاؤں کوبھی جانتا ہے۔وہ صرف معاشرے کے رِستے ناسوروں پرنشترنہیں چلاتا بل کہ اپنامحاسب بھی آپ ہے۔اس لیے خوش فہمی میں مبتلاہونے کی بجائے یا نمائشِ ذات کی بجائے ،وہ واضح کرتاہے"کوئی اورہے،جس نے دیوارکوبھی تھاماہواہے اورمجھے حوصلہ بھی دے رکھاہے۔
ذراساکھول کے دیکھوتوگھرکادروازہ
یہ کوئی اورہی دستک ہے اب ہواکب ہے
اسے ملے ہومگرجانتے کہاں ہوتم
خوداپنے آپ پہ آنس ابھی کھلاکب ہے