Friday 21 September 2012

'ذراتم ادھر سے گزر کرتودیکھو'۔مظہرفریدی


'ذراتم ادھر سے گزر کرتودیکھو'

یہ بات ہے توپھربات کرکے دیکھتے ہیں،چلوہم بھی ادھرسے گزرکے دیکھتے ہیں،جنابِ صدر،کون ہے جوگزرکرنہیں دیکھتا، جوبھی گزرتاہے ، اورجب بھی گزرتا ہے،دیکھتا ہے،بعض اوقات گزرتاکوئی اورہے،دیکھتاکوئی اورہے،'سرِ آئینہ مراعکس ہے،پسِ آئینہ کوئی اورہے' ،گزرنے کے خواہش کسے نہیں ہوتی، لاتعدادلوگ گزرتے ہیں،شایدمعاملہ 'اِدھر'پراٹک گیاہے،گزرنے والےگزرتے رہے کچھ بھی نہ ہوا،دیکھنے والے گزرگئے، گویا گزرنا اوردیکھنااس میں توکوئی اچنبا نہیں، اورنہ ہی جمالیاتِ لطیف اس میں کوئی مزاح پاسکتی ہے، ہاں ادھرسے گزرنا شاید معاملے کوکرخت لطافت عطاکر  سکتاہے۔
اس طرح کی خوش خبری ہمیں کراچی کی بس سروس سے موصول ہوئی 'اگرطبعِ نازک پرگراں نہ گزرے تو'ذراتم ادھر سے گزر کر تو دیکھو'،توگزرکر دیکھنے میں کن تجرباتِ تازہ کااندازہ ہوا، کچھاکھچ بس مسافروں سے لدی ہوئی،اوراس پہ خوش بوپسینے کی بسی ہوئی،مقابلہ نشست تھاجوقومی نشست بن گیا،جومحترم تھا،وہ خجستہ ہوا،جوشکراتھاآخرشکستہ ہوا،اس طور جواپناسفرتھاتمام،جیسے ٹھونسے ہوں بوری میں کھلونے گگ دام ۔ بقول ضمیرجعفری

جوگردن میں کالرتھا'لر'رہ گیاہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر'رہ گیاہے

خداجانے مرغاکدھررہ گیاہے
بغی میں توبس ایک پررہ گیاہے

کوئی مفت میں مفتخرہورہاہے
کراچی کی بس میں سفرہورہاہے

اک دن قلعۂ ملتان پرایک ماجرایہ ہوا،کسی نیک بخت نے خداکے خوف سے ،ایک بھیکاری کوکچھ دے دیا خیرات میں،پھر نہ پھوچھواس بے چارے کی داستاں،ایک لنگوٹی میں وہ بھی بیٹھا تھاوہیں،اور کسی منچلے نے پوچھاجواحوالِ یار،توبے ساختہ زباں سے  یہ کلمے اداہونے لگے۔

مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

اس سے آگے بڑھے تو کچھ قوال تھے ،سرتال میں یوں الجھے ہوئے جیسے کہ بد حال تھے،اس پر کچھ لوگوں پر اک حال تھا،اس پرایک مستور پر جنجھال تھا۔

گانے والے راگ میں ٹمراگ کے استاد تھے  
                                عقل میں ہم زلف تھے اورشکل میں ہم زاد تھے

تل میں بھونچال تھے،سُرسُرتیاں ایجادتھے 
                                یعنی اس فن کے پرانے صاحبِ اولاد تھے

ابتدا یہ تھی کہ وہ طبلوں کو سمجھاتے رہے
                                انتہا یہ تھی کہ طبلے آپ ہی گاتے رہے    

اس لیے سرکاری اسکولوں کے طلباء کانجی یاپبلک اسکولوں کے قریب پھٹکنابلکہ پرمارانا ،غیراخلاقی عمل سمجھا جاتاہے، دیہاتیوں کا شہریوں میں گل مل جانا یاان کی تقاریب میں شرکت کرنا،بھی مناسب نہیں سمجھاجاتا،اسی طرح معصوم طلباء کاچنگیز خاں یاہلاکوخاں جیسے اساتذہ کے قریب پھٹکنا،ایسے ہی غریب مریضوں کاہسپتالوں کے قریب سے گزرنایااندر گھسنے کی کوشش کرنااس لیے ناپسندیدہ عمل نہیں ہے کہ ہسپتال کاعملہ خدمت میں کویاہی کاموجب بنتاہے،یاخدانخواستہ ان کےآرام میں خلل پڑتاہے،یاوہ چوکس نہیں ہوتے بلکہ عوام کوان چھوتی اورخطرناک بیماریوں سے بچانے کی مہم کاحصہ ہے،جس سے عوام بعد میں پریشانی میں گرفتار ہوسکتے ہیں ،آپ خود اندازہ لگالیجئے کہ ملیریا یاتپ دق سے مرناکس قدر آسان عمل ہے چہ جائے کہ انسان کسی موذی مرض میں گرفتار ہوکرمرے ،اوراس کی روح مرنے کے بعد بھی پریشاں پھرے۔

ہاں البتہ جنابِ صدر اگر معاملہ لال مسجد کاہو ،لیکن یہ مسجد لال کیوں ہوتی ہے؟،کس طرح ہوتی ہے؟کون جانتاہے؟، یاپھر وزیرستان ، یاوہاں کا انتہائی پس ماندہ طبقہ جہاں طالبان، دہتشت گرد یااسامہ بن لادن  یااس کے کسی ساتھی کااحتمال ہوسکتاہو، جنابِ صدر کتنی بری بات ہے،ہے ناں!،اگروہاں اخباری نمائندوں کی جان کوبچانے کی خطر،ان کونہیں جانے دیاجاتاتوبراکیاہے،


ہراک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیاہے
تمہی کہوکہ یہ اندازِ گفتگوکیاہے

یہی حال شاہراہِ دستور کاہے،اب یہ بھی کوئی مہذب بات ہے کہ قانون کے رکھوالے سیاسی جماعتوں کی طرح جلوس نکالنے لگ جائیں۔ توشاہراہِ دستور کااللہ حافظ ہوگا،اس پربھی یہ الزام کہ 'ذراتم ادھرسے گزرکرتودیکھو'،ہماری ہر بات کومنفی انداز میں لیا جاتاہے، اور کہاجاتاہے کہ۔


'انہی کےووٹ سے اس قوم کا ایوان بنتاہے                                    وزیرآباد بنتاہے وزیرستان بنتاہے

جومولاجاٹ ہوتاہے،ایم این خان بنتاہے                                      انہی کی کھاد سے ہرکھیت کاکھلیان بنتاہے

انہی کی خ سے خیبر،میم سے ملتان بنتاہے                                        یہ جس پے پرکوپربخشیں ،وہی پردھان بنتاہے

کوئی دستور ہویہ لوگ بے منشور رہتے ہیں                                       یہی کوچہ ہے جس میں قوم کے جمہور رہتے ہیں

جنابِ صدر جمہور کی بات چھوڑ یے ،ایک منظرہرشہرکے اندرون کادیکھیے،جہاں ہرکوچہ وبازارسے یہ آواز آتی ہے،'ذراتم ادھر سے گزر کرتو دیکھو'، اورجوایک بارگزرگیااسے دوسری بارگزرنے کی ہوس نہیں،ااگر شیروانی میں گیاتھاتوواسکٹ میں لایاگیا،اگرتھری پیس میں ملبوس تھا تولنگوٹی میں پایاگیا، اوراحتیاطاً کوچے کے ہربچے اور مستور سے پٹوایاگیا،اس پر بھی کوئی کسر رہی تو' کلو' کے ابا کوبلوایا گیا،اور 'ان کے پاس بھجوایا گیا، جن کانعرہ ہے: 'پولیس کاہے فرض مددآپ کی'،کیوں کہ 'بات تو احساس کی ہے'،ہے ناں،اسی خدشے کے پیشِ نظر، جنابِ صدر، حکمرانِ وقت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام قدامت پرست ثالثوں کو جدید رنگ وآہنگ میں ڈھالنے کے لیے، اور قوم کے بہترین مفاد میں پی سی او ،کااجراء کیا جائے،اب کون ان لوگوں کو سمجھائے کہ ثالثوں کی حفاظت اورعوام الناس کوقانونی پیچیدگیوں سے بچانے کے لیے شاہراہِ دستورکوبندکردیاگیا۔تاکہ عوام شانت ہو کراپنے گھروں میں آرام کریں،اور منصفین بھی تومسلسل کام کرکے تھک گئے تھے۔آرام کرناان کابھی توحق ہے اوریہ حق دیناحکومت کی ذمہ
داری ہے سوحکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کی تو کیا برا کیا۔

اب دیکھنایہ ہے کہ کہیں آج کے منصفین یہ نہ کہیں ،ہمارے ہوتے ہوئے ،'ذراتم ادھرسے گزرکرتودیکھو'۔



سنائیں تمھیں بات اک خواب کی،مظہرفریدی


سنائیں تمھیں بات اک خواب کی
کل شب تھکن سے بدن چور تھا،لیٹا تو ،مدہوش ایسا ، مجھے اپنی کو ئی خبر نہ رہی تھی ،تخئیل کی پریاں مجھے ایسی وادی میں لے کے چلی تھیں،کہ جن کی فضاؤں نے بے سدھ کیا تھا ،خواب ایسی حالت ،وہ سپنے سہانے ،تو کیا دیکھتا ہوں!، فضائیں معطر،سورج کہ اپنی سپیدی میں خود بھی دھلا تھا،اورچرخِ کہن تھا شفاف ایسا کہ نیلا گگن، نیل گوں روشنی سے جھجھکنے لگا تھا ، ہوائیں دور دیس کے سندیسے تھی لاتیں، شجر اور حجر دونوں مسرور ایسے،کہ دیکھے نہ پائے،تو بھی وہیں تھا ،مگر اک سنگاسن پہ  جلوہ فگن تھا ،تیرے چار جانب حسینوں کا جھرمٹ، اپنے جِلو میں تجھے وہ لیے جا رہی تھیں،جاتے ہوئے تو ذرا دیر کوہی رکا تھا،اچٹتی ہو ئی تیری نظریں ،نہ جانے کسے ڈھونڈتی تھیں، اچانک مجھے تو نے دیکھا ،تو حیران آنکھیں پرسکوں ہو گئی  تھیں،خاموش مسکان ہونٹوں پہ تیرے،بے چین نظریں دمکنے لگی تھیں ،کہ جیسےکنول کوئی کھل گیا ہو،تری اس ادا پہ ،میں بھی ذراسامچل ہی گیا تھا ،کیا یہ واہمہ تھا؟
                یہ باتیں مگر ایک خواب کی ہیں،اس خواب نے مجھ کو یوں ہے بسایا،میں جاگتا ہوں مگرخواب میں،بظاہر میں ایک دیوانہ مجنوں،مگر میرے اندراک دنیا بسی ہے،جہاں سپنے سہانے بنتے رہے ہیں،جہاں خواب پریاں مچلتی رہی ہیں،مسلسل کئی سال سے ،وہی ایک خواب دیکھے چلے جا رہا ہوں،یا مجھ میں کوئی آ کے ٹھہرا ہوا ہے۔
                میرے خواب کی وہ سکھی سہیلی،کچے گھروندے ،گھروندوں میں پانی ،وہ گڑیا کی شادی،وہ شادی کی بارات میں غل مچانا،وہ برتن کھلونے،کھلونوں میں کھانا،مگر اپنے اپنے گھروں کو جو جانا،وہ گڑیا کا جھومر،وہ کنگن ،وہ مالا،ایک ایک گن کے ساری چیزیں چھپانا،وہ ہنس ہنس کے ساری کہانی ماں کو سنانا،وہ معصوم خوشیاں ،وہ معصوم جھگڑے،لڑنا جھگڑناآخر  منا نا،یہ باتیں مگر خواب سے بھی پہلے کی ہیں۔

اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں،مظہرفریدی


اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
آج کی دل کش ودل فریب دنیا،یہ نیویارک ہے ،دنیاکااہم ترین شہر،یہ ٹوکیوہے ٹجارتی دنیاکابے تاج بادشاہ،یہ لندن ہے ،یہ پیرس ہے،یہ پیکنگ ہے،یہ واشنگٹن ہے،یہ ہانگ کانگ ہے،دنیاکی چمک دمک کے لوگوں کودنیاکااس قدراسیرکردیاہے،کہ خواب میں بھی اب چاند ستارے نہیں اترتے بل کہ ہوائی کے کناروں اوراٹلی کے بازاروں میں گومنے کی امنگ پیداہوتی ہے۔محترمۂ صدر!مغربی استعماروں نے ترقی کاایسا غلغلہ اوررنگ وجل ترنگ ،نمود ونمائش،خواب وخواہش اورسائنس اورٹیکنالوجی کے آسماں کوچھوتی ہوئی ترقی،اورمشرق کاپساہوادرماندہ وپس ماندہ،مجبور ومہقور،مسدودومعذورانسان جب اردگردکاجائزہ لیتاہے توفضاء کی سرگوشیاں یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔
گر جنت بہ زمیں است                                امریکہ و یورپیں است
محترمۂ صدر!میری مٹی کاسونا مغربی ممالک میں سرف ہورہاہے۔میری قوم کی ذہانت وفطانت،یورپی ممالک کی ترقی میں گل گارے کاکام دے رہے ہیں۔میرے نوجوانوں کی ہڈیاں اینٹ اورپتھربن رہے ہیں۔وجہ محترمۂ صدر!وہ استعماری نظام ہے۔ جس نے پوری دنیاکے انسانوں پر ایک دبیز غلاف کی تہہ بٹھارکھی ہے۔شوکت وحشمت،دولت وطاقت،کے دکھاوے نے بہلاپھسلارکھاہے۔جس طرح امیرِ شہرکولوٹنے کی عادت ہوتی ہے۔امیرِ دنیا،اسیرِ کبرونخوت یورپی اقوام نےہمیں اپنے ریشمی لبادوں  اورکاغذی چہروں کے طلسم میں اسیرکر رکھاہے۔یہ طلسم طلسمِ سامری سے کم نہیں۔
محترمۂ صدر! مفکرِ اسلام ،حکیمِ الامت،شاعرِ مشرق سے جب اس کے معصوم بیتے نے معصوم سی فرمائش کی اورمغرب سے کوئی تحفہ لانے کامتمنی ہواتواس بلبلِ ہندوستاں نے ،اس طوطیٔ ہندنے ،اس صاحبِ ایمان نے اپنے بیٹے کوچنداشعار تحفے میں لکھ بھیجے۔
اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں                          سفالِ ہندسے میناوجام پیداکر
مراطریق امیری نہیں فقیری ہے                          خودی نہ بیچ ،غریبی میں نام پیداکر
اے بیٹے تجھے فرنگیوں کااحسان مندہونے کی ضرورت نہیں ہے۔تجھے فریب خوردہ لوگوں سے مرعوب ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ فریب خوردہ شاہیں ہیں جوگرگسوں میں پلے ہیں۔جو غلامانہ اور مرعوب کن خیالات سے لوگوں کومسحورکررہے ہیں۔وہ ضمیر فروش ہیں۔اے نورِ نظر تجھے درویشی ،قناعت اورانسان دوستی کواپنانا چاہیے۔
محترمۂ صدر! شاعرِ مشرق نے یہ وصیت تین چوتھائی صدی پہلے اپنے بیٹے کوکی تھی۔کیوں کہ وہ حکیم الامت ریخت ہوتی ہوئی یورپی تہذیب کانہ صرف گواہ ہے بل کہ نقیب بھی ہے۔اسے یورپ کی ترقی متأثر نہیں کرتی بل کہ خیال کادھارا اس ریخت میں چھپی شکست اور گم نامی کے اندھیروں کودیکھ رہاہے۔
                تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
                شاخِ نازک پہ جوآشیانہ بنے گاناپائے دار ہوگا
محترمۂ صدر!اک طرف ہمارے عاقبت نااندیش حکمران اور لوگ ہیں،جنھیں یورپی کلچر بہت "رچ" نظرآتاہے۔طائفے ہیں ،بے حیائی ہے، آزادی ہے۔اورحکمرانوں کوپونڈ اورڈالر کی خوش بوسے سرورآتاہے۔اوروہ ایسے بدمست ہاتھی بن جاتے ہیں کہ ملک ہربارداؤپہ لگ جاتاہے۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک خاک روب کومحملِ شاہی کی صفائی کاموقع ملا۔جونہی اس حصے میں داخل ہوا،خوش بوؤں کے سمندرمیں غرقاب ہوکردھڑام سے زمیں بوس ہوا۔سب پریساں ہوگئے یہ کیاماجراہوا؟وہ روزانہ صفائی کرنے والی کنیزکہیں نزدیک ہی موجودتھی۔ بولی جان کی اماں پاؤں توکچھ کوشش کردیکھوں۔اشارہ ملتے ہی جوتااتارناک پر رکھا۔فورا!ہوش میں آیااوراستفسارکرنے لگاکہ کیاہواتھا۔
محترمۂ صدر!ہمارے اذہان،افہام،اوہام توپہلے ہی اسیرِ نیرنگ فرنگ ہیں ۔جب بھوکوں ننگوں،حرص وہوس کے پجاری مفلوک الحالوں کو، دولت لکشمی کے چرن نصیب ہوتے ہیں۔وائٹ ہاؤس کی آب وہوامیں پہلاسانس لیتے ہیں۔ان کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔انھیں وہاں حورو غلماں ٹہلتے دکھائی دیتے ہیں۔اب ہوش کس ظالم کوآئے۔"مرکے پہنچے ہیں اس دل رباکے واسطے"اب ہرمعاہدہ عالمِ مدہوشی میں ہوتا ہے۔آپ ہی بتائیے محترمۂ صدر!کوئی مدہوش آدمی ہوش مندکام کرسکتاہے ؟ محترمۂ صدر!جس طرح ہرچمکتی چیزسونانہیں ہتی، ہربہتی چیز کمبل نہیں ہوتی،ہرروشنی ہدایت نہیں ہوتی،ہررات تاروں بھری اور چاند سے سجی نہیں ہوتی۔اسی طرح مغربی استعماروں کی محبت ومروت، امدادواحساں، نہ معلوم کس بغض وعِناداورحرص وہوس کاپیش خیمہ ہیں۔
محترمۂ صدر!سفال ہندسے میناوجام پیداکرنے کاعمل،ہمیں حیدروٹیپو،سراج الدولہ،فضلِ حق خیرآبادی،نواب سلیم اللہ خاں ، سردار عبدالرب نشتر،بہادریارجنگ،علامہ محمد اقبال ،اورمحمد علی جناح جیسے بطلِ جلیل دے چکاہے۔دریوزہ گری نے ہمیں اقوامِ عالم میں گداگر اور بھیکاری بنادیاہے۔اس لیے حکیم الامت نے فرمایاتھا
                                دیارِ عشق میں اپنامقام پیداکر                
نیازمانہ نئے صبح وشام پیداکر
                                خدااگردلِ فطرت شناس دے تجھ کو
                                                                سکوتِ لالہ وگل سے کلام پیداکر

اس سلگتے شہرمیں سائے کہاں،مظہرفریدی

اس سلگتے شہرمیں سائے کہاں
ابھی ہیروشیماسےاٹھتی ہوءی سسکاریاں تھمی نہیں تھیں،ابھی ناگاساکی کی کرلاہٹوں سے بے چینی کم نہیں ہوئی تھی۔ابھی سقراط کے لبوں پہ زہرکی کڑواہٹ کاذائقہ نہیں بدلاتھا۔ابھی یونانیوں کے زخم نہیں بھرے تھے۔ابھی چیکوسلواکیہ کے مزدوراپنے خون سے داستانِ الم لکھ رہے تھے۔صلیبِ عشق پرابھی تک جسم مصلوب تھا۔فلسطیں کے درودیوار ابھی تک ماتم کناں تھے۔الحمراکے محلات اپنے کھنڈروجودپر اشک فشاں تھے۔غرناطہ کے گلی کوطوں سے آہ وفغاں کی آوازکم نہیں ہوئی تھی۔بغدادابھی چنگیزی اورہلاکوکی بربریت کوبھلانہیں پایا تھا۔ عفت کشمیرابھی تک تارتارتھی۔چناروں کاعروسی لباس ابھی تک لہورنگ تھا۔کہ امنِ عالم کے نام پر،بابل ونینواکی تہذیب کوایک باپھر کھنڈر بنانے اور تماشاگہہِعالم میں انسانیت کے کاغذی غازے پر ریاکاری وملمع کاری کی تہہ بٹھانے کے لیے ہنستے بستے شہروں ،پرسکون ومطمئن لوگوں کواٹھاکر جنگل اور پتھر کے دورمیں پھینک دیاگیا۔ابھی دجلہ وفرات کے ناسور بھرے نہیں تھے۔کہ فضاء اچانک دل دوز دھماکوں ، کروزمیزائلوں،اورکرپٹ بموں نے سنگلاخ پہاڑوں کے چہرے بگاڑ دیے،احمد آباد اورگجرات میں جلتے زندہ انسان میری تہذیب وشائستگی کامذاق اڑانے لگے۔حیراں آنکھیں   مجھے دیکھ کرپتھرانے لگیں۔معصوم کلکلیں،میری آہٹ سن کرچینخوں کاروپ دھارنے لگیں۔ سہاگنوں کے چوڑے سارے میں بکھرنے لگے۔میں اپنی ذات کے اندر بکھرنے لگا۔لاشعور جے جب تمام تر توانائیوں کو مجتمع کرکے کہاکہ میں تاامن کاپیام بر ہوں۔جدیدتہذیب کاعلم بردارہوں۔تمدن کی تصویرہوں۔تمہارے غموں سے دل گیرہوں۔تومیرے جواب میں ان کے چہروں پرایسی نفرت انگیزخندہ زنی تھی کہ مت پوچھیے۔اچانک ہر طرف سے یہ آوازیں بلندہونے لگیں۔
                                اس سلگتے شہرمیں سائے کہاں
ان دل خراش آوقزوں نے مجھے سن کردیا۔میراوجودشکست وریخت سے ریت ہونے لگا۔"میں توکھڑاتھامگرمیرابدن ڈھے گیاتھا"۔میری حیرت دوچندہونے لگی آخرلبوں سے فقط اتنانکلاکہ ہواکیاہے؟تویہ آوازیں مرے وجودکوشل کررہی تھیں اے عاقبت نااندیش انسان
                                جہاں سکون کی قیمت ہوآدمی کالہو
                                                وہاں پرگردشِ ایام کی کسے ہوخبر
محترمۂ صدر!ظلم رہے اورامن بھی ہو،کیاممکن ہے تم ہی کہو،امنِ عالم کے نام پر کلچر وطائفوں کے فروغ پر،رقص وسرود کے انعقاد پر،بند کمروں میں مفلوکالحال لوگون کی خوش حالی پرگفت گو کرتے ہوئے لاکھوں ڈالرخرچ کردیے جاتے ہیں۔لیکن ان کاہلکاساعکس بھی عام آدمی کی زندگی پرنظر نہیں آتا۔
عجب شیشہ گرہیں ترے شہرکے لوگ ،
مرمت شیشے کی کرتے ہیں پتھروں سے
اور                           تیری شائستہ لباسی سے میں عریاں ہوگیا      
میری عریانی تجھے ملبوس پہناتی رہی
محترمۂ صدر! باجوڑ کے مدرسے کی دیواریں پوچھتی ہیں،جامعہ حفصہ کی معصوم پکاریں پوچھتی ہیں، لال مسد کی مسکوت فضائیں پوچھتی ہیں، اس سلگتے شہرمیں سائے کہاں،وزیستان کے پتھربولتے ہیں،وادیٔ سوات کے کنکربولتے ہیں،خوف کے ایک نادیدہ جال نے سرگوشیوں کر طلسم کیااورفکر زخمی ہوا،ایسے میں محترمۂ صدر!خواہشیں ۔۔،جیسے شکستہ کشتیاں،ولولے۔۔،جیسے دریدہ بادباں،خواب۔۔،جیسے ساحلِ امکاں پہ دھند،یاد۔۔،جیسےبجھتی مشعل کادھواں،جستجو۔۔،جیسے تھاہاراپرند،جھاگ میں لہروں کے ڈھونڈے آشیاں۔ محترمۂ صدر!وہی منصف وہی قاتل،ورلڈٹریڈ سنڑ بھی ان کا،پینٹاگون بھی،جدیدترین کیمیائی ہتھیار بھی ان کے امن معاہدے بھی،حیات کش حیاتیاتی ہتھیار بھی ان کے ،انسانیت کی علم برداری بھی،جودنیاکوسلگانے کے لیے اپنے گھرکوآگ لگاسکتے ہوں ان سے وفاکی امید باندھنادیوانے کاخواب ہے،آو ہم ایک عہدکریں کہ
                                کم سے کم اک دیا کروروشن                                   
اپنی ہستی کی شام سے پہلے                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    

مجید امجد کو سمجھنے کے لیے،مظہرفریدی،الزبیر اردو اکیڈمی پہاول پور 2

 اس انکارکے بعدعلامہ اقبال یادآتے ہے۔اقبال کاشکوہ یادآتاہے۔شاعراقبال کے حضورپھرمحبت کا نذرانہ پیش کرتاہے۔
                                ثبت لوحِ جہاں پہ نام اس کا                         
زندۂ جاوداں کلا م اس کا
                لیکن اقبال بھی اس دنیا میں نہ رہا۔ہرچیزفانی ہے،تولمحات فانی کاذکرضروری ہوجاتا ہے۔لیکن کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جوبھلائے نہیں بھولتے ہیں۔
مگروہ وقت جب تیرہ خلا میں                         ستاروں کی نظرگم ہورہی تھی
اوراس دم میری آغوشِ گنہ میں                   قیامت کی جوانی سورہی تھی
ایسے میں تغیرِعمل کا شادیانہ بجتاہے۔شومئی تقدیرکا گلہ یاتدبیرکی ناکامی کاماتم نہیں بلک "نفیرعمل "میں"نوجوانان وطن !آکوئی کام کریں" کاسندیسہ ہے۔لیکن سرِبام مرکزِحسن کی طرف نگاہ بے ارادہ بھی اٹھ ہی جاتی ہے۔کیوں کہ وہاں اک پیامِ خموش منتظرہے۔ جو دامنِ دل کوتھامنے کی ناکام کوشش کرتاہے۔دوسری طرف اک التماس ہے۔
                                ع           جوانی کے اک خواب سے کھیلنے دے
لیکن زنداں کادرکھلتا ہے۔قیدی سے ملاقات ہوتی ہے۔ شاعرقیدی سے ہم کلام ہے۔
کہ زنجیرکی کڑیاںزندگی کی الجھنوں کے سلسلے کی طرح ہیں اور:
                ع           بیڑیاں ،قیدی!ترے پاؤں میں ہیں تاگے نہیں
قیدمیں خوابوں پرتوپابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔اچانک ایک آواز،ایک سپنا،اسے بے چین کردیتا ہے۔کون؟کون ہوتم؟لیکن وہ توایک سپناتھا۔
                                میں اس شکل موہوم کوڈھونڈتاہوں
                                میں اس سرِمکتوم کوڈھونڈتاہوں
یوں زندگی کی تلاش شروع ہوتی ہے۔"شاعر"ے ملاقات ہوتی ہے۔یاپھرخودکلامی :
                                یہ محلوں یہ تختوں،یہ تاجوں کی دنیا
                                گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا
                                محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا
                بقول ڈاکٹرخواجہ محمد زکریّا،ساحرلدھیانوی کے مشہورگیت کے بعض مصرعے اس بند سے ماخوذ ہیں۔اورمیرے نزدیک پوری نظم کاخیال اسی نظم سے مستعارہے۔اس بندمیں " گناہوں میں لتھڑے رواج "   کیاخوب صورت ترکیب ہے۔رواج فردکوکس طرح بے دست وپا کردیتے ہیں۔ اورپھر:
                                میری عمربیتی چلی جا رہی ہے
                                دوگھڑیوں کی چھاں ڈھلی جارہی ہے
                                ذراسی یہ بتی جلی جا رہی ہے
 زندگی کوبتی سے تشبہیہ دینا ،مجیدامجدہی کا فن ہے۔بتی کا جلنا،زندگی کا گھٹنا اور حدتِ غم یاآتشِ سوزاں جیساتلازمہ تراشاگیاہے۔بتی بجھی،زندگی ہونے سے نہ ہونے کی سرحد میں داخل ہوگئی۔بہارکی پون رت نے پہلی کلی کوکھلا دیا۔آبشاروں کی راگنیاں جاگیں ۔خوشبو نے خمارکا عالم کردیا۔اورشاعرِبے نشان پابہ گل،اپنی تہی دامانی کے باوجودیہ پہلا پھول ،
حسن محبوب کی خدمت میں بھیجتاہے۔یہ پھول کیاہے؟
                                کومل سا،مسکراتاہوا،مشک بارپھول
                                پروردگارِعشق کا یہ بے زباں رسول
                پروردگارِعشق اوربے زباںرسول کی تراکیب مجیدامجدکے فن کوایک قدم اور آگے بڑھاتی ہیں ۔عشق کاراز،اورقاصدکی خاموشی،لیکن اگرقاصدپھول ہوتوپھرگویائی شرما جائے۔ تقریرفداہو، سکوت باتیںکرے۔یہ پھول،بھولے بسرے دنوں کی یادتازہ کرنے کا اک بہانہ ہے۔کیوں کہ:
                                وہ دیکھ پوپھٹی ،کٹی رات اضطراب کی
                                اچھلی خطِ افق سے صراحی شراب کی
خطِ افق سے شراب کی صراحی کااچھلنا،زندگی کی عجب تأویل ہے۔اضطراب کی رات کا کٹنااورصبح کا اجالاہونا۔اس کی تشبہیہ اس خوب صورت اندازمیں غالباً اس سے پہلے نہیں دی گئی۔  سامنے زندگی کے ہمہمے ہیں۔نئے سفرکی ابتداہوتی ہے۔ریل کاسفرشروع ہوتاہے۔اورشاعرریل سے زندگی اورمتعلقاتِ زندگی کا نظارہ کرتاہے۔نظم کامجموعی تأثر دماغ کی بجائے دل پرہوتاہے، جو روح کے تاروں کوچھیڑدیتاہے۔
                                کنواں بن میں بربادسااک پڑاہے
                                                کسی یادِرنگیں میں ڈوباہواہے
                                کشش ہے فسوں ہے نہ جانے وہ کیاہے
                                                جوگاڑی کوکھینچے لےے جارہا ہے
لیکن یہ مناظراسے’ میراسکھ بھرادیس جھنگ آگیاہے‘،کی خوش خبری دیتے ہیں ۔ سفر کے فسوں نے نہ صرف گاڑی پرقبضہ کررکھاہے۔بلکہ شاعرکی تمام رگیں بھی کھنچی ہوئی ہیں۔ دیس، جھنگ کے آتے ہی روح پراطمینان کی پریاں اترتی ہیں۔اوروطن میں آنے کے بعد شاعران دیکھی زنجیروں میں جکڑاجاتاہے۔کیوں کہ"بھلا کران آنکھوں کااشارہ جانہیں سکتا" حالاں کہ اسے آفاق کی پہنایاں آوازدیتی ہیں اوراسے یہ احساس بھی ہے۔یہ سچ ہے’ اپنے جوہر کھورہا ہوں دیس میں رہ کروجہ وہ ملتجی آنکھوں کی حیرانی اوراشک فشانی ہے۔ شاعرکی دنیامیں انقلاب برپاہوتا ہے۔آہوں سے روح کی اگنی کی بھبھک جاتی رہتی ہے۔ تخیل کی رنگیں دنیا نے جوپردہ رخِ ہستی پرڈال رکھاتھا،اٹھنے لگتاہے۔بادِصباکے جھونکے دل کے شعلوں کوہوادیتے ہیں۔ غنچوں کاتبسم ،رونے کاسبب بن جاتاہے۔اگرچہ یہ بات ماننے کے باوجودکہ:
                                چاندکی قاش سے ماتھے کی صباحت !سچ ہے
                                پھول کی طرح حسین چہرے کی رنگت !سچ ہے
لیکن شاعرپریہ رازکھل چکاہے کہ :
                حسن اک دھوکاہے اورعشق بھی خودبھول ہے اک
                                تتلی کیوں گل پہ گرے تتلی ہی خودپھول ہے اک
یوں شاعرغزالی آنکھوں کااشارہ بھول جاتاہے۔لیکن روح اسیرِفریبِ محبت ہے۔اس لئے کہہ اٹھتاہے۔
                ع           یہیں پہ رہنے دے صیادآشیانہ میرا
                کیوں کہ اسی جگہ شاعرسوزِمحبت کے طلسم میں گرفتارہواتھا۔اس لئے اس ٹھکانے سے جانانہیں چاہتا۔اس اعتراف کے ساتھ کہ وہ ایک تنکاجس پراس ٹھکانے اورخوشی کی بنیاد ہے،اسی کے چمن سے چرایاہواہے۔لیکن درگزرکی درخواست کرتاہے۔کہ آج کے بعدمیں اپنی زبان نہ کھولوں گا۔
                                اندھیرے میں کوئی پتہ جوسرسرا  تا  ہے
                                تواب بھی راتوں کودل میراچونک جاتاہے
                                سمجھتا ہوں و ہ مراہم سرورآتاہے
                                                                ہے جس کی ایک امانت یہ آشیانہ مرا
                                                                یہ ٹوٹی ٹہنی پہ بربادسا ٹھکانہ مرا
                لیکن امیدکا ستارہ نہیں چمکتااوریہ نوا،تشنج آمیزبے بسی بن جاتی ہے،لیکن دل ہے کہ مانتانہیں۔اسے ابھی تک انتظارہے۔
                                وہ دیکھ !شا خیں ہلی ہیں ۔وہ آرہا ہوگا
                                حسین کلیاں کھلی ہیں ۔وہ آرہا ہوگا
                                رتیں رتوں سے ملی ہیں۔وہ آرہا ہوگا
                                                                یہیں ،ادھرہی،وہ سکھ سنگتی پرانامرا
                                                                یہیں پہ رہنے دے صیاد،آشیانہ مرا
کوئی نہ کوئی بہانہ،اس کے قدم روک لیتاہے۔اورشاعرپھرصیادکے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔لیکن کون لوٹ کے آتاہے۔یہاںتک کہ بیساکھ آجاتاہے(یہ ساون رت ہے ۔ اس رت میں پون پودوں کونیاحسن دیتی ہے۔غنچے کھلتے ہیں،کلیاں مسکراتی ہیں) ۔فصلیں کٹتی ہیں۔یہ رت دہقان کے سوئے بخت کی انگڑائیوں کی رت ہے۔بخت بیدارہوتاہے ۔ دھیمے قہقہے اورشہنائیوں کی گونج سے رستے جاگ اٹھتے ہیں کہ صبحِ جدائی آجاتی ہے۔
                ع           وہ رات سہانی بیت چکی ،آپہنچی صبحِ جدائی ہے
 وصل کے بعدفراق کا لمحہ ،کیوں کہ نظام زندگی اسی سے عبارت ہے۔
                جاتاہوں،اجازت !وہ دیکھوغرفے سے شعاعیں جھلکی ہیں
                                پگھلے ہوئے سونے کی لہریں مینائے شفق سے چھلکی ہیں
غرفے سے شعاعوں کا جھلکنا،مینائے شفق کے بعداسے پگھلے ہوئے سونے کی لہروں سے تشبہیہ دینااورنئی ترکیب بنانا۔کمال فن کی دلیل ہے۔مجیدامجدکی زبان پردسترس اورہر اچھوتے خیال کوآسانی کے ساتھ موزوںالفاظ میں بیان کرنے کا ملکہ حیرت انگیزہے۔یوں مجیدامجد تراکیب کا جہاں معنی آبادکرتاہے۔صبح جدائی کی اصل وجہ تنگ دستی ہے۔اوردنیاکی اندھیری گھاٹی میں ٹھوکریں کھانے کی مجبوری ہے۔
                شاہِ وقت کے لئے ایک عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں۔یہیں سے قیصریت کی ایک جھلک نظرآتی ہے۔اس نظم کے بارے میں بلال زبیری کہتے ہیں۔اس زمانے (۱۹۳۴ء)میں اخبارات کے صفحۂ اول پرقومی نظمیں شائع کی جاتی تھیں۔
                امجدمرحوم نے عروج کے صفحۂ اول کے لئے نظم لکھی اورکاتب کودے کر لاہورایک مشاعرہ میں شمولیت کے لئے چلے گئے۔مگرکاتب سے وہ نظم گم ہوگئی ۔کاتب کو احساس تھا کہ نظم کے بغیرپرچہ چھپ گیاتوجواب طلبی ہوگی۔اس نے مجیدامجدکے کاغذات میں سے ایک اورنظم جوباغیانہ قسم کی تھی نکال کرچھاپ دی۔اس کاعنوان قیصریت تھا۔عروج شائع ہواسرکاری حلقوں میں کہرام مچ گیا۔عروج کے دفترپرچھاپاپڑا۔پولیس نے ریکارڈقبضہ میں لے لیا۔امجد مرحوم کے وارنٹ جاری ہوئے۔یہ حوالہ اس نظم کوواضح کرنے کے لئے بیان کرناپڑا۔نظم کے تین بندہیں۔سپاہی شاہِ وقت کے فوج کے ساتھ روانہ ہوتاہے۔دوسرابنداس کی موت اوراس کی بیوی کی دوسری شادی پرہے۔بچہ ،سپاہی کا بے یارومددگارلخت جگر ،    بے در،  بے گھرہوجاتاہے۔
                تیسرے بندمیں وہی بچہ شاہ ِوقت کے درپربھیک مانگنے گیاہے،لیکن شاہ کی سواری آتی ہے،اوربچہ گھوڑوں کی ٹاپوں تلے رونداجاتاہے۔جب کہ مجبوررعایاکی ہرطرف سے یہ صداآتی ہے۔ بادشاہِ مہربان!زندہ رہے۔یوں یہ نظم ایک طمانچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کی بنا پرمجیدامجد کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھوناپڑے۔"قیدی دوست"بھی قیدیوں کی مجبوری کی داستان ہے۔اورجب ایک قیدخانے سے دوسرے زنداں میں منتقل ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ اسی بہانے سے دو قیدیوں کی ملاقات کا وسیلہ بنتاہے۔یوں
                                پھرقدم رکھتے ہی ساحل پرجداہوجائیں گے
                                ازسرِ نو قیدیٔ دامِ بلاہوجائیں گے
                'آوارگان فطرت سے'ہم کلامی ہوتی ہے۔اس نظم کے تین بندہیں ،یہ نظم اپنی بناوٹ (آرٹ اورکرافٹ)  کے اعتبارسے بھی اہم ہے۔
                ع           بتابھی مجھ کوارے ہانپتے ہوئے جھونکے
مجیدامجدکے اسلوب میں ایک خاص چیز،جوخارج سے ہمدردانہ رویہ (Treatment)  پیدا کرتی ہے۔وہ مجیدامجدکا رویہ ہے۔جھونکے سے ہمدردی ہے۔اگرچہ وہ سینۂ فطرت کی آہِ آوارہ ہے۔ لیکن مامتاجیسی محبت سے جب سوال ہوتاہے۔توقاری کے دل کوبھی احساسِ محبت سے بھردیتا ہے۔اورسینئہ فطرت کی آہ ِآوارہ کی ترکیب،دل عش عش کراٹھتاہے۔ آہ،جیسے ماں کواپنے بچوں کی ہرحرکت کے بارے میں معلوم ہوتاہے۔اورفوراًبعدایک سوال کی تیری نظروں نے وہ منظر دیکھاہے؟کون سامنظر!؟دنیاکے طول وعرض کے بے شمارمناظرجھونکے کی گردِراہ بنتے رہتے ہیں ۔جب کسی کی یاداشکوں کے ہجوم کے جلومیں ایوانِ دل پرچھاتی ہے۔ اس  کے باوجودخرابِ محبت تھک کرنیندکی آغوش میں چلا جاتاہے۔سوال بظاہریہاں ختم ہوگیا ہے ؟  لیکن اصل سوال قاری کے ذہن میں پیداہوچکاہے۔کہ یہ سوال کیوں پوچھاگیا؟تووجہ تھی کہ اس نیندکے عالم میں اس خرابِ محبت پرکیاگزرتی ہے۔لا شعوراست کے دل ودماغ پرکیااثر چھوڑتاہے اورنیندمیں اس کا ردعمل کیسا ہوتاہے۔یہاں وہ محبت جورگ رگ میں سما چکی ہے۔ اس کی تصدیق کاعمل خودبخودہوجاتاہے۔
                بتابھی مجھ کوارے ہانپتے ہوئے جھونکے
                                ار ے او سینۂ فطرت کی آہِ آوارہ !
                                تری نظرنے بھی دیکھاکبھی وہ نظارہ:
                کہ لے کے اپنے جلومیں ہجوم اشکوں کے
                                کسی کی یادجب ایوانِ دل پہ چھاجائے
                                توا ک خرابِ محبت کونیندآجا ئے
یہ آوارہ جھونکا،سداکاپاجی سنی ان سنی کرکے یہ جا وہ جا۔توشاعرابدکنارسمندرکی طرف متوجہ ہوتا ہے۔اورسوال کرتاہے،تری حسیں موجیں جوشب وروز، بھیانک راگ الاپتی رہتی ہیں ۔یہ کیا اور کیوں ہیں؟کیاترے طوفان اس آگ کوبجھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟،جوکسی دکھ بھرے دل میں بھڑک اٹھتی ہے۔جب جداہونے والوں کی یادماہئ بے آب کردیتی ہے،تو  لا شعوری طور پرایک ہی نام نکلتاہے۔لیکن سمندراپنے آپ میں گم ،چپ رہتاہے۔توروح سے اک ہوک اٹھتی ہے۔
                                جب ایک بچھڑے ہوئے کا پیام آتاہے
                                کسی کا روح کے ہونٹوں پہ نام آتاہے
                مندرجہ بالا بندمیں "بھیانک راگ "کی ترکیب کے بعد،روح کے ہونٹ کی پیکر تراشی مجیدامجدکے فن کاحصہ ہے۔ہنوزسوال شرمندہ جواب ہے۔شاعرچاندکے حسن کی طرف متوجہ ہوتا  ہے۔چاندحسیں رتوں اورحسیں چہروں کا مرکزومحور،ویرانے ، آبادی،صحرا،سمندر،پہاڑاور میدان اوروادیوں کے آنگن میں اترکر،ان کہے اوران سنے رازوں کاامیں کچھ توہی بتا۔کیا تری کرنوں کے نیلگوں سائے کبھی ایسے شہرِخموشاں میں لہرائے ،جہاں ایک بیوہ کسی قبرپرچراغ جلا کرایسی   کرب آمیز خاموشی سے تڑپی ہوکہ سونے والا بیدارہوکربے چین ،بے کل ہوگیاہو۔ مجیدامجد کااندازد یکھے۔
                جہاں پہ ایک ابھاگن نے جب جلا کے چراغ
                                کسی قبرپہ مدھم سی روشنی کی ہو!
                                توسونے والے نے بھی جاگ کرصدادی ہو
                لیکن سامنے سکوت صحراتھا۔کرب کی حدت تھی ۔مجیدامجدنے اس نظم میں زندگی کوبیوہ کے روپ میں دیکھاہے۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ