Sunday 9 September 2012

بساط ہستی بچھی ہوئی ہے،مظہرفریدی

بساط ہستی بچھی ہوئی ہے
بساطِ رنگ وسرود ہو کہ
بساطِ سروسمن ہو,اس میں
بساطِ ہستی بچھی ہوئی ہے
بساط ایک دائمی کڑی ہے
ازل سےلےکرابدکی حد تک
ازل سےپہلےاوربعدِ ابدبھی
اگرتواتر ہےزندگی کا!
توکون کیاہے؟پتانہیں ہے!
وجود ممکن!وجود حادث!
یاوجودِ اظہارکی حقیقت !
عالمِ ذات میں چھپی ہے
یہ ذات کیاہے؟
یہ ذات حیرت سےبالاترہے
حسیں تصور سےاعلیٰ ترہے
گل کھلیں یاکہ خوشبومہکے
نسیم لہکےیاکوئل چہکے
نہ  وہ حسیں،رنگ و بوکاپیکر
نہ خوش گلومیں ہی وہ چھپاہے
نہ جمیل آوازمیں وہ مقید
مگروہ کیاہے؟
جودل  کےآنگن میں نوربن کر
جامِ ساگرانڈیلتا ہے
وہ نام ایسا،کہ نام سارے،اسی کےاپنے
وہ ذات ایسی جوبےنشاں ہے،جو بےگماں ہے
اسی کےادراک کااشارہ
ہماری حیرت سےآ ملاہے
ہماری حیرت توعارضی ہے؟
کہ اِس کےسارےسوال کچے!
خیال سچے نہ خواب سچے!
بس اک کڑی ہےاس رابطےکی،
جوخاک کواعتباردے دے
اورواہموں کو،وجود ِامکاں ثبات کردے
حقیقت کوبودوہست کردے
تمام عالم میں آدمی کو
بس ایک جلوےمیں مست کردے!
بساط اب تک بچھی ہوئی ہے!؟

No comments: