Sunday 9 September 2012

خود کلامی،مظہرفریدی

خود کلامی
ایک دن میں چلا جا رہا تا /خیالوں میں گم تھا /کہ میں ایک ایسے رستے پہ نکلا /حدِ نظر تک جو سیدھا چلا جا رہا تھا /اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا دیا /پلٹ کر جو دیکھا تو میں ہی میں تھا/یا مرے ساتھ میری تنہا تھی، سوچیں /ایسا اجالا کہ سائے بھی گم تھے /بے ساختہ میرے منہ سے یہ نکلا /کہ کون ہو تم؟/ یہ لہجے میں ایسی بے زاری کیوں ہے؟ /مگر اب میں حیران و ششدر کھڑا تھا / کس سے میں باتیں کیے جا رہا ہوں / میرے ہی اندر سے آواز ابھری ۔۔۔۔۔ یہ میں ہوں!؟ /میں اپنے میں سے، محوِ سخن تھا / شکستہ تفکر ،شکست خوردہ لہجے میں بولا /کل شام چوراہے پہ تو نے مجھے، بھیڑ میں حیران دیکھا تو ،پہلو بدل کر سنی ان سنی کر کے رستہ تھا بدلا /تو معلوم ہے تم کو واں کیا ہوا تھا ؟/لیکن تمھیں اس سے مطلب!/ اس سے اک روز پہلے بھی تو اک حادثہ ہو گیا تھا /تیرے ساتھ ہی تو گیا تھاوہاں میں /وہاں موقع پا کر ،نظریں بچائیں اور تو رفو تھا /مجھے ہوش آیا تو نظریں گھمائیں ،دائیں بائیں دیکھا /تو  کو ئی  نہیں تھا /مگر ایک قطرہ ٹپکا تو دیکھا مرا سارا جثہ ،پسینہ پسینہ!/ماتھے پہ ایسی ندامت کے قطرے ، کہ خود سے بھی نظریں ملانے کی طاقت نہیں تھی / پھر یونہی بے خودی میں ،میں چلتا رہا تھا /ٹھوکرجوکھائی توکیا دیکھتا ہوں؟ ایک مرقد مرے سامنے ہے!؟/یہ تربت ہے کس کی ؟/ایک آواز ابھری،کیسے ہو راہی؟تم کو یہاں تک یہ تربت ہے لائی /یہ آواز تربت سے میں سن رہا تھا /مجھے اتنی جلدی بھلا بھی دیا ہے!/ پھر وہ تربت یوں گویا ہوئی تھی/تیرا پیدا ہونا،تیرا وہ بچپن،مجھے یاد ہے سب /لڑکپن کی باتیں / جوانی میں تم نے قدم جب تھا رکھا /تو کیسے خیالات تھے دل میں آئے /وہ حسینوں کے جھرمٹ، وہ گیسو،وہ کاکل !/وہ شرابی نین بھی /اور ہونٹ جیسے یاقوت و مرجاں / تیرا بدن بھی بناوٹ میں ایسا !/اگر کوئی دیکھے تو دیکھے ہی جائے / تم نے اپنے میں سے دھوکا یہ کھایا /کہ تو میں ہی میں تھا / دولت کی دیوی تھی، تیرے چرن میں/طاقت کا یزداں بھی تجھ میں سمایا / وہ دن تمھاری بھی یادوں میں  ہو گا!/ تو جب اہرمن بننے لگا تھا /اک نئی،راون سیتا کہانی جنم لینے لگی تھی /مگر یہ تو میں تھی ،بچا کر جو لائی تجھے سانحے سے /کئی بار ایسے بھی ہو نے کو آیا کہ تیرا ظلم بھی پنپنے لگا تھا /روکا تھا تجھ کو،موڑا تھا حالات کے رخ کو میں نے /ایسے کئی واقعے تیری جبیں پر رقم ہیں/مگر ہر بار میں تجھ کو بچاتی رہی ہوں /مگر کون جانے؟ کہ انجام کیا ہو؟/کیا تو بے خبر ہے؟/تربت سے اپنی!/ تیرا بدن یہ کٹیلا ،سجیلا /مٹی میں اک دن سونے کو بے تاب ہو گا /کیا زادِ سفر ہے؟/بنایا ہے گھر کیا؟/تعمیرکی ہ ے نئے گھر کی تو نے، نئے گھر کی تعمیر میں ہے،کیا لگایا؟/بدن ہے جلایا پکانے میں اس کو/کتنی شبوں کو سحر سے ملایا/ ترےسارے سنگی تھے ،کیسے قماشی؟/اک لہر میرے بدن میں تھی دوڑی/اور خوف کے جال نے، تفکر ،تجسم کا حلقہ کیاتھا / میں سر تا پاؤں خفی کپکپی سے لرزنے لگا تھا /آنکھیں کھلی تھیں ،مگر جیسے ویراں مکاں اپنی ویرانی سے دبکا ہوا ہو!/آغوش وا تھا مگر جیسے بیوہ کا جوڑا سارے میں بکھرا پڑا ہو!/ہونٹوں پہ پپڑی، کہ  صدیوں کی تہہ تھی، لبوں پر جمی تھی !/تجسسس تھا جامد ،کہ جیسے تخئیل کی ساری اڑانیں/پروں کو اتارے ،ہانپتی ہوں/میرا بدن تو کھڑا تھا مگر میں، ڈھے گیا تھا /دیکھا تو تربت تھی میری /میرا بدن تھا ،جو محوِ سخن تھا !۔

No comments: