عبرت گہہ عالم ہوں!
عبرت گہہ عالم ہوں!/،میں ابنِ آدم ہوں !/،تخلیق
سے پہلے بھی ،/تھا کہ نہیں تھا میں ،/پر سنتا ہوں یہ میں بھی ،/گِل گُل بدن میرا ،/اُس
دم سے ذرا پہلے ،/اک نار کا چرچا تھا ،/تھا آ گ بدن اس کا
،/اور سوچ بھی شعلہ تھی،/پر جانے ہوا کیسے؟ ،/استاد ملائک کا !،/خود
کو وہ سمجھ بیٹھا کردار فسانے کا ،/اور خود ہی بنا ڈالا اک طور زمانے کا ،/اک
دن یہ کہا سب سے ،/وہ جو خالقِ عالم ہے ،/اک دنیا سجائیں گے،/اور صحنِ محبت میں ،/ہم پھول
کھلائیں گے /چالاک تھا وہ ایسا ،/سرداری کا کیا ہو گا؟،/کوئی اور اگر آیا /،درباری کا کیا ہو گا؟ ،/بس بیر تھا سینے میں ،/بے
زار تھا جینے میں ،/پھر دم کا ہوا چرچا ،/آدم کے خزینے سے ،/یوں خلق سے پہلے ہی /،دشمن کو تھاپایا !،/
یہ کام عجب سا ہے ،/میں کس کی کہانی ہوں!؟/،جو تیری زبانی ہوں !/میں ابنِ فانی ہوں !۔
وہ
باغ تھا اک ایسا ،/رہنے کو ملا ہم کو ،/ واں فکر مقید تھی ،/واں سوچ جو آتی تھی ،/نور سے دھل کر ہی،/ پھر دل میں سماتی تھی ،/
عدو کو یہ کب بھایا ،/وہ تو دشمنِ ازلی تھا ،/گستاخ
تھا خالق کا ،/سیاست
بھی تھی پائی ،/ہر چال نئی چلتا ،/آخر کو تھا پھسلایا ،/ہم
کو ہی تھابہکایا،/شرمائے تھے ہم دونوں ،/پھر کتنے سمے گزرے ،/روتے ہوئے آنکھوں کو ،/سر
اٹھتا نہیں تھا پھر ،/اک
بار جو اٹھا سر ،/دیکھا تو معطر تھا ،/منظر وہ سارا ہی ،/یا دھل گئی آنکھوں سے،/ گرد جو چھائی تھی ،/آخر کو پناہ چاہی/ ،لیکن نہ ملا ہم کو ،/وہ گھر جو پرانا تھا ،/ صدیوں کو بسانا تھا ،/ سامنے میرے اک ،/تا حدِ نظر پھیلا ،/وہ ریت سمندر تھا ،/یا
پانی کی لہریں تھیں ،/یا پتھر ہی پتھر تھے ،/یا کوہ کے سلاسل تھے ۔/
ہوش
مجھے آیا تو میں بھی اکیلا تھا ،/اس
پر بھی کرم اس کا ،/دونوں کو ملایاتھا،/یوں زیست کا اک چکر ،/زمیں پر بھی چلایا تھا ،/
No comments:
Post a Comment