Sunday 9 September 2012

عبرت گہہ عالم ہوں! ،مظہرفریدی

                عبرت گہہ عالم ہوں!               
عبرت گہہ عالم ہوں!/،میں ابنِ آدم ہوں !/،تخلیق سے پہلے بھی ،/تھا کہ نہیں تھا میں ،/پر سنتا ہوں یہ میں بھی ،/گِل گُل بدن میرا ،/اُس دم سے ذرا پہلے ،/اک نار کا چرچا تھا ،/تھا آ   گ بدن اس کا ،/اور سوچ بھی شعلہ تھی،/پر جانے ہوا کیسے؟ ،/استاد ملائک کا !،/خود کو وہ سمجھ بیٹھا کردار فسانے کا ،/اور خود ہی بنا ڈالا اک طور زمانے کا ،/اک دن یہ کہا سب سے ،/وہ جو خالقِ عالم ہے ،/اک دنیا سجائیں گے،/اور صحنِ محبت میں ،/ہم پھول کھلائیں گے /چالاک تھا وہ ایسا ،/سرداری کا کیا ہو گا؟،/کوئی اور اگر آیا /،درباری کا کیا ہو گا؟ ،/بس بیر تھا سینے میں ،/بے زار تھا جینے میں ،/پھر دم کا ہوا چرچا ،/آدم کے خزینے سے ،/یوں خلق سے پہلے ہی /،دشمن کو تھاپایا !،/ یہ کام عجب سا ہے ،/میں کس کی کہانی ہوں!؟/،جو تیری زبانی ہوں !/میں ابنِ فانی ہوں !۔
                وہ باغ تھا اک ایسا ،/رہنے کو ملا ہم کو ،/ واں فکر مقید تھی ،/واں سوچ جو آتی تھی ،/نور سے دھل کر ہی،/ پھر دل میں سماتی تھی ،/ عدو کو یہ کب بھایا ،/وہ تو دشمنِ ازلی تھا ،/گستاخ تھا خالق کا ،/سیاست بھی تھی پائی ،/ہر چال نئی چلتا ،/آخر کو تھا پھسلایا ،/ہم کو ہی تھابہکایا،/شرمائے تھے ہم دونوں ،/پھر کتنے سمے گزرے ،/روتے ہوئے آنکھوں کو ،/سر اٹھتا نہیں تھا پھر  ،/اک بار جو اٹھا سر ،/دیکھا تو معطر تھا ،/منظر وہ سارا ہی ،/یا دھل گئی آنکھوں سے،/ گرد جو چھائی تھی ،/آخر کو پناہ چاہی/ ،لیکن نہ ملا ہم کو ،/وہ گھر جو پرانا تھا ،/ صدیوں کو بسانا تھا ،/ سامنے میرے اک ،/تا حدِ نظر پھیلا ،/وہ ریت سمندر تھا ،/یا پانی کی لہریں تھیں ،/یا پتھر ہی پتھر تھے ،/یا کوہ کے سلاسل تھے ۔/
                ہوش مجھے آیا تو میں  بھی اکیلا تھا ،/اس پر بھی کرم اس کا ،/دونوں کو ملایاتھا،/یوں زیست کا اک چکر ،/زمیں پر بھی چلایا تھا ،/               

No comments: