Friday 21 September 2012

سنائیں تمھیں بات اک خواب کی،مظہرفریدی


سنائیں تمھیں بات اک خواب کی
کل شب تھکن سے بدن چور تھا،لیٹا تو ،مدہوش ایسا ، مجھے اپنی کو ئی خبر نہ رہی تھی ،تخئیل کی پریاں مجھے ایسی وادی میں لے کے چلی تھیں،کہ جن کی فضاؤں نے بے سدھ کیا تھا ،خواب ایسی حالت ،وہ سپنے سہانے ،تو کیا دیکھتا ہوں!، فضائیں معطر،سورج کہ اپنی سپیدی میں خود بھی دھلا تھا،اورچرخِ کہن تھا شفاف ایسا کہ نیلا گگن، نیل گوں روشنی سے جھجھکنے لگا تھا ، ہوائیں دور دیس کے سندیسے تھی لاتیں، شجر اور حجر دونوں مسرور ایسے،کہ دیکھے نہ پائے،تو بھی وہیں تھا ،مگر اک سنگاسن پہ  جلوہ فگن تھا ،تیرے چار جانب حسینوں کا جھرمٹ، اپنے جِلو میں تجھے وہ لیے جا رہی تھیں،جاتے ہوئے تو ذرا دیر کوہی رکا تھا،اچٹتی ہو ئی تیری نظریں ،نہ جانے کسے ڈھونڈتی تھیں، اچانک مجھے تو نے دیکھا ،تو حیران آنکھیں پرسکوں ہو گئی  تھیں،خاموش مسکان ہونٹوں پہ تیرے،بے چین نظریں دمکنے لگی تھیں ،کہ جیسےکنول کوئی کھل گیا ہو،تری اس ادا پہ ،میں بھی ذراسامچل ہی گیا تھا ،کیا یہ واہمہ تھا؟
                یہ باتیں مگر ایک خواب کی ہیں،اس خواب نے مجھ کو یوں ہے بسایا،میں جاگتا ہوں مگرخواب میں،بظاہر میں ایک دیوانہ مجنوں،مگر میرے اندراک دنیا بسی ہے،جہاں سپنے سہانے بنتے رہے ہیں،جہاں خواب پریاں مچلتی رہی ہیں،مسلسل کئی سال سے ،وہی ایک خواب دیکھے چلے جا رہا ہوں،یا مجھ میں کوئی آ کے ٹھہرا ہوا ہے۔
                میرے خواب کی وہ سکھی سہیلی،کچے گھروندے ،گھروندوں میں پانی ،وہ گڑیا کی شادی،وہ شادی کی بارات میں غل مچانا،وہ برتن کھلونے،کھلونوں میں کھانا،مگر اپنے اپنے گھروں کو جو جانا،وہ گڑیا کا جھومر،وہ کنگن ،وہ مالا،ایک ایک گن کے ساری چیزیں چھپانا،وہ ہنس ہنس کے ساری کہانی ماں کو سنانا،وہ معصوم خوشیاں ،وہ معصوم جھگڑے،لڑنا جھگڑناآخر  منا نا،یہ باتیں مگر خواب سے بھی پہلے کی ہیں۔

No comments: