Friday 8 November 2013

اردو قواعدو انشاء,

اردو قواعدو انشاء
اسم:Noun
·       جو لفظ اپنی پہچاں خود کرائے ۔(جو اپنا تعارف آپ ہو)۔
·       جس لفظ کو سمجھنے کے لیے دوسرے لفظ کی ضرورت نہ پڑے۔
مثال:انسان،اللہ،کائنات،مسجد،مکاں،ہادی،خلا،ہوا،بینائی(دیکھنے کی طاقت)،سامعت(سننے کی صلاحیت)،سوچ،خوشی،غم وغیرہ۔
فعل:Verb
v   الیسا لفظ جس میں کام کا کرنا ،ہونا،سہنا پایا جائے۔
v   جس میں وقت(زمانہ) پایا جائے۔یعنی کام کب ہوا(ماضی،حال،مستقبل)۔
مثال:پڑھا/پڑھا تھا/پڑھتا تھا۔۔۔۔پڑھتا ہے۔۔۔۔پڑھے گا۔۔۔۔۔کام کے ساتھ زمانہ بھی بتاتا ہے۔یعنی وقت کا تعین بھی ہے۔
حرف:Conjuction
اسا لفظ جو مہ فعل ہو اور نہ اسم ہو،بل کہ ایک اسم کو دوسرے اسم سے،اسم کو فعل سے  ملانے کے کام آئے،اسے حرف کہتے ہیں۔
مثال:نے ،سے کو ،پر ،تک،اوپر،نیچے،اور،و،کہ،جوں جوں،توں توں،تو ،اگر،گر ؤگیرہ۔
قافیہ:
شعر کے آخر میں آنے والے ہم آواز لفظ/الفاظ(ہم وزن)کو قافیہ کہا جاتاہے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اس شعر میں "تمنا "اور "خدایا" قافیہ ہیں۔
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے،جو روح کو تڑپا دے
اس شعر میں"تمنا " اور تڑپا" قافیہ ہیں۔
ردیف:
وہ الفاظ جو شعر کے آخر میں قافیہ کے بعد آتے ہیں،اور(جوں کے توں)دہرا دیے جاتے ہیں۔ردیف کہلاتے ہیں۔
مثال:اوپر والی(درج بالا)دونوں مثالوں میں"میری"اور "دے" ردیف ہیں۔
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوںسے محبت کرنا
اس مثال میں"کرنا" ردیف ہے۔
تلمیح:
کسی تاریخی واقعے یا شخصیت کی طرف اشارہ کرنا،اور اسے موجودہ استعمال(واقعے) میں پس منظر کے طور پر استعمال کر نا۔تلمیح کہلاتاہے۔
مثال:
·       کشتیٔ نوح/طوفانِ نوح۔۔۔۔۔حضرت نوح ؑ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے(قرآن میں دیکھیں/پڑھیں)۔
·       چاہِ یوسفؑ/پرادرانِ یوسف/عزیز مصر/زلیخا/دیدۂ یعقوب/ماہَ کنعاں۔۔۔وغیرہ ۔حضرت یوسف ؑ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے(قرآن میں دیکھیں/پڑھیں)۔

·       خضر وسکندر/آبِ حیات/آب، حیوان۔۔۔حضرت خضر اور سکندر(ذولقرنین)کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

Sunday 31 March 2013

مہر میاں ،یہ خوف بھی عجیب ہے۔مظہرفریدی

مہر میاں ،یہ خوف بھی عجیب ہے
تیراجو نورِ عین تھا
وہ مندروں میں سج گیا
یہ خوف بھی عجیب ہے
کہ مندروں کی کوئی مورت
ہو ،ہوبہو تری صورت
کہ نگاہ دل فریب ہو
حسن میں ہو دل کشی
تمھارے من کو موہ سکے
مگر یہ اب ، سوال  ہے
 یہ سانحہ ہوا تو کیوں؟
اگرکسی کی چاہ تھی
نگاہ بے نگاہ تھی
تم ایک کائنات تھے
تمھارا اک وجود تھا
وجودمیں اک گھر بھی ہے
وہی کہ جس کو دل کہیں
اسی کو تم سنوارتے
کسی بھی ایک شکل میں ،پھر اسے پکارتے
 اگر اس میں کوئی صنم بھی تھا
کعبۂ دل سے پھر بتوں کوہم اتارتے
بہشت اس حسین کی
دل میں ہم سنوارتے
نہ خوف ہوتا مورت کا
نہ ملتی ہوئی صورت کا



ہمیں پہچا ن کون دے گا؟۔مظہرفریدی

ہمیں پہچان کون دے گا؟
لاوارث!بے شناخت بچے!جنھیں  وقت کا دھارا دارالامان یا ایدھی سنٹر پہنچا دیتاہے۔ایک گم نام راہی یا ایک ہم درد فرد کچرے کے ڈبے،کوڑے دان،کسی گلی کی نکڑ یا سرِ راہے دیکھتا ہے اور کسی 'امان'میں دے دیتاہے۔ایک پہلو اس کا با لکل الٹ بھی ہے،وہ ہے "اغوا" یا معذوربنا کر عمر بھر کے لیے ہاتھوں میں کشکول تمھا دینا!یہ ایک اورمسئلہ ہے(پھر کبھی سہی)۔
معاشرے کا وہ پہلو جسے ہم نہیں جانتے!اس کی شدت سے آشنا نہیں ہیں!ان کے مسائل کو نہیں جان سکتے!وہ کربِ ذات ۔۔۔جس سے یہ بچے دوچارہیں۔۔۔ناقابلِ بیاں ہے!جب کوئی بھی شخص اوروہ کالی وردی والابھی ہو،اورپوچھے،تم کون ہو؟والد کانام بتاؤ؟کہاں جاناہے؟شناختی کارڈ دکھاؤ؟توان سوالات کو سننے کے بعد۔۔۔وہ فقط منہ دیکھتاہے؟یہ سب کس چڑیا کے نام ہیں۔والد،گھر،کہاں،شناختی کارڈ!!
وہ اپنے آپ سے،معاشرے سے سوال پوچھتاہے!"ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیاہے؟"اوربے بس اورخاموش نگاہوں میں فقط ایک جواب ہوتاہے۔"کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلاویں کیا؟"
شناخت میرااورآپ کا مسئلہ نہیں ہے؟اوراس مسئلےکی شدت کابھی علم نہیں ہے۔وہ ننھے فرشتے جو کسی دارالامان یا ایدھی سنٹر کی روشنی بن کر پرورش پاتے ہیں،اور خوب صورت تاروںکا جھرمٹ سجاتے ہیں تو زمیں پوچھتی ہے،تم تارے تو ہو مگر کس زمیں کے؟جب چاند پیکر میں ڈھلتے ہیں،اورچاندی کی کرنیں کسی زمیں کی طرف پرواز کرتی ہیں تو زمیں پوچھتی ہے تم چاند تو ہو مگر کس زمیں کے؟جب سورج کی آب و تاب بن کر دنیا کی ترقی کو بالیدگی دینا چاہتے ہیں تو زمیں پو چھتی ہے۔تم سورج تو ہو مگر تمھاری زمین کہاں ہے؟
وہ بچے جو کسی ہم درد کی توجہ سے زندگی کے دھارے میں تو شریک ہوگئے لیکن اب کوئی اور دھارا انھیں قبول نہیں کرتا؟کسی خیراتی ادارے نے ان پر زندگی کا بوجھ تو لاد دیا لیکن انھیں پہچان نہیں دے سکتا؟انھین شناخت نہیں دے سکتا؟یہ زمیں کے سپوت،یہ دھرتی کے جائے،یہ ارضِ وطن کے بیٹے ،انھیں اب نام کون دے گا؟اور اگر کوئی ان سے پوچھے تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ اگر ان سوالات کےجوابات ان کے پاس ہوتے تو ،کیا ہمیں پوچھنا پڑتا کہ 'تم کون ہو؟'۔کیا ہم نہیں جانتے،کیا پورا معاشرہ نہیں جانتا؟کیا اقتدارِ اختیار کی کرسیوں پر سجنے والے اس بات سے بے بہرہ ہیں؟کیا آپ کیا میں،یہ سب نہیں جانتے؟ہم سب اس جرم میں برابرکے شریک ہیں۔لیکن یہ سوچتاکون ہے؟کسے فرصت کہ 'ان بے نام و نسب،بے شناخت اورمجھے کہنے دیں(تلخ سہی مگر سچ یہی ہے)بے چہرہ بچوں  کو چہرہ ملے گا،شناخت ملے گی،نام ملے گا؟ہم سب خاموش ہیں،خاموش تماشائی ہیں،'سب کچھ جلے ،مگر ایک میرا گھر نہ جلے'۔کیا یہ بچے ایک معاشرے کا حصہ بن سکیں گے؟
انھیں پہچان کون دے گا؟
کہ مامتا انھیں وقت کے خارزارِ زیست میں
خاموش آندھیوں کی زد پہ رکھ کر
کسی اور دائرے کی زدمیں آکر
زمانے کے گرم وسردمیں کھو چکی ہے!
اسے اپنے لختِ جگرکی
اوراس پھول سے چہرے کو اپنی مامتاکی
نہ کوئی پہچان ہے ،نہ ہوگی
فقط خیرات میں ملا ہے،اک نام اس کو
جو اس کی ذات پر اک داغ بنتاجارہاہے
نام ہے مگر گم ناموں سے کم تر
(کیانام ہے اسے ہم نام کہہ سکیں گے)
مگروہ قوم جو نام ونسب اورقبائل کو
فقط ایک تعارف جانتی ہے
تو کیا ان نام ونسب کے گم شدوں کو
کوئی ،کیا نام دے سکے گا؟
کہ ان کی سوچ میں اک واہمہ ہے!
میں کیاہوں؟
کہ ان کی روح پہ کچھ زخم ہیں کیسے؟
جو ان کے شعورولاشعورمیں پنپتے ہیں وہ جذبے کیا ہیں؟
مگران کی ایک سادہ سی یہ خواہش
ہمیں کوئی پہچان دے دو؟
مگر یہ بچے یہ نہیں جانتے کہ
جن سے یہ اپنی پہچان کا پوچھ بیٹھے ہیں
وہی تو ہیں جو ان کے گم نام ہونے کا سبب ہیں
انھی نے کبھی جاہ وحشم سے
انھی نے کبھی تیغ وتفنگ سے
انھی نے کبھی مال و کفن سے
ڈرایا اور اپنی اک اک ہوس سے
حواسِ ظاہری کے چہرے کو داغا
اگر یہ ،ان بے نام جسموں کو، نام دیں گے
تو کئی اک نام پردہ نشینوں کے عیاں ہوں گے
تو مرے معصوم بچو! یہ بے چہرگی ہی تمھارا نام ہے اور تمھاری پہچان ہے!

Thursday 7 March 2013

انسان اوراس کاماحول


انسان اوراس کاماحول
سوال:گزستہ صدی میں کتنی ایجادات ہوئی ہیں۔
جواب:گزستہ ایک صدی میں اجدات آج تک کی سائنسی ایجادات سے زیادہ ہیں۔
سوال:سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی پر کیسے اثرات مرتب کیے ہیں؟
جواب:سائنسی ایجادات نےجہاں انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں ،وہیں اس کے منفی اثرات سے بھی انکاربھی ممکن نہیں۔صنعت وحرفت میں انقلاب پیداہوااورآلودگی نے انسانی معاشرے کو دیمک زدہ کردیا۔
سوال:سائنسی ترقی سے ہماری زندگی میں کون مون سی سہولتیں پیداہوئیں۔
جواب:سفری ذرائع میں انقلاب پیداہوا،مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتاہے۔
سوال:سائنسی ترقی سے ہماری زندگی میں کون کون سے مسائل پیداہوئے۔
جواب:فیٹریاں لگیں تو دھواں اور فاسد مادے اگلنے لگیں۔زہریلی گیسوں نے ہوا اورفضاکو آلودہ کردیا۔زہریلے اورفاسد مادوں نے زمیں اورپانی کو آلودہ کردیا۔پودے،جانور،پانی ،آبی جانور یہاں تک کہ ہوابھی آلودہ ہوئی۔اورانسانی زندگی مختلف بیماریوں کاشکارہوئی۔شوراوربے ہنگم آوازوں سے شورکی آلودگی بڑھی اورنفسیاتی بیماریاں پیداہوئیں۔
سوال:آلودہ پانی سے کون سے مسائل پیداہورہے ہیں۔
جواب:آلودہ پانی سے ہیضہ،ٹائی فائیڈ،یرقن،اسہال اورکئی طرح کی دوسری بیماریاں پیداہوئیں۔
سوال:دھواں ہماری فضاکوکس طرح آلودہ کررہاہے؟
جواب:دھویں نے ہوا اورفضاکوآلودہ کریا۔دمہ ،کینسر اوردل کے عوارض عام ہوئے۔یہاں تک کہ اوزون کی تہہ بھی متأثر ہوئی۔

ہماراوطن


ہماراوطن
سوال۔پاکستان کاقومی ترانہ کس نے لکھاہے۔
جواب۔پاکستان کاقومی ترانہ حفیظ جالندھری نے لکھاہے۔
سوال۔نظم'ہماراوطن'میں ٹیپ کامصرعہ کون ساہے؟
جواب۔پیاراپیراوطن ہے ہماراوطن۔ نظم'ہماراوطن'میں ٹیپ کامصرعہ ہے۔
سوال۔ٹیپ کے مصرعے سے کیامرادہے؟
جواب۔وہ مصرعہ جو ہربند کے آخر میں دہرادیاجاتاہے۔ نظم'ہماراوطن'میں ٹیپ کامصرعہ” پیاراپیراوطن ہے ہماراوطن"ہے۔
سوال۔قافیہ سے کیامراد ہے۔
اشعارکے آخر میں استعمال ہونے والے ہم آوازالفاظ کو قافیہ کہتے ہیں۔مثلاً۔ہمارا۔سہارا وغیرہ۔
سوال۔نظم کے دوسرے بندمیں"سونااگاتی ہوئی کھیتیاں"سے کیامرادہے؟
جواب۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔اورہمارےپاکستان میں ہر قسم کی فصلیں ،پھل اورخشک پھل پیداہوتے ہیں۔

صحت اور صفائی


صحت اور صفائی
سوال۔حضورِ اکرمﷺ کاصفائی کے بارے میں کیافرمان ہے؟
جواب:صفائی اورپاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔"الَطَھُورُشَطَرَالاِیمَانِ"اورایک جگہ آتاہے۔صفائی نصف ایمان ہے۔
سوال۔متوازن غذاسے کیامرادہے؟
جواب۔ایسی غذاجس میں حیاتین صحیح مقدارؐین شامل ہوں۔کھانا زیادہ پکاہوا ہو ۔اورنہ ہی بہت کچاہو۔
سوال۔دانتوں کی صفائی کے کون سے طریقے ہیں۔
جواب۔بہترین طریقہ مسواک ہے۔یہ سنتِ نبویﷺ ہے۔منجن اورٹوتھ پیسٹ سے بھی دانت صاف ہوسکتے ہیں۔
سوال۔وضوکے کیافوائد ہیں؟
جواب۔وضو سے ہمارے ہاتھ،کہنیاں،ناخن،ناک،کان،حلق،اورپاؤں صاف ہوجاتے ہیں۔اگر ہم دن میں پانچ مرتبہ وضوکریں تو ہمارا جسم صاف ہوجاتاہے۔"طہارت ایمان کی شرط ہے۔(الحدیث)"

سائنس کے کرشمے


سائنس کے کرشمے
سوال(الف)۔انسان نے سائنس کاعلم کیسے سیکھا؟
جواب:پتھروں کو رگڑکر آگ جلانے،اپنے بدن کوکپڑوں سے ڈھانپنے،اوردیگرچیزوں کاشعورحاصل کرنے سے ،انسان نے سائنس کا علم سیکھا۔
سوال(ب)۔انسان نے زمین کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد کیا کیا؟
جواب:زمیں کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد چاندتک رسائی حاصل کی۔اورآج مریخ اوردوسری دنیائیں اسکی لپیٹ میں ہیں۔
سوال(ج)۔انسان نے کس طرح اپنی زندگی کو پر آسائش اورسہل بنایا؟
جواب:پہیا کی ایجاد،بسیں ،کارین،ریل گاڑیاں اورہوائی جہاز بنا کر انسان نے اپنے زندگی کو پر آسائش اورسہل بنایا۔
سوال(د)۔صنعت وحرفت کادارومدارکس چیز پرہے؟
جواب:صنعت وحرفت اورروزمرہ زندگی کے کم وبیش تمام معاملات کادارومدار بجلی پر ہے۔
سوال(ہ)۔سائنس کی ہلاکت خیز ایجادات کون سی ہیں؟
جواب:سائنس کی ہلاکت خیز ایجادات ،گولہ بارود،ایٹم بم،ہائیڈروجن بم وغیرہ ہیں۔
سوال(و)۔یہ زمین اورمعاشرہ کس طرح پرامن،محبت اوربھائی چارے کانمونہ بن سکتے ہیں؟
جواب:اگرہم سائنس اورسائنسی ایجادات کو انسانی فلاح وبہبوداوربہتری کے لیے استعمال کریں تو یہ زمیں اورمعاشرہ امن،محبت اوربھائی چارے کانمونہ بن سکتاہے۔
سوال۔انسان کی ہمیشہ سے کیاآرزورہی ہے؟
جواب:انسان پرندے کی طرح اڑنے کے خواب دیکھاکرتاتھا۔یہی انسان کی آرزوتھی۔لیکن آج انسان ہوئی جہازوں میں بیٹھا پرندے کی طرح اڑتاپھرتاہے۔

Sunday 10 February 2013

شکیب جلالی فکروفن۔میراوجودہے ورنہ اب تک ایک سوال،مظہرفریدی


میراوجودہے ورنہ اب تک ایک سوال۔شکیب جلالی فکروفن
میں عالمِ استغراق میں گم،سوچوں کے جال میں جکڑا،اپنے آپ سے دست وگریباں،اپنی  ہی ذات  کے آئینے میں گم تھا،کہ تین مسافر مرے قریب سے گزرے،لاشعوری طورپرشعوران کی آہٹ کے پیچھے چل پڑا۔انھوں نے جوکچھ کہاآپ بھی سن لیجیے(شکیب کی نظم زاویے)۔:
پہلابولا:    دیکھ لوتن پہ خون کی فرغل،خون کی شال۔(یہ ایک خونی/قاتل ہے)۔
دوسرابولا: یہ توخزاں کاچاندہے،گھائل،غم سے نڈھال۔دنیاکے غم کاماراہے(کچھ غمِ دنیا،کچھ غمِ جاناں)۔
تیسرابولا"اندھیارےکے بَن  میں جیسے شب کاغزال۔یہ آہوئے شب ہے۔جواپنے وجود کی تنہائی اوراندھیروں سے سمٹ کریہاں آن چھپاہے۔
وہ خود تھے،اپنے اپنے غم سے نڈھال،جبرکی چکی میں پستے  بدحال،ان کی سوچوں میں عکس تھا ،ان کی اپنی روح کا،اپناتھاجنجال۔کیوں کہ شکیب تواب بھی کہہ رہاہے:"میراوجود ہےورنہ اب تک ایک سوال"۔
"انفرادیت پسند"میں شاعر کہتاہے کہ انساں کی حقیقت کیاہے،"ہم ہیں موجود سویہ بھی کیامعلوم"۔اس کے باوجودانساںاتراتاپھرتاہے۔اور دوسروں کوکچھ نہیں سمجھتا!
نظم "پاداش"میں شکیب جلالی ایک عجب اندازسے خوب صورت پیغام دیاہے۔اگر موسِم(موسموں کے ضبر)،تیزدھارپانی کی رفتار(شوکتی دھاریں، تلاطم خیزموجیں) پتھروں کو پاش پاش کرنے کی بجائے،انھیں مدھر گیت سناکر، ان کے نوکیلے کونوں کوچکنی گولائیں میں بدل سکتے ہیں۔تو ، تُونے جس پتھرکوناکارہ،کم قیمت،بے ڈول اورانگھڑسمجھ کرپرانی سنگلاخ چٹانوں پردے مارا،اوراس کے وجودکے ریزے چاروں بکھرگئے تھے۔تم ادائے بے نیازی سے چل پڑے لیکن،اس پتھرکی سلگتی ہوئی چنگاریاں ، جذبِ  محبت سے مجبورہوکرتمھارے پاؤں کابوسہ لے بیٹھیں تواب چیختے کیوں ہو؟اوراب یہ  پتھرکون ہے۔۔۔۔۔؟نظم"اندمال"میں دیکھیے:
کبھی اس سبک روندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمھیں کیا خبر ہے
وہاں ان گنت کھر درے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم رسیلے مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کی ادا سونپ دی ہے
وہ پتھر نہیں تھا
جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر
پرانی چٹانو ں سے ٹکرا کے توڑا
اب اس کے سلگتے تراشے
اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں
تو کیوں چیختے ہو؟                         ص441
محبت کوبہ اندازِ دگربیان کیاہے۔اوراتنے خوب صورت تمثیلی اندازمیں دل کاعندیہ پہنچایاہے۔ اگرتم ایک نظرِ التفات سے،ایک موہوم سی مسکاہٹ سے،نرم لہجے میں بات کرتے توکیاایک انسان پیارسے محبسِ ذات میں بکھرنے اورلخت لخت ہونے سے ،بچ نہ جاتا۔اگریہ کام موسموں کے جبراور موجِ طوفاں سے ہوسکتاہے کہ ایک کھردرے پتھرکوسڈول کردیں۔تو کیاتم سے۔۔۔۔۔!؟اب اپنے پاؤں میں چبھے شراروں کوچنو!۔دراصل اس نظم کے دوحصے ہیں۔ایک حصے میں فطرت کے مناظر اورعلائق کو تمثیلی انداز میں فاعل،مفعول دکھایاگیاہے۔اورکس طرح ایک نوکیلا پتھر خوب صورت شکل وصورت میں ڈھل جاتاہے۔دوسراحصہ ' وہ پتھر نہیں تھا')شدتِ غم سے بھی ہوجاتے ہیں پتھرچہرے) سے شروع ہوتاہے۔لیکن اسے بے وقعت سمجھ کراس پہاڑوں پرمارکرپاش پاش کردیا جاتاہے۔اوراس سنگ ریزے اورچنگاریاں دورتک بکھرجاتاہیں۔اب انداز بے پروائی،اوردل ربائی سے جووہ شعلہ اندام خراماں خراماں ،بے نیازانہ چلتاہے توانھیں بکھرے ہوئے ریزوں میں سے کچھ سلگتے ہوئے ریزے اس کے پاؤں میں چبھ جاتے ہیں۔جوایک لاشعوری کراہ سے بدل جاتے ہیں۔ شاعرکہتاہے کہ وہ پتھرنہیں تھا۔لیکن تم نے اسے اس حال میں پہنچایا،اب اس کانتیجہ بھی بھگتو!اب چیختے کیوں ہو؟
شکیب کی ایک اورنظم"یاد"جو اسی خیال کوآگے بڑھاتی ہے۔
رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چیر گئی                              ص445
اس نظم میں کچھ رمزوایماہیں۔کچھ اشارے ہیں،جوتلازمے کی صورت ،ایک واقعہ کوتمثیلی اندازمیں بیاں کرتے ہیں۔لیکن اس مختصرنظم میں ہڈبیتی کوجگ بیتی میں تبدیل کردیاہے۔محبت اورانا(عزتِ نفس) کالطیف احساس ،جب انساں خاموشی سے مقتل میں سج جاتاہے۔
'لڑکھڑاتے جھونکے'سے اچانک'سنگِ سرخ'پر'آئینہ'گرکرچورچورہوگیا۔بظاہریہ ایک معمولی سی بات تھی۔یااس جھونکے کی ایک غیرمحسوس لغزش، مگراس آئینے کی کرچیاں دل کو خون آلودکرگئیں۔یعنی اندازِمحبوبانہ کی  مست خرامی یاایک اندازِ بے نیازانہ کے نتیجے میں ہمارادل (احساس،جذبِ محبت، عزتِ نفس کچھ کہہ لیجیے) ایک قاتک سنگلاخ پتھر پر گرپڑا،اوریوں جوبھی کچھ تھا ریزہ ریزہ ہوا۔اب اس مست خرام پیکرِحسن کوتوکیاہوناتھا؟ مگراپنی اس پذیرائی اورشکستگی کے بعد ردعمل پر ایک محب گم نام کادل زخم آلودہوا۔اوراپنی عزت افزائی پر نوحہ کناں بھی۔
شکیب مظاہرِ فطرت کوان ان مٹ اورلافانی احساس اورجذبے کی علامت بنادیتاہے۔جسے 'محبت'کہتے ہیں۔وہ محبت کاروناخودنہین روتا،وہ قاری کے دل میں ایک احساس،ایک چنگاری رکھ دیتاہے اورپھرکہتاہے تم بھی میری طرح سلگتے رہو۔اورقاری اس دردکواپنے دل میں اسی طرح محسوس کرتا ہے،جیسے شاعرخود۔اندمال"بھی ایک ایسی ہی نظم ہے ۔جس میں شاعر مظاہرِ فطرت کوتلازمات کےطوراستعمال کرتاہے۔
'شام'ڈھلتی آس،مایوسی اورجبر کی علامت کے طورسامنے آتی ہے۔اورداسموم نے کئی ہربھرے پتے خزاں رسیدکردیے۔اوراس طرح کے بے شمار ستم کہ گننے والے "ان گنت"کہہ کے آگے چل دیے۔اور'مرہم'میسرنی ہوا۔'کوئی علاج اس کابھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں'،توجواب میں ایک طویل خاموشی کے سواکچھ نہیں تھا۔لیکن:
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نو زاد کا خندۂ  زیر لب
زخمِ دل مندمل ہو گئے سب کے سب                           ص442
ہزارجبروتشددکے باوجود جب ایک معصوم کے چہرے پہ نگاہ پڑی اوراس کی معصوم ہنسی کائنات ِ بسیط کوشرمارہی تھی۔دل کےتمام زخم خودبخود مندمل ہوگئے۔ایک ولولۂ تازہ مل گیا کہ جب یہ معصوم ہنسی،دنیاکااصل حسن ہے توپھر'غمِ دہرکاجھگڑاکیاہے'۔
شاعرجب شدتِغم سے باہرآتاہے تویقیناً کائنات کا حسن اسے اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔شش جہت کودیکھتاہے۔اچانک اے اپنی جہت (حیثیت، تہذیب وتمدن،ثقافت یاکلچر) کوجاننے کی امنگ پیداہوتی ہے۔"جہت کی تلاش"میں وہ 'درخت'کی علامت کوتہذیب'کاتلازمہ بنادیتاہے۔نظم کچھ یوں بتاتی ہے کہ"ایک عجب درخت اگاہے۔زمین نگ ہے۔ہوا اورنم ناپیدہیں۔فضااورسمندرکومتھ کرچندابرکے ٹکڑے بنے ہیں تا درازشاخوں نے انھیں چھین لیاہے۔یہاں تک کہ تنے کوخبربھی نہیں ہوئی۔اورجریں تاتاریکی میں غلطان،روسنی کی کرن کوترستی ہیں۔اوردرخت کی ہیئت یوں ہے کہ زمیں میں پاؤں دھنسے ہوئے ہیں اورہاتھ فضامیں بلندہین۔عجب حالتِ اضطرارہے ۔اب اس میں پیوندبھی نئی طرزکالگاناپڑے گا"۔
قدیم تہذیب وتمدن،اخلاق وروایات  اورانسانیت وآدمیت کوترک کرکے نئے اصول وضوابط ترشنے ہوں گے۔جوجدید کلچرکاساتھ دے سکیں۔اس لیے شاعرخود تہذیب کی تلاش میں ہے۔کہ کیابنے گا؟شکیب جلالی نے نئے لب ولہجے اورنئے زاویے سے نظم کوبُناہے۔بہت سی اہم نظمیں ہیں۔لیکن
اس وقت میرے سامنے" عکس اورمیں"ہے۔
'آب جومیں اک طلسمی عکس ابھراتھاابھی'،احاطۂ  خیال میں اس عکس کے ابھرنے کے ساتھ کتنے  ہی دیپ جل اٹھے۔اورکتنی ہی  حسرتیں ،امنگیں بن کرچمک گئیں۔اورپھرسے کچھ کرگزرے کے ولولے دل میں انگڑائیاں لینے لگے۔کچھ دیرتک تویہ کیفیت رہی۔ اچانک حالتِ خواب وخیال  اسے زندگی کی تلخ حقیقتوں میں دوبارہ پھینک دیتے ہیں۔
آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس                                ص451
کفِ ساحل اورفقط نقشِ پااورحدِ نظر تک ایک لامتناہی سلسلہ اوربس!؟
شاعر زمانے کی بے ثباتی میں گھِرکربھی قنوطی نہیں ہوتا۔وہ زمانے اورمحبوب کویہ توکہتاہے کہ تم نے خودہی ظلم ایجادکیا،اب اس کااثرتم تک آپہنچاہے تو چلاتے کیوں ہو؟پھراسے ایک معصوم کھکھلاہٹ زندہ کرجاتی ہے۔سپنے اسے زیادہ دیرتک خواب آلودنہیں کرتے اورشاعرساحل پر نقشِ پاکاسلسلہ دیکھتاہے۔جوجہدِ مستقل کی دلیل ہے۔"شہرِ گل"میں بھی یاس ،آس میں بدلتی ہوئی نظرآتی ہے۔"حلقۂ برق میں اربابِ گلستاں محبوس"لیکن ایک غلغلہ اٹھتاہے۔
دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں
زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں                      ص457
زنجیریزں ٹوٹ گئیں اور'مہربلب تصویریں'زمزمہ ریزہوگئیں۔اب یہ ہوا کہ کلیوں نے لب کھولے،پھول مسکائے،صبانے گھنگروباندھ لیے،لیکن یہ سب کچھ توعالمِ خواب میں تھا۔پھر:
یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے
شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے؟              ص457
پہلاجملہ استفہامیہ ہے۔لیکن استفہام اس طرح کاکہ لگتاہے،"تعبیربھی ہے"۔یہ سوال بھی ہے اورمیرے خیال میں جواب بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اب"دعوت فکر"دی جارہی ہے۔
لوگ معنی تلاش ہی لیں گے
کوئی بے ربط داستاں سوچو                       ص453
ریت کے سمندرمیں زندگی کی کشتی کیسے رواں ہے؟اورفضاکی سرگوشی جوکلیوں کے لیے حیات آفریں ہواکری ہے۔پتیاں سن کرلرزنے کیوں لگتی ہیں۔دکانِ آئینہ سازپتھرون کی امان مین کیوں؟الامان!،بے مہریٔ بتان کے باوجود وفا ختم کیوں نہیں ہوتی؟اس کاسرچشمہ کیاہے؟بستیوں کے اجڑنے کے باوجود،جذبۂ   تعمیر ختم کیوں نہیں ہوتا؟اوراب سب سے اہم سوال اتھتاہے۔جس کے لیے اتنالمباسفرکیاگیاہے۔عمرِ جاوداں کی وجہ 'فکرِ سقراط' ہے یا'زہرکاپیالہ'ہے؟یہ سب باتیں ہوتی رہیں گے۔'خلقتِ شہرتوکہنے کوفسانے مانگے'(آپ نے شکیب  کی فکرکی گونج سنی)،آپ کاکام یہ ہے۔کہ کوئی داستان سوچ ڈالو،پھر'اورسے اورہوئے عشق کے عنواں جاناں'۔
نظم' شعلۂ دل'میں ایک خوب صورت کلاسیکل شعرکی گونج بہ رنگِ دگرسنائی دیتی ہے۔
کبھی بہ پاسِ تقدس ہماری نظروں سے
الجھ کے ٹوٹ گئی ہے تمھاری انگڑائی                              ص566
انگڑائی نہ لینے پائے تھے،وہ اٹھاکے ہاتھ
دیکھامجھےتوچھوڑدیے،مسکراکے ہاتھ
شکیب نے بڑی پرامیداوررجائی نظم کہی ہے۔وہ اپنی ایک نظم"ہمارادور،ص455"میں کہتے ہیں۔
*    جہاں آج بگولوں کارقص جاری ہے۔
*    فضائیں زردلَبادے اُتارپھینکیں گی۔
*    نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہوں گے۔
*    بڑے سکون سے تعمیرِ زندگی ہوگی
کہیں یز ید ، نہ آ ذ ر ، نہ اہرمن ہوگا
*    بتانِ عصرکےخالق کوباخبرکردو۔
نظم "جشنِ عید،ص462"۔
*    عید کیسے منائی:میں' کسی نے پھول پروئے،کسی نے خارچنے'۔
*    جشنِ عید کیسے ہوا:'کہیں توبجلیاں کوندیں،کہیں چنارجلے'۔
*    منظرَ عید:بطورِ خاص قلبِ داغ دارجلے،کسی نےبادہ وساغر،کسی نے اشک پیے،اطلس وکم خواب کالباس پہنا،کسی نے گریباں،کسی نےزخم سیے۔
*    حاصلِ عید:یک رنگی پیدانہ ہوسکی۔طبقوں کاامتیازرہا۔
(نوٹ: یہ مضمون نامکمل ہے۔باقی حصہ کسی اوروقت)

شکیب کی غزل:"موت نے آج خودکشی کرلی"مظہرفریدی


شکیب کی غزل:
"موت نے آج خودکشی کرلی"
اس سے پہلے کہ اپنی گزارشات پیش کروں ماہرینِ علم وادب وفن کے خیالات سے استفادہ ضروری ہے۔
بقول احمدندیم قاسمی(مشمولہ،کلیاتِ شکیب جلالی۔سنگِ میل ،لاہور،2004ء)
*    جب کوئی پوچھتاہے گزشتہ دس بارہ سال کے اندرکون ساشاعرابھراہے جس نے صحیح معنوں میں بھرپورغزل کہی ہوتوبغیرکسی تکلف کے  میں شکیب جلالی کانام لیتاہوں۔)شکیب جلالی،فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص15)
*    شکیب نظم بھی کہتاہے اوراس نے بعض ایسی نظمیں کہہ رکھی ہیں کہ پوری اردونظم کاانتخاب پیش نظرہوتوشکیب کی ان نظموں کوآسانی سے نظرانداز نہیں کیاجاسکے گا۔)شکیب جلالی،فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص15)
*    شکیب کے دم سے اردوغزل نے ایک اورسنبھالالیا۔
*    شکیب کی غزل کاسب سے نمایاں حسن اس کی باشعوروجدانیت ہے۔اس نے غزل کونیالہجہ دیا،اس میں نئی کھنک پیداکی اورگہرے مفہوم اورخوب صورت اظہار کویوں ہم آہنگ کیا کہ اگروہ چندبرس اورزندہ رہتاتواردوغزل کے لیے نئے دورکاپہلاشاعرماناجاتا۔
*    جدیداردوغزل کوجس شاعرنے سب سے زیادہ بصیرت دی اورجس نے 25 برس کی عمر ہی میں  اپنامنفرداسلوبِ شعرپیداکرلیاتھا جس نے خاموشی کے ساتھآنے والی پوری نسل کوبے پناہ حدتک متأرکیا وہ شکیب جلالی ہی تھا۔
*    فیض اورناصر کاظمی خوب صورت غزلیں کہہ رہے تھے۔مگروہ شکیب ہی تھاجس نے غزل کوموضوع واظہارکے حوالے سے ایک متوازن جدّد کاموڑ دیا۔یوں وہ جدیدغزل نگاروں کاقافلۂ سالارہے۔
بقول احمدہم دانی"شعورِ ذات کے دوش بدوش معرفتِ ذات کاکواجاگر کرنے کاسلسلہ شکیب جلالی کی شاعری کامخصوص اورنمایاں عمل ہے۔اردومیں وہ علامتی شاعری کابانی ہے"۔
بقول ڈاکٹروزیرآغا"اس کے ہونٹ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعدایسے حزیں تبسم سے بھیگ جاتے تھے۔جس کاتجزیہ کرنے ے میں قاصرہوں۔ )شکیب جلالی، فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص17)           
شکیب جلالی کے تکیل کی اڑان ایسی منفرداورالگ تھی کہ ہر ذی ہوش اوربوالہوس نے لاشعور طورپر آنکھیں اٹھاکردیکھا،کچھ کی دستار ان کے اپنے قدموں پرکر پڑی کچھ اچنبے میں آگئے۔یہ کون ہے؟تحیر،تجسس اورپھرتمسخرسے ہوتاہواتضحیک تک پہنچا،اچھا یہ توشکیب ہے۔دکھوں میں گھرا،ہجرت کامارا،غمِ روزگارسے نالاں۔ان لوگوں کوایک گوناں گوں سکون ہو !کے دن۔پھرلوگوں نے دیکھا،آپ بھی وعدہ معاف گواہ بن گئے،چشمِ فلک بھی خندہ زن تھی۔پر شکیب جلالی جسدِ شاعری خصوصاً غزل(نظم بھی کم نہیں)کے مردہ ہوتے ہوئے جسم کواپنی روح کاامرت پلاتارہا۔اب بچے گاتوایک"ظہیرالدین بابر یاپھرہمایوں"۔آخرشکیب کاکلِ شاعری کوسنوارتے سنوارتے خود شعربن گیا۔
کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں
آنس نے بھی کچھ ایساہی کہہ رکھاہے۔نامعلوم ان دونوں روحوں میں زمانی بعدہونے کے باوجود کچھ کچھ ایک جیساکیوں لگتاہے؟
آخرکو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیرخوش بورہے گی گلاب میں
اس جہانِ فانی کی فنائیت میں کسے کلام ہے لیکن کوئی اس طرح بھی کرتا ہے،کہ جب روح میں سناٹا بھرجائے،جب حالات ایسے گھپ اندھیرے میں گم ہوں کہ رستہ سجائی نہ دے،پھربھی اپنے گھرکوآگ لگاکراندھیرے کومٹانے کی کوشش سے کیااندھیراختم ہوجاتاہے؟الٹالوگوں میں ایک خوف وہراس پھیل جاتاہے،ناجانے وہ گھرکیوں جلا؟کیاہوا؟ کیاکوئی۔۔۔؟اورپھرسوالات کاایک لامتناہی سلسلہ۔۔۔! پر شکیب نے تواس سے بھی ایک قدم آگے رکھا،گھر توکیاچیزتھی،اس نے روح کے چراغ جلاکے روشنی کردی!؟
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
شکیب جلالی کانقطۂ نظر ہی کچھ اورتھا؟زندگی کے اسرارِرموزاس وقت تک ظاہرہی نہیں ہوتے ،جب تک انسان معاشرے کے جہنم سے گزرتانہیں ہے؟ اور شکیب  جلالی نے اپنے آپ کوکندن کرنے کے لیے معاشرے کی کٹھالی میں رکھ دیا۔اب کندن تووہ ہوگیا۔لیکن ،"ہے کوئی جوہری اشکوں کے نگینوں کایہاں"، شکیب جلالی کواس بات کاشعورخطرناک حدتک تھا،کہ نہیں ہے!؟پھربھی" لکڑی جل کوئلہ بھیو!"۔ اب ایک عجب مشکل آن پڑی ہے۔جب سے ذولفقاراحسن کی کتاب "شکیب جلالی فن اورشخصیت"دیکھی ہے،کئی نادیدہ خوف ،سوالات کے پھن اٹھاکر کھڑے ہوگئے ہیں۔
*    دادااوروالد کا عاملوں کے چکرمیں پھنسنا(یا کسی سلسلے سے وابستگی)۔
*    والدجوپولیس میں ملازم تھے ان کی نوکری کاختم ہونا۔
*    والد کا بچوں کی آنکھوں کے سامنے اپنی بیوی کو ریل کے آگے دھکادینا (چاہے حالتِ دیوانگی میں دیاہو)۔
*    شکیب کے والد کو ذہنی امراض کے مرکز(پاگل خانے) میں داخل کرانا۔
*    شکیب کاخود دیوانوں جیسی حرکات کرنا (چاہے معاشرے کے جبر'یا'یارلوگوں کی سازش کے نتیجے میں ہوئیں)۔
*    شکیب کا ذہنی امراض (پاگل خانے) کے مرکزمیں داخل ہونایاکرایاجانا۔
*    شکیب جیسے عبقری کے لیے یہ ایک سانحہ تھا(تفصیل وزیرآغا کامضمون)۔اوروہ ایک ایسے کربِ روح میں مبتلارہنے لگا۔جس کاعلاج یاتدارک ان کے دوستوں یاملنے والوں میں سے کسی کے پاس نہیں تھا(حالات یہی بتاتے ہیں)۔
*    والدکاپاگل خانے سے رہاہونا۔65ء کی جنگ،جغرافیائی جبر،اورپھروالدکی موت۔والدکی نعش کاغریب الوطنی میں بے یارومددگاردفن ہونا۔
*    ہندوستاں سے ایک خط کاآنا(کسی نے مکمل یقین سے نہیں کہا اورکسی نے تیقن سے تردیدبھی نہیں کی(سوائے بیگم)۔
*    آخر شکیب بھی اسی کالے انجن کالقمہ بن گیا۔
*    یہ اورایسے کئی سوالات اٹھتے رہیں گے۔لیکن جواب کون دے گا؟جوجواب دے سکتے ہیں۔وہ چپ ہیں۔جواس راز کا محورتھا،نہیں ہے۔شاید انہی سوالات سے نئے مفاہیم نکلتے رہیں گے۔اورشاعری کی عجب عجب توجیہات بھی ہوتی رہیں گی۔
آئیے اب شکیب سے اس کے تخلیقی جہاں میں ملاقات کرتے ہیں۔وہ کون سی خوبیاں ہیں کہ جن کودیکھنے کے لیے جب بڑے بڑے سراٹھے تو "دستارنہ سنبھلی"۔
"کلیات شکیب جلالی" کی پہلی 71غزلوں میں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ کب کہی گئیں۔اس کے بعد غیرمدون کلام  کےعنوان کے بعدجو کلام درج ہے اس میں صرف
سال کاحوالہ ہے۔اس کے بعد جوغزلیں ص 377 سے شروع ہورہی ہیں ان میں بھی نہیں لکھاکہ کب کہی گئیں۔صفحہ 435 سے438 تک تین غزلیں درج ہیں۔ نوٹ لکھاہے کہ یہ غالباًآخری کلام ہے۔اسی طرح حصہ "نظمیں" میں صرف ایک نظم جوص482  سے ص 484 تک ہے پر سن درج ہےاورکسی نظم میں نہیں ہے۔ اس طرح "منظومات"کے عنوان سے جونظمیں درج ہیں ان میں ص 491 سے ص532 تک سن درج ہے۔بعدکی نظموں پر نہیں ہے۔"قطعات"کے عنوان کے نیچے 1950-53ء لکھ دیاگیاہے۔"رباعیات"کے عنوان کے نیچے بھی 1950-53ء لکھ دیا گیاہے۔آخری حصہ "بچوں کے لیے "عنوان کے تحت ہے۔کل تین نظمیں ہیں اورپہلی دونظموں پر سن درج ہے۔آخری نظم سن سے پاک ہے۔
اس لیے سنین کوسامنے رکھ کر کچھ کہنا زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔کیوں کہ جواہم غزلیں ہیں وہ سن کے بغیرہیں۔