Sunday, 10 February 2013

شکیب کی غزل:"موت نے آج خودکشی کرلی"مظہرفریدی


شکیب کی غزل:
"موت نے آج خودکشی کرلی"
اس سے پہلے کہ اپنی گزارشات پیش کروں ماہرینِ علم وادب وفن کے خیالات سے استفادہ ضروری ہے۔
بقول احمدندیم قاسمی(مشمولہ،کلیاتِ شکیب جلالی۔سنگِ میل ،لاہور،2004ء)
*    جب کوئی پوچھتاہے گزشتہ دس بارہ سال کے اندرکون ساشاعرابھراہے جس نے صحیح معنوں میں بھرپورغزل کہی ہوتوبغیرکسی تکلف کے  میں شکیب جلالی کانام لیتاہوں۔)شکیب جلالی،فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص15)
*    شکیب نظم بھی کہتاہے اوراس نے بعض ایسی نظمیں کہہ رکھی ہیں کہ پوری اردونظم کاانتخاب پیش نظرہوتوشکیب کی ان نظموں کوآسانی سے نظرانداز نہیں کیاجاسکے گا۔)شکیب جلالی،فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص15)
*    شکیب کے دم سے اردوغزل نے ایک اورسنبھالالیا۔
*    شکیب کی غزل کاسب سے نمایاں حسن اس کی باشعوروجدانیت ہے۔اس نے غزل کونیالہجہ دیا،اس میں نئی کھنک پیداکی اورگہرے مفہوم اورخوب صورت اظہار کویوں ہم آہنگ کیا کہ اگروہ چندبرس اورزندہ رہتاتواردوغزل کے لیے نئے دورکاپہلاشاعرماناجاتا۔
*    جدیداردوغزل کوجس شاعرنے سب سے زیادہ بصیرت دی اورجس نے 25 برس کی عمر ہی میں  اپنامنفرداسلوبِ شعرپیداکرلیاتھا جس نے خاموشی کے ساتھآنے والی پوری نسل کوبے پناہ حدتک متأرکیا وہ شکیب جلالی ہی تھا۔
*    فیض اورناصر کاظمی خوب صورت غزلیں کہہ رہے تھے۔مگروہ شکیب ہی تھاجس نے غزل کوموضوع واظہارکے حوالے سے ایک متوازن جدّد کاموڑ دیا۔یوں وہ جدیدغزل نگاروں کاقافلۂ سالارہے۔
بقول احمدہم دانی"شعورِ ذات کے دوش بدوش معرفتِ ذات کاکواجاگر کرنے کاسلسلہ شکیب جلالی کی شاعری کامخصوص اورنمایاں عمل ہے۔اردومیں وہ علامتی شاعری کابانی ہے"۔
بقول ڈاکٹروزیرآغا"اس کے ہونٹ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعدایسے حزیں تبسم سے بھیگ جاتے تھے۔جس کاتجزیہ کرنے ے میں قاصرہوں۔ )شکیب جلالی، فن اورشخصیت،مرتبہ،ذوالفقاراحسن،نقش گرپبلی کیشنز۔اسلام آباد،س ن،ص17)           
شکیب جلالی کے تکیل کی اڑان ایسی منفرداورالگ تھی کہ ہر ذی ہوش اوربوالہوس نے لاشعور طورپر آنکھیں اٹھاکردیکھا،کچھ کی دستار ان کے اپنے قدموں پرکر پڑی کچھ اچنبے میں آگئے۔یہ کون ہے؟تحیر،تجسس اورپھرتمسخرسے ہوتاہواتضحیک تک پہنچا،اچھا یہ توشکیب ہے۔دکھوں میں گھرا،ہجرت کامارا،غمِ روزگارسے نالاں۔ان لوگوں کوایک گوناں گوں سکون ہو !کے دن۔پھرلوگوں نے دیکھا،آپ بھی وعدہ معاف گواہ بن گئے،چشمِ فلک بھی خندہ زن تھی۔پر شکیب جلالی جسدِ شاعری خصوصاً غزل(نظم بھی کم نہیں)کے مردہ ہوتے ہوئے جسم کواپنی روح کاامرت پلاتارہا۔اب بچے گاتوایک"ظہیرالدین بابر یاپھرہمایوں"۔آخرشکیب کاکلِ شاعری کوسنوارتے سنوارتے خود شعربن گیا۔
کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں
آنس نے بھی کچھ ایساہی کہہ رکھاہے۔نامعلوم ان دونوں روحوں میں زمانی بعدہونے کے باوجود کچھ کچھ ایک جیساکیوں لگتاہے؟
آخرکو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیرخوش بورہے گی گلاب میں
اس جہانِ فانی کی فنائیت میں کسے کلام ہے لیکن کوئی اس طرح بھی کرتا ہے،کہ جب روح میں سناٹا بھرجائے،جب حالات ایسے گھپ اندھیرے میں گم ہوں کہ رستہ سجائی نہ دے،پھربھی اپنے گھرکوآگ لگاکراندھیرے کومٹانے کی کوشش سے کیااندھیراختم ہوجاتاہے؟الٹالوگوں میں ایک خوف وہراس پھیل جاتاہے،ناجانے وہ گھرکیوں جلا؟کیاہوا؟ کیاکوئی۔۔۔؟اورپھرسوالات کاایک لامتناہی سلسلہ۔۔۔! پر شکیب نے تواس سے بھی ایک قدم آگے رکھا،گھر توکیاچیزتھی،اس نے روح کے چراغ جلاکے روشنی کردی!؟
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
شکیب جلالی کانقطۂ نظر ہی کچھ اورتھا؟زندگی کے اسرارِرموزاس وقت تک ظاہرہی نہیں ہوتے ،جب تک انسان معاشرے کے جہنم سے گزرتانہیں ہے؟ اور شکیب  جلالی نے اپنے آپ کوکندن کرنے کے لیے معاشرے کی کٹھالی میں رکھ دیا۔اب کندن تووہ ہوگیا۔لیکن ،"ہے کوئی جوہری اشکوں کے نگینوں کایہاں"، شکیب جلالی کواس بات کاشعورخطرناک حدتک تھا،کہ نہیں ہے!؟پھربھی" لکڑی جل کوئلہ بھیو!"۔ اب ایک عجب مشکل آن پڑی ہے۔جب سے ذولفقاراحسن کی کتاب "شکیب جلالی فن اورشخصیت"دیکھی ہے،کئی نادیدہ خوف ،سوالات کے پھن اٹھاکر کھڑے ہوگئے ہیں۔
*    دادااوروالد کا عاملوں کے چکرمیں پھنسنا(یا کسی سلسلے سے وابستگی)۔
*    والدجوپولیس میں ملازم تھے ان کی نوکری کاختم ہونا۔
*    والد کا بچوں کی آنکھوں کے سامنے اپنی بیوی کو ریل کے آگے دھکادینا (چاہے حالتِ دیوانگی میں دیاہو)۔
*    شکیب کے والد کو ذہنی امراض کے مرکز(پاگل خانے) میں داخل کرانا۔
*    شکیب کاخود دیوانوں جیسی حرکات کرنا (چاہے معاشرے کے جبر'یا'یارلوگوں کی سازش کے نتیجے میں ہوئیں)۔
*    شکیب کا ذہنی امراض (پاگل خانے) کے مرکزمیں داخل ہونایاکرایاجانا۔
*    شکیب جیسے عبقری کے لیے یہ ایک سانحہ تھا(تفصیل وزیرآغا کامضمون)۔اوروہ ایک ایسے کربِ روح میں مبتلارہنے لگا۔جس کاعلاج یاتدارک ان کے دوستوں یاملنے والوں میں سے کسی کے پاس نہیں تھا(حالات یہی بتاتے ہیں)۔
*    والدکاپاگل خانے سے رہاہونا۔65ء کی جنگ،جغرافیائی جبر،اورپھروالدکی موت۔والدکی نعش کاغریب الوطنی میں بے یارومددگاردفن ہونا۔
*    ہندوستاں سے ایک خط کاآنا(کسی نے مکمل یقین سے نہیں کہا اورکسی نے تیقن سے تردیدبھی نہیں کی(سوائے بیگم)۔
*    آخر شکیب بھی اسی کالے انجن کالقمہ بن گیا۔
*    یہ اورایسے کئی سوالات اٹھتے رہیں گے۔لیکن جواب کون دے گا؟جوجواب دے سکتے ہیں۔وہ چپ ہیں۔جواس راز کا محورتھا،نہیں ہے۔شاید انہی سوالات سے نئے مفاہیم نکلتے رہیں گے۔اورشاعری کی عجب عجب توجیہات بھی ہوتی رہیں گی۔
آئیے اب شکیب سے اس کے تخلیقی جہاں میں ملاقات کرتے ہیں۔وہ کون سی خوبیاں ہیں کہ جن کودیکھنے کے لیے جب بڑے بڑے سراٹھے تو "دستارنہ سنبھلی"۔
"کلیات شکیب جلالی" کی پہلی 71غزلوں میں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ کب کہی گئیں۔اس کے بعد غیرمدون کلام  کےعنوان کے بعدجو کلام درج ہے اس میں صرف
سال کاحوالہ ہے۔اس کے بعد جوغزلیں ص 377 سے شروع ہورہی ہیں ان میں بھی نہیں لکھاکہ کب کہی گئیں۔صفحہ 435 سے438 تک تین غزلیں درج ہیں۔ نوٹ لکھاہے کہ یہ غالباًآخری کلام ہے۔اسی طرح حصہ "نظمیں" میں صرف ایک نظم جوص482  سے ص 484 تک ہے پر سن درج ہےاورکسی نظم میں نہیں ہے۔ اس طرح "منظومات"کے عنوان سے جونظمیں درج ہیں ان میں ص 491 سے ص532 تک سن درج ہے۔بعدکی نظموں پر نہیں ہے۔"قطعات"کے عنوان کے نیچے 1950-53ء لکھ دیاگیاہے۔"رباعیات"کے عنوان کے نیچے بھی 1950-53ء لکھ دیا گیاہے۔آخری حصہ "بچوں کے لیے "عنوان کے تحت ہے۔کل تین نظمیں ہیں اورپہلی دونظموں پر سن درج ہے۔آخری نظم سن سے پاک ہے۔
اس لیے سنین کوسامنے رکھ کر کچھ کہنا زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔کیوں کہ جواہم غزلیں ہیں وہ سن کے بغیرہیں۔

No comments: