مانوس اجننی۔آنس معین(مظہرفریدی)
آنس زمیں کی دھڑکن کومحسوس کرنےوالاحساس فن کارہے۔فسق فساد نےاوربغض ونفاق نےبدامنی کے طوفاں برپاکررکھے ہیں۔اعتمادویقیں کی دیواریں ڈھے چکی ہیں۔لوگ اپنی اپنی جگہ دبکےہوئے ہیں۔آنس اچانک ایک آوازسنتا ہے۔وہ کہہ اٹھتاہے کہ ابیہ تیزہوایاطوفان باد وباراں نہیں ہے۔یہ کوئی اورآوازہے۔ "دستک"کی آواز شایدیہ کوئی پیم برہو؟کوئی خوش خبری لایاہو؟لوگ اس قدروحش زدہ تھے کہ آنس کی بات پرکان نہیں دھرے۔اسے سقراط توکہامگر"کم سن" کے سابقے کے ساتھ،اسے رومی توکہامگر"ننھا"لگادیا۔اسے ارسطوتوسمجھامگر"نئی سوچوں کا"،اے کاش کہ کوئی اسے آنس سمجھ کراس کایقیں کرلیتا۔۔۔!؟اس لیے آنس آخر کار بول اٹھا" اسے ملے ہومگرجانتے کہاں ہوتم"۔اور دلیل بھی ساتھ تھی کہ آنس توابھی اپنے آپ پرنہیں کھلا،تم کیسے دعویٰ کرسکتے ہو؟اورساتھ ہی ایک ادق سوال داغ دیا:
دلا سکے گی کوئی صبح کیا یقین مجھے؟
کہ اس زمیں پہ نہ اترے گی رات آج کے بعد
آنے والےدورکی خبریں دینے والو!کیاتم نجھے یقیں دلاسکتے ہوکہآج کے بعد،یہ رات،یہ ظلمت،یہ اندھیرا،یہ جبر،یہ انسانیت کاماتم کرنے والے انسانیت کے دشمن ختم ہوجائیں گے۔یاپھران کی کایاکلپ ہوجائے گی۔یہ آج کے بعد نسلِ انساں کو کچھ نہ کہیں گے۔کوئی صبح،کوئی روشنی،کوئی امید کی کرن ،کوئی گیانی مجھے اس گومگو کی کیفیت سے چھٹکارہ دلاسکتاہے۔
باہربھی اب اندرجیساسناٹاہے
دریاکے اس پاربھی گہراسناٹاہے
جواب میں ایک مجرم خاموشی اور سناٹا۔آنس جوچندلمحے پہلے ایک جمِ غفیرسے گفت گوکرتاہوامحسوس ہورہاتھا۔اپنی ذات کے خول میں سمٹ جاتا ہے۔اپنے آپ سےخود کلامی کرنے لگتاہے۔
اکثرصبحیں وقت سے پہلے آتی ہیں
اس لیے ہرخواب ادھورارہتاہے
شب کے باطن سے وہ اجالانہیں پھوٹا۔جس اجالے کودیکھ کت لوگ صبح سمجھ بیٹھے تھے۔وہ صبح نہیں تھی۔لوگوں نے شورمچادیا۔مری آنکھ کھل گئی اورمیراخواب ادھورارہ گیا۔
میں دیدہ ورہوں نظرمیں ہوں کائنات لیے
وہ کم نظرہے جوخودمنظروں کی زدمیں ہے
آنس پھرکہتاہے۔عمروں کے بھیدمت کھولو۔میری آوازپرکان دھرو۔کیوں کہ زمین وزماں کی وسعتوں نے اپنے رازوں کے درمجھ پرکھول دیے ہیں۔اس لیے جوکچھ میں کہتاہوں اس پرکان دھرو۔لیکن وہاں کیاتھا؟
اک دھوکاساکیوں ہوتاہےاب بھی کچھ آوازوں پر
دستک کون دیاکرتاہے کھلے ہوئے دروازوں پر
کھلے دروازوں پردستک ایک سوال بن جاتاہے؟آنس نے توباہا کہاکہ:" میں دیدہ ورہوں نظرمیں ہوں کائنات لیے"اورجس نے اپنے آپ کومنظرمیں سجالیا ہے۔ جواس تماشاگہہِ عالم میں خود تماشابن چکاہے۔وہ کم نظر ہے۔وہ دیدۂ بینانہیں رکھتا۔اس کی بات کااعتبارمت کرنا۔لیکن دورِ جاہلیت کی طرح لوگوں نے اپنے دیوتاؤں کے بتوں کوتوڑنا اپنی ہتک اورناکامسئلہ بنالیا۔نتیجہ سامنے کی بات تھی۔
گردہٹی توآئینے میں اپناچہرہ دیکھوگے
اک موہوم ساپردہ لوگو!رہنے دوان رازوں پر
آنس اس پربھی لوگ کے رازظاہرنہیں کرناچاہتا۔وہ مشورہ دیتاہے کہ آئینوں کے سامنے نہ آؤ!اگرتیز ہوایابارش نے آئینے سے گردہٹادی تواس میں 'اپناہی چہرہ نظر آئے گا'۔جواک پردہ ہے،اٹھ جائے گا۔
میرے سرکودیکھ کے میرے شانوں پر
شاخ نے گل کابوجھ اٹھاناسیکھاہے
شاعریہ سب کچھ یونہی نہیں کہہ رہاہے۔وہ باربارحوالے دیتاہے۔مثالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔ظلم یہ ہے کہ کوئی بھی "رازدارِدرونِ مے خانہ" نہیں ہے۔اس لیے فطرت سے مثالیں لاتاہے۔
یادہے آنس پہلے تم خودبکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھراناسیکھاہے
آئینے کاکام ہے،منعکس کرنا،بکھرنانہیں۔لیکن آنس جو اس بے دل دنیاکے ایسے ہجوم میں گھرچکاہے جوجدیدعلوم وفنون کی روشنی سے چکا چوندتوہے۔لیکن عام حالات کوسمجھنے سے عاری ہے۔
ع ساحل کی آرزومیں بہت سے بھنورملے
اس لیے وہ باربار تجربات سے گزرتاہے۔اپنے آپ کومشکل میں ڈالتاہے۔طوفانوںسے نبردآزماہوتاہے۔ساحل ،ساحل رہتاہے۔بھنوردربھنوراک سلسلۂ ہے جوختم نہیں ہوتا۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے شاعر ان تمام کیفات سے اپنی "ذات کے معبد"میں دست وگریباں ہے۔اسے پھرایک راستہ سُوجتاہے۔
جونقشِ پاسے نہ ہوں شناسا،کچھ ایسے رستے تلاش کرنا
محبتوں کے سفرمیں آنس نئے جزیرے تلاش کرنا
اس باروہ "یادکےان بے نشاں جزیروں"تک جاناچاہتاہے جونقشِ پاسے شناسانہ ہوں۔اور'محبتوں کے نئے جزیرے'تلاش کرنے کی لگن ہے۔مگر'میں پاپم ایسی جلی کوئلہ بھیو نہ راکھ'۔
دیکھ رہاہوں خالی ہاتھ کی تنہائی
دوراہوں پراکثر ایسے ہوتاہے
"کعبہ میرے پیچھے ہے،کلیسامیرے آگے"ایسی صورت میں ہاتھخالی رہ جاتے ہیں۔اورحاصل ،کفِ افسوس'کے سوکچھ اورنہیں ہوتا۔سب سے خوب صورت بات یہ ہے۔شاعرکوشعوروادراک کی ایسی نعمت عطاہوئی ہے۔جواسے بتاتی رہتی ہے۔" دوراہوں پراکثر ایسے ہوتاہے"۔لیکن کہیں کہیں آنس خودبھی رک جاتاہے۔شکستوں کے جال نے اس کے وجودکوگھیررکھاہے۔کبھی کبھی وہ خودبھی چونک اٹھتاہے۔اپنے آپ سے ڈرجاتاہے۔
گونجتاہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکاںہو جیسے
انبیاؑ تلمیذالرحمٰن ہوتے ہیں۔یاپھرچنیدہ اولیا اللہ طاہری تعلیم نہ ہونے کے باوجودباطنی علم سے اس قدرمزین ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتے ہے۔اس کے لیے "حضرت بایزیدبسطامی" کی زندگی اور پانچ سو عیسائی راہبوں سے ن کا مناظرہ دیکھاجاسکتاہے۔یاپھر"الابریز"کامطالہ کیاجاسکتاہے۔آنس کو فرت سے حیران کن صلاحیتیں عطاہوئیں لیکن نہ ماحول ساز گارملا نہ کوئی ایساراہبر(مرشد)ملاجو"تھل ماڑوداساراپینڈا" اک نگاسے طے کرادیتا۔بقول اقبال "عشق کی اک جست نے طے کردیاقصہ تمام"یہ مرحلہ نہیں آسکا۔لہذا بعض اوقات اندرکی روشنی ڈرکاسبب بنی۔اب انہدمرلی نے گنبدِروح میں جب"سرِکن فکاں"تان چھیڑی توآنس اسے سناٹے کی گونج سمجھ بیٹھا۔اوراسے مادی دنیاکے معاملات میں شامل کردیا۔کیوں کہ معاشرہ اورٹوٹتی ہوئی معاشرے کی تنابیں،اس کے سامنے تھیں۔اورکبھی کہہ اٹھتاہے۔ڈرناہوتوانجانی آواز سے ڈرنا"۔آنساپنے آپ میں واضح نہیں ہے۔وجہ سامنے ہے،باطنی عطاکے ساتھ ساتھ،ظاہری راہنماکی ضرورت بھی پڑتی ہے۔وہ صرف نبی ہواکرتاہے جودنیاوی علل سے بے نیازہوتاہے۔اب سناٹے کی گونج سے ڈر پیداہواہے۔اورظاہری تنہائی کو"وہ خالی مکاں"سمجھ رہاہے۔یہاں سے آنس کی شخصیت میں شک سرابھارناشروع کرتاہے۔
عجیب شورسااک جسم وجاں میں رہتاہے
ہواکازوربھی خالی مکاں میں رہتاہے
آنس کو'وہ سِر'شورمحسوس ہوتاہے۔اورآنس کے سامنے ایساکوئی نمونہ موجودنہیں ہے۔جسے وہ پیشوایاراہبرمان لے۔اس کی تربیت اس انداز سے نہیں ہوئی۔وہ نازونعم میں پلاہے۔وہ سادات گھرانے کاچشم وچراغ ہے۔اس نے آنکھ کھولی تودورکے اہم ترین لوگوں نے اسے'کم سن سقراط' اور'چھوٹی عمرکابزرگ دانش ور' کہا۔اسے تومعلوم ہی نہیں ہوا کہ ابھی تو ابتدائے عشق تھی۔یہ دنیانہ تھیکسی اوردنیاکے رازتھے جو آنس عالمِ ناسوت میں تلاش کرتارہا۔نتیجہ یہ نکلاکہ بدن اورروح میں فاصلے بڑھنے لگے۔
خالی ہے مکاں پھربھی دیے جاتے ہودستک
کہ روزنِ دیوارسے اندرنہیں دیکھا
عجب طرح کی مدہوشی کااثر اورغیریقینی کہ دروازہ پیٹتے رہے،اس طرف دھیان بھی نہیں گیا کہ مکاں خالی بھی توہوسکتاہے۔مسلسل دستک اور روزن سے نہ دیکھنا، عجب ذہنی کیفیت کی عکاسی کررہاہے۔چوں کہ مکیں جاچکے ہیں۔اوراتنی خاموشی سے گئے ہیں کہ کسی کوکچھ پتانہیں چلا۔اب خالی مکاں ایک سوال بن کر ابھررہا ہے۔دوسری طرف:
دستکیں دینے سے پہلے سوچ لو
بنددروازے کے پیچھے کون ہے؟
اس طرح اب دیکھتاہوں آئینہ
جیسے کوئی خودسے پوچھے۔ کون ہے؟
دستک تودے رہے ہو؟لیکن تم ایک ایسی جگہ پر ہو جو بالکل نئی ہے۔مکاں کس کا ہے؟مکیں کون ہے؟جواب کیا مل سکتاہے؟اتنی ساری باتوں کاجواب کہاں سے ملے گا؟آپ نے دیکھا جب روح اوربدن میں بعد کی کیفیت اجگرہونے لگی۔جب طائرِ روح کو جسد ایک بندپنجرے سے زیادہ کچھ بھی نہ لگا۔تو پہلے یہ احساس پیدا ہواکہ دستک دے کے دیکھ لیاجائے۔اب شاعراس خوف میں مبتلاہے کہ:"تیرگی من میں نہ درآئے کہیں"اسے اپنے جسم کے مکاں کے خالی ہونے کاپتاہی نہیں چلا۔اوردوسرے شعرمیں وہ یقیں بھی کھوچکاہے۔اورکہتاہےپہلے سوچ لو!بنددروازے کے پیچھے کون ہے؟اپنی ذات کی اک روشن جہاں تھا؟ اب اس کے لیے نادیدہ جزیرہ یا ایک ان جانی دنیابن گیاہے۔یہ اس لیے ہوا کہ باہر کواندرکی طاقت نہیں ملی۔من وتوایک نہیں ہوسکے۔اوربات ایں جارسید:"آئینہ دیکھتاہوں اور خود سے سوال کرتاہوں"جیسے کوئی خودسے پوچھے کون ہے؟"۔
بازارمیں خوش بوکے خریدارکہاں ہیں؟
یہ پھول ہیں بے رنگ بتادیں توکسے دیں؟
چپ رہنے کی ہرشخص قسم کھائے ہوئے ہے
ہم زہربھراجام بھلادیں توکسے دیں؟
اب بات حقیقت تک پنچ چکی ہے۔وہ بے رنگ حقیقت جوکائنات کی اصل ہے۔لیکن اہلِ دنیاظاہری چمک دمک اورریاوتصنع کے دل دادہ ہیں۔اورمیرے پاس ہیں توپھول مگربے رنگ ہیں۔ان کون ان بے رنگ پھولوں کودیکھگا،خریدنے کامرحلہ توبعدکی بات ہے؟منافقت کے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔طلب کی دلدل نے ہربوالہوس کو جکڑ لیاہے۔اب ہرطرف بے دست پاابدان پڑے ہیں۔جونہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مجبورہیں(جھوٹی انا)،نہ کسی کوبلاتے ہیں کہ چھٹکارے کی کوئی صورت ہو(منافقت)،اب بےرنگ پھولوں کوکوں خریدے؟چوں کہ حرص وہوس،لالچ وخودپردتی نے بدحال کررکھاہے۔خود دلدل میں ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ ہم دلدل میں ہیں۔دوسرے بچ جائیں یابچاؤکاکوئی طریقہ سوچیں!معلوم اس وقت ہوتاہے جب ایک آوازکے ساتھ کوئی اور بھی ان میں آن شامل ہوتاہے۔ہرشخص نے مجرم خاموشی اختیارکرکھی ہے۔اب سچ کازہرکون پیئے؟
شورتویوں اٹھاتھاجیسے اک طوفاں ہو
سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیاہے
آخری خواہش پوری کرکے جیناکیسا؟
آنس بھی ساحل تک آکے ڈوب گیاہے
'ہرنئے حاثے پہ حیرانی،پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی'عموماً شورکاپیداہوناایک ان ہونی کے ہونے کی خبرہوتاہے۔اوریہ شورتاکسی طوفاں کے اٹھنے کامحسوس ہوت اتھا۔لیکن یہ کیاہواکہ سناٹے کے طلسم نے اسے بھی نگل لیا۔اوراب یوں خاموشی ہے کہ جیسے کچھ ہواہی نہیں۔وہ لاشعورجوآنس کو انتہائے مایوس میں بھی نئی منزلوں کی طرف لے جاتاہے۔وہ کسی نہ کسی تبدیلی کے ذریعے سے اپنااظارکرتاہے۔لیکن ہربارناکامیابی اسے ایک ایسی حالت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔جہاں حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
جب کشتی ثابت وسالم تھی،ساحل کی تمناکس کوتھی
اب اس شکستہ کشتی میں ساحل کی تمناکون کرے؟
ساحل کی تمناکسے نہیں ہوتی ؟لیکن آخری خواہش کے طور،اگرتمام کوشِ پیہم کاحاصل 'کفِ افسوس'ہوتوساحل کوقبول کرنا،بھی 'اک اناکی بات بن جاتی ہے'۔ اس لیے آنس نے بھی ساحل سے پہلے پتوار ڈال دیے۔'اب لیے پھرتاہے دریاہم کو'۔امیدتواب بھی تھی کہ ہواؤں کا رخ ابھی اتنا بے یقیں نہیں ہواتھا۔موسم نے شدت اختیارنہیں کی تھی۔
اناکی دیوارٹوٹنے میں ہے دیرآنس
وجودمیراابھی میرے اختیارمیں ہے
حوصلے ابھی جواں ہیں۔اپنی ذات پراب بھی بھروسہ ہے۔وجودپر اختیاربھی باقی ہے۔حالات نہیں بگڑے۔لیکن" ایک اوردریاکاسامناتھامنیرمجھ کو"
سلجھی تھیں گھتیاں مری دانست میں مگر
حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے اکھڑ گئے
نروان کیا،بس اب تواماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی،جنگل سکڑ گئے
اس بند گھرمیں کیسے کہوں کیاطلسم ہے
کھولے تھے جتنے قفل،وہ ہونٹوں پہ پڑگئے
آنس کے وجودکے اندرایک اعصاب شکن جنگ جاری رہی۔اورہمیشہ آخری لمحوں میں کوئی سوارپیادے کوبچالیتاتھا۔یہ ایسی کمک تھی،جو آنس کو واضح طورپرسمجھ نہ آسکی۔لیکن وہ لاشعوری طورپر اس کی روشنی میں چلتابھی رہا۔اورایک کش مکش مسلسل اس حاصل کامقدربھی رہی۔لیکن محبتوں (ظاہری)کے تمام رشتے ایک ایسے معاشرتی دائرے میں قیدتھے جواسے کوئی بھی لائحۂ عمل طےکرنے کی مکمل آزادی نہ دے سکے۔نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی عمل مکمل تقین سے نہیں ہوپایا۔ آنس سمجھتارہاکہ 'گتھیاں سلجھ رہی ہیں'،لیکن ہواکیا؟وہ وجود جو پہلے ہی زخم زخم (روحانی کرب) تھا۔ دکھ کی شدت میں اوراضافہ ہوگیا۔شکتیوں کی تلاش یاگیان کی منزل توخواب وخیال ہونے لگی اب 'اماں'کے لالے پڑ گئے۔تہذیب نے ہریالی کونگل لیا۔
جن کی سانس کا ہرجھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیرگئے ان ساونتوں کے جسم
(مجیدامجد)
اورجگہ پھربھی تنگ رہی ،ایسے بندگھربنائے گئے کہ ان میں عجب سحرتھا،ایک عجیب طلسماتی فضاتھی۔گھرکےجتنے تالے کھولے تھے۔وہ سب کے سب ہونٹوں پہ لگ گئے۔کوئی کچھ نہیں بولے گا۔کمرے بڑھ گئے،تعلق کٹ گئے۔ہرفرداپنی ذات میں انجمن بن گیا۔کسی کوکسی کی حاجت نہ رہی۔آنس نے اپنی شاعری میں اس وقت بے چہرگی کے کرب کوبیان کیاجب کہ یہ لہرابھی مشرق میں پہنچی ہی نہیں تھی۔ابھی یورپ کے مے خانےاپنی شناخت ڈھونڈ رہے تھے۔اب زباں چپ،کسی کے معاملات میں نہیں بولنا،سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ نہیں کہہسکتے!اک عجیب معاشرتی تبدیلی واقع ہوئی۔یوں اظہار ،اظہارنہ رہا۔بل کہ جھاگ کوہی دودھ سمجھ کرقبول کرنے کی تربیت ہونے لگی۔اندر کاانساں اپنے "اوراندر"سمٹ گیا۔ اب یقیں کی رفعتوں کو شکوک کی آندھیوں نے گھیرناشروع کیا۔
توجستجوئے سحرمیں نکلے تواس قدراحتیاط رکھنا
کہ تیری پرچھائیں تک بھی تجھ کوقدم بڑھاتے ہوئے نہ دیکھے
کسی سے بات کرتے ہوئے اندیشوں نے سراٹھانے شروع کیے۔یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی اس رازداری سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ 'دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں'۔اب رازداری کی زمانے لدگئے۔اپنے آپ کوسرکوشی کے انداز میں نصیحت ہونے لگی"جسجوئے سحرمیں نکلےتو۔۔۔۔۔۔تیری پرچھائیں بھی تجھ کوقدم بڑھاتے ہوئے نہ دیکھے"یہ کیفیت اس بات کابین ثبوت ہے کہ شاعر ایک ایسی منزل پرآگیاہے۔کہ اب کسی کوآزمانہ یاامتحان میں ڈالنا، ممکن نہیں رہا۔اعتماد ویقیں کے سارے رشتے اپنابھرم کھوچکے ہیں۔اب جوکچھ بھی کرناہے۔اپنے بھروسے اوراپنے بازوؤں کی طاقت سے کرناہے۔رازکی حفاظت کرنی ہے۔پھرشاعرپر زندگی کاایک اورزاویہ ظاہر ہوتاہے۔
ہزارقمقموں سے جگ مگااٹھاہے گھرلیکن
جومن میں جھانک کردیکھوں توروشنی کم ہے
جگ مگ جمگ مگ،نیروتاباں،روشنی ہی روشنی،لیکن "کاں حرامی چھڑنڑ نہ ڈیندا۔۔۔اوڈھاپیچھاجات مریندا۔۔۔کیتاکم خراب کریندا۔۔۔،آنس نے ایک اورجگہ کہہ رکھاہے۔
تیرگی من میں نہ درآئے کہیں
آنکھ شب کے درمیاں مت کھولنا
باہرکی چکاچوندنے من کی ظلمت کودورنہیں کیا؟شکیب جلالی کاایک شعربے طرح یادآرہاہے۔آپ بھی سن لیجیے:
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلاتھا،اورسائے بہت
لیکن ایک بات دھیان میں رہے۔شاعرنے سادیت کااظہاراب بھی نہیں کیا۔روشنی توہے مگرکم ہے۔'دھندلے دھندلے ہیں ابھی ترے پیکرکے خطوط'۔
توبھی کیامری طرح سےجاگتاہے رات بھر
تیرے گھرمیں بھی کہیں اک آدھ کھلادرتونہیں
قفل توکھل گئے،مگرانھیں لگانے کارواج نہ رہا۔چوں کہ وہ ہونٹوں پہ پڑگئے تھے۔وہاں سے کھلتے توکہیں اوربھی پڑتے۔اس جبرنے شاعرکوبے خوابی کے عذاب میں مبتلاکردیا۔ایک بارپھرایک"تو"کاذکرہوتاہے،"شایدابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں'۔خدشات ایک جسے ہیں۔انھیں ایک فردپر،گھرپر،معاشرے پر یاقوم پر چسپاں کردیجیے۔کیاتمھیں بھی نیندنہیں آتی؟کیامیری طرح تمھارے گھرکابھی کوئی دروازہ ایساتونہیں جو"در" (کھلا) ہو؟یہ عمربھرکارت جگاکس وجہ سے لگ گیاہے۔پہلے مسائل کیاکم تھے؟کہ اب اک نیاستم۔بہرحال اب شاعر بیک وقت کئی محاذوں پربرسرِ پیکارہے۔اس کے اندرایک خوف ناک جنگ جاری ہے؟اسے اندیشہ ہائے من وتو اورکون ومکاں نے گھیررکھاہے؟اسے معاشرتی جبر،اورروحانی کرب کابھی سامناہے۔اب گھراوررت جگابھی اس میں شامل ہوگیاہے۔لیکن وقی ناکامیابی شاعرکو مضمحل نہیں کرتی، شاعراس سے بھی امیدکی کرن کشیدکرلیتاہے۔اورایک نئی مہم پرجانے کے لیے کمربند ہوجاتاہے۔
دل کے اندرتوشب نہیں ہوتی
ایک سورج کے ڈوب جانے سے
شب فطرت کاایک مظہر(Phenomenon) ہے۔سورج کاڈوبنابھی کوئی اچنبے کی بات نہیں۔روزڈوبتاہے۔اوراس سے یہ ظاہر نہیں ہوتاکہ اب سورج دوبارا نہیں نکلے گا؟یااب صرف تیرگی کاراج ہوجائے گا؟اوراگرماتاب دوب بھی گیاہے توکیاہوا؟"دل کے اندرتوشب نہیں ہوتی"کیوں کہ :
مرے اندربسی ہوئی ہے ایک دنیا
مگرتونے کبھی اتنالمباسفرکیاہے
یہ مرحلہ بھی شاعرکے لیے مہمیزکاکام کرتاہے اورشاعرخودکوایک اورمنزل کی طرف لے جاتاہے۔
اندرکی دنیاسے ربط بڑھاؤ آنس
باہرکھلنے والی کھڑکی بندپڑی ہے
اگرچہ پہلے بھی شاعرکوباہرسے کوئی امدادنہیں ملتی تھی۔لیکن اب تو وہ'کھڑکی' (ربط کازریعہ) بندپڑی ہے۔اس لیے اپنے من کی دنیاسے تعلق مضبوط کرو۔
یہ بوجھ اک صلیب کا میں کس طرح اٹھاؤں گا
اس آگہی کے کرب کو میں کیسے جھیل پاؤں گا
اب شاعر نے آکراپنے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔میں صلیب کابوجھ نہیں اٹھاسکتا؟(یعنییہ علم ہونے کے باوجودکہ میں سچاہوں۔لوگ مری بات نہیں مانتے۔ اورپھربھی صلیب پرلٹکنا،شاعرکہتاہے۔شایدیہ مجھ سے نہیں ہوسکے گا۔اوراس رازکو"آگہی کے کرب"سے تشبیہہ دی ہے۔کہ شاید میں اسے برداشت نہیں کرپاؤں گا۔"کب بارِتبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا"
آنس نے اب تک(جوغزلیات،اشعراورفردیات جومرے پاس ہیں)میں خالصتاً! تصوف کی کوئی اسطلاح استعمال نہیں کی۔یہ شعوری کوشش ہے یا لاشعوری،تمام کلام سامنے آنے کے بعداس پرکچھ کہاجاسکتاہے۔یاپھرفخرالدین بلے(والد گرامی)،ظفرنعین بلے(بھائی) اورآمنہ (بہن) کاکوئی انٹرویو (مصاحبہ)کہیں شائع ہوا ہو،یاان سے کیاجائے۔توکچھ باتیں سامنے آسکتی ہیں۔لیکن آنس اب تھک چکاہے۔اپنی ذات سے جنگ،معاشرتی اقدار کو کھوکھلاکرتی ہوئی رسمیوں سے جنگ اور بہت سے نادیدہ جال جوہرفردکوجکڑے رکھتے ہیں۔شاعرکوبے دست وپاکرچکے ہیں۔اوروہ سوچنے پرمجبورہوگیا ہے۔
شایدادھورےپن کاہودکھ ختم موت سے
اک حرفِ ناتمام کی صورت ہے زندگی
اب زندگی "حرفِ ناتمام"نظرآنے لگی اورادھورے پن کادکھ'موت'سے ختم ہونے کی امیدپیداکرنے لگا۔پھربھی اک"یادکے بے نشاں جزیروں"سے آتی
ہوئی کرن کہیں کس مسارہی تھی۔
ہونٹ پتھرہوچکے اوربجھ چکی آنکھیں مگر
تیرے اندرکون زندہ ہے اسے بھی ختم کر
پہلے ہونٹوں پہ تالے پڑے،بولناخواب وخیال ہوا۔اب ہونٹ پتھرہوئے 'جبشِ لب بھی گئی"نکوں کی روشنی بجھ چلی،اب 'بچاکیاہے'؟اب کون ہے مجھ میں آآکر مجھ کوڈھونڈتارکھتا۔یہ کون ہے؟میرے اندر،مجھ سے چھپ کرمجھ کوزندہ رکھے ہوئے؟شاعرآخری فیصلہ صادر کرنے کا نادرشاہی حکم جاری کرتاہے"اسے بھی ختم کر"۔پر شاعرایک تہذیب کانمائندہ ہے۔اخلاق وکردارکاپس دارہے۔"دوربیٹھاغبارِ میربھی ان سے"تولہجے یاچہرے سے ظاہرنہیں ہوتا۔چہرہ اسی طرح پھول سامسکراتاہوا۔اس لیے توشاعرکوکہناپڑا:
ہماری مسکراہٹ پرنہ جانا
دیاتوقبرپربھی جل رہاہے
اندرکی موت کااعلان ہوجاتاہے۔یہ جسم توتمھارے سامنے ہے۔ایک "قبہ ٔ گور"ہے۔مصھفِ گل کو مسکراہٹ نہیں سمجھو یہ تو"دیاتوقبرپربھی جل رہاہے" ہے۔اوراس اعلان کے ساتھ کہ اب یہ اندھیراجانے کب مٹے گا؟
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس باراندھیرا مرے اندرسے اٹھاہے
اس باراندھیراکاماخذ اندرہے باہرنہیں ہے۔سورج کے ڈوبنے کی وجہ سے اندھیرانہیں ہوا۔اس لیے لوگ ظاہری وجہ ڈونڈتے رہیں گے،جب کہ یہ اندھیراتو رگوں کااندھیراہے۔مین کی تیرگی ہے۔پہلے تواس کاعلم بہے مسکل سے ہوتاہے؟کہ ہربوالہوس اپنے آپ کوگیانی سمجھتاہے۔اوراپنی کم زوری کاادراک اوراظہار اوراس کے بعداعلان اوراس کوختم کرنے کی کوشش صدیاں لگ جاتی ہیں۔اس لیے شاعرکہہ رہاہے کہ اب سورج صدیوں کے بعد طلوع ہوگا۔
وہ جوپیاسالگتاتھاسیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیاہے
میرے اپنے اندرایک بھنورتھاجس میں
میراسب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیاہے
سب کچھ ختم ہوجانے کے بعدبھی شاعرنے ایک سندیسہ دے رکھاہے(کاش کہ کچھ اورکلام سامنے ہوتا)۔
طلسمِ ذات سے نکلے تویہ ہوامعلوم
یہ کائنات توایک قطرہ ہے بحرِ وجداں کا
'طلسمِ ذات'سے نکلنے کے بعد معلوم ہوا۔کہ یہ توکچھ بھی نہیں تھا۔اک قطرہ تیرے تبسم کا۔اڑگیاتھاشراب خانے سے ۔حوض کوثر اسے بناڈالا۔زاہدوں نے کسی بہانے سے۔ وسیع وعریض کون ومکاں میں کائنات تو"ایک قطرہ ہے بحرِ وجداں کا"جزوکل میں قطرہ سمندرمیں جذب ہوگیا۔اوربھی ذات کی نہیں فقط وجداں کی بات ہوئی ہے۔
اب چندباتیں آنس کی آخری تخلیق پر،جو خوش قسمتی سے غزل ہے۔غزل اظہاربھی ہے پردہ بھی۔ایک شعرمیں من وتوکاعالم بیاں بھی ہوسکتا ہےاورہزارہا تأویلات بھی۔
انجام کوپہنچوں گامیں انجام سے پہلے
خودمیری کہانی بھی سنائے گاکوئی اور
امیدِ سحربھی تووراثت میں ہے شامل
شایدکہ دیااب کے جلائے گاکوئی اور
آنس نے واضح کردیاکہ اب آخری منظر آنے والاہے۔کہانی کاانجام سامنے ہے۔یہ انجام طےشدہ نہیں تھا،لیکن کہیں اس کھیل میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ آخری منظر چل گیا۔اب ایساکیوں ہو؟یہ کوئی اوربتائے گا۔اورباتیں والی زبانیں گنگ ہوگئیں۔زندگی کاتسلسل برقاراررہے گا۔دیئے جلتے رہیں گے۔کیوں کہ "شمع ہررنگ میں جلتی ہے سحرہونے تک"۔
No comments:
Post a Comment