Thursday 24 January 2013

آزادی ،آزادروی نہیں ،مظہرفریدی


آزادی ،آزادروی نہیں                                                                                                       
زمیں روئی،آسماں رویا،شجر روئے،حجر روئے،حیوانات روئے،نباتات روئے،سمندر،صحرا،پربت روئے کہ ابوالبشر رو رہے تھے،اماں حوارورہی تھیں۔ جنت سے رخصت کرتے وقت ملائکہ ملول تھے،جنت رنجیدہ تھی،فضاسنجیدہ تھی۔روح ارضی نے آدم کااستقبال کیا تو کبیدہ تھی۔وجہ ازلی و ابدی دشمن تھا۔ یہ وہی عدو تھاجس نے آزادروی کی وجہ سےقہرِ الہی کودعوت دی،اور"فَخْرُجْ فَھُوَرَجِیْم"ہوا۔کیوں کہ جناب والا آزادی ،آزاد روی نہیں ہے۔جنابِ صدر ۔اللہ نے جنت،عرش، ملائکہ،جنت کی نعمتیں،زمین وآسماں کی رفعتیں عطاکیں لیکن ساتھ ہی یہ فرمادیا کہ "اس درخت کے قریب نہیں جانا"۔جنابِ صدر کیوں کہ آزادی ،آزاد روی نہیں ہے۔زمیں کو آدم کے آنسوؤں سے غسل دیاگیا۔لیکن قابیل کو آزادی روی کی اجازت نہیں،نوحؑ کی قوم کو خشک وترپر اختیاردیاگیالیکن،آزادروی کی اجازت نہیں،کیوں کہ طوفانِ نوح میں ہر خشک وتر بہہ گیا،مگروہ جوصرف کشتی میں تھے ،امان میں تھے۔یہاں تک کہ بیٹاااور بیوی بھی نہیں بچےکیوں کہ آزادی،آزاد روی نہیں۔جنابِ صدر۔دریاکامنظر ہے۔دریامیں ایل سفینہ ہے۔سفینے میں مسافر ہیں۔مسافروں میں ایک گھرانہ ہے۔گھرانے کی ایک خاتون نے ایک معصوم کوگودلے رکھاہے۔تلاطم خیزموجوں نے سفینے کو تکڑے تکڑے کردیا۔اب ایک تختہ ہے۔ایک ماں ہے اور معصوم بچہ ہے۔چھناکاہوتاہے۔شداد وقت ہے۔خدائی دعویٰ ہے۔ارم کادروازہ ہے۔ گھوڑے کاایک قدم اندرہے ،حکم ہوتاہے۔عزرائیل اس کی روح قبض کرلو۔منظربدلتاہے۔دربار پروردگار عالم ہے۔خدائے لم یزل عزرائیل سے پوچھتاہے۔عزرائیل کبھی تمھیں کسی کی روح نکالتے ہوئے رحم بھی آیا۔ عرض کیا۔پروردگارِ عالم دومواقع پرایساہوا۔ایک بارجب دریاکی موجوں پر تختہ تھا۔ماں تھی اورمعصوم بچہ تھا اورتیراحکم ہوا ماں کی روح قبض کرلو۔ دوسری با رجب شداد نے ارم میں پہلاقدم رکھا اورتونے حکم دیا کہ روح قبض کرلو۔اللہ نے فرمایااس بچے اورشداد کے متعلق اورکیاجانتے ہو۔عرض کیا۔بارِ الہ کچھ نہیں۔ارشادہوا اس معصوم و بے بس بچے کو ہم نے بادشاہت عطاکی۔اس نے خدائی دعویٰ کردیا۔یہ شدادوہی بچہ تھا۔آزادی کوآزادروی سمجھااور خدائی دعویٰ کربیٹھا۔جنابِ صدر۔یہ کون ومکاں ،زمین وزماں، کرسی وعرش،جن وبشر،کائنات کاہر لمحہ،بظاہر آزادہے۔لیکن یہ آزادی اپنے اندرایک اصول رکھتی ہے۔یہ آزادی ضابطۂ اخلاق کی پابند ہے۔یہ موسم ،یہ سورج، چاند، ستارے،ہرذی نفس آزادہے،آزا دروی نہیں                                جنابَِ صدر۔اگرہرشخص  اپنی من مانی کرے،تودنیامیں ایک بھونچال آجائے۔کوئی محفوظ نہ رہے۔نہ ماں ،نہ بہن،نہ بیٹی،نہ میں نہ آپ۔جنابِ صدر۔شہرجنگل بن جائیں۔وحشت ناچتی پھرے،بے حیائی رقص کرے،حیون اورانسان کافرق مٹ جائے۔جنابِ صدر۔آزادی آزادروی نہیں ہے۔
جنابِ صدر ۔آزاد روی کوبھی دیکھتے چلیں۔تہذیب نےاپنا چہرہ بدلا،رخ پہ غازہ،لبوں پہ لالی،نین کجرارے،چال متوالی،اخلاق کاعالم جوجی چاہے،کردار کا مطلب آزادخیالی،تمدن نے بھی اپنا چولابدلا،جسم کے اس کوچھپائیں دھجیاں،بدن ہوا فن کا نمونہ،چشمِ فلک نے نظریں جھکالیں۔انسانیت منہ چھپائے کہیں سسکتی ہے۔آدمیت بلک بلک کے روتی ہے۔ابلیسیت قہقہے لگاتی ہے۔سامریت مذاق اڑاتی ہے۔ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہے؟ ثناخواں تقدیس مشرق کولاؤ۔جنابِ صدر۔ستم بالائے ستم یہ کہ شیطانیت کے مکروہ چہرے پر نہ کوئی حزن نہ ملال،نہ ندامت نہ خیال۔اوراب بھی اگرکوئی آزادروی کاحامی ہے۔ تواس کاخداہی حافظ ہے۔کیوں کہ آزادی،آزادروی نہیں ہے۔آزادروی نے معصومیت کوسرِ بازر نچوایا،بانکپن کوبیچ بازاربِکوایا،حسن کوسرخیٔ اشتہاربنوایا۔

میرے کان اب تک ان دل خراش سسکیوں ،کرلاہٹوں،چیخوں کی بازگش نہیں بھولے،میری آنکھیں ان حیاسوزمنظروں،حیوانیت کے آگے بے بسی کی ایک ایک لیراوردھجی کو ترستے ،اجسام کی تڑپ سے جل رہی ہیں۔میرے احساسات اورجذبات ابھی تک اپنے آپ کولفظ انسان کے معنی پہنانے سے عاجز ہیں،جنابِ صدر۔کہ حواکی بیٹی،چندوحشی درندوں میں گھری تھی۔شیطان اپنے مکروہ پنجے گاڑھے مظلومیت پرخندن زن تھا۔جنابِ سدر۔آزادی ،آزادروی نہین ہے۔جنابِ صدر اگرآزادی آزادروی ہے۔توپھر میں ،آپ ،ہم سب اپنے آپ کو اس انجام کے لیے تیارکھیں۔کہ کل نہ جانے زندگی کے کس موڑ پر، شہرکی کس گلی مین،میرے گھرکے آگے میں ،میں نہ رہون،آدم آدم نہ رہے،پیکرِ حیا،گلگون قبا،برگ، حنا،معدنِ گنجِ وفا،کسی وحشی جبلت کے جبر کاشکارہوکر پارہ پارہ ہوجائے یاشبنم کے قطروں کی طرح بکھرجائے۔مجھے کہناہے۔آپ نے کہناہے۔آزادی،آزادروی نہیں ہے۔
جنابِ صدر آزادی ہے کیا؟جنابِ صدر آزادی،آخلاق کی تلمیل کاجوہر ہے۔کردار کی تعظیم کاعطرہے۔اقدار کی تطہیر کااسم ہے۔روایات کی تجسیم کاجسم ہے۔حقوق کی پاس داری کاعلم ہے۔فرائض کی نگہ داری کا بھرم ہے۔عدل کی زنجیرہے۔انصاف کی تصویرہے۔حسن کی جاگیرہے۔غرض ترے آزادبندوں کی نہ یہ دنیا،نہ وہ دنیا۔
آزادروی بغض وعِنادمیں پلتی ہے۔کینہ وخودغرضی سے سنورتی ہے۔لالچ سے پنپتی ہے۔ریاسے پھٹتی ہے۔تصنع سے پھیلتی ہے،دکھاوااس کازیورہے۔دھوکا اس کا ہتھیارہے۔اورمعصوم اس کاشکار ہے۔جناب، صدر۔آزادروی ایک ایسی تلوارہے جس سے اپنابدن زخمی ہوتاہے۔خوداذیتی اورخودکشی جیسی نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔اورآزادی دوسرے انسان کوپہچاننے کامعیارہے۔تعظیم افکارہے۔ذات باری کو سمجھنے اوزار ہے۔کیوں کہ پروردگارِ عالم نے تمام کائنات کو حضرت انسان کے لیے بنانے کے بعد ،اس پر پابندی نہین لگائی،اسے آزاد پیداکیا۔آزادی عطاکی۔لیکن عدوئے جاں کی وجہ سے کھرے اورکھوٹے مین فرق کرنے کے لیے اس حق اورباطل کے متعلق بتادیا،اب اس کی مرضی ہے،کہ وہ جاء الحق کے ساتھ کحراہو،یازھقل باطل کے ساتھ باگ کھڑاہو۔

No comments: