Thursday 24 January 2013

قتیل شفائی,مظہرفریدی


قتیل شفائی
ریشم کے جس لباس پہ نازاں تھاایک شخص
دیکھاتواس لباس کے اندربدن نہ تھا
جب بھی اس شعرکوپڑھا،"اک لرزش خفی مرے سارے بدن میں تھی"۔ایک جھرجھری،ایک نادیدہ خوف کاجال،اندیشے پھن پھیلائے  میری طرف دوڑتے نظر آئے۔میں چونک اٹھا، ۔مجھے معاشرے سے،اپنے آپ سے،ابنِ آدم سےاورانسانیت سے اعتباراٹھتاہوامحسوس ہوا۔یہ کیا ہوا؟ کیایہ سانحہ ہے یاآنے والے حالات کی کوئی خبر،یاحقیقت میں ،ملبوس اجسام سے عاری ہیں۔کیاہم صرف حیوانی سطح پرزندہ رہ گئے ہیں۔
ملبوس جب ہوانے بدن سے چرالیے!!!؟؟؟
اب سمجھ میں آیاکہ"گھنگروکیوں ٹوٹے؟"مجھے آئی نہ جگ سے لاج۔۔۔میں اتنے زورسے ناچی آج۔۔۔کہ گھنگروٹوٹ گئے"
قتیل کو بے خودہونے سے دنیاکے مروجہ رسم ورواج نہیں روک سکے۔اسے اس حقیقت کاادراک ہے کہ گھنگرو یالاج تب ہی اہمیت کی حامل ہے،جب تک عزتِ نفس ہے،لہٰذا "مینوں نچ کے یارمناون دے"۔اورقتیل بے خودی میں مدہوش نہیں ہوا،لیکن 'من توشدی'کی کیفیت میں گھنگرو ٹوٹ گئے۔"چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنارِ ما بہ کنارِ ما"۔
اتنے میں قتیل کے بہت سے دوسرے اشعار،گشتِ باز کی  صورت گنبدِ تخیل میں گونجنے لگے۔
گستاخ ہواوں کی شکایت نہ کیاکر
اڑجائے دوپٹہ تودھنک اوڑھ لیاکر
ننگے نظر آجائیں اگرعیب کسی کے
توکانپتے ہونٹوں سے انھیں ڈھانپ دیاکر
کستاخ ہوائیں یانگاہیں ہوں،ان کی شکایت نہیں کرنی،بل کہ قتیل نے یہاں  اظہارِحسن کوایک اورپہلوعطاکیاہے۔"دھنک اوڑھ لیاکر"تاکہ ہوائیں شرمندہ بھی نہ ہوں۔اورآئندہ جسارت بھی نہ کریں۔یہ شعرایک علامت میں ڈھلتاہوامحسوس ہوتاہے۔اب "گستاخ ہواؤں"کسے  یا کن کو،کہا گیا ہے؟یہ بات توکوئی ہم نشیں ہی بتاسکتاہے۔اورصرف اسی پر اکتفانہیں کیا۔بل کہ ایک قدم اورآگے بڑھ کر،اگرکوئی "سرِ بازر می رقصم" کاڈھونگ رچاتے ہوئے بے سدھ ہوجائے،اوراسے شد بدنہ رہے تو"کانپتے ہونٹوں سے انھیں ڈھانپ دیاکر"۔زندہ باد!اے قتیل زندہ باد!
جب بھی آتاہے مرانام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
اب تکلیف صرف اتنی ہے کہ میرانام ترے نام کے ساتھ کیوں آتاہے۔سیدھی بات تویہ ہے ۔محنت کرحسدنہ کر،لیکن یہ توایک جملہ معترضہ ہے۔اصل میں تو وہ خبثِ باطن ہے،جوچھائے،چھپتانہیں ہے۔اس لیے توقتیل بارہا کہتارہا کہ،"ان گنت میرے خدااورمیں اکیلاآدمی"۔

No comments: