Sunday 13 January 2013

اردوشاعری کاچوتھاستون.مظہرفریدی


اردوشاعری کاچوتھاستون

                                ہے اُفُق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
                                ٹوٹ جائے گی بکھرکرما نندِآئینہ رات
نظمِ جدیدمیں فیض ،راشداورمیراجی اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اورمنفردمقام کے حامل بھی ہیں ،لیکن مجیدامجداردوشاعری کا چوتھاستون ہے۔اس دورکی تین تحریکیں بہت اہم تھیں۔ علامہ اقبالؒ کی تحریک،اخترشیرانی کی تحریک(رومانی تحریک)،اورترقی پسندتحریک۔ترقی پسندتحریک کے غلغلے کی وجہ سے صرف تین نام ابھرکرسامنے آسکے۔فیض احمدفیض جوترقی پسندتھے اورپوری ترقی پسندتحریک ان کی پشت پرتھی ۔دوسرے میراجی (ثناءاللہ ڈار) اپنی ذات میں ایک انجمن اورحلقۂ اربابِ ذوق کے روحِ رواں ٹھہرے۔ تیسرے راشدجوکسی بھی ادبی تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔البتہ احراری تھے۔راشدکی زندگی ،نظریات اور شخصیت میں تضادات بہت زیادہ تھے۔ راشدکی شاعری میں بھی تضادات کا پیچیدہ اظہارو ابلاغ ہے۔لیکن مغربی تہذیب کی دریوزہ گری نے انہیں کم ترکردیاہے۔یہ دھیان رہے کہ راشدمغربی تہذیب سے بہت زیادہ متأثرتھے ۔حالاں کہ خیالات کی دریوزہ گری اوراثر انگیزی توفیض کے ہاں بھی نمایاں ہے۔لیکن فیض بہت کائیاں شخص تھا۔پینترے بدلتا رہا۔ رندکے رندرہے ،ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
                نام نہادانٹلکچوئل گروہ نے موافقت اورمخالفت میں اسی مثلث کوپروان چڑھایا۔ بہت سے دوسرے اہم شعراءکے ساتھ مجیدامجدکوبھی نظراندازکیا گیا۔لیکن لال ،لال ہی ہوتاہے۔چاہے گڈڑی کا ہی کیوں نہ ہو۔حقیقت کب تک چھپی رہتی،وقت نے فیصلہ دے دیا ہے۔اوراب مجیدامجدکوجدیدشاعری کا سرخیل تسلیم کرناہی پڑے گا۔
                بقول خواجہ ڈاکٹرمحمدزکرّیا"راشداورفیض دودریاہیں۔ایک پرشوراورتیزرو،
جب کہ دوسراآہستہ رواورہموارہے،جب کہ امجدایک سمندرکی طرح وسیع اوربے کنار ہے"۔میر،غالب اوراقبالؒ کی طرح اسے بھی اپنے دورکا اہم ترین اور نمائندہ شاعرماننا پڑے گا۔میر،غا لب اوراقبالؒ  ہرتعریف وتوضیح سے بے نیازہوچکے ہیں،اورادب کے معیاراور علامت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔مجیدامجدگمنامی سے شہرت کی رفعتوں، کی جانب گامزن ہے۔اس کانام نظم جدیدکے اہم ترین ناموں میں شامل ہوکران ناموں سے آگے نکلتاجا رہا ہے۔
                مجیدامجدکی شاعری کا محورکائنات ہے۔کائنات کی ہرشے اورخاص طورپرانسان ہے۔ مجیدامجدکی شاعری نہ فیض کی شاعری بنتی ہے ،نہ راشدکی اورنہ ہی میرا جی کی۔فیض کی شاعری سیاسی نعرہ بازی بن جاتی ہے اورراشدکی شاعری فکری ورزش کے بعد (complex) کا شکارہو جاتی ہے ،جب کہ میرا جی کی شاعری جنس اورنفس کی پکار بن جاتی ہے۔میراجی ہندومِتھ سے بہت زیادہ متأثرتھے (ایک دورمیں ہندومت میں نفس کی پوجابھی کی جاتی رہی ہے)۔
                                مجیدامجدکی شاعری سے قاری میں ایک ہمدردانہ رویہ جنم لیتاہے۔ مجیدامجد کیمرے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔وہ ایک قطرے میں سمندرکا مشاہدہ کرتے ہیں۔یہی قطرہ ان کی شاعری میں وقت کی علامت بنتاہے۔
                                شاعری نہ صرف مجیدامجدکی روح کا مسئلہ ہے بلکہ جسم کا مسئلہ بھی ہے۔ یوں غم مجیدامجدکے جسم وجاں کا مسئلہ بن گیاہے۔یہاں جسم کا روح کے بعدآنادراصل رنج سے خوگرہواانساں تومٹ جا تاہے رنج کی وجہ سے ہے۔یوں ایک زندہ غم مجیدامجدکی شاعری کی پہچان ہے۔اسی زندہ غم سے مجیدامجدکی شاعری کے سَوتے پھوٹتے ہیں۔یہ غم نہ صرف زندہ ہے،بلکہ متحرک بھی ہے۔مجیدامجدغم اوردنیا کی بے ثباتی ،عیش کی افسردگی،نشاط کی حقیقت،حیات کی ناپائیداری کا تذکرہ اس لئے نہیں کرتا،کہ انسان مایوس ہوجائے ،بلکہ اس لئے کرتاہے کہ انسان حقیقتِ حیات سے آشنا ہوجائے،اورخارزارِزیست میں زندہ رہنے کے فن سے آشنا ہوسکے۔وہ نیِش کونُوش کرسکے۔زہرکواَمرَت بنا سکے اورنشاطِ ِزیست میں کھوکر مقصدِزِیست سے غافل نہ ہو جائے۔
مجیدامجدکی شخصیت کا ایک اہم پہلواس  کی خودداری ہے۔خودی اورخودداری اعلیٰ و اَرفع   جذبہ ہے۔مجیدامجدکی خودی تمام عمردوسروں کے کام آتی رہی ۔آخری ایّام میں فاقہ مستی میں بھی خودداری نے سوال کرناتودورکی بات کسی سے ذکرتک کرناگوارا نہ کیا۔ مجیدامجدشہیدِ خودی کے مرتبہ پرفائزہوگیا۔
                مجیدامجدکی بعض نظموں میں طنزِملیح اپنے تمام ترتیورکے ساتھ موجودہے۔ طنزتنقیدہی کی ایک صورت بھی ہے،نقدکا کام پرکھ اورجانچ ہے۔طنزاس سے ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا بِیڑااٹھاتاہے۔لیکن یہ اصلاح اندازِدگرسے ہوتی ہے۔تخیئل کی بلندی تیرِنیم کش بن جاتی ہے۔مجیدامجدنے کمالِ فنکاری سے وہ تما م ترتیوراپنی شاعری کا جزوبنا دئیے ہیں۔جوحسنِ شعرکی جان ہوتے ہیں۔یوں مجیدامجدکے مصرعے دھڑکتے ہیں، شعرسانس لیتے ہیں اورنظمیں ہمکتی زیست کا منظرپیش کرتی ہیں۔سسکتی زندگی اوررینگتی حیات میں بھی دامنِ امید، یاسیت آلودنہیں ہوتا۔شاعرقنوطیت سے اپنا دامن بچا لیتا ہے۔ قاری بھی غموں میں گھراہونے کے باوجودروشنی اوررِجا کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
                فطرت میں روح کے وُجودکوجدیدشعراءنے واضح طورپرمحسوس کیا ہے۔ان کے یہاں فطرت کے ذی روح اورناطق ہونے کا تصوربھی بہت واضح طورپرملتا ہے۔
علامہ اقبال کے مُنتخب کلام میں بانگ دراکی پہلی نظم'ہمالہ" ہے۔اقبالؒ نے ہمالہ کوذِی روح تصورکیا ہے اوراس سے گفتگوکی ہے۔آفتاب صبح بھی اسی قبیل کی نظم ہے۔ مجیدامجد بھی حسنِ فطرت کوانسان اورانسانیت سے متعلق بصیرتوں کے ادراک کا ذریعہ بناتے ہیں۔
مسائلِ حیات پرسوچنا ایک سنجیدہ فکری عمل ہے۔طنزاس فکری عمل میں ایک آلے کی حیثیت رکھتا ہے۔اوراگرطنزملیح ہوتوسونے پرسہاگہ ۔لیکن یہ مقامِ فن اس وقت ہاتھ آتاہے۔ جب سیلِ وقت اپنے تمام رازمُنکَشِف کردیتا ہے(ہاتھ لہوہوجاتے ہیں،تب کوزہ گری آتی ہے)۔ یوں قطرے میں سمندراورذرے میں صحرا نظرآتاہے۔
                مجیدامجدکی بعض نظموں کا اختتام اوربعض نظموں کے ہربندکا آخری مصرع ایک بے آوازتھپڑکی طرح زندگی کے چہرے پرپڑتاہے۔قاری حیرت سے دائیں بائیں دیکھتا    ہے، کہ کوئی دیکھتا نہ ہو۔جب کہ اندرکا انسان کسمساتاہے۔ ضمیربیدار ہوتا ہے۔ اورقاری دائیں بائیں دیکھنے پرمجبورہوجاتاہے۔
                                مجیدامجداحساسات اورلاشعورکی سطح پربھی اپنی گرفت رکھتاہے۔اس لئے لاشعورکے نفسیاتی پہلو،منی ایچر (Miniature)سے،میورلز Murals) ) کی طرف سفرکرتے ہیں۔وہ ہرمنظرمیں یوں رنگ بھرتا ہے کہ رنگ باتیں کرتے ہیں۔ اور باتوں سے خوشبوآتی ہے۔مجیدامجدبنیادی طورپرنظم کا شاعرہے،جولوگ نظم اورخاص کرنظمِ جدیدکوپڑھنے کا مزاج نہیں رکھتے،مجیدامجدشایدان کے لئے اہمیت کا حامل نہ ہو۔آپ بیتی ہے،کہ طبیعت نظم کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی تھی ۔لہٰذاایک مدت تک نظم اورنظم جدید کہنے والوں کوپڑھنا ایک ناخوش گوارسا عمل تھا۔لیکن جب سے طبیعت نظم آشنا ہوئی ہے ، منظرست رنگ ہوگئے ہیں ۔
                کلامِ امجدکامطالعہ شروع کریں تومجیدامجدکی شخصیت اورشاعری ایک نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سجائی،لپٹی لپٹائی آپ کے سامنے آبیٹھتی ہے۔یوں دھیرے دھیرے رات گذرتی ہے توبات چل نکلتی ہے۔مجیدامجدکی شخصیت اورشاعری بھی پرت درپرت (خلوتِ اوراق میں) کھلتی چلی جاتی ہے۔پہلے پہل مجیدامجدنازِصداقت کئے بغیرمحفلِ دل میں آبیٹھتاہے۔پھر حرزِجاں بن جاتاہے اورآخرمیں مجیدامجدہوتاہے، نہ تونہ میں۔
                صرف یہی نہیں اکثرنظمیں جومجیدامجدکی گھمبیرعبقری شخصیت کوسمجھنے کے لئے معلومات فراہم کرتی ہیں ۔وہ معاشرے کا عکس بن جاتی ہیں اورفردکی زندگی کے راز، منعکس ہونے لگتے ہیں۔اگلامرحلہ قاری کی اپنی شخصیت کے اِنکشَاف کا ہے۔معاشرہ اورمعاشرتی رویے آئینہ ہونے لگتے ہیں۔جوقاری کی شخصیت کا حصہ اورحافظہ ہیں۔اس لئے مجیدامجدکا مطالعہ ،جو اردونظم کوسمجھنے کے لئے شروع ہوا تھا،وہ معاشرے سے ہوتاہوااپنی شخصیت تک پہنچتاہے۔اس مطالعاتی سفرمیں خارجی اورداخلی سطح پرکئی سربستہ پہلوواضح ہوتے ہیں۔
                میر،غالب اوراقبال کی شاعری میں انفرادی سوچ دراصل اجتماعی شعورہی کا حصہ اورعلامت ہے اورفرداپنی بات کرتے ہوئے معاشرے کوالگ نہیں کرسکتا۔معاشرے سے
کٹ کر نہیں رہ سکتا کیوں کہ شاعرکا شعوراجتماعی شعورہوتاہے۔جیسا کہ سلیم احمدنے غالب کی شخصیت میں اکائی کے بکھرنے کی بات کی ہے۔لیکن وہ اکائی کا بکھرنا۷۵۸۱ءکی جنگ آزادی میں ملی اکائی کا بکھرناہے،اورغیردانش مندانہ مصلحت اندیشی کی وجہ سے یورپی تہذیب کا اپنانا ہے۔ غالب توفقط بیان کرنے کا سزاوارہے۔مزیدتفصیل کے لئے راقم کا مضموں "پوچھتے ہیں وہ کہ غا لبؔ کون ہے"دیکھیے۔
                جب کہ مجیدامجدتک پہنچتے پہنچتے اجتماعی شعور،روئیے اورفکربکھرچکاتھا ۔فردہی سب کچھ تھا۔لہٰذامجیدامجدکی شاعری میں اجتماعی شعوربعض اوقات انفرادی بنتادکھائی دیتا ہے۔لیکن یہ انفراد  یت موجودیت پرستی(Existentialism (کی طرف نہیں لے جاتی اورنہ ہی یاسیت (sadism)یاقنوطیت بنتی ہے۔مجیدامجدکا عمومی رویہ اجتماعی ہے۔ اورانفرادیت آلودنہیں ہوتا۔ مجیدامجدکمالِ مہارت سے اپنا دامن بچا لیتا ہے۔اور فرد کومعاشرے اورآفاقی مناظرکی علامت بنا دیتا ہے۔
                مجیدامجدکی شاعری میں وقت'لمحے' کی شکل میں ظاہرہوتاہے۔اورلمحے کو مجیدامجدنے ایک قطرے کی صورت میں دیکھا ہے۔یہی قطرہ موتی یاگہرِآبداربھی بن سکتا ہے۔ اوریہی قطرہ بلبلہ بھی بن سکتا ہے۔گہرآبداریابلبلہ بننااپنی استطاعت سے باہرہے ۔ ہردوحیثیتوں میں حالات اورماحول کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔اورقدرت کی عطا کا قانون اپنی جگہ اٹل ہے۔
                                مجیدامجدنے قطرے سے گہرِآبداریابلبلہ بننے تک اوراس
گہرِآبداریاقطرہ کی کیفیت کوایسے زاویۂ فکراورپہلوؤں سے اجاگرکیا ہے۔کہ یہ اظہارزندہ غم بن گیاہے۔اگرچہ خوبیٔ قسمت سے گہرِآبداربن بھی جائے توبھی اس کے بعدبے شمار مرحلوں سے گذرناپڑتاہے۔ ممکن ہے کہ سمندرکی تہہ میں پڑا رہ جائے۔ممکن ہے،طوفانی موجیں ساحل کی ریت پرپھینک دیں اور ساحل کی ریت تک پہنچنے کے بعدبھی کیا معلوم ؟کیا ہو؟اسی طرح بلبلہ چندلمحوں کی حالت (زندگی) میں اپنے محدودکرّے میں کتنے عکس اور نقش رکھتا ہے۔ان تمام کیفیتوں کااظہار مجیدامجد کی شاعری میں خصوصیت کا حامل ہے۔ اس لئے مجیدامجدکی شاعری میں ،امروز،کا تصور ابھرتا ہے۔ہرنیادن "امروز"ہے۔ مجیدامجدلمحۂ موجودکا شاعرہے۔اور ہردورکا شاعرقرارپائے گا۔
                ماضی کی اندھیری رات،لمحہ موجودکا کرب،سیلِ زمانہ کے جبر،عہدِرواں کے مسائل ، صلیبِ فکرپرٹنگی ہوئی روح اورروحِ عصرکی بسمل کی تڑپ اوراس تڑپتی زیست کا دکھ ،جو آہوں، سسکیوں اورکرلاہٹوں سے نموپاتاہے۔ان سب کوبیان کرنے کے بعدمستقبل کے سہانے سپنوں میں کھوجانے کی بجائے،اختتام کی حسرت برقراررکھتا ہے۔یہ اظہارنہ ظالم کے ظلم پر تعزیر لگاتا ہے،نہ مظلوم کوسراب سپنوں کا باسی بناتاہے۔بلکہ حالات کے برزخ پرروشنی ڈالنے کے بعد، سوچ کومِہمِیزلگاتاہے،یاپھرغیرمتوقع اختتام کی صورت ایک جملہ طنزِ ملیح کی طرح کام کرچکنے کےبعد،گال پرانگلیوں کی صورت ابھرآتاہے۔اورقاری لاشعوری طورپراپنا گال سہلانے لگتاہے۔اور ایک لہر، سوچ کی صورت ،حبابِ شعورسے ،رگ وپے میں انگڑائی لیتی ہے۔
                 مجیدامجدکی تعلیم اورمطالعہ سرسری نہیں،عمیق تھا۔لیکن خودداری اورنوکرشاہی سے بے اعتنائی کے سبب تمام عمرمعمولی ملازمت کرتارہا۔حوادث ِزمانہ کا پامردی سے مقابلہ کیا۔      جَبرو اِستَبدادکے اِستحِصالی نظام میں سرنگوں نہیں کیا۔دریُوزہ گری مجیدامجدکا مَسلَک نہیں تھا۔ خارجی جبرحدسے گذرکرداخلی کرب سے جا ملا۔مجیدامجدنے غم سے دوستی کرلی۔اس غم نے جہاں ریختِ وجودمیں حصہ لیا،وہاں آہنگ اورلے کے ایسے پہلوبھی روشن کئے ،جونظم سے آزادنظم میں ڈھلے اورپھرنظم میں ہیئت کے کئی روپ ظاہرہوئے۔یہ غم ،ہزاررنگ سے ظاہرہوا،اورہر رنگ ایک نیا آہنگ بن گیا۔شاعرکے احساسات وجذبات ،نئی علامات سے اظہارپانے لگے۔ مجیدامجد کی شخصیت نظموں میں پہلوبدل بدل کرمنکشف ہونے لگی۔
                مجیدامجدکی نظم ہراعتبارسے مکمل اورہم آہنگ ہوتی ہے۔پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک نظم کا ارتقاءپرت درپرت مفہوم کی گتھیاں سلجھاتاہے،اوروضاحت کرتاہے۔ اوراس پر یہ بات مستزادہے،کہ داخلی دنیا کوخارجی حوالوں سے مستندبنایا جاتا ہے،منظر نگاری اورجزئیات نگاری کے ایسے نادرنمونے نظرآتے ہیں کہ داخلیت اور خارجیت یک جاں ہوجاتے ہیں۔داخل کو خارج کی دنیا سے اورمناظرکودنیائے باطن سے ثابت کرنے کا فن بہت کم لوگوں کونصیب ہوا ہے ، لیکن مجیدامجدان میں سے ایک ہے۔
                باطن میں گنبدِذات کودیکھنا ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرورہے۔یہ راستہ کرب ِ ذات  سے وکرگذرتاہے،اورگنبدِذات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جا کرگم ہوجاتا ہے ۔  کیوں کہ سانسوں کی آوازکی بازگشت سے یہ مقبرہ گونجنے لگتاہے۔اورنظامِ تنفس بے ڈول ہوجاتا ہے ۔لیکن جو(لوگ) شہرِذات کے اس شورکو برداشت کرجاتے ہیں۔ان پر جگنوؤں کے دیس سے سندیسے آتے ہیں اورگنبدذات میں اک دریچہ واہوتاہے۔ا ن کی روح کے اندرسے روشنی کی کرن پھوٹتی ہے۔جومینارِنوربن جاتی ہے۔ یوں قلب، یہ گنبدِ بے در،کشفِ ذات حاصل کرلیتاہے۔یہی انکشافِ حقیقت ہے۔اپنی ذات کی پہچان کا عمل ، مجیدامجدنے الفا ظ کے بے نام جزیروں کوگنبدِذات میں مقیدکرنے کے بعد،من کی روشنی سے اجالا ہے،اورانہیں نئی پہچان دی ہے۔نیا مفہوم آغازکیاہے۔نئی علامتیں بنائی ہیں ،نئی تراکیب تراشی ہیں۔ گنبدِذات میں ہربات اتنی بارگونجتی ہے،کہ ہر پہلواورہرزاویہ سے  آواز، گونج بن کرپلٹ آتی ہے۔اب اگرحوصلہ ہاردیاتوبے حاصلی کا کرب مٹی کا ڈھیربن جاتاہے۔ اوراگراس جبرکوصبرکی طاقت  مل گئی تو،ادب کی نئی سمتوں کا سراغ ملتاہے۔
کیوں کہ نہاں خانۂ صدر،تمام رازوں کا گنجینہ ہے۔ اس طرح گنبدِذات سے گنبدِقلب کا راستہ ملتا ہے۔یہ کنجِ صدر ہے۔کنجِ صدرسے ایک جگنوچمکتاہے۔یہ جگنوروشنی کا پیام بر ہے۔جب گنبدِذات کا بھیدکھلتا ہے۔باہرکی چمک دمک اور چہل پہل بے معنی ہوجاتی ہے۔کاغذی چہروں کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔اوردنیاکی بے بضاعتی عیاں ہوتی ہے۔یوں مکشوف ، دنیا سے بے نیازہو کر ، کنجِ تنہائی میں گم، مگن،مطمئن ہوتاہے۔
اب انکشاف ِذات اگرمادی ہے توآشوبِ آگہی بن جاتا ہے۔ زندگی ،ایک مسلسل  بے کلی سے دوچارہوتی ہے۔ اور اگریہ انکشافِ ذات روحانی ہے اوربے کلی قلبی ہوتو،باطن کو طاقت   ِدیدارسے روشناس کراتی ہے ۔اس لئے کنجِ خلوت میں بیٹھ کربھی سرحدِ ادراک کی خبر لاتا ہے۔
مجیدامجد،گمنام ،پابہ گل اوردنیا کی نظروں سے دورزندگی ،اک معمولی سے مکاں میں گزاردیتا ہے۔لیکن دھرتی سے مضبوط رشتہ استوارکرلیتاہے۔یوں مٹی اسے اپنارازدار بنالیتی ہے ۔ اورمیں کیا ہوں؟تم کیا ہو؟جیسے سوال اسے کلپاتے ہیں۔آخروہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہم سب کی حقیقت ،ایک مشت ِخاک ہے۔
مجیدامجداسی مشتِ خاک کا دیرینہ رازداربن جاتا ہے۔یہ باتیں شب رفتہ
 میں ہوئی تھیں۔شب رفتہ کے بعدکیا ہوا؟روح کوچاہت کی چاٹ لگ گئی۔چاہت نے الفت کا لبادہ اوڑھ لیا۔الفت بڑھی تواپنے ساتھ بے چینی،بے قراری ، تڑپ اورکَسک لائی۔جب کسک کوہجروفراق کی آنچ نے دل کی بھٹی میں کندن کیا ،تومحبت نے جنم لیا ۔ محبت جب تک ساحل تھی۔حاصل کی امیدا ورتمنا تھی۔جب طوفانوں سے آشنائی بڑھی اور ساحل  کی تمناخام ہوئی، تو بے حاصلی نے جنم لیا،بے حاصلی نےنقش ذات تک محدودکیا ،گنبدِذا ت پہلے روشن تھا۔
                جب ذات محوربھی بن گئی۔تویہی نقطہ کائنات کا مرکز بن گیا۔پھریہی نقطہ قوس بنا، قوسیں دائرے بننے لگے۔دائرہ دردائرہ ، رازِدروں کا جہانِ معنی تھا۔رازِدروں نے جذبِ دروں تک رہنمائی کی۔جذبِ دروں نے آگہی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔آگہی چند قدم تک ساتھ رہی، آخر وجدا ں کے حوالے کرکے خودگم ہو گئی ۔ وجداں حدودِ کائنات  سے ماوراءہوا توالہام بن گیا۔یہی مجیدامجدکا الہام ہے۔اب اسے جوبھی معنی دےئے جائیں ۔لیکن یہ ان گنت سورج کی ایک ہلکی سی جھلک ضرورہے۔
                شبِ رفتہ کا مسافرجب ان گنت سورج کی سرزمین پرپہنچا تواس کی سوچیں زخمی تھیں،  دل لہوتھا۔لیکن وجودکا گیان حاصل تھا۔من کی اگن نے وجودکوخاکسترکرنے کی بجائے اکسیرکر دیاتھا۔اس نے خودکوپانے کی ہوس میں اپناآپ کھویانہیں،بلکہ اپنے آپ پراعتمادحاصل کیا۔ اورخودی کے جوہرنمودسے نموپائی۔اگرچہ جذبوں پریخ بستگی کا طویل موسم خزاں کی طرح چھانا چاہتاتھا۔لیکن احساس نے جذبے کی لومدھم نہیں ہونے دی۔یوں آخری امید(Last leaf ) کی طرح،سخت کوش طوفانوں سے لڑتی رہی۔اورجس جذبے نے شاعرکومایوس نہیں ہونے دیا، وہ وجدان کا عرفان تھا۔حالاں کہ مجیدامجدکے باغ میں خزاں کا موسم آکرٹھہرگیاتھا،لیکن آپ کومجیدامجدکی پلکوں پرجھلملاتے ستارے دیکھنے کی حسرت رہی ہوگی۔ایک دھیما دھیما سااحساس ہرمصرعے کے ساتھ جسم میں سرایت کرتا جاتاہے۔لیکن زندگی کی تگ ودوکوسردکرنے کی بجائے، حرارت آفریں پیغام دیتا ہوا ّگے بڑھتاہے۔
                مجیدامجدکی شاعری روح میں شعورکی روکی طرح ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جب کہ اکثرہم عصرشعراءنے رومانس کا سہارالیا۔شاعری میں ملائمت پیداکرنے کی کوشش کی، نا آسودہ جذبوں کے تزکیہ (Catharsis )    کے نام پرجذبات واحساسات کوبرانگیختہ کیا۔
                مجیدامجدانساں کے ازلی وابدی تقاضوں ،رشتوں اورجذبوںکوسامنے رکھتا ہے۔ کائنات ،انساں اورخداکے رشتے کوسمجھ کران دریچوں تک رسائی کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ جوہماری کوتاہ فہمی کی وجہ سے بندپڑے ہیں۔
مجیدامجدکی ابتدائی شاعری’ نظم پابند‘کی شاعری ہے۔لیکن اس ابتدائی دورکی شاعری میں بھی وہ اٹھان ،تیور،لفظیات،علامات اورتراکیب نظرآتی ہیں۔جس سے مجید امجدکے فن کا اندازہ ہوتاہے۔کہ آنے والے وقت ،میں کس قدراہم شاعربن سکتا تھا۔پہلی نظم ’تبسم‘میں حسی پیکر تراشی سے تصوراتی پیکرتراشی کوواضح کرنا،خوب ہے۔
                ع                 تبسم آہ جس کا رقص مضراب ِرگِ جاں ہے
                رگ ِجاں کا اک تاراوررقص ِتبسم کا مضراب بنناسبحا ن اﷲ۔دامنِ آتشیں ، جیسی فکری مصوری کی مثال ’خوش گوارنظارے ‘میں ملتی ہے۔شاعرکی مناظرِفطرت سے محبت اور مناظرکو فکری پیکرتراشی کا روپ دینا،نظم بہ نظم منفردہوتاچلا جاتاہے۔شاعرایک مصوراور ماہرنقاش (Painter )طرح لفظوں سے زندہ منظرتخلیق کرتاجاتاہے،بلکہ ان کوزباں بھی دیتاہے۔لیکن اس پیکرتراشی میں نفسیاتی کیفیات اورلا شعوری کشمکش کے اظہارکوبھی زباں ملتی ہے۔یہ پیکر تراشی فنی جمال کے ساتھ سائیکی کے اہم گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔'گاؤں'
 کا ایک منظر دیکھیے۔
                                برفاب کے دفینے اگلتا ہواکنواں
                                                یہ گھنگھرؤں کی تال پہ چلتاہواکنواں
                برفاب کے دفینے اگلتاہواکنواں ،خوب صورت منظرہے۔نہ صرف مکمل تصویرآنکھوں کے سامنے آجاتی ہے،بلکہ گھنگھرؤں کی تال اورکنویں سے گاؤں کا منظراورگاؤں کے لوگ چلتے پھرتے ،سانس لیتے ،زندگی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ایک قدم اورآگے بڑھتے ہیں نظم'حسن' سامنے آتی ہے۔علامہ اقبالؒ کی نظم ’ حقیقتِ حسن‘ لاشعورسے شعورپراترنے لگتی ہے۔ اقبالؒ نے نظم کا بنیادی خیال گوئٹے کی نظم سے لیا ہے۔لیکن اقبالؒ نے مشرقی روایات واقدارکی بھٹی سے گزارکراپنابنالیاہے۔اورنظم کے خیال کوزمیں سے آسماںتک پہنچا دیاہے۔یہ مکالماتی نظم ہے حسن اورخالقِ حسن کی گفتگوہے۔جوشباب کی سوگواری تک جاتاہے۔
                جب کہ مجیدامجدنے حسن کو’الحسن‘ بنا کرپیش کیاہے۔خیال باندازِدگرخوب صورت اورمکمل ہوگیاہے۔امام غزالی ؒنے ایک حدیث قدسی کا حوالہ دیاہے۔
  'کُنتُ کَنزًاً مَخفِیاً فَاَحبَبتُ اَن اُعرِفَ فَخَلَقتُ خَلقَ' (ترجمہ۔میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھامجھ کومحبت ہوئی کہ میں پہچاناجاؤں پس خلقت کوتخلیق کیا)الحسن کوجب محبت ہوئی توحسن کوتخلیق کیا۔
                حسنِ مجسّم وہی ہے،جوکائنات کی تخلیق ِاول ہے۔اگرحسن کہے کہ کون ومکاں کے ظاہر ہونے کا سبب میں ہوں ،توکیا نہیں کہہ سکتا ؟نظم’ حسن‘ تصوراتی ،تجریدی مصوری کا کمال ہے۔ لیکن شاعرنے ایک اورTouchبھی دیاہے۔ہرمصرع نفسیاتی سطح پرجذبے کی پیکر تراشی سے احساس کی زباں بن جاتاہے (Prefect expression of psycho abstract  art ) کائنات کوتبسم رنگیں ،بہارِخلدکونگاہ ِفردوسیں ،گھٹا مرے گیسوؤں کا پرتو،ہوامیرے جذبات کی تگ ودو، جمالِ گل میرابے وجہ ہنس پڑنا،نسیمِ صبح میراسانس لینا،عشق احساس ِبےخودانہ اورزندگی کوجذبِ والہانہ جیسی تراکیب سے بیان کرنا، نہ صرف حسی پیکرتراشی سے مددلے کرفکری پیکرتراشی کے حسن میں اضافہ کیاگیا ہے۔بلکہ حسن کی ہرادا کوایک نیا رنگ دے کراحساس کوزباں دی گئی ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ یہ نظم ۱۹۳۵ءمیں لکھی گئی۔احساس ِبےخودانہ اورجذبِ والہانہ جیسی تصوراتی مصوری کی بلندی تک مجیدامجداپنی ابتدائی شاعری میں پہنچ رہا ہے۔
                یہ کائنات میرااک تبسمِ رنگیں
                                                بہارِخلدمیری اک نگاہِ فردوسیں
                گھٹا؟نہیں یہ میرے گیسوؤں کا پرتوہے
                                                ہوا؟نہیں میرے جذبات کی تگ ودوہے
                جما لِ گل ،نہیں بے وجہ ہنس پڑاہوں میں
                                                 نسیمِ صبح ،نہیں سانس لے رہا ہوں میں
                یہ عشق توہے اک احسا سِ بیخودانہ میرا
                                                یہ زندگی توہے اک جذبِ والہانہ میرا
ایساتونہیں کہ اردوشاعری اس سے پہلے ایسی پیکرتراشی سے تہی تھی۔ بقول آل احمدسرور: "پیکرکی تخلیق بھی شاعرانہ عمل ہے۔کسی روح کوجب تک پیکرمیں نہ ڈھالا جائے گا، شاعرانہ عمل مکمل نہیں ہوگا"۔
غالب ،انیس اوراقبال کی شاعری میں ایسے کئی مناظرہیں۔ لیکن یہ مجیدامجدکی ابتدائی شاعری ہے(یہ بات دھیان میں رہے)۔اب بات کہاں سے کہاں تک آپہنچی ہے۔پہلی نظر میں اس نظم کا بنیادی نقطہ حضرت انساں ہے۔کیوں کہ انسان ہی کائنات کا مرکزومحور ہے۔ دوسری  نظرمیں کاسہ لیس زیست وجہِ وجودِکائنات کے درپرملتجی ومضمحل دکھائی دیتی ہے اور آخر'الحسن' خودخالق بن جاتاہے۔
                                ع تبسم آہ جس کا رقص مضرابِ رگِ جاں ہے
                بات حسن سے عشق تک پہنچ گئی۔ایک جذبے کا دوسراپہلوسامنے آیا۔یوں ایک اور تصویرسامنے آگئی۔حسی پیکرتراشی اورفکری مصوری کاتال میل دیکھیے۔
                                جس جگہ اٹھتی ہے یوں مزدورکے دل سے فُغاں
                                فیکڑی کی چمنیوں سے جس طرح نکلے دھواں
مجیدامجدقدم بہ قدم آگے بڑھتاجارہا ہے۔لیکن کہیں بھی اندازِبیاں کچا نہیں ہے۔تراکیب کی بناوٹ اورقدرتِ بیاں ،ندرت اورتازگی میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔نظم 'شاعر' سامنے آتی ہے۔پانچویں بندمیں یہ دنیا ،یہ بے ربط سی ایک زنجیر،جیسی ترکیب سے وضاحت حاصل کرتی ہے۔دنیا تمام تراختلافات اورتضادات کے باوجودایک اکائی ہے۔اسے بے ربط سی ایک زنجیر، جیسی ترکیب وضح کرکے مصورکرنا،سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔اس کے بعدآٹھواں بندایک ایسی مشہور نظم کا ماخذہے۔جس نے برصغیرکے لوگوں کوساحرلدھیانوی کی طرف متوجہ کیا۔لیکن مجیدامجدکی یہ منزل نہیں ہے۔مجیدامجدکی بہترین شاعری میں اس نظم کا کہیں ذکرنہیں ملتا۔
                                یہ محلوں،یہ تختوں ،یہ تاجوں کی دنیا
                                گناہوں میں لتھڑے ،رواجوں کی دنیا
                                محبت کے دشمن ،سماجوں کی دنیا
                بارہویں بندمیں ایک اورتصویرسامنے آتی ہے۔
                                میری عمربیتی چلی جا رہی ہے
                                دوگھڑیوں کی چھاؤں ڈھلی جا رہی ہے
                                ذراسی یہ بتی جلی جا رہی ہے
                گناہوں میں لتھڑے رواج،عمرکابیتنااوربتی کا جلنا،تصوراتی پیکرکوحسی مصوری
سے ظاہر کیاگیاہے(سراج منیرنے سلیم احمدکوایک ایسی بتی سے تشبہیہ دی تھی،جودونوں جانب سے جلتی ہے)۔انسان تمام عمرکڑھتااوردل کی بھٹی میں جلتارہتاہے۔نظم کا مفہوم کہاں سے کہاں پہنچ گیاہے۔عمرکے بیتنے کوبتی کے جلنے سے تشبہیہ دینا،کیسی نادراورحقیقت پسندانہ خلاقی ہے۔عمربھر انسان مصائب وآلام اوردکھ اوردردکی آنچ میں دھیرے دھیرے جلتارہتا ہے۔جیسے قطرہ قطرہ شمع روتی ہے۔اس سے ایک قدم اورآگے بڑھتے ہیں۔"صبح نو"میں فطرت کی عکاسی،اورفطرت کے مناظرکے حسن کا بیان دیکھئے۔
                کومل سا مسکراتاہوا مشک بارپھول
                                                پروردگارِعشق کا یہ بے زباں رسول
                وہ دیکھ پوپھٹی ،کئی رات اضطراب کی
                                                اچھلی خط ِافق سے صراحی شراب کی
                پھول کا مشک بارہونا،عشق کا قاصداوروہ بھی بے زباں ،لیکن اپنی بے زبانی کے باوجودجوپیغام پھول نے پہنچایا،اس پرتقریربھی فداہے۔خوشبونے سارے رازمحبوب تک پہنچا دیئے ۔ اس پرمعصوم مسکراہٹ مستزادہے۔اوراس خوش خبری کے ساتھ کہ پریشاں مت ہونا ، اضطراب کی رات کٹ چکی ہے،دن کا اجالا،تمام ترامیدوں کا پیام بربن کرآرہا ہے۔لیکن
                                ع           اچھلی خط ِافق سے صراحی شراب کی
                نہ صرف نادرترکیب ہے بلکہ تصوراتی پیکرتراشی کا خوب صورت ا ظہاربھی ہے۔ افق سے چھلکتاہلکا اجالا،ہلکی سرخی،پھرسورج کی ایک ایک کرن اورصباکی تھپکیوں میں وادی وگلستاں میں گلبن کا جھومنا ،نسیمِ سحرکا اٹکیلیاں کرنا،وہی اثرجونابِ شراب میں ہوتاہے۔ شاعرروایت سے پوری طرح واقف وآگاہ ہے۔اورنئی تراکیب سے اپنی شاعرانہ حیثیت کو
 باوقاربناتاجارہاہے۔ اگلا منظر'ریل کا سفر'کا ہے۔
                                کنواں بَن میں بربادسااک پڑاہے
                                کسی یادِرنگیں میں ڈوباہواہے
آبادی کا نہ ہونا،کنویں کا بربادہونااوراس بربادی کو'یادِرنگیں'کے خیال سے چیزے دیگربنا دینا۔یقینا یاسیت میں بھی ایک طرزِفغاں کا ایجادکرناہے۔لیکن یہ یادِرنگیں صرف خیال نہیں حقیقت ہے۔ یہ کنواں ان آبادکاروں کی یادمیں کھویاہواہے۔جوزمین کے اس حصے سے کوچ کرچکے ہیں ۔ کنویں کی بربادی اختیاری نہیں اضطراری ہے۔اوراس اضطرارمیں بھی یادِ رنگیں،کا حوالہ شاعرکی رجائیت اورمثبت اندازِفکرکی طرف واضح اشارہ ہے۔نظم’ انقلاب‘ میں پھر دومصرعے ایسے آگئے ہیں جوندرت ِخیال کومہمیزلگاتے ہیں۔
                                ٭"آہوں سے روح کی اگنی کی بھبک جاتی رہی "
                                ٭"چاندکی قاش سے ماتھے کی صباحت !سچ ہے"
                آہیں بے اثرکیوں ہوئیں ؟کیا روح سے رشتہ قائم نہیں رہا ؟لہٰذاجب روح شامل نہیں ہوگی توہرچیزبے روح ہوگی۔محبوب کے چہرے کوچاندکی قاش کہنااورچہرے کی خوب صورتی کو’صباحت‘ سبحان اﷲ۔دراصل چہرے کاحسن’ صباحت‘ ہی کہلاتاہے،جیسے رنگ کا وضاءت ، ناک کا جمال ،آنکھوں کا حلاوت،منہ کا ملاحت،زبان کا ظرافت،قدکا رشاقت، عادات واطوارکا لیاقت اورباتوں کا حسن،کمال کہلاتاہے۔مجیدامجدنے چہرے کے حسن کو ملاحت کہ کراپنے اد  یب ہونے کا آفاقی ثبوت دیاہے۔اگلی نظم'یہیں پہ رہنے دے صیاد آشیانہ مرا'ہے۔
                                اندھیرے میں کوئی پتہ جوسرسراتاہے
                                تواب بھی راتوں کودل میراچونک جا تاہے
                پتے کے سرسرانے سے دل کا چونک جانا،کسی واقعے کی طرف اشارہ کرتاہے۔وہ واقعہ کیا ہے،وہی واقعہ جودل پرسانحے کا سبب بناتھا۔اس لئے چونکتادل ہے۔یہ دل کا چونکنا بے سبب نہیںکیوں کہ 'صبحِ جدائی'کی گھڑی قریب ہے۔
                جاتاہوں،اجازت،وہ دیکھوغرفے سے شعاعیں جھلکی ہیں
                گھلے ہوئے سونے کی لہریں ،مینائے شفق سے چھلکی ہیں
                فکری پیکرتراشی کا ایک اوراچھوتانمونہ،حسی اورفکری پیکرتراشی کے فن کویک جا کرکے ایک زندہ منظرتخلیق کیاہے۔شفق کی صراحی نے سنہری کرنوں کواذنِ سفردیاہے، کہ دنیاکوروشن کردو۔یہ مصرع جدت ِ ترکیب اورتشبہیہ کا ایک الگ ذائقہ رکھتاہے۔ایک قدم اورآگے بڑھتے ہیں ، تو'آوارگانِ فطرت سے'سامنا ہوتاہے۔آوارگانِ فطرت کی ترکیب ہی جدیدنہیں بلکہ جن چیزوں کو'آوارگانِ فطرت ' کہاگیاہے۔وہ اپنی آفاقی حیثیت میں مسلّم ہیں۔
                                بتابھی مجھ کوارے ہانپتے ہوے جھونکے
                                ارے اوسینۂ فطرت کی آہ ِ آوارہ !
                ہواکوہانپتے ہوئے جھونکے اورسینۂ فطرت کی آہِ آوارہ کہہ کرحسیاتی، لمسیاتی ترکیب وضح کرکے تصوراتی پیکرتراشی سے نقش بنا یاگیاہے۔کہ اب ہرجھونکا ،آوارہ محسوس ہوتا  ہے۔آوارہ جھونکے سے ایک سوال پوچھاگیاہے۔کیاتم نے کبھی ایسامنظریاکسی ایسے دل جلے کوبھی دیکھا کہ آتشِ عشق میں جلنے کے بعدجب اشکوں کی جھڑی چہرے پرخشک ہوجائے اوروہ خراب ِ محبت ، نیندکی آغوش میں چلا جائے!سوال تشنۂ جواب تھا۔کہ شاعرسمندرکی طرف متوجہ ہوا۔ اورابد کنار سمندرکہہ کرایک سوال داغ دیاگیا۔کہ تیری حسین لہریں روزوشب کیسے پرشورطوفانوں کا راگ الاپتی ہیں۔کیا تیرے طوفان کبھی کسی ایسے دل کی ّآگ بجھانے میں کامیاب ہوسکے،جو اچانک کسی دکھ بھرے دل میں سلگ اٹھی ہو۔اوریہ دومصرعے:
                                جب ایک بچھڑے ہوئے کا پیام آتاہے
                                کسی کا روح کے ہونٹوں پہ نام آتاہے
                یہ شعرحسیاتی شاعری میں شامل ہونے کا حقدارہے۔اوردوسرا مصرع عظیم تر تخلیق ہے۔لیکن شاعرکوہنوزجواب نہیں ملتا۔اب شاعرحسیں چاندکی طرف متوجہ ہوتا ہے۔اورچاندسے ایک سوال کرتاہے۔کہ کیا تونے کبھی ایسے شہرِخموشاں کا منظربھی دیکھا ،کہ جب کسی دل جلی نے، اپنا دل ہجرکی آگ میں جلانے کے بعد،تربت پردیاجلایاہوتوقبرسے آواز آئی ہویاقبروالے نے بھی گفتگوکی ہو۔لیکن جواب نہیں ملا۔اس نظم میں تین منظر اور تین سوال ہیں۔جودن اور رات کی تمام ترکیفیات کے رازدارہیں۔ہوا(ہانپتاہواجھونکا)،پانی (ابد کنارسمندر) اورچاند(رات اور محبت کے رازوں کا امیں ) کوئی لمحہ ایسا نہیں ہوتا،جب ان تینوں میں سے کوئی ایک ہمارے ساتھ نہ ہو۔توگواہ ایسے چنے گئے ہیں،جوفرضی نہیں شاہد ہیں۔
نظم سوالات اٹھانے کے بعدخاموشی ہوجاتی ہے۔لیکن قاری کے ذہن میں          سوالا ت  کا اک سلسلہ سرابھارتاہے۔یوں نظم فکری دریچے وا کرنے کے بعدختم ہوجاتی ہے۔یہی فکری مہمیز، مجیدامجدکی بنیادی خوبی ہے۔ایساجان داراندازِبیاں،زندہ زباں اورنفسیاتی امیج کو واضح کرنے کا فن نایاب ہے۔ایک قدم اورآگے بڑھتے ہیں۔'خدا(ایک اچھوت ماں کاتصور) 'میں ایک شعرتوجہ حاصل کرتاہے۔
                کہاں رہتا ہے پرمیشر؟ادھرآکاش کے پیچھے
                                کہیں دور،اس طرف تاروں کی بکھری تاش کے پیچھے
دنیاکی اونچ نیچ،برہمن شودرکا فرق اورایک عام اچھوت ماں کا تصورِخداکیاہے۔عام لوگوں کوکیاکچھ بتایاجاتاہے۔اور’خدا‘کا تصوردوری سے مشروط ہے۔لیکن یہ برہمن زادے نہ صرف اچھوت لوگوں کوبلکہ’'بھگوان' کوبھی چونالگاجاتے ہیں۔اس لئے تواچھوت ماں کہتی ہے۔
                ع           میرے بھولے !ہماری اوراس کی ایک لیکھا ہے
                ایک اورنظم سامنے آتی ہے۔’پژمردہ پتیاں ‘ پژمردہ پتیوں کودوشیزۂ بہارکے دامن کی دھجیاں ،اوران کے ڈھیرکو’پیوندہیں خزاں کے کفن میں لگے ہوئے ‘ کہا گیاہے ۔ اوراس پر صرفِ خزاں ہوکربھی نقیبِ بہاربن جاتی ہیں۔
                اس کے بعدایک نظم' دنیا 'سامنے آتی ہے ۔امروزاورتصوراتی پیکرتراشی کا ایک نادر نمونہ سامنے آتاہے۔
                                نہ سمجھوکہ ہے کیف پروریہ نغمہ
                                شکن ہے ہواکی جبیں پریہ نغمہ
اس شکن کوہواکی جبیں پردکھا کرشاعرنے احساس کولمس سے بدل کے حسیاتی سطح پر نقش کر دیاہے۔نغمے کوہواکی جبیں پرشکن کی طرح دکھانا،مجیدامجدہی کا حصہ ہے۔نغمہ عام طورپر محبت کا پیام برہوتاہے۔لیکن ہواپرشکن کا پڑناناپسندیدگی کا اظہارہے۔اس نظم کاپہلا شعر ہے۔
                جہاں کی حقیقت کی کس کوخبرہے
                                                فریبِ نظرتھی ،فریبِ نظرہے
                اس کے بعد'سفرِحیات 'جیسی نظم سامنے آتی ہے۔دومصرعے دیکھتے چلیں۔
                                ہراک نقشِ پاکی زباں پرفسانے
                                جبینوں کے ٹکڑے توسینوں کی قاشیں
ہرنقشِ پا،فریادی بن جاتاہے۔جبینیں ٹکڑوں میں ،سینے قاشوں میں منقسم دکھائی پڑتے ہیں۔شاعرکہہ اٹھتاہے۔
                                ع           یہ رستہ کہاں ختم ہوگا،نہ جانے؟
                اس کے بعدنظم کنواں ہے۔لیکن 'کنواں'  کے بارے میںکچھ کہنے سے پہلے ،یہ بات ذہن نشیںرہے،کہ اب تک مجیدامجدکی شاعری ' نظم پابند'کی شاعری تھی اورصرف ایک غزل کہی گئی تھی۔یہ ۱۹۴۰ءکا سِن ہے،اورکنواں نظم معری ٰہے۔پابندشاعری سے نظم معری ٰکی طرف پہلا قدم،نظم کنواں تک کا شاعرانہ سفریہ ظاہرکرتاہے۔کہ مجیدامجدکی شاعری فکری توانائی حاصل کر چکی ہے، نادرتراکیب تراشنے کا فن،بلندیوں کی طرف گامزن ہے۔مجیدامجدکسی بھی منظراور احساس کوبیاں کرنے میں کامل مہارت رکھتا ہے۔نہ صرف منظرواحساس کومجسّم کردیتا ہے ،بلکہ حسیاتی لمسیاتی سطح پرایسا عکس ونقش کرتاہے ،کہ منظر بولتاہے،احساس ہمکتا ہے،جیسے زندگی میں دل دھڑکتاہے۔
                                نظم میں ترقی پسندتحریک کاکوئی تلازمہ یاترکیب استعمال نہیں ہوئی ۔ مجیدامجدکی نظم سیاسی نعروں اورترقی پسندتحریک کے تلازموں اورتراکیب سے آزادہے۔ مجیدامجد اپنے اسلوب میں ندرت ِبیان،ندرت ِتشبیہات ،جدت ِتراکیب،شاعرانہ مصوری، نفسیاتی عکاسی (Psycho analysis)،اعتدال وتوازن اورسوزوگداز(زندہ غم) جیسی خصوصیات میں اتنی مہارت حاصل کرچکاہے۔کہ 'کنواں' جیسی نظم تخلیق ہوتی ہے۔
                یہ نظم پہلی نظرمیں برصغیرمیں مسلم قوم کا نوحہ بن جاتی ہے۔کہ عوام ہیں،حاکم ہیں، حکومت ہے،لیکن خوشحالی نہیں،لوگ پریشاں حال ہیں۔اورکنواں چلنے کی آوازبھی مسلسل آرہی ہے،یعنی حیات آفریں زمیں کے مساموں سے نکل کر سینہ دھرتی پردوڑتا پھرتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ بھی کیاجارہا ہے کہ عوام کے جذبات واحساسات کا خیال رکھاجائے گا۔ جمہوریت ہوگی ۔بے چارے عوام،انہی وعدوں پربھروسہ کرکے اچھے وقت کے انتظار میں بیلوں کی طرح کام میں جتے ہوئے ہیں ۔لیکن نہ قفل ٹوٹنے کی کوئی سبیل نظرآتی ہے،نہ ہی بے نوائی ختم ہوتی ہے۔نہ کوئی منزل ،نہ نشانِ منزل ،چلنے کی سکت ختم ہوچکی ہے۔ظلم حدسے تجاوزکرچکا ہے۔عوام مجبوروبے بس ہیں ۔جمہوریت کے نام پرظلم ہورہا ہے۔یہ بات اس وقت کے پورے برصغیر (بلکہ پوری مسلم امت)کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔
                                'کنواں چل رہا ہے'
                نظم شروع ہوتے ہی لاشعورکواپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔اورشعورپرایک سحرطاری ہوجاتاہے۔ایک دھیمی دھیمی لے،دل ودماغ پرحاوی ہوناشروع ہوجاتی ہے، قاری ایک لمحے کے لئے بھی لے اس کے اثرسے نکل نہیں پاتا،جذبات نظم کی روانی میں بہنے لگتے ہیں۔لیکن ادراک میں سوالات کا اک سلسلہ سر ابھارناشروع کردیتا ہے۔پانی زندگی کی علامت ہے۔پانی زندگی کے اجزاءمیں سے بنیادی جزوہے۔خالق نے فرمایا،ہم نے مخلوقات کوپانی سے پیدا کیا۔
                پھر!کنوان چل رہا ہے توکھیت سوکھے کیوں ہیں؟فصلیں نہیں ہوئیں!نہ اناج کے ڈھیر!نہ دانے!وغیرہ وغیرہ۔پراسراریت شعورولا شعورپراپنی گرفت ڈھیلی نہیں ہونے دیتی۔لیکن ادراک چونکتاہے۔یوں سُروں کا دائرہ دردائرہ اثراندازہوتاہوافسوںایک نقطے پر مرکوزہونے لگتا ہے ، اورخودبخودجواب کی شکل پیداہوناشروع ہوتی ہے۔پانی کناروں کو چیررہا ہے!اوراس کا رنگ بھی خون آلودہے!کنویں کی نفیری توخوشحالی کا اعلان تھا!اس میں پراسراریت کیوں ہے؟
                دوسرابندپراسراریت کے چہرے سے پردہ سرکاتاہے،لیکن حل نظرنہیں آتا!؟ ظلمت کی اندھیری رات نے انہیں گھیررکھاہے۔
                جسے سن کے رقصاں ہے اندھے تھکے ہارے بے جان بیلوں کا جوڑابچارا
                گراں بارزنجیریں،بھاری سلاسل،کڑکتے ہوئے آتشیں تازیانے
                طویل اورلا منتہی راستے پربچھا رکھے ہیں دام اپنے قضانے
                ادھروہ مصیبت کے ساتھی ملائے ہوئے سینگوں سے سینگ،شانوں سے شانے
                                رواں ہیں نہ جانے
                کدھر؟کس ٹھکا نے؟
                                نہ رکنے کی تاب اورنہ چلنے کا یارا
                                                                                مقدّرنیارا                              دوسری طرف کنویں کا مالک ہے۔جولمبی تان کرسویاہواہے۔اپنی بنسی کی تان میں مست ہے۔حالاں کہ زمین بنجرہورہی ہےں،یاپھرکھڑی فصلیں خاک ہوتی جارہی ہیں۔
                کنوئیں والا،گادی پہ لیٹا ہے،مست اپنی بنسی کی میٹھی سریلی صدامیں
                کہیں کھیت سوکھاپڑارہ گیااورنہ اس تک کبھی آئی پانی کی باری
                کہیں بہہ گئی ایک ہی تندریلے کی 'فیاض' لہروں میں کیاری کی کیاری
                کہیں ہوگئیں دھول میں دھول لاکھوں،رنگارنگ فصلیں ،ثمردارساری
                پریشاں پریشاں
                گریزاں گریزاں،
                                تڑپتی ہیں خوشبوئیں دامِ ہوامیں
                                                                                نظامِ فنامیں
یہ بندایک ایسے لفظ پرختم ہوتاہے۔جواگلے بندکی ابتداءکی فکری توجیح (Psycho logic)بھی ہے۔کنواں کا پہلا بنداورفیض کے اس مصرع:
                ع           'یہ حسیں کھیت،پھٹا پڑتاہے جوبن جن کا!'
کاموازنہ کیجئے ۔فیض کی شاعری ایک سیاسی نعرہ بازی بن جاتی ہے۔جب کہ مجیدامجدکا فن ادب کی آفاقی حدوں کوچھولیتاہے۔ایک اورحوالے سے دیکھیے۔
                                یہ داغ داغ اجالا ،یہ شب گزیدہ سحر
                                وہ انتظارتھا جس کا،یہ وہ سحرتونہیں
                بلندبانگ لہجہ اورجھنجھلاہٹ ہے۔لیکن مجیدامجدکا فن ،فنی عظمتوں کوچھوتا
ہے۔مجیدامجد کوئی شکوہ نہیں کرتا،ایک سکوں ہے۔سمندرکی سی خاموشی،عمق اوروسعت ہے۔اسلوب پربات کرتے ہوئے عابدعلی عابدکہتے ہیں'یہ جدت ِادانہیں زاویۂ نگاہ کا فرق ہے،یہ شخصیت اور اسلوب کی بہارہے'۔(اسلوب ،ص ۱۰۱)
                اسلوب کا وہ بانکپن جس سے مجیدامجدکا صوتی لفظیاتی نظام تشکیل پاتاہے۔پہلی بار نظم 'کنواں'میں ظاہرہوتاہے۔اورکنواں چل رہا ہے۔اس طرح ہرڈول بقدرظرف سیرابی کے عمل کوعام کرتاہے۔زمین کی شریانوں پرسے گزرتا،اوروقت کی بلیغ علامت بنتاہے، مکان ولامکاں کی وسعتوں کوچھوتاہوا،عملِ نفیری کے ذریعے اک سرمدی گیت چھیڑتاہے ۔جو'کن فیکون 'سے صورِاسرافیل تک کی تمام کیفیتں رکھتاہے۔
                مجیدامجدایک ایساصانع ہے،جونہ صرف زندہ الفاظ یازندہ زباں تخلیق کرتاہے۔ بلکہ جس منظرکوچھوتاہے،زندہ کردیتاہے۔فکرواحساس کوبیاں کرتاہے،توروح کی تڑپ اور احساس کی کسک کوالفاظ کا روپ دے کرایسے مناظرتشکیل کرتاہے،کہ منظرسیلِ زمانہ بن جاتے ہیں ۔ خواب حقیقت بنتاہے اورسپنوں کی طرح دل ودماغ میں گدگدیاں کرتاہے۔ تعجب خیز،طرب انگیز یاسیت لاشعورپرطاری ہوجاتی ہے۔جس سے قاری ،نہ تواکتاتاہے نہ ہی کنیاتاہے۔یوں مجیدامجد ایک مصور(خالق)   کے روپ میں جلوہ گرہوتاہے۔جوزندگی کے مشک بارآنسوؤں کوآسیبِ حسن دینا چاہتاہے۔تڑپتی ،تلملاتی اوربے حس ہوتی ہوئی امنگوں اورآرزؤں کوزندگی کی ہماہمی سےہم کنار کرنے کے بعدکنجِ احساس میں بیٹھ کر خوشیاں بانٹنا چاہتاہے۔
                اس لئے دنیا کی چکی میں پسنے کے باوجود،وہ باربارہمکتی زندگی کی طرف لوٹتا ہے۔زخم خوردہ ہونے کے بعدبھی مصائب وآلام کے سامنے سینہ سپرنظرآتاہے۔یاسیت کوروح پرطاری نہیں ہونے دیتا۔دنیوی غم کا دائرہ بدن تک رہتاہے۔روح کوآلودہ نہیں کرتا۔مجیدامجدنہ صرف اپنی بلکہ قاری کی روح میں بھی یہ جذبہ اتارنے کا فن جانتاہے۔اس لئے مجیدامجدکا کلام ،فانی کا کلام بننے سے بچ جاتاہے۔
                معاشرتی کرب اورمعاشی استحصال کے خلاف ایک مثبت جہادکی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔اورشکوہ زیرِلب ہی رہتاہے،بلائے لب آکرفغاں نہیں بنتا۔یہی مجیدامجدکی عظمت کا راز ہے۔جونئے روپ ،نئے رنگ ڈھنگ سے ہم آہنگ ہے۔ہزارپہلوبیاں کرنے کے بعد بھی ایک عام آدمی کی سطح پرآکھڑاہوتاہے اورقاری اسے اپنے خیا لات اورجذبات سے ہم آہنگ پاکراس کا ہم نواہوجاتاہے۔
چیخاف (چیخوف)  نے ایک باراس رائے کا اظہارکیاتھاکہ ادب میں ادراک کی اتنی اہمیت ہے کہ ادیب جس چیزکا بیان کرے ۔وہ جس دائرے سے تعلق رکھتی ہو،قاری کے اس دائرے کویوں متاثرکرے کہ وہ ا شیاءکوسونگھ سکے ،چکھ سکے،دیکھ سکے اورچھوسکے(اسلوب ص ۲۷)
اس نظم میں یہ سب ذائقے موجودہیں۔انہیں حواسِ خمسہ سے محسوس کیجئے اورلطف اٹھائیے۔
                اوراک نغمۂ  سرمدی کان میں آرہا ہے،مسلسل کنواں چل رہا ہے
                پیاپے مگرنرم رواس کی رفتار،پیہم مگربے تکاں اس کی گردش
                عدم سے ازل تک،ازل سے ابدتک ،بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش
                نہ جانے لئے اپنے دولاب کی آستینوں میں کتنے جہاں اس کی گردش
                رواں ہے رواں ہے
                تپاں ہے تپاں ہے
                                یہ چکریونہی جاوداں چل رہا ہے
                                                                                کنواں چل رہا ہے
اس کے بعدکی نظم 'سیرسرما 'ہے۔
                                اس قدرہے خنک ہوائے صبوح
                                منجمدہے رگوں میں موجۂ روح
                                پھربھی آنکھوں کے سردجاموںمیں
                                پھربھی پلکوں کے ٹھٹھرے جاموں میں
                خنک ہوائے صبوح کے اثرکی وجہ سے،’منجمدہے رگوں میں موجۂ روح‘ٹھنڈک کے احساس کوبیاں کرنے کے لئے کیسی نادرتصوراتی پیکرتراشی سے کام لیاگیاہے۔روح کو ایک موج فرض کیاگیاہے۔تصورکوایک غیرمرئی جسم دیاگیاہے۔لیکن یہ نادیدہ جسم بہرحال  مادہ ہے۔یوں موجۂ روح کورگوں میں منجمددکھایاگیاہے۔جیسے بخارات بادلوں کی طرح اڑتے پھرتے ہیں اور بلندوبالا کہساروں پربرفانی پیکرمیں ڈھل کرپہاڑوں کوبرف کا لباس پہنادیتے ہیں۔اسی طرح رگوں میں روح منجمدہوتی ہے۔پلکوں کوٹھٹھرے دام سے تشبہیہ دینا،نادر تراکیب کے ساتھ ندرتِ خیال بھی ہے۔لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجودشاعرآتشیں خیالوں میں بہہ رہا ہے۔ خیالات کا چلنا ، آتشیں خیالوں،بھی خوب صورت فکری پیکرتراشی ہے۔یہ سب باتیں اس لئے کہی گئی ہیں کہ ثابت ہوسکے ۔
                ع           "آہ تم کتنے سردمہر!ہوتم۔؟"
نوٹ:یہ بھی مکمل نہیں ہے۔یہ بھی ایک طویل حصے میں سے تقریباً ایک تہائی ہے۔

No comments: