Thursday 24 January 2013

ظفر اقبال،مظہرفریدی


ظفر اقبال:
(یہاں کسی کوبھی کچھ حسبِ آرزونہ ملا)
مغربیت کی فکری یلغارختم ہوئی۔مشرق کے گنبدِ بے درکاایک گھرمیں سمٹناجہاں بے پناہ روحانی اذیتوں کاشاخسانہ تھا،وہیں'ہرشے قریب آکے کشش اپنی کھوگئی'کادسرانام بھی۔جولوگ مغربی تمدن کے اس بھیانک چہرے کودیکھ کرڈرے نہیں اورڈرنے سے پہلے ہتھیارڈال کراس سیل میں بہہ نہیں گئے۔وہ بے چہرگی کے کرب وعذاب سے بچ نکلے۔لیکن اس یلغارنے قدروں کواس قدربے چہرہ اورپائمال کردیا کہ دریافت کا نیاعمل وجود میں آنے لگا۔چوں کہ ہرفلسفہ وتحریک نے تشکیک کے وہ گنجلک جال بن دیے کہ یقیں کے پرجل گئے۔
لیکن اس قدرحوصلہ کس میں تھا کہ گمان سے نئے پہلوؤں کے جوئے شیر کاٹ لاتا۔لہٰذااکثر سوچیں دھڑن تختہ ہوگئیں۔یاپھرپیرویٔ مغرب ، مغربی اسلام اوریورپ سے ہوکرمشرق پہنچے۔لیکن یہ راستہ کٹھن اورطویل تھا۔اورشک کے وہ کانٹے جواس راہ کامقدرہوگئے تھے،راہ پرلا کردم توڑ گئے اور آخر آخرسانس پھول گئی،لیکن کسے معلوم! ۔
یقیں کی بات میں کچھ بھی نہیں تھا
نئے پہلوہوئے پیداگماں سے
ظفر اقبال کی شاعری اس مخمصے اورشک کے خارزارکوپاٹنے کانام ہے۔جہاں تک میں سمجھ سکاہوں ظفراقبال کی شاعری کوتین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔پہلا دور۔۔۔آبِ رواں(جب شاعری فقظ شاعری تھی،کوئی گماں نہیں تھا۔کوئی نظریہ یاخیال تنگ نہیں کرتاتھا)۔
دوسرادور۔۔۔اینٹی غزل(تجربات یاپھرغزل میں کچھ کرگزرنے کاعمل،جوزیادہ کام یاب نہیں ہوا)،
تیسرادور۔۔۔۔(خالص ادب یاشاعری کی طرف رجوع،لاشعورمیں غالب کااثر)
اب تک۔۔۔۔ کلیاتِ ظفر اقبال(احمد جاوید کا کہنا ہے کہ ظفر اقبال کی کلیات کی دوسری جلد سے ایک بار پھر ان کی قدرتِ کلام، معنویات کی نئی تشکیل، زبان کے بارے میں آزادانہ رویے اور زبان و بیان کی انفرادیت کا اظہار ہوتا ہے اور ظفر اقبال کی خوبی یہ ہے کہ ان کی غزل جدید تر ہونے کے باوجود سخت ترین کلاسیکی معیار پر پوری اترتی ہے۔ ان کے بقول ’یہ ایک ایسی نادر بات ہے جس میں جدید غزل کا کوئی نمائندہ ان کی برابری نہیں کر سکتا ۔)
اردوادب میں لہجہ تحیرکی حدتک شفاف اوردل پذیرہے۔بعض اوقاتظفراقبال کی شاعری اورشخصیت ایک دوسرے کی معکوس نطرآتے ہیں۔ ظفراقبال کی شاعری جذبات اوروجدان کی شاعری ہے۔اوراگر'رحیم گل'سے چندالفاظ مستعارلے لوں تو"خون کی سچائی اصل سچائی ہے"۔
یہاں کسی کوبھی کچھ حسبِ آرزونہ ملا    
کسی  کو ہم  نہ  ملے، ا و  ر ہم کو تو  نہ  ملا  
جب یہ شعرپہلی مرتبہ کان میں پڑاتودل میں ایک  جل ترنگ سی بج اٹھی۔روح جھوم اٹھی،کوئی یوں بھی کہہ سکتاہے؟ایک وارفتگیٔ خیال،ایک تسکین مگر'غمِ دل مرے رقیبو،غمِ رائیگاں نہیں ہے'۔ایک میٹھی  کسک،ایک دھیمی آنچ"آگ ہے کہ چاندنی کانرم روسایہ ہے وہ"۔'حسبِ آرزو'اور'ہم'اور 'تو'،کاتال میل بس جی چاہتاہے کہ تصورِ جاناں کیے بیٹھے رہیں۔نہ آواز،نہ سرگوشی،ایک سرخوشی جوسرمستی کے ساتھ ہو'مدھم مدھم'۔اورکئی دنوں تک یہ شعر گنبدِ جاں میں گونجتارہا اورحزن کویاس میں ،یاس کوآس میں ،کئی رنگ آئے گزرگئے۔اس مدہوشی سے نکلے توسوچا،یہ 'ظالم'کون ہے؟ذرا ساتصرف اورغالب سے معذرت کاساتھ:
پوچھتے ہیں!وہ کہ'ظالم'کون ہے؟
کوئی  بتلاوو کہ ہم بتلاویں کیا؟
آخراس ظالم کوڈھونڈنکالا۔پہلی بار ٹی وی پہ دیکھا،پھردوبدو،انداز میں ایک کھراپن،سادہ سا  بول چال کاکھڑالہجہ،جوبعض اوقات سننے والے کوسخت یاتلخ محسوس ہوتاہے۔شایدیہ کھرااورکھڑالہجہ سچائی کی دین ہے!؟ایک مضافاتی شہرمیں ہونے کی وجہ سے تادیرکلام تک رسائی نہ ہوسکی،مگرایک شبنمی آگ جودل میں نہاں تھی،بجھی نہیں۔
مجھے کبڑ ا نہ سمجھو زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دوہراہوگیاہوں
جوبدلاہے مرے اندرکاموسِم
توپتھرسے پرندہ ہوگیاہوں
پھریہ شعرنظروں سے گزرے۔شاعری کایہ انداز اورخاص کرغزل میں ،شایدکہ باید۔پہلے شعرمیں طنزِ ملیح کی ایسی نادرمثال  کہ دل جھوم اٹھا۔لیکن 'کبڑابھی زندگی پر'،اوراس کی تأویل'میں ہنستے ہنستے دوہراہوگیاہوں'۔ایک نیاذائقہ تھا۔ہنسنے کے بعددوہراہونااوردوہرے ہونے کے بعدکی مستقل اورمسلسل کیفیت میں جوراز پوشیدہ ہے۔وہ اہلِ علم جانتے ہیں۔اگلاشعراس سے بھی زیادہ تحیرآمیزتھا۔کہ پتھربھی پرندے بن سکتے ہیں۔چاہے علامت کااستعمال ہواہو۔لیکن پتھرتوپرندہ ہوگیاناں!ہواکیسے؟جب اندرتبدیلی واقع ہوئی۔جب تبدیلی واقع ہوتی ہے توکیاکچھ بدل جاتاہے۔
"بات ادھم کہہ دی ،تونے موسے نیناں ملائی کے"۔
بس  ا  یک  با  ر  کسی  نے  گلے لگا یا  تھا    
پھراس کےبعدنہ میں تھا،نہ میراسایہ تھا    
و  ہ مجھ سے ا پنا  پتا پو  چھنےکو آ  ئے ہیں  
   کہ جن سے میں نے اپنا سراغ  پایا تھا
ان دواشعار میں عجب تضادہے۔"کسی نے مجھ سے بھی مجھ کوچھپاکے لوٹ لیا"،کسی نے گلے کیالگایاکہ شاعرایک عجیب کیفیت سے دوچارہوا اوریہ کیفیت تبدیل ہوئی یانہیں اس کاذکرنہیں ہے۔نہ شاعرکی ذات رہی،نہ کائنات رہی۔اب میں نہیں تھا ۔میں ایک احساس تھا کہ لوگ ،یہ نہ سمجھ لیں کہ شاعر دیوانہ یافاترالعقل ہوگیا۔شاعرانتہائی زیرک ہے،ساتھ ہی واضح کردیا'نہ میراسایہ تھا'،یہ گلے لگاناکسی عام شخص کاگلے لگانانہیں تھا۔بل کہ اس نے گلے لگایا اورمادیت چھومنترہوگئی۔یہ مٹی کاجسم کسی ایسے پیکرمیں ڈھلاکہ سایہ بھی گیا۔اب جب کہ شاعراس کیفیت میں ایساگم ہوا کہ :"تُوتُو نہ رہا، مَیں مَیں نہ رہا،جورہی سوبے خبری رہی"،توایک دن انوکھاواقعہ پیش آیا۔' و  ہ مجھ سے ا پنا  پتا پو  چھنےکو آ  ئے ہیں   '،کہ خودان کی ذات گم ہوگئی ہے، پہلے اور دوسرے شعرمیں ایک طویل وقفہ ہیں،ایک اعصاب شکن خاموشی ہے۔اس دوران میں گردشِ دوراں نے کیاستم ڈھایا ہے کہ 'وہ اپناپتا پوچھنے کوآیا  ہے'۔شاعراس لیے بھی حیرت زدہ ہے' کہ جن سے میں نے اپنا سراغ  پایا تھا'۔لیکن شاعرنے اپنی ذات اوراناکوبہ رنگِ دگر، کمال تک پہنچادیا ہے۔کبھی کے دن بڑےکبھی کی راتیں،توانھیں جب اپنی ذات کی تلاش کی جستجوہوئی،تووہ بھی ہمارے پاس آئےہیں۔ایک وقت وہ تھاکہ ہم ان کے طلب گار تھے۔اب وقت یہ ہے کہ وہ ہمارے طلب گارہوکے آئے ہیں۔یعنی ہمارے عشق میں اتنادم خم تھاکہ انھیں ،آنے پرمجبور کردیا۔
رومیں آئےتو وہ خودگرمیٔ  بازار ہوئے
جنھیں ہم ہاتھ لگاکربھی گناہ گارہوئے
وہی بات ،'جوچاہے آپ کاحسنِ کرشمہ سازکرے'،ایک وقت وہ تھایاشرم وحیاکاوہ عالم تھا،تہذیب وشائستگی اس مقام پرتھی،کہ اگرغلطی سے ہاتھ چھوجاتا،تووجودمیں ایک سنسناہٹ اورلرزشِ خفی سی دوڑجاتی،پہروں دل اس زورسے دھڑکتاکہ قیامت ہوتی۔اب جوتہذیب کارنگ بدلا،تمدن کی چولی پہلے تنگ،پھر ٹیڈی،پھرلیر اوراب اسے کیاکہیں،میرے پاس الفاظ نہیں ہیں،یعنی توکاعنواں ہوگئی۔اوریوں وہ رونقِ بازارہوئے۔اب وہ جو اک 'ذراسی چھب تھی'،شمعِ محفلِ بازارتھی۔اقداروروایات کے بدلنے سے ،جسم پرلباس گھٹتے گھٹتے کیاسے کیابن گیا۔لیکن یہ سب باتیں 'رَو'میں آنے سے ہوئیں۔
*    رفتہ رفتہ کپڑے تیرے مختصرہوجائیں گے(سلیم احمد)
*    انہی دوحیرتوں کےدرمیاں موجودہوں میں
سرِ آبِ یقیں عکسِ گماں پھیلا ہوا ہے
اب شاعر شش وپنج میں گرفتارہوا۔حیرت کی دوانتہائیں،درمیان میں شاعرکاخیال،"سرِ آبِ یقیں"(کس قدرخوب صورت ترکیب تراشی گئی ہے) یقیں کاپانی،پھرپانی کی سطح،اوراس کے اوپر(یقیں کاامرت دھارا)،"عکسِ گماں"شک کاسایہ،شک کاپرتو،شک کازہر،پھیل گیا۔اب" نہ جائے رفتم ، نہ پائےماندن "،میں کون ہوں؟میں کیاہوں؟میں کیوںہوں؟مجھ سے پہلے کیاتھا؟مجھ سے بعدمیں کیاہوگا؟میں ہوں یا کہ نہیں ہوں!،"ہیں خواب میں ہنوز، جوجاگے ہیں خواب میں"۔مختصریہ کہ زندگی حیرت کادوسرانام ہے۔یافقظ استفہام ہے۔زمیں وزماں کی حیرتیں، کون ومکاں کی حیرتیں اور حضرتِ انساں کی حیرتیں!اک سلسلۂ سوالات ہے،حل کوئی نہیں،جہاں پہلاسوال ختم ہوتاہے،وہیں سےدوسراسوال شروع ہوجاتاہے۔ظفر اقبال توحیرت میں گم رہے۔اوراس تشکیک سے نکنے میں کام یاب ہوئے یانہیں،کیوں کے اس کے بعد ظفراقبال کی شاعری میں استفہامیہ اندازپیدا ہوگیا۔ یہ استفہامیہ انداز غالب کے استفام سے اس طرح مختلف ہے کہ غالب کااستفہام اہنےاندرجواب بھی رکتھاہے۔جب کہ ظفراقبال صرف سوال اٹھاتاہے۔سلیم احمدکااندازبھی سنتے چلیں:
میں خوابِ سبزتھادونوں کےدرمیاں میں ظفر
کہ آسماں تھا سنہرا، زمین بھوری تھی
میں زمین وآسماں کے درمیاں ایک خوابِ سبز تھا۔اگرمیں ا س زہرکوامت بھی کرلوں تو'دھوکا'بنتاہے۔ورنہ بدبخت،بدقسمت،منحوس، نحوست وغیرہ وغیرہ۔کہ تپشِ بغض وعنادنے آسماں کوسنہراتال بنادہاتھا اورزمیں جل جل کربھوری ہوگئی تھی۔حالتِ اضطرار اپنے عروج پرہے۔کہ سرتاپا مَیں آگ میں تھا۔یافریب کی دلدل میں دھنسا ایک بے بس 'آدمی'۔
آنکھ میں شوخی نہیں چمکے گی آنسوآئے گا
پہلےمیں آیاتھاتیری جانب اب توآئے گا

اندھیرےمیں چہک اٹھتاہوں کیوں کر
یہ کیسی گفت گو میں روشنی ہے

اب کےممانعت بھی اجازت لگی مجھے
دیوار تھی کہ جس کودریچہ سمجھ لیا

یوں بھی نہیں کہ میرےبلانےسے آگیا
جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آ گیا

کہیں چھپائےنہیں چھپتی خوشی اس کی
غم اس کی گود میں بچہ ساجب ہمکتاہے

حرفِ انکار اور اتناطویل
بات کومختصر نہیں کرتا
مگر کیا ہو گیا ہوں، اور، کیا ہونا تھا مجھ کو
مجھے اس رات نیند آتی نہیں ‌لوگو کسی کروٹ
    میں جب احباب کو باہم لڑانا بھول جاتا ہوں
شاعری میں چنز نمایاں ہے/منافقانہ رویے،خودغرضی/اوربدلتی قدروں نے کیاکچھ بدل دیا/اب انسان کیاسے کیابن گیاہے/یہ سب کچھ ظفر کی شاعری میں ہے۔
ہم ہی دونوں کا گزارہ وہاں کیوں کر نہ ہوا
جہاں رہتے رہے مل جل کے ہوا، اور، چراغ
خود کو رسوا کر رہا ہوں شہر میں
اک ذرا ممتاز کرنے کے لئے
تجربہ درتجربہ۔۔۔۔مسلسل سوال،لیکن ابھی وہ بات پیدانہیں ہوئی جو سوال کوجواب بھیبناڈالے/دریچے واہوتے ہین پرہوا نہیں آتی،گھٹن کااحساس ہے لیکن گھٹن کیوں ہے؟کیسے چھٹکارہ ہو،یا پھرشعروہی تاثرپیداکردے کہ جواب کی حاجت نہ رہے ،نہیں ہے۔
میں اس لیے بھی زباں کھولتا نہیں کہ ابھی
سکوت ہی یہاں اظہار کے برابر ہے
بات نئی نہیں ہے،اساتذہ اسے کئی باکہہ چکے ہیں/فقط انداز نیاہے/استفہام پیداکیاہے/ندرتِ انداز ہے۔لیکن کیایہ سب کچھ ہے۔ہاں ایسی شاعرسن کر عام قاری چونکتاضرورہے اگرفقط چونکانا ہے توبہرین انداز ہے۔لیکن کب تک!نہ جمال کی وہ کیفیت کہ دل جھوم اٹھے،نہ کمال کی وہ سامریت کہ بے کلی ،کربِ مسلسل میں ڈھل جائے۔ روز وہی ایک ساغم ایک سی امید/جی چاہتاہے کوئی تیرے سوابھی ہو۔
تجھے میں مانگ رہا ہوں یہ کس بہانے سے
چھپا ہوا ہے مری خواہشِ سوال میں تو

کسی کی آنکھ سے خوابوں کی کرچیاں چن کر
اب ایک عمر سے بیٹھا ہے کس ملال میں تو
پھروہی کلاسیکل خیال ندتِ اداکے ساتھ۔
ہے رخ پہ رنگ، قبا میں  پتنگ اڑتی ہے
طلسم ہوش ربا میں  پتنگ اڑتی ہے
کسی عقب کی ہوا میں  پتنگ اڑتی ہے
پتنگ تواڑادی اب اس کے رنگوں،اس کی شوخیوں ،شوق پرواز،ذوقِ آغاز اورکیوں اڑتی ہے پر بھی کچھ فرمادیجیے۔
وہ لے کر چل رہا ہے سب کو اپنی سرپرستی میں
کسی کو اپنی مرضی سے جدا چلنے نہیں دیتا
یہی حال ظفرکی شاعری کاہے۔کہ" کیاکہہ رہا ہے وہ ،اس کاپتاچلنے نہیں دیتا"۔
کرنی ہے اندھیرے میں ابھی ایک ملاقات
سارے یہ دییے ہم نے بجھانے ہیں تمہارے

لرزا نہیں جن میں کسی لمحے بھی کوئی عکس
ایسے بھی کئی آئنہ خانے ہیں تمہارے
شاعرانی انداز میں رپوٹنگ کے سواکچھ اوربھی ہوتاہے جو ادب میں ضروری ہوتاہے۔ابھی مجلسی اوران دوچاراشعارکی وجہ سے واہ واہ تو ہورہی ہے۔لیکن وہ ظفراقبال جو 'آبِ روں میں تھا،وہ کہاں ہے؟

No comments: