Thursday 24 January 2013

آزادی ،آزادروی نہیں ،مظہرفریدی


آزادی ،آزادروی نہیں                                                                                                       
زمیں روئی،آسماں رویا،شجر روئے،حجر روئے،حیوانات روئے،نباتات روئے،سمندر،صحرا،پربت روئے کہ ابوالبشر رو رہے تھے،اماں حوارورہی تھیں۔ جنت سے رخصت کرتے وقت ملائکہ ملول تھے،جنت رنجیدہ تھی،فضاسنجیدہ تھی۔روح ارضی نے آدم کااستقبال کیا تو کبیدہ تھی۔وجہ ازلی و ابدی دشمن تھا۔ یہ وہی عدو تھاجس نے آزادروی کی وجہ سےقہرِ الہی کودعوت دی،اور"فَخْرُجْ فَھُوَرَجِیْم"ہوا۔کیوں کہ جناب والا آزادی ،آزاد روی نہیں ہے۔جنابِ صدر ۔اللہ نے جنت،عرش، ملائکہ،جنت کی نعمتیں،زمین وآسماں کی رفعتیں عطاکیں لیکن ساتھ ہی یہ فرمادیا کہ "اس درخت کے قریب نہیں جانا"۔جنابِ صدر کیوں کہ آزادی ،آزاد روی نہیں ہے۔زمیں کو آدم کے آنسوؤں سے غسل دیاگیا۔لیکن قابیل کو آزادی روی کی اجازت نہیں،نوحؑ کی قوم کو خشک وترپر اختیاردیاگیالیکن،آزادروی کی اجازت نہیں،کیوں کہ طوفانِ نوح میں ہر خشک وتر بہہ گیا،مگروہ جوصرف کشتی میں تھے ،امان میں تھے۔یہاں تک کہ بیٹاااور بیوی بھی نہیں بچےکیوں کہ آزادی،آزاد روی نہیں۔جنابِ صدر۔دریاکامنظر ہے۔دریامیں ایل سفینہ ہے۔سفینے میں مسافر ہیں۔مسافروں میں ایک گھرانہ ہے۔گھرانے کی ایک خاتون نے ایک معصوم کوگودلے رکھاہے۔تلاطم خیزموجوں نے سفینے کو تکڑے تکڑے کردیا۔اب ایک تختہ ہے۔ایک ماں ہے اور معصوم بچہ ہے۔چھناکاہوتاہے۔شداد وقت ہے۔خدائی دعویٰ ہے۔ارم کادروازہ ہے۔ گھوڑے کاایک قدم اندرہے ،حکم ہوتاہے۔عزرائیل اس کی روح قبض کرلو۔منظربدلتاہے۔دربار پروردگار عالم ہے۔خدائے لم یزل عزرائیل سے پوچھتاہے۔عزرائیل کبھی تمھیں کسی کی روح نکالتے ہوئے رحم بھی آیا۔ عرض کیا۔پروردگارِ عالم دومواقع پرایساہوا۔ایک بارجب دریاکی موجوں پر تختہ تھا۔ماں تھی اورمعصوم بچہ تھا اورتیراحکم ہوا ماں کی روح قبض کرلو۔ دوسری با رجب شداد نے ارم میں پہلاقدم رکھا اورتونے حکم دیا کہ روح قبض کرلو۔اللہ نے فرمایااس بچے اورشداد کے متعلق اورکیاجانتے ہو۔عرض کیا۔بارِ الہ کچھ نہیں۔ارشادہوا اس معصوم و بے بس بچے کو ہم نے بادشاہت عطاکی۔اس نے خدائی دعویٰ کردیا۔یہ شدادوہی بچہ تھا۔آزادی کوآزادروی سمجھااور خدائی دعویٰ کربیٹھا۔جنابِ صدر۔یہ کون ومکاں ،زمین وزماں، کرسی وعرش،جن وبشر،کائنات کاہر لمحہ،بظاہر آزادہے۔لیکن یہ آزادی اپنے اندرایک اصول رکھتی ہے۔یہ آزادی ضابطۂ اخلاق کی پابند ہے۔یہ موسم ،یہ سورج، چاند، ستارے،ہرذی نفس آزادہے،آزا دروی نہیں                                جنابَِ صدر۔اگرہرشخص  اپنی من مانی کرے،تودنیامیں ایک بھونچال آجائے۔کوئی محفوظ نہ رہے۔نہ ماں ،نہ بہن،نہ بیٹی،نہ میں نہ آپ۔جنابِ صدر۔شہرجنگل بن جائیں۔وحشت ناچتی پھرے،بے حیائی رقص کرے،حیون اورانسان کافرق مٹ جائے۔جنابِ صدر۔آزادی آزادروی نہیں ہے۔
جنابِ صدر ۔آزاد روی کوبھی دیکھتے چلیں۔تہذیب نےاپنا چہرہ بدلا،رخ پہ غازہ،لبوں پہ لالی،نین کجرارے،چال متوالی،اخلاق کاعالم جوجی چاہے،کردار کا مطلب آزادخیالی،تمدن نے بھی اپنا چولابدلا،جسم کے اس کوچھپائیں دھجیاں،بدن ہوا فن کا نمونہ،چشمِ فلک نے نظریں جھکالیں۔انسانیت منہ چھپائے کہیں سسکتی ہے۔آدمیت بلک بلک کے روتی ہے۔ابلیسیت قہقہے لگاتی ہے۔سامریت مذاق اڑاتی ہے۔ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہے؟ ثناخواں تقدیس مشرق کولاؤ۔جنابِ صدر۔ستم بالائے ستم یہ کہ شیطانیت کے مکروہ چہرے پر نہ کوئی حزن نہ ملال،نہ ندامت نہ خیال۔اوراب بھی اگرکوئی آزادروی کاحامی ہے۔ تواس کاخداہی حافظ ہے۔کیوں کہ آزادی،آزادروی نہیں ہے۔آزادروی نے معصومیت کوسرِ بازر نچوایا،بانکپن کوبیچ بازاربِکوایا،حسن کوسرخیٔ اشتہاربنوایا۔

میرے کان اب تک ان دل خراش سسکیوں ،کرلاہٹوں،چیخوں کی بازگش نہیں بھولے،میری آنکھیں ان حیاسوزمنظروں،حیوانیت کے آگے بے بسی کی ایک ایک لیراوردھجی کو ترستے ،اجسام کی تڑپ سے جل رہی ہیں۔میرے احساسات اورجذبات ابھی تک اپنے آپ کولفظ انسان کے معنی پہنانے سے عاجز ہیں،جنابِ صدر۔کہ حواکی بیٹی،چندوحشی درندوں میں گھری تھی۔شیطان اپنے مکروہ پنجے گاڑھے مظلومیت پرخندن زن تھا۔جنابِ سدر۔آزادی ،آزادروی نہین ہے۔جنابِ صدر اگرآزادی آزادروی ہے۔توپھر میں ،آپ ،ہم سب اپنے آپ کو اس انجام کے لیے تیارکھیں۔کہ کل نہ جانے زندگی کے کس موڑ پر، شہرکی کس گلی مین،میرے گھرکے آگے میں ،میں نہ رہون،آدم آدم نہ رہے،پیکرِ حیا،گلگون قبا،برگ، حنا،معدنِ گنجِ وفا،کسی وحشی جبلت کے جبر کاشکارہوکر پارہ پارہ ہوجائے یاشبنم کے قطروں کی طرح بکھرجائے۔مجھے کہناہے۔آپ نے کہناہے۔آزادی،آزادروی نہیں ہے۔
جنابِ صدر آزادی ہے کیا؟جنابِ صدر آزادی،آخلاق کی تلمیل کاجوہر ہے۔کردار کی تعظیم کاعطرہے۔اقدار کی تطہیر کااسم ہے۔روایات کی تجسیم کاجسم ہے۔حقوق کی پاس داری کاعلم ہے۔فرائض کی نگہ داری کا بھرم ہے۔عدل کی زنجیرہے۔انصاف کی تصویرہے۔حسن کی جاگیرہے۔غرض ترے آزادبندوں کی نہ یہ دنیا،نہ وہ دنیا۔
آزادروی بغض وعِنادمیں پلتی ہے۔کینہ وخودغرضی سے سنورتی ہے۔لالچ سے پنپتی ہے۔ریاسے پھٹتی ہے۔تصنع سے پھیلتی ہے،دکھاوااس کازیورہے۔دھوکا اس کا ہتھیارہے۔اورمعصوم اس کاشکار ہے۔جناب، صدر۔آزادروی ایک ایسی تلوارہے جس سے اپنابدن زخمی ہوتاہے۔خوداذیتی اورخودکشی جیسی نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔اورآزادی دوسرے انسان کوپہچاننے کامعیارہے۔تعظیم افکارہے۔ذات باری کو سمجھنے اوزار ہے۔کیوں کہ پروردگارِ عالم نے تمام کائنات کو حضرت انسان کے لیے بنانے کے بعد ،اس پر پابندی نہین لگائی،اسے آزاد پیداکیا۔آزادی عطاکی۔لیکن عدوئے جاں کی وجہ سے کھرے اورکھوٹے مین فرق کرنے کے لیے اس حق اورباطل کے متعلق بتادیا،اب اس کی مرضی ہے،کہ وہ جاء الحق کے ساتھ کحراہو،یازھقل باطل کے ساتھ باگ کھڑاہو۔

انتخابِ کلام ، مظہرفریدی


میر(میر محمدتقی )
(۱۷۲۳ء۔۱۸۱۰ء)
اب کےجنوں میں فاصلہ شایدنہ کچھ رہے
دامن کے چاک اورگریباں کے چاک میں
کیساچمن کہ ہم سےاسیروں کومنع ہے
چاکِ قفس سےباغ کی دیواردیکھنا
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
الہیٰ کیسےہوتےہیں جنھیں ہےبندگی کی خواہش
ہمیں توشرم دامن گیر ہوتی ہےخداہوتے
کھلناکم کم کلی نے سیکھاہے
ان کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پرجو آگیا
یکسر وہ استخوانِ شکستوں سے چورتھا
کہنے لگاکہ دیکھ کے چل راہ بےخبر
میں بھی کبھوکسوکاسرِ پرغرور تھا
آفاق کی منزل سےگیاکون سلامت
اسباب لٹاراہ میں ہرسفری کا
میرےسلیقےسےنبھی میری محبت میں
تمام عمرمیں ناکامیوں سےکام لیا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہےبہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
یہی جانا کہ کچھ نہ جاناہائے
سوبھی اک عمرمیں ہوامعلوم
سودا (میرزامحمدرفیع )
(۱۷۱۴ء۔۱۷۸۱ء)
کیفیتِ چشم اس کی مجھے یادہےسودا
ساغرکومرےہاتھ سےلیناکہ چلامیں
کسی کےآتےہی ساقی کےایسےہوش اڑے
شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں
سوداجوتراحال ہےاتناتونہیں وہ
کیاجانیےتونےاسےکسآن میں دیکھا
وےصورتیں الہیٰ کس ملک بستیاں ہیں
اب جن کےدیکھنےکوآنکھیں ترستیاں ہیں
گل پھینکےہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمربھی
اے نامۂ براندازِچمن کچھ توادھربھی
درد(خواجہ میر)
(۱۷۱۹ء۔۱۷۸۵ء)
شاعری ایک روحانی مشغلہ ہے،جس سےروحانی پاکیزگی کے سوتےپھوٹتےہیں۔
ذہن میں جو گِھر گیا لا انتہا کیوں کرہوا
جو سمجھ میں آگیا پھروہ خداکیوں کرہوا
دردِ دل کےواسطےپیداکیا انسان کو
ورنہ طاعت کےلئےکچھ کم نہ تھےکروبیاں
اہلِ وفا کونام سےہستی کےننگ ہے
کہ لوحِ مزاربھی مری چھاتی پہ سنگ ہے
ارض وسماکہاں تری وسعت کوپاسکے
میراہی دل ہےوہ کہ جہاں توسماسکے
تردامنی  پہ  شیخ ہماری نہ جا   ئیو
دامن نچوڑدیں توفرشتے وضوکریں
زندگی ہےیا کوئی طوفان ہے
ہم تواس جینےکےہاتھوں مرچلے
آتش )خواجہ حیدرعلی (
(۱۷۶۴ء۔۱۸۴۶ء)
یہ آرزو تھی تھجےگل کے روبروکرتے
ہم اوربلبلِ بےتاب گفتگوکرتے
سفرہےشرط مسافرنوازبہتیرے
ہزارہاشجرِسایہ دارراہ میں ہے
سن توسہی جہاں میں ہےتیرافسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خداغائبانہ کیا
نہ پوچھ حال مراچوبِ خشک صحراہوں
لگاکےآگ مجھےکارواں روانہ ہوا
بندشِ الفاظ جڑنےسےنگوں کےکم نہیں
شاعری بھی کام ہےآتش مرصع ساز کا
بہت شور سنتےتھےپہلومیں دل کا
غالب (مرزااسداللہ خان)
(۱۷۹۷ء۔۱۸۶۹ء)
نقش فریادی ہےکس کی شوخیٔ تحریر
کاغذی ہےپیرہن ہرپیکرِتصویرکا
پھونکاہےکس نےگوشِ محبت میں اےخدا
ا  فسو ن ا نتظار تمنّا کہیں    جسے
تو  ا و ر آ ر ا  ئشِ   خمِ کاکل
میں اوراندیشہ ہائےدوردراز
ہم نےمانا کہ تغافل نہ کروگےلیکن
خاک ہوجائیں گےہم تم کوخبرہونےتک
ہےپرےسرحدِادراک سےاپنامسجود
قبلہ کواہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
بہت دنوں میں ترےتغافل نے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے
چلتا ہوں تھوڑی دور ہراک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
مؤمن (محمدمؤمن خاں )
(۱۸۰۰ء۔۱۸۵۲ء)
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس غیرتِ ناہید کی ہرتان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تودیکھو
محمد ابراہیم ذوق
(۱۷۸۹ء۔۱۸۵۴ء)
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکےبھی چین نہ پایاتوکدھرجائیں گے
کم ہوں گے اس زمیں پہ ہم جیسے بدقمار
جوچال ہم چلے نہایت بری چلے
نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ
شاید اسی کانام محبت ہےشیفتہ
اک آگ سی ہےسینےکےاندرلگی ہوئی
ظفر(محمد سراج الدین ابوالمظفر بہادر شاہ )
(۱۷۷۵ء۔۱۸۶۲ء)
ان حسرتوں سےکہہ دوکہیں اورجابسیں
اتنی جگہ کہاں ہےدلِ داغ دار میں
عمرِدرازمانگ کےلائےتھےچاردن
دوآرزومیں کٹ گئےدوانتظارمیں
کتناہےبدنصیب ظفردفن کےلئے
دوگززمیں بھی نہ ملی کوئےیارمیں
یامجھےافسرِشاہانہ بنایاہوتا
یامراتاج گدایانہ بنایاہوتا
حالی (الطاف حسین )
(۱۸۳۷ء۔۱۹۱۴)
ہےجستجوکہ خوب سےہےخوب ترکہاں
اب ٹھہرتی ہےدیکھیے جاکرنظرکہاں
ان کےجاتےہی یہ کیاہوگئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوارکی صورت ہے،نہ درکی صورت
یاس یگانہ چنگیزی(مرزاواجدحسین)
(۱۸۸۳ء۔۱۹۵۶ء)
آنکھ نیچی ہوئی ارے یہ کیا
کیوں غرض درمیان میں آئی
علم کیا،علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کےگمان میں آئی
کعبہ نہیں کہ ساری خدائی کودخل ہو
دل میں سوائےیارکسی کاگزرنہیں
شادعظیم آبادی
ڈھونڈوگےہمیں ملکوں ملکوں ملنےکےنہیں ہیں ہم نا یا ب
تعبیرہےجس کی حسرت وغم اےہم نفسو !وہ خو  ا ب ہیں ہم
مرغانِ قفس کوپھولوں نےاےشادیہ کہلابھیجاہے
آجاؤجوتم کوآناہوایسےمیں ابھی شاداب ہیں ہم
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونےدےبہلایاگیاہوں
سنی حکایتِ ہستی تودرمیاں سےسنی
نہ ابتداء کی خبرہےنہ انتہاء معلوم
نگہ کی برچھیاں جوسہہ سکےسینہ اسی کاہے
ہماراآپ کاجینانہیں جینااسی کاہے
یہ بزمِ مےہےیاں کوتاہ دستی مہں ہےمحرومی
جوبڑھ کےخوداٹھالےہاتھ میں مینااسی کاہے
تراآستاں جونہ مل سکاتیری راہ گزرکی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنےسےکام ہےجووہاں نہیں تویہیں سہی
صفِ اولیں توہےخاص صف وہاں پاؤں جایہ کہاں شرف
صفِ آخریں سے بھی دورتر،جواشارہ ہوتووہیں سہی
ظاہرمیں جونیازتھاوہ بات بھی گئی
اےخواہشِ وصال ملاقات بھی گئی
اختر شیرانی(محمدداؤد)
(۱۹۰۵ء۔۱۹۴۸ء)
یادِ ماضی عذاب ہےیارب
چھین لےمجھ سے حافظہ میرا
حالِ دل پوچھ کررلادےکوئی
پھرطبیعت میں کچھ گرانی ہے
کامیابی محال ہےاختر
ذوق اتنابلندرکھتاہوں
وہ پھول ہوں جوکھلاہو خزاں کےموسم میں
تمام عمر  مجھے حسرتِ  بہار  رہی
عزیزلکھنوی
اپنےسراوڑھ لیاجرمِ محبت سب نے
سامنےاس کےکوئی بات بنائی نہ گئی
اپنےمرکزکی طرف مائل، پروازتھاحسن
بھولتاہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
ثاقب لکھنوی
(۱۸۶۹ء۔۱۹۴۹ء)
باغباں نے آگ دی جب  آشیانے کومرے
جن پہ تکیہ تھاوہی پتےہوادینےلگے
بڑے شوق سےسن رہاتھازمانہ
ہمیں سوگئےداستاں کہتے کہتے
دل کےقصےکہاں نہیں ہوتے
ہاں وہ سب سےبیاں نہیں ہوتے
وہی رات میری وہی رات ان کی
کہیں بڑھ گئی ہے،کہیں گھٹ گئی ہے
کہنےکومشتِ پرکی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیاہےچمن بولتا ہوا
ہےروشنی قفس میں مگرسوجھتانہیں
ابرِسیاہ جانبِ گلزاردیکھ کر
ناطق لکھنوی
اےشمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہےجس طرح
ہم نےتمام عر گزاری ہےاس طرح
جہاں ہم نےدیکھےذرابدلےتیور
وہیں ہم نےطرزِ شکایت بدل دی
اثرلکھنوی
میں ان کےجلوؤں کاآئینہ ہوں،وہ میری حیرت کاآئینہ ہیں
جہاں یہ عالم ہومحویتِ کا، سوال کیسا،جواب کیسا
سیماب اکبرآبادی
محبت میں ایک ایساوقت بھی آتاہےانساں پر
ستاروں کی چمک سےچوٹ لگتی ہےرگِ جاں پر
کہانی مری رودادِجہاں معلوم ہوتی ہے
جوسنتاہےاسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ڈبویاتھاجہاں طوفاں نےہم کو
وہاں سب تھےخداکیا،ناخداکیا
ہےغارت چمن میں یقیناً کسی کاہاتھ
شاخوں پہ انگلیوں کےنشان دیکھتاہوں میں
آرزولکھنوی
ہاتھ سےکس نےساغرٹپکاموسم کی بےکیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کےبادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
شوکت حسین فانی بدایونی
(۱۸۷۹ء۱۹۴۱ء)
اپنےدیوانےپراتمام کرم کریارب
در و دیوار دئے اب انھیں ویرانی دے
زندگی معمہ ہےسمجھنےکا ،نہ سمجھانےکا
زندگی کاہےکوہےخواب ہےدیوانےکا
میری ہوس کوعیشِ دوعالم بھی تھاقبول
تیراکرم کہ تونےدیادل دکھاہوا
ذکرجب چھڑگیاقیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
نہ ابتداء کی خبرہے،نہ انتہاء معلوم
رہایہ وہم کہ ہم ہیں سویہ بھی کیامعلوم
بجلیوں سےغربت میں کچھ بھرم تو باقی ہے
جل گیا مکاں یعنی کوئی تھامکاں اپنا
حسرت موہانی (فضل الحسن )
(۱۸۷۵ء۔۱۹۵۱ء)
حسنِ بےپرواکوخودبین  و خود آراء کردیا
کیاکیامیں نےکہ اظہارِ تمناکردیا
تاثیرِبرقِ حسن جوان کےسخن میں تھی
اک لرزشِ خفی مرےسارےبدن میں تھی
دیکھنابھی توانھیں دورسےدیکھاکرنا
شیوۂ عشق نہیں، حسن کورسواکرنا
خردکانام جنون پڑ گیا،جنوں کاخرد
جوچاہے آپ کاحسنِ کرشمہ ساز کرے
دلوں کوفکرِدوعالم سےکردیاآزاد
ترےجنوں کاخداسلسلہ درازکرے
نہیں آتی توان کی یاد،مہینوں تک نہیں آتی
مگرجب یاد آتےہیں تواکثر یادآتے ہیں
اصغرگونڈوی
خرمنِ گل سے لپٹ کروہیں مرجاناتھا
اب کرے کیوں گلۂ تنگیٔ داماں کوئی
ہنستاکھیلتاجاتاہوں موجِ حوادث سے
اگرآسانیاں ہوں زندگی دشوارہوجائے
اس جلوہ گاہ حسن پہ چھایاہےہرطرف
ایساحجاب چشمِ تماشا کہیں جسے
یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خودگرفتاری
جہاں بازوسمٹتے ہیں وہیں صیادہوتاہے
میں یہ کہتا ہوں کہ فناکوبھی عطاکرزندگی
توکمالِ زندگی کہتاہےمرجانےمیں ہے
جگر مراد آبادی (علی سکندر)
(۱۸۹۰ء۔۱۹۶۰ء)
عشقِ لا محدودجب تک رہنما ہوتانہیں
آدمی سےآدمی کا حق اداہوتانہیں
روح کوسکون،قلب کوآرام آ   گیا
مو ت آ   گئی کہ یارکا پیغام آ     گیا
کبھی کبھی تواسی ایک مشتِ خاک کےگرد
طواف کرتےہوئےہفت آسماں گزرے
مجھےدےرہےہیں تسلیاں وہ ہرایک تازہ پیام سے
کبھی آ کے منظرِ عام پر،کبھی ہٹ کے منظِرِعام سے
حسن کےہرجمال میں پنہاں
میری رعنائی خیال بھی ہے
یوں زندگی گزاررہاہوں ترےبغیر
جیسےکوئی گناہ کیےجارہاہوں میں
گلشن پرست ہوں مجھےگل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیےجارہا ہوں میں
محبت میں اک ایساوقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسوخسک ہوجاتےہیں طغیانی نہیں جاتی
دل کوکیاکیاسکون ملتا ہے
جب کوئی دوسرانہیں ہوتا
جزعشقِ معتبر یہ کسی کوخبرنہیں
ایسابھی حسن ہےجوبقیدِ نظرنہیں
مری زندگی تو گزری ترےہجرکےسہارے
مری موت کوبھی پیارے کوئی چاہیےبہانہ
تیرےدل کےٹوٹنےپہ ہیں کسی کونازکیاکیا
تجھےاےجگر!مبارک! یہ شکستِ فاتحانہ
تمہیں راہبرسمجھناپڑگیاہے
ہماری بےکسی کی انتہاء ہے
اےکمالِ سخن کےدیوانے
ماورائے سخن بھی ہے اک بات
وقت آتاہےاک ایسابھی محبت میں کہ جب
دل پہ احساسِ محبت بھی گراں ہوتا ہے
رگھوپتی سہائےفراق گورکھ پوری
(۱۸۹۶ء۔
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرحِ حیات ہو گئی ہے
مآ  لِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتےجاؤ
بھڑک اٹھتی ہے شمعِ زندگانی دیکھتے جاؤ
یہ مقصدِ حیات عشق کاہے
زندگی،زندگی کو پہچانے
ذرا وصال کےبعدآئینہ تودیکھ
ترےجمال کی دوشیزگی نکھرآ ئی
بات پوچھی نہ جائے گی جہاں جائیں گےہم
تیری محفل سے اٹھےکہاں جائیں گےہم
ایک مدت سےتری یادبھی آئی نہ ہمیں
اورہم بھول گئےہوں تجھےایسابھی نہیں ہے
چراغ حسن حسرت
(۱۹۰۴ء۔۱۹۵۵ء)
امید توبندھ جاتی ،تسکین توہوجاتی
وعدہ نہ وفاکرتے،وعدہ توکیاہوتا
یارب غمِ ہجراں میں اتناتوکیاہوتا
جوہاتھ جگرپرہےوہ دستِ دعاہوتا
غیروں سےکہاتونے،غیروں سےسناتونے
کچھ ہم سے کہاہوتا،کچھ ہم سے سناہوتا
اس طڑح کرگیادل کومرےویراں کوئی
نہ تمناکوئی باقی ہ نہ ارماں کوئی
مرکز ہےذاتِ حق، تومحیط آپ ہیں
بنتے نہیں ہیں دائرے پرکارکےبغیر
یہ اوربات کہ تقدیرلپٹ کرروئی
ورنہ بازو توتجھےدیکھ کر پھیلائے تھے
غمِ آرزوکہنہ تازہ کردلِ بے خبریہ وہ آگ ہے
جوسلگ اٹھی توسلگ اٹھی ،جودبی رہی تودبی رہی
پنڈت ہری چنداختر
(۱۹۰۰ء۔۱۹۵۸ء)
ملےگی شیخ کوجنت مجھےدوزخ عطاہوگا
بس اتنی بات ہے جس کے لئے محشربپا ہوگا
نعمتوں کودیکھتاہےاورہنس دیتاہےدل
محوِحیرت ہوں کہ آخرکیاہےمیرےدل کےپاس
عندلیب شادانی(وجاہت حسین)
(۱۹۰۲ء۔۱۹۶۹ء)
بے نیازانہ برابر سے گزرنےوالے
تیزکچھ قکب کی رفتارہوئی تھی کہ نہیں
دیرلگی آنےمیں تم کوشکرہےپھربھی آئےتو
آس نےدل کاساتھ نہ چھوڑاویسےہم گبھرائےتو
وہ الم کشوں کاملناوہ نشاطِ غم کےسائے
کبھی رو پڑا تبسم، کبھی اشک مسکرائے
محمددین تاثیر
(۱۹۰۲ء۔۱۹۵۰ء)
داورِ محشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کےبھی نام آتےہیں
حضوریاربھی آنسونکل ہی آتے ہیں
کچھ اختلاف کےپہلونکل ہی آتےہیں
ابوالاثرحفیظ جالندھری
(۱۹۰۰۔۱۹۸۲ء)
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یادنہ تم کوآسکے
تم نےہمیں بھلادیا،ہم نہ تمہیں بھلاسکے
دلکھاجوتیرکھاکےکمینِ گاہ کی طرف
اپنےہی دوستوں سےملاقات ہوگئی
یہ کس کودیکھ کردیکھاہے میں نےبزمِ ہستی کو
کہ جوشےہے خدائی میں حسیں معلوم ہوتی ہے
آزادانصاری
افسوس بےشمارسخن ہائے گفتنی
خوفِ خلقِ خداسےناگفتہ رہ گئے
جوش ملیح آبادی (شبیرحسن خاں )
(۱۸۹۸ء۔۱۹۸۲ء)
سمجھےگااس کادردکون شورشِ کائنات میں
تو   نے جسے مٹا د  یا  پر  د ۂ    ا لتفا  ت   میں
اب تک نہ خبرتھی مجھےاجڑےہوئےگھرکی
و  ہ   آ    ّئے تو  گھر  بے سر  و  سا ما  ں نظر  آ   یا
کتنی حقیقتوں سےفزوں ترہےوہ فریب
دل کی زباں میں و عد ۂ فر د  ہ  کہیں  جسے
احسان دانش
(۱۹۱۴ء۔۱۹۸۲ء)
ہم حقیقت ہیں توتسلیم نہ کرنےکاسبب
ہا ں ا  گرحرفِ غلط   ہیں تو  مٹا د  و  ہم کو
حاصلِ عمر سمجھتاہےجوقسمت سےتجھے
وہ کہاں جائے اگررازچھپائےتوبھی
سنتاہوں سرنگوں تھےفرشتے مرے حضور
میں،جانےاپنی ذات کےکس مرحلے میں تھا
شورشِ عشق میں ہےحسن برابر کاشریک
سوچ کرجرمِ محبت کی سزا دو ہم کو
عابد علی عابد
(۱۹۰۶ء۔۱۹۷۱ء)
میراجیناہےسیج کانٹوں کی
ان کےمرنےکانام تاج محل
کہتے تھےتجھی کوجان اپنی
اور تیرے بغر بھی جئےہیں
دمِ رخصت وہ چپ رہےعابد
آنکھ میں پھیلتاگیاکاجل
لوگ تودامن سی لیتے ہیں،جیسے ہوجی لیتےہیں
عابدہم دیوانےہیں،جوبال بکھیرےپھرتےہیں
فیض احمد فیض
(۱۹۱۱ء۔۱۹۸۴ء)
درِ قفس پہ اندھیرےکی مہرلگتی ہے
توفیض جسم میں تارےاترنےلگتے ہیں
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
و ہ جار  ہاہےکو  ئی شبِ غم گز ا ر  کے
د نیا نے تیر ی  یا د سے بیگانہ  کر  د یا
تجھ سےبھی دل فریب ہیں غم روزگارکے
اک فرصتِ گنا  ہ ملی  و  ہ  بھی  چا  ر دن
دیکھےہیں ہم نےحوصلےپروردگارکے
حفیظ ہوشیارپوری
تمام عمر تراانتظارہم نےکیا
اس انتظارمیں کس کس سےپیارہم نےکیا
زمانےبھرکےغم اوراک تراغم
یہ غم ہوگاتوکتنےغم نہ ہوں گے
اگرتواتفاقاًمل بھی جائے
تری فرقت کےصدمےکم نہ ہوں گے
یہ تمیزِ عشق وہوس نہیں،یہ حقیقتوں سےگریز ہے
جنھیں وشق سےسروکارہے،وہ ضروراہلِ ہوس بھی ہیں
میں اپنےحال کوماضی سےکیوں کہوں بہتر
اگروہ حاصلِ غم تھا،تویہ غمِ حاصل
کچھ اس طرح سے بہارآئی ہےکہ بجھنے لگے
ہوائےلالۂ وگل سےچراغ و دیدۂ ودل
نہ اب وہ ذوقِ طلب ہے،نہ اب وہ عزمِ سفر
رواں ہے قافلہ ، تسکین راہبر کے لئے
میں اکثر سوچتاہوں پھول کب تک
شریکِ گریۂ ماتم نہ ہوں گے
ناصرکاظمی
(۱۹۲۵ء۔۱۹۷۲ء)
اک نیادورجنم لیتاہے
ایک تہذیب فناہوتی ہے
احمد ندیم قاسمی
(۱۹۱۶ء۔۔۔۔۔۔
ا ند ا ز  ہو بہو تیر ی آوازِ پا کا تھا
دیکھانکل کےگھرسےتوجھونکاہواکاتھا
ندیم جوبھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرےکےپیچھےہزارچہرےتھے
ا   مید    کی شکست بڑ  ا سا  نحہ سہی
سناٹے میں سنائی تودی اک صدا مجھے
بجھ  گئی ہیں مری آنکھیں مگراےشامِ فراق
یہ دیےان کےخیالوں میں جلتےتوہوں گے
سورج ابھرا  کہ قیامت جاگی
رات گزری کہ زمانےگزرے
پاکربھی تونیند اڑگئی تھی
کھوکربھی تورت جگےملےہیں
ابھی ابھی تمہیں سوچاتو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی توہم اک دوسرےسےبچھڑےتھے
بھولےگانہ اےبہارتیرا
چھپ چھپ کےکلی کلی میں آنا
اک سفینہ ہے تیری یاد اگر
اک سمندرہےمیری تنہائی
اتنا سیال ہےیہ پل کہ گماں ہوتاہے
میں تیرےجسم کوچھولوں توپگھل جائےگا
تواتناقریب کہ تجھ سے
میں پوچھ رہاہوں توکہاں ہے
اسرارالحق مجاز
(۱۹۱۹ء۔۱۹۵۵ء)
سب کاتومداواکرڈالا،اپناہی مداواکرنہ سکے
سب کےتوگریباں سی ڈالےاپناہی گریباں بھول گئے
انتخابِ چراغِ نیم شب(سلیم احمد)
مجھےکچھ ایسی آنکھیں چاہیں اپنےرفیقوں میں
جنھیں بےباک سچےآئینوں سےڈرنہیں لگتا
بچوں کے لئے حیرتِ پروازنہیں ہے
اس شہر میں مدت سےہیں نایاب پرندے
دونوں ساتھی ہیں کسی قیدسےبھاگےہوئے
میرا تیراربط ہےیاضبط ہےزنجیرکا
اس کےپیچھےاتنی دورچلےتوآئےہیں
یہ کوئی بگولاہے،قافلہ نہیں لگتا
شہرِاحساس ترےلمس سےجاگ اٹھتاہے
رات ہوتی ہےتوہاتھوں میں دیےجلتےہیں
یہ کس کی آمدہےکہ تارے
دورویہ مشعلیں لےکرکھڑے ہیں
یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں
سواندرسےپگھلتاجارہاہوں
اس بے کراں سکوں میں جورشکِ جنوں بنا
اک اضطراب تھا کہ بہ حدِ کمال تھا
اتنی کاوش بھی نہ کرمیری اسیری کےلئے
توکہیں میراگرفتار نہ سمجھا جائے
شہرِ احساس ترےلمس سےجاگ اٹھتاہے
رات ہوتی ہے توہاتھوں میں دئے جلتے ہیں
قابل اجمیری
رکارکاساتبسم جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقۂ بیگانگی کہاں ہےابھی
راستہ ہےکہ کٹتاجاتاہے
فاصلہ ہےکہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتاہےپرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
باقی صدیقی
(۱۹۰۹ء۔۱۹۷۱ء)
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لئےپھرتاہےدریاہم کو
ہرایک آدمی اڑتا ہوابگولاتھا
تمہارےشہرمیں ہم کس سےگفتگوکرتے
زندگی دل کاسکوں چاہتی ہے
رونقِ شہرِ صبا کیا دیکھیں
آپ کوکارواں سےکیامطلب
آپ تومیرِکارواں ٹھہرے
ہرنئے حادثےپہ حیرانی
 پہلےہوتی تھی اب نہیں ہوتی
ظفراقبال
بس  ا  یک  با  ر  کسی  نے  گلے لگا یا  تھا    
پھراس کےبعدنہ میں تھا،نہ میراسایہ تھا    
یہاں کسی کوبھی کچھ حسبِ آرزونہ ملا    
     کسی  کو ہم  نہ ملے ا و  ر ہم کو تو نہ  ملا  
و  ہ مجھ سے ا پنا  پتا پو  چھنےکو آ  ئے ہیں  
   کہ جن سے میں نے اپنا سراغ  پایا تھا
مجھے کبڑ ا نہ سمجھو زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دوہراہوگیاہوں
جو بدلاہے مرے ا ندر کاموسم     
میں پتھر سےپرند  ہ ہوگیاہو ں    
رومیں آئےتووہ خودگرمیٔ بازارہوئے
جنھیں ہم ہاتھ لگاکربھی گناہ گارہوئے
انہی دوحیرتوں کےدرمیاں موجودہوں میں
سرِ آبِ یقیں عکسِ گماں پھیلا ہوا ہے
میں خوابِ سبزتھادونوں کےدرمیاں میں ظفر
کہ آسماں تھا سنہرا، زمین بھوری تھی
آنکھ میں سوخی نہیں چمکےگی آنسوآئے گا
پہلےمیں آیاتھاتیری جانب اب توآئے گا
اندھیرےمیں چہک اٹھتاہوں کیوں کر
یہ کیسی گفتگو میں روشنی ہے
اب کےممانعت بھی اجازت لگی مجھے
دیوار تھی کہ جس کودریچہ سمجھ لیا
یوں بھی نہیں کہ میرےبلانےسے آگیا
جب رہ نہیں سکا تو بہانے سے آ گیا
کہیں چھپائےنہیں چھپتی خوشی اس کی
غم اس کی گود میں بچہ ساجب ہمکتاہے
حرفِ انکاراوراتناطویل
بات کومختصر نہیں کرتا
مجروح سلطان پوری
مجھےسہل ہوگئیں منزلیں وہ ہواکےرخ بھی بدل گئے
تراہاتھ ہاتھ میں آگیاکہ چراغ راہ میں جل گئے
میں اکیلاہی چلاتھاجانبِ منزل مگر
لوگ آتےگئےاورکاواں بنتاگیا
جھونکےجولگ ریےہیں نسیمِ بہارکے
جنبش میں ہےقفس بھی اسیرِ چمن کےساتھ
دیکھ زنداں سےپرےجوش رنگِ بہار
رقص کرتاہےتوپھرپاؤں کی زنجیرنہ دیکھ
شبِ ظلم نرغۂ رہزن سےپکارتا ہےکوئی مجھے
میں فرازِ دار سےدیکھ لون کہیں کاروانِ سحرنہ ہو
ہم ہیں متاعِ کوچۂ و بازارکی طرح
اٹھتی ہےہرنگاہ خریدارکی طرح
ساحر لدھیانوی
(۱۹۲۱ء۔۱۹۸۰ء)
ذوالفقار بخاری
شبِ فرقت کی تیرگی اےدل
منحصررات پرنہیں ہوتی
فرق ہےرات رات میں پیارے
رات کس کی بسرنہیں ہوتی
بیشترخداپایااوربرملاپایا
ہم نےتیرےبندوں کوبھی تجھ سےسواپایا
نشورواحدی
نگاہِ شوق سےتادیرحیرانی نہیں جاتی
شباب آیاتوظالم شکل پہچانی نہیں جاتی
شاید کہ نظرپہنچےتیری غمِ انساں تک
اےصبحِ چمن پرورچل شامِ غریباں تک
ہزارشمع فرازاں ہوروشنی کےلئے
نظرنہیں تواندھیراہےآدمی کےلئے
تاریخ جنوں ہےکہ ہردورخردمیں
اک سلسلۂ دارورسن ہم نےبنایا
جمیل مظہری
(۱۹۰۵ء۔۔۔۔
نظرکوپاک کیا،فکرکوبلندکیا
دلوں کوتیری محبت نےدرد مندکیا
نہ ہم جس سےجیتے،نہتم جس سے جیتے
وہ دل زندگی کے تقاضوں سے ہارا
موت طاری ہوئی ہرزوق پہ رفتہ رفتہ
تجھ پہ مرنےکےارمان تھےوہ بھی نہ جئے
دیرمیں وہ حرم میں وہ،عرش پہ وہ زمیں پہ وہ
جس کی پہنچ جہاں تلک،اس کےلئےوہیں پہ وہ
وہیں تک خودی ہے ،وہیں سے خدا ہے
جہاں بے کسی ڈھوندتی ہے سہارا
آذری بھی حیراں ہےاس صنم تراشی پر
سو بتوں کو جوڑا ہے اک خدا بنایا ہے
اجتبیٰ رضوی
کچھ لمحےہیں جن لمحوں میں احساس اسےچھولیتاہے
عالم سے ادھر جو عالم ہے،ہستی سےادھرجوہستی ہے فتنےجگاکےدہرمیں،آگ لگاکےشہرمیں
جاکےالگ کھڑےہوئےکہنےلگےکہ ہم نہیں
فتنے جگاکے شہرمیں،آگ لگاکےدہرمیں
جاکےالگ کھڑےہوئےکہنےلگےکہ ہم نہیں
فرید جاوید
صبح کانورہےان آنکھوں میں
کیسےہم ان سےبدگماں ہوتے
کتنی رنگینیوں میں تیری یاد
کس قدر سادگی سے آتی ہے
کیوں نہ ڈھل جائےمیرےنغموں میں
کیوں ترا حسن رائیگاں گزرے
کس کی سمجھ میں آئےگی اہل، جنوں کی زندگی
سارےجہاں سےان کوپیار،سارےجہاں سےسرگراں
کرم کی آس کےسایوں میں بجھ گیا وہ چراغ
ہوائےیاس کےجھونکےجسےبجھانہ سکے
ہم نےجب تک سہےنہ تھےآلام
دل تھا احساسِ حسن سے محروم
گفتگو کسی سے ہو ،دھیان تیرا رہتا ہے
ٹو  ٹ ٹو ٹ جا  تا ہے  سلسلہ تکلم کا
میرےہی دل کی دھڑکنیں ہوں گی
تم میرے پاس سے کہاں گزرے
دل میں ہزار شوقِ تبسم لئے ہوئے
کتنے حسین خواب ہیں ہم تم لئے ہوئے
بہا ر  خو  د  بھی   پشیما ں  تو   ہو  ئی  ہو    گی
بھرے چمن میں مجھے دیکھ کر تہی دامن
بس آخری ہےخردکی کوششِ ناکام
جوآج راہِ جنوں سےبچارہی ہےمجھے
تونےاچھاہی کیادوست سہارانہ دیا
مجھ کولغزش کی ضرورت تھی سنبھلنےکےلئے
اپنی محرومیوں پہ پیارآیا
پھرمجھےاپنااعتبارآیا
تمام عمر کی بیداریاں بھی سہہ لیں گے
ملی ہےچھاؤں توبس ایک نیندسولیں آج
وقت کےبوجھ میں کوئی لمحہ نہیں
جس سےمل جائےدل کواماں دوستو
ذہن میں آہٹیں ہیں نغموں کی
آرہا ہے لبوں پہ کس کا نام
بہکابہکاسا ہےاندازِ خیال
یادکچھ بھی نہ رہا ہوجیسے
سکوتِ نیم شبی ہےکہ ڈھل رہی ہےشراب
یہ چاندنی ہے کہ تیرے خیال کا سایا
ضیاء جالندھری
ضیاء دلوں میں غبارکیاکیاتھے،روئےجی بھرکےجب ملےوہ
وہ ابربرسا ہے اب کےساون،کہ پتی پتی نکھر گئی ہے
میں کہاں پہنچا کہ ہربت جسےپوجامیں نے
ہےشکستہ سرِ خاک اورمیں شکستہ تر ہوں
جاں نثاراختر
کچھ سمجھ کرہی خداتجھ کوکہاہےورنہ
کون سی بات کہی اتنےیقیں سے ہم نے
سمجھ سکےتوسمجھ زندگی کی الجھن کو
سوال اتنےنہیں ہیں،جواب جتنےہیں
زندگی تنہاسفرکی بات ہے
اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے
منیرنیازی
شرماتےہوئےبندِقباکھولےہیں اس نے
یہ شب کےاندھیروں کےمہکنےکی گھڑی ہے
جانتاہوں ایک ایسےشخص کومیں بھی منیر
غم سےپتھرہوگیالیکن کبھی رویانہیں
میری ساری زندگی کوبےثمراس نےکیا
عمر میری تھی مگراس کوبسراس نےکیا
شہرمیں وہ معتبرمیری گواہی سےہوا
پھرمجھےاس شہرمیں نامعتبراس نےکیا
خیال جس کاتھامجھےخیال میں ملامجھے
سوال کاجواب بھی سوال میں ملامجھے
کسی کواپنےعمل کاحساب کیادیتے
سوال سارےغلط تھےجواب کیادیتے
بیٹھ کرسایہ دامانِ احمدمیں منیر
سوچیں ان باتوں کوجن کوہوناہےابھی
تیزایسی تھی کہ شہرسوناکرگئی
میں دیرتک بیٹھارہااس ہواکےسامنے
عادت ہی بنالی ہےتم نےتومنیراپنی
جس شہرمیں بھی رہنااکتائےہوئےرہنا
شکیب جلالی
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شہکارپر
دیمک نےجولکھےہیں وہ تبصرے بھی دیکھ
اتر کےناؤسےبھی کب سفرتمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھراتوزمیں چلنےلگی
آکےپتھرتومرےصحن میں دوچارگرے
جتنےاس پیڑکےپھل تھےپسِ دیوارگرے
مجھےگرناہےتواپنےہی قدموں پہ گروں
جس طرح سایۂ دیوارپہ دیوار گرے
کیاکہوں دیدۂ تریہ تومراچہرہ تھا
سنگ کٹ جاتےہیں بارش کی جہاں دھارگرے
نہ اتنی تیزچلےسرپھری ہواسےکہو
شجرپہ ایک ہی پتادکھائی دیتاہے
شہزاد احمد
جس کوجاناہی نہی ،اس کو خداکیوں مانیں
اور جسےجان چکےہووہ خداکیسےہو
ساخت ایسی ہے کہ بےساختہ پن سےدیکھو
اس آنکھوں سےنہیں سارے بدن سےدیکھو
دلوں میں تری یادسی رہ گئی
یہی ایک منزل کڑی رہ گئی
گوفاصلےبھی حسن کی قربت میں بڑےتھے
کیاکیا نہ سمجھتےرہےجودورکھڑےتھے
خلیل الرحمان اعظمی
تری صداکاہےصدیوں سےانتظارمجھے
مرےلہوکےسمندرذراپکارمجھے
باہاسوچااےکاش نہ آنکھیں ہوتیں
باہاسامنےآنکھوں کےوہ منظرآیا
محبوب خزاں
سادہ کاری کئی پرت،کئی رنگ
سادگی اک ادائے سادہ نہیں
حال ایسانہیں کہ تم سےکہیں
ایک جھگڑا نہی کہ تم سے کہیں
چاہی تھی دل تجھ سےوفاکم بہت ہی کم
شاید اسی لئے ہے گلہ کم بہت ہی کم
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتاہےچپکےسےکون
جیناوعدہ خلافی ہے
ارادہ ہے کہ دنیاکوبھی دیکھیں
تجھےہرچیزمیں دیکھابہت ہے
احمدمشتاق
دلوں کی اوردھواں سادکھائی دیتاہے
یہ شہرتومجھےجلتادکھائی دیتاہے
یہ لوگ ٹوٹی کشتوں میں سوتےہیں
مرےمکاں سےدریادکھائی دیتاہے
دونوں ہی تو سچے تھےالزام کسےدیتے
کانوں نےکہاصحراآنکھوں نے سناپانی
جب شام اترتی ہےکیادل پہ گزرتی ہے
ساحل نےبہت پوچھا،خاموش رہاپانی
خیربدنام توپہلےبھی تھےبہت لیکن
تجھ سے ملناتھاکہ پرلگ گئے رسوائی کو
اسےکل راستےمیں دیکھ کرحیرت ہوئی مجھ کو
یہی لوتھی کبھی جس سےثراغِ عشق جلتاتھا
سنگ اٹاناتوبڑی بات ہے اب شہرکےلوگ
آنکھ اٹھا کر بھی  نہیں  دیکھتے دیوانے کو
عزیز حامد مدنی
شایدکہ محرمانہ بھی اٹھےتری نگاہ
ویسےتری نگاہ دل آویزابھی سےہے
تعلقات زمانہ کی اک کڑی کےسوا
کچھ اورترایہ پیمانِ دوستی بھی نہیں
ہزار وقت کےپرتونثرمیں ہوتےہیں
ہم ایک حلقہ وحشت اثرمیں ہوتےہیں
اطہرنفیس
عشق  کرناجوسیکھاتودنیابرتنےکافن آیا
کاروبارِجنوں آگیاہےتوکارِ جہاں آئےہیں
اکیلاہوں بھری دنیامیں یارو
یہ میرےعہدکااک سانحہ ہے
اپنی ہی اندرسے نکلتاہےوہ موسم
جورنگ بچھادیتاہےتتلی کےپروں پر
عشق فسانہ تھاجب تک ،اپنےبھی بہت افسانےتھے
عشق صداقت ہوتے ہوتے ،کتنا کم احوال ہوا
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اوراس کے لئےجوکبھی آیانہ گیاہو
وہ اگلاموڑجدائی کااسےآناہےوہ آئےگا
مگرآج تواپنی راہوں مین بےمثل چمن آرائی ہے
جسےکھوکربہت مغموم ہوں میں
سنا ہے اس کا غم مجھ سےسواہے
قمرجمیل
تم ہویامیرےشوق کاعالم
کوئی اس جانِ بےقرار میں ہے
شبِ وصال میسرنہ ہوتوکیاکہیے
وہ بات جوشبِ ہجراں کتانتظارمیں ہے
میں ہی نہیں اپنی فغاں کاسبب
تو بھی مرے سینۂ سوزاں میں ہے
جون ایلیا
عمریں گزرگئی تھیں ہم کویقیں سےبچھڑے
اورلمحہ اک گماں کاصدیوں سےبےاماں تھا
سبط علی صباء
دیوارکیاگری مرےکچےمکان کی
لوگوں نےمیرےصحن میں رستےبنالئے
جمیل الدین عالی
جیسے ساحل سے چھڑالیتی ہیں موجیں دامن
کتنا ساد  ہ ہے  تر ا  مجھ   سے  گر یز  ا  ں  ہو  نا
کچھ نہ تھا یا د   بجز کا  رِ محبت ا  ک عمر
وہ جو بگڑا ہے تواب کام کئی یادآئے
ذہن تمام بےبسی ،روح تمام تشنگی
سویہ ہےاپنی زندگی جس کےتھےاتنے انتظام
شان الحق حقی
تم سےالفت کےتقاضےنہ نبھائےجاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہےجاتے
ڈال دوزخ میں میرانامۂ اعمال
میرا اقرار مختصر ہے کہ ہاں
رواں ہیں سبھی اک منزل کی جانب
کوئی ہم سےپیچھےکوئی ہم سےآگے
اتناہی نہیں ہے کہ تیرے بن رہانہ جائے
وہ جان پہ بنی ہےکہجئےبن رہانہ جائے
شہرت بخاری
تری چاہت کےسناٹے سےڈر کر
ہجومِ زندگی میں کھوگئے ہم
جمیل ملک
پیچ در پیچ سلسلےدل کے
مجھےتیری تجھےکسی کی تلاش
یوسف ظفر
گلشن کی شاخ شاخ کوویراں کیاگیا
یوں بھی علاجِ تنگیٔ داماں کیاگیا
کرارنوری
اعتراف اپنی خطاؤں کامیں کرتاہی چلوں
جانے کس کس کوملےمیری سزامیرےبعد
دشمنوں نےتودشمنی کی ہے
دوستوں نےبھی کیاکمی کی ہے
دوستو جب دوستی کےنام پرہنستاہوں میں
عمر بھرکی کوششِ ناکام پرہنستا ہوں میں
محب عارفی
کل میں نے محب اس کوعجب طورسےدیکھا
آنکھوں نے تو کم دل نے بہت غور سے دیکھا
خاطر غزنوی
اک ذراسی بات پر برسوں کےیارانے گئے
لیکن ا تنا تو ہو ا کچھ لو گ پہچانے گئے
جمیل یوسف
وہ بھی دن تھے کہ گماں ہوتاتھا
تجھ سےبچھڑوں گاتومرجاؤں گا
کیوں اسےباربارتکتےہو
دل سےپوچھوکہ چاہتاکیاہے
سجادباقر رضوی
سوئےتوہم آغوش رہےہم تیرےغم سے
جاگے تو حریفِ غمِ دنیا نظر آئے
شاہدعشقی
اک زمانےکورکھاتیرےتعلق سےعزیز
سلسلہ دل کابہت دورتلک جاتاہے
رئیس فروغ
گلیوں میں آزار بہت ہیں،گھرمیں دل گبھراتاہے
ہنگامے سے سناٹے تک، میرا حال تماشا ہے
د  ھو  پ مسافر چھا  ؤ  ں مسا فرآ  ئے کو  ئی ، کو  ئی  جا ئے
تو ہے کہ تیری پرچھائیں ہے،میں ہوں کہ میراسایہ ہے
عشق وہ کارِ مسلسل ہےکہ ہم اپنےلئے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
کتنا   پھیلےگایہ ا    ک وصل کا  لمحہ آ  خر
کیاسمیٹو گے کہ اک عمرکی تنہائی ہے
تمام جسم میں سرگوشیاں سی گونج اٹھیں
نہ جانے کیاتری خوشبوئے پیرہن نے کہا
انورشعور
ا  چھا خا صا بیٹھے بیٹھے گم  ہو  جا تا  ہو  ں
میں اب کثرمیں نہیں رہتاتم ہوجاتاہوں
کیاہےجز ایک لمحۂ موجود
سو تجھی پہ نثار ہوتا ہے
محشربدایونی
اب ہوائیں کریں گی روشنی کافیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیارہ جائےگا
شہر میں اس سےپہلےنہ دیکھی کبھی
وہ اک اداسی جواب ترےجانےسےہے
ہم خش وخاشاکِ آوارہ ،گزرگاہوں کابوجھ
رقص کرنےتیرےکوچےکی ہوامیں آئے ہیں
پژمردگیٔ گل پہ ہنسی جب کوئی کلی
آوازدی خزاں نےکہ توبھی نظرمیں ہے
ڈرو ان سےکہ ان خستہ تنوں میں
لہوکم ہےحرارت کم نہیں ہے
کلام کرتےہیں دربولتی ہیں دیواریں
عجیب صورتیں ہوتی ہیں انتظارمیں بھی
بنےہیں کیسےتماشا،تہہِ فلک جو  چراغ
بجھادئےگئےاورروشنی میں رکھےگئے
نہ جاؤگھرکےشب افروزنوں پہ کہ لوگ
دیامکان میں جلتابھی چھوڑجاتےہیں
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کافیصلہ
جس دئے میں جان ہوگی وہ دیارہ جائےگا
بڑھااندھیراتوجلناپڑادیوں کوبجبر
دیوں سےکام نہ نکلاتوگھرجلائےگئے
چٹک اےکلی لیکن آہستگی سے
یہ آوازگوشِ خزاں تک نہ پہنچے
ہوائےشب مرے شعلےسےانتقام نہ لے
کہ میں بجھاتوافق تک دھواں اڑادوں گا
شوق سےجاگنےکااب کون ساسلسلہ رہا
بجھتےچلےگئےچراغ اورمین دیکھتارہا
زخمۂ تارِسنگِ ہنرسےزخم رفوہوجاتےہیں
چہرہ تراشی کھیل نہیں ہےہاتھ لہوہوجاتےہیں
ایک بےنام سی دیوارہےباہرمیرے
کون جانےجواک نیاشہرہےاندرمیرے
ظہیرکاشمیری
ہمیں خبرہےکہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہما ر  ےبعد ،اندھیرانہیں، اجا لاہے
لوحِ مزاردیکھ کےجی دنگ رہ گیا
ہرایک سرکےساتھ فقط سنگ رہ گیا
سیرت نہ ہوتوعارض ورخسارسب غلط
خوشبواڑی توپھول فقط رنگ رہ گیا
موسم بدلارت گدرائی اہلِ جنوں بےباک ہوئے
فصلِ بہار کےآتےآتےکتنے گریباں چاک ہوئے
آنند نرائن ملا
نہ جانےکتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اترتا ہوا بالائے بام آیا
جلال الدین اکبر
ہرآن ایک  تازہ شکایت ہےآپ سے
اللہ مجھ کو کتنی محبت ہے آپ سے
یوسف ظفر
گلشن کی شاخ شاخ کوویراں کیاگیا
یوں بھی علاجِ تنگیٔ داماں کیاگیا
انجم رومانی
ادیب سہارن پوری
اپنےاپنےحوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا
احمد راہی
کہیں یہ اپنی محبت کی انتہاء تونہیں
بہت دنوں سےتری یادبھی نہیں آئی
سحرسےرشتۂ امیدباندھنےوالے
چراغِ زیست کی لوشام ہی سےمدہم ہے
مکین احسن کلیم
ستاروں سےآگےبہت کچھ ہےمانا
زمیں پربھی جینےکےہوں کچھ بہانے
عظیم مرتضیٰ
کچھ نقش تیری یادکےباقی ہیں ابھی تک
دل بےسروساماں سہی،ویراں تونہیں
مضطر حیدری
زندگی کےیہ سوالات کہاں تھےپہلے
اتنےالجھےہوئے حالات کہاں تھےپہلے
صادق القادری
نہ پوچھ کیسے گذرتی ہےزندی اےدوست
بڑی طویل کہانی ہےپھرکبھی اے دوست
دل بجھایوں کہ زمانےکوخبرتک نہ ہوئی
شمع بجھتی ہے تومحفل سےدھواں اٹھتاہے
کچھ اس طرح شریک تری انجمن میں ہوں
محسوس ہو رہی ہے خود اپنی کمی مجھے
دردِ دل کاکوئی علاج نہیں
دردِ دل کی دوابہت ہے
اک تبسم کی ہےحقیقت کیا
مگراس کی سزابہت ہے
ارشدکاکوی
کھلایہ راز جب آئےوہ بال بکھرائے
کہ روشنی سے زیادہ حسین ہیں سائے
تمہارےہونٹوں پہ کانپتی ہے،ہمارےکانوں میں گونجتی ہے
جو بات تم نےکہی نہیں ہے،جوبات ہم نےسنی نہیں ہے
جانےشیخ کوشب کیاسوجھی رندوں کوسمجھانےآئے
صبح کوسارےمے کش ان کومسجدتک پہچانے آئے
اقبال عظیم
یہ نگاہِ شرم جھکی جھکی ،یہ جبینِ ناز دھواں دھواں
مرےبس کی نہیں اب داستاں مراکانپٹاہےرواں رواں
چشمِ کرم کاہم کوسہاراملےاگر
سارےجہاں کاغم تنِ تنہاخریدلیں
منزل توخوش نصیبوں میں تقسیم ہوچکی
کچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفر میں ہیں
شاہین غازی پوری
دئےہیں زندگی نےزخم ایسے
کہ جن کاوقت بھی مرہم نہیں ہے
مقبول نقش
جس کوہم اپناکہیں  ایک بھی ایسا تونہیں
زندگی توہمیں کس شہرمیں لےآئی ہے
یوں تواشکوں سےبھی ہوتاہےالم کااظہار
ہائےوہ غم جوتبسم سے عیاں ہوتاہے
افسرماہ پوری
اس اداسےکبھی چلتی ہےنسیمِ سحری
خسک پتوں میں بھی رفتارسی آجاتی ہے
بہارآئےگی گلشن میں توداروگیربھی ہوگی
جہاں اہلِ جنوں ہوں گے،وہاں زنجیربھی ہوگی
مظفررزمی
شکستِ آرزوکاغم کہاں تک ہم کریں رزمی
شکستِ آرزوکاسلسلہ عمرِرواں تک ہے
احسن احمد اشک
یہاں توجسم کاسوداہےروح کیاشےہے
ذرا سمجھ کے محبت کا کارو بار کرو
بجھاکہ کچھ شکایتیں ہیں ان کومیری ذات سے
مگر یہ لوگ کس لئے خفا ہیں کائنات سے
عطاالرحمان جمیل
توجس سےگریزاں ہےتماشاتووہی ہے
کچھ کچھ جونظرآتی ہےدنیاتووہی ہے
مجھ سے جداہوئےتووہ مجھ سےجدانہ رہ سکے
آئینۂ فراق کو عکسِ وصال دے گئے
اتنا نہ ہنسوصاحبِ ادراک بہت ہیں
آہستہ چلو لوگ تہہِ خاک بہت ہیں
اصغر گورکھ پوری
اک عمر مہ و سال کی ٹھوکر میں رہاہوں
میں سنگ سہی پھر بھی سرِ راہِ وفاہوں
سنگساری ہے یہاں شیشہ گری کی اجرت
کیسےاس شہرمیں آئینہ بنائے کوئی
سراج اورنگ آبادی
خبرِ تحیرِ عشق سن ،نہ جنوں رہا،نہ پری رہی
نہ توتورہا،نہ تومیں رہا،جورہی سوبےخبری رہی
شہِ بےخودی نےعطاکیا،مجھےاب لباسِ برہنگی
نہ خردکی بخیہ گری رہی،نہ جنوں کی جامہ دری رہی
کسی کو رازِ پنہاں کی خبرنہیں
ہماری بات کوہم جانتےہیں
کس طرح کیجئے فکرِ اشک افشانیٔ اشک
جب کہ پانی میں لگی آگ بجھانا مشکل
صنم ہزار ہوں پھروہی صنم کا صنم
کہ اصل ہستی نابود ہےعدم کاعدم
شاہ مبارک آبرو
پھرتےتھےدشت دشت دوانےکدھرگئے
وے عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے
شرف الدین مضمون
ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا
سبرِ ایوبؑ کیا ،گریۂ یعقوبؑ کیا
مصطفےٰ خاں یک رنگ
اس کو مت جانومیاں اوروں کی طرح
مصطفےٰ  خاں آشنا یک رنگ ہے
اشرف علی خاں فغاں
باور اگر تجھے نہیں آتا تو دیکھ لے
آنسو کہیں ڈھلک گئے لختِ جگر کہیں
میں موسمِ خزاں مین گلِ نودمیدہ ہوں
دامنِ وصل بھی آلودۂ مایوسی ہے
عکس بھی کب شبِ ہجراں کاتماشائی ہے
ایک میں آپ ہوں یاگوشۂ تنہائی ہے
مظہر جانِ جاناں
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے کی زندگی کرتے
اگر ہواتا،چمن اپنا، گل اپنا،باغبان اپنا
خداکےواسطےاس کونہ ٹوکو
یہی اک شہرمیں قاتل رہاہے
لالہ و گل نےہماری خاک پر ڈالا ہے شور
کیا قیامت ہے موؤں کو بھی ستاتی ہے بہار
انعام اللہ یقیں
مجھے زنجیر کرنا کیامناسب تھا بہاراں میں
کہ گل ہاتھوں میں اورپاؤں میں میرے خار بہترتھا
سبقت
ٹھنی ہے اب یہی کہ کم کسی سے ملیں
نہ کوئی ہم سے ملےاورنہ ہم کسی سےملیں
انیس لکھنوی
خیالِ خاطرِ احباب چاہیےہردم
انیس ٹھیس نہ لگ جائےآبگینوں کو
نظام رام پوری
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائےاٹھاکےہاتھ
دیکھاجومجھ کو،چھوڑ دئےمسکراکےہاتھ
حفیظ جون پوری
بیٹھ جاتاہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
دن کواک نوربرستاہےمری تربت پر
رات کوطادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے
ہوک اٹھتی ہےاگرضبطِ فغاں کرتا ہوں
سانس رکتی ہےتو برچھی کی انی ہوتی ہے
برج نرائن چکبست
فناکاہوش آنا،زندگی کادردِ سرجانا
اجل کیاہےخمارِبادۂ ہستی اترجانا
زندگی کیاہےعناصرمیں ظہورِترتیب
موت کیاہےانھیں اجزاء کاپریشاں ہونا
بے خوددہلوی
شمعِ مزارتھی،نہ کوئی سوگوارتھا
تم جس پہ رورہےتھےکس کامزارتھا
جادوہےیاطلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہےتھےمجھےاعتبارتھا
محمدعلی جوہر
تنہائی کےسب دن ہیں تنہائی کی سب ر اتیں
اب ہونے لگیں ان سے کلوت میں ملاقاتیں
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلاکےبعد
شاہ بیدم وارثی
دینےوالےتجھےدیناہےتواتنادیدے
کہ مجھے شکوۂ کوتاہیٔ داماں ہو جائے
آغا حشر
چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوشبواڑاکےلائی ہےگیسوئے یارکی
حسامی
گئی یک بیک جوہواپلٹ نہیں دل کومیرےقرارہے
کروں غمِ ستم کامیں کیابیاں میراغم سےسینہ فگارہے
جس گڑی تیرےآستاں سےگئے
ہم نےجاناکہ دوجہاں سےگئے
میرمستحسن خلیق
میں نےآنکھوں سےلےلیااس کو
پھول جودستِ باغباں سےگرا
میرامانی اسد
آیاجومےکشی کو چمن میں وہ بادہ نوش
ہرایک گل کےہاتھ میں اک جام دےگیا
مراعظیم بیگ
اک دن جوگھرسےنکلاخطِ شعاع آسا
بکھرا ہوا بدن پر ہرتارِ پیرہن تھا
کرامت اللہ خان گستاخ رام پوری
صدسالہ دورِ چرخ تھا ساغر کاایک دور
نکلے جو مے کدے سے،تودنیابدل گئی
حکیم اسدعلی خان مضطر
اے برقِ حسنِ یار ،ذراچشمِ التفات
یوں جل بجھوں کہ مجھ کوبھی میری خبرنہ ہو
شاعرات
اداجعفری
جو سخن سےہونہ سکاادا
بہ حدودِ بےسخنی کہا
حیران ہیں لب بستہ ہیں دل گیرہیں غنچے
ہونٹوں کی زبانی ان کے کوئی پیغام ہی آئے
نواب اخترمحل اختر
لکھ کرجومیرانام زمین پرمٹادیا
ان کاتھاکھیل ،خاک میں ہم کوملادیا
فہمیدہ ریاض
تزئینِ لب وگیسوکیسی،پندارکاشیشہ ٹوٹ گیا
تھی جس کےلئےسب آرائش اس نےتوہمیں دیکھابھی نہیں
ارشادعرشی
یہ د ھڑکنیں نئےمعنی تلاش کرلیں گی
اگرچہ دل کےفسانےکہےسنےہیں بہت
نجمہ تصدق
ترےعشق کی بن گئی ہوں کہانی
کہی جارہی ہوں سنی جارہی ہوں
نسیم
بانسری بج رہی تھی دورکہیں
رات کس درجہ یاد آئے ہوتم
نسرین(امۃ الرؤف)
آئینہ دیکھ کرمجھ کوخیال آیا
تم مجھے بےمثال کہتے تھے
اب ترےبغیرزندگانی
بےمعنی سی بات ہوگئی ہے
موسم کی خسک ہوائیں توبہ
جذبات پرکپکپی طاری ہے
کیاتمہیں عہدِ محبت کےوہ لمحےیادہیں
جب نگاہیں بولتی تھیں اورہم خاموش تھے
شاہدہ حسن
میں نےان سب چڑیوں کےپرکاٹ دئے
جن کو اپنے اندر اڑتے دیکھا تھا
میں نےجب بھی جانے کی اجازت چاہی
اس نےبڑھ کےمرااسبابِ سفرکھول دیا
ڈھنڈتی تھیں شام کاپہلاستارہ لڑکیاں
کھیل کیاتھابس یہ اک خواہش کہیں جانےکی تھی
آباد تھی میں ترےقدم کےنشاں تلک
جب توگزرگیاتومیں سنساں رہ گئی!
محبتوں میں ،میں قائل تھی لب نہ کھلنےکی
ضواب ورنہ معےپاس ہرسوال کاتھا
توبھی کرتاہےبہت پیارمجھے
کس قدرپیارکی ارزانی ہے
خموشیوں سےمشروط ہے جنم میرا
سومیری راکھ سےاٹھتانہیں دھواں کوئی
تجھےدیکھاہےجب سےشام آلود
میری آنکھوں میں دن اترانہیں ہے
بساط یوں بھی الٹتے ہوئے نہیں دیکھی
میں جس سےجیت رہی تھی اسی سےہاررہی
منافقوں سےمیں کب تک مکالمہ کرتی
زباں کورہن نہ رکھتی اگرتوکیاکرتی
مری لاحاصلی بڑھتی گئی ہے
وہ مجھ کو جس قدرحاصل رہاہے
جیسےکوئی بھیدکھل رہاتھا
یوں مل کےنگاہ جھک گئی تھی
وہ مجھ کوصرتِ تصویرکرگیاجس وقت
وہ وقت شام سےسورج کےاتصال کاتھا
اک تارہ ہےسرہانےمیرے
رات کواس پہ بھی حیرانی ہے
تمام عمرچلی پھر بھی کم نہ ہواکبھی
وہ فاصلہ جوجوترےگھرسےمرےگھرکاہے
محبت اک حصارِ بےنشاں ہے
لہومیں دائرہ بنتانہیں ہے
میں  مٹی ،سنگیت ،ہوا یااک چہرہ
رات گئےتک دیواروں پہ کون رہا
اک عجب بےسروسامانی ہے
آنکھ میں اشک نہیں پانی ہے
مجیدامجد(عبدالمجید)
(۱۹۱۴ء۔۱۹۷۴ء)
پلٹ پڑاہوں شعاعوں کےچیتھڑےاوڑھے
نشیبِ   زینۂ   ا یا  م  پر  عصا  رکھتا
میں روزادھرسےگزرتاہوں، کون دیکھتاہے
میں جب ادھرسےنہ گزروں گاکون دیکھے گا
وطن چمکتے ہوئےکنکروں کانام نہیں
یہ ترےجسم تری روح سےعبارت ہے
یہ کہ رہی ہےصداٹوٹتےسلاسل کی
کہ زندگی توفقط اک حسیں جسارت ہے
اےکنجِ عافیت تجھےپاکرپتاچلا
کیاہمہمےتھےگردِسرِراہ گزارمیں
میں ایک پل کےرنجِ فراواں میں کھوگیا
مرجھاگئےزمانےمرےانتظارمیں
تمتماتا ہےچہرۂ ایام
دل پہ کیاواردات گزری ہے
پھرکوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ نسیمِ حیات گزری ہے
کومل سامسکراتاہوامشک باپھول
پروردگارِعشق کایہ بےزباں رسول
اس جلتی دھوپ میں گھنےسایہ دارپیڑ
میں اپنی زندگی انھیں دےدوں جوبن پڑے
باگیں کھنچیں ،مسافتیں کڑکیں،فرس رکے
ماضی کی رتھ سے کس نےپلٹ کر نگاہ کی
ایسےبھی لوگ ہیں جنھیں پرکھا،توان کی روح
بے پیرہن تھی،جسم سراپا لباس تھا
یہ کون ادھرسےگزرا،میں سمجھاحضورتھے
اک موڑ  ۔ اورمڑکےجودیکھازمانہ تھا
ہائےوہ دھڑکنوں سےبھری ساعتیں مجید
میں ان کو  دیکھتا  تھا  ،کو ئی دیکھتا نہ تھا
کنواں
اوراک نغمۂ سرمدی کان میں آرہاہے،کنواں چل رہاہے
پیاپےمگرنرم رواس کی فتار،پیہم مگربےتکان اس کی گردش
عدم سےازل تک،ازل سےابدتک بدلتی نہیں اک آن اس کی گردش
نہ جانےلئےاپنےدولاب کیآستینوں میں کتنےجہاں اس کی گردش
رواں ہےرواں ہے
تپاں ہےتپاں ہے
یہ چکریونہی جاویداں چل رہاہے
کنواں چل رہاہے
غلام محمدقاصر
غم کی تشریح بہت مشکل تھی
اپنی تصویردکھادی ہم نے
ہےشوقِ سفرایسااک عمرسےیاروں نے
منزل بھی نہیں پائی رستہ بھی نہیں بدلا
دیکھنےسےمرجھائےتووہ لاجونتی ہے
ایک بارروٹھےتومشکلوں سےمنتی ہے
پہلےاک شخص مری ذات بنا
اورپھرپوری کائنات بنا
کیاکروں میں یقیں نہیں آتا
تم توسچےہوبات جھوٹی ہے
دوپرندےلڑپڑےہیں پیڑپر
جنگ جاری ہےمرےاعصاب میں
تری یاد کی برف باری کاموسم
سلگتا رہادل کے اندر اکیلے
تھم گئی پھوار جذبوں کی
تری تصویرچھوکےہاتھ جلے
تم یوں ہی ناراض ہوئےہو،ورنہ مےخانےکاپتا
ہم نےہراس شخص سےپوچھاجسکےنین نشیلےتھے
بن میں ویراں تھی نظر،شہرمیں دل روتاہے
زندگی سے یہ مرادوسراسمجھوتاہے
ترے بخشے ہوئے اک غم کاکرشمہ ہے کہ اب
جو بھی غم ہو مرے معیار سے کم ہوتا ہے
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کامجھےنام بھی نہیں آتا
کروں گاکیاجومحبت میں ہوگیا ناکام
مجھےتواورکوئی کام بھی نہیں آتا
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
پھرجسم کےمنظرنامےمیں سوئےہوئے،رنگ نہ جاگ اٹھیں
اس خوف سےہو پوشاک نہیں، بس خواب بدلتا رہتا ہے
پہچان رہی تھی مجھےساحل پہ بچھی ریت
اک لہرچلی آئی سمندر سےنکل کر
یزیدآج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے
حسین خودنہیں بنتاخدابناتاہے
اس برف کےپیکرسےاک آنچ کی دوری پر
جاں ہےکہ سلگتی ہے دل ہے کہ پگلتاہے
ساقی فاروقی
حدبندیٔ خزاں سےحصارِ بہارتک
جاں رقص کرسکےتوکوئی فاصلہ نہیں
وقت ابھی پیدانہ ہوا تھاتم بھی رازمیں تھے
ایک سسکتاسناٹاتھاہم آغازمیں تھے
ترے بدن کی آگ سے آنکھوں میں ہے دھنک
اپنے لہو سے رنگ یہ پیدا نہیں ہوئے
ریاض الحق ریاض
بچےہمارےملک سےباہرچلےگئے
دنیاہماری قوتِ ایجاد لےگئی
احمد صفی
دلیلِ فتحِ ساقی ہےیہ مےخانےمیں رکھ دینا
مری ٹوٹی ہوئی توبہ  کو پیمانے میں رکھ دینا
ایاز صدیقی
اول اول دشمنی میں بھی وفاکارنگ تھا
آخر آخر دوستی بھی دشمنِ جاں ہو گئی
سلیم کوثر
وقت مقتل سےمری لاش اٹھالایاتھا
لوگو! میں اپنی گواہی میں خدالایاےتھا
وہ بھی دریوزہ گرِ شہرِ تمناتھاسلیم
میں بھی اک کاسۂ بےنام اٹھالایاتھا
تنہائی کواڑ کھول دےنا
میں ہوں کوئی دوسرانہیں ہے
ہزاروں عکس اپناجوہرِ پندار کھوبیٹھے
مگراس آئینہ خانےکی حیرت کم نہیں ہوتی
میں خود ہوں اناپرست ورنہ
تو، تو مرا مسئلہ نہیں ہے
جنگ کےآخری لمحوں میں عجب بات ہوئی
شاہ لڑتے ہوئے پیادےکوبچالایاتھا
جمال احسانی
ایک جگہ توگھوم کےرہ گئی،ایڑھی سیدھےپاؤں کی

اس آنکھ میں ایک رنگ ہےاور رنگِ ندامت
یہ ہار ہے اور ماننے والے کے لئے ہے
نہ اجنبی ہے کوئی اورنہ آشناکوئی
اکیلےپن کی بھی ہوتی ہےانتہاکوئی
چراغ سامنےوالےمکاں میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گماں میں بھی نہ تھا
چراغ بجھتے چلےجارہےہیں سلسلہ وار
میں خودکودکھ رہاہوں فسانہ ہوتے ہوئے
یہ ہجرکون جانے،یہ بات کون سمجھے
میں اپنے گھرمیں خوش ہوں ،وہ اپنے گھرمیں خوش ہیں
اک آدمی کی رہائی سےبھی ہوجاتا
جوشہربھرکی گرفتاریوں کےبعدہوا
افتخار قیصر
مرےدریانےاپنےہی کنارےکاٹ کھائے
بپھرتے پانیوں کواب سہارا کون دے گا
قابل اجمیری
کل شب دلِ آوارہ کوسینےسےنکالا
یہ آخری کافربھی مدینےسےنکالا
اقبال ساجد
تیرےعلاوہ دہرمیں واحدنہیں کوئی
ہر شےکی ضدہےاورتری ضدنہیں کوئی
حوصلہ قائم رکھاگھرکےدکھوں کےدرمیاں
دل کاآئینہ کسی بھی حال میں ٹوٹا نہیں
وہ چاندہےتوعکس بھی پانی میں آئے گا
کردارخودابھرکےکہانی میں آئےگا
سزاتوملناتھی مجھ کوبرہنہ لفظوں کی
زباں کتساتھ لبوں کورفوبھی ہوناتھا
خزاں نےکچھ بھی بگاڑانہیں پرندوں کا!
کہ ان کےپربھی سلامت ہیں اورنشیمن بھی
موم کی سیڑھی پہ چڑھ کےچھورہےتھےآفتاب
پھول سے چہروں کویہکوشش بہت مہنگی پڑی
کبھی مصروف آزادی بھی ہونےنہیں دیتے
مرےبچےمجھےفٹ پاتھ پرسونےنہیں دیتے
اور نہیں ہےکوئی شے،صرف وہی ہےلازوال
حن کا جومجسمہ نصب ہےشہرِ ذات میں
تقدیسِ ہنر ! تو  مری     تکمیل کرجا
آ،آخری آیت کی طرح مجھ پہ اترجا
اس نےبھی کئی روزسےخواہش نہیں اوڑھی
میں نےبھی کئی روزسےارادہ نہیں بدلا
ناچتاتھاپاؤں میں لمحوں کےگھنگھروباندھ کر
دےگیادھوکہ سمٹ کروقت کاآنگن مجھے
سورج کوسب کےسامنےاب بےنقاب کر
ظلمت کازہر پہلی کرن سےنکال دے
جہاں بھونچال بنیادِفصیلِ ودرمیں رہتے ہیں
ہماراحوصلہ دیکھوہم ایسےگھرمیں رہتے ہیں
اس نےیہ کہہ کردکانِ سنگ میں رکھامجھے
یہ ہے وہ آئینہ جس کے عکس سارے چھن گئے
انسان کوئی ایسی بھی تصویربنائے
دیکھےخداجس کوحیرت میں ڈوب جائے
جب ہم یہ جانتے ہیں کیسی گزر رہی ہے
میں تجھ کوکیوں بتاؤں،تومجھ کوکیوں بتائے
چلے تورختِ سفرہم نےبےدھڑک باندھا
زمین سرپہ رکھی،پاؤں میں فلک باندھا
میراپیراہن پہن کولوگ شہرت پاگئے
میں توننگاہوگیا،اپنانیاپن بیچ کر
نجیب احمد
کھلنڈراسا کوئی بچہ  ہے دریا
سمندر تک اچھلتاجارہاہے
مکانوں میں نئےروزن بنالو
ہواکارخ بدلتاجارہاہے
نجیب اب توشرارِ بےحسی سے
تراچہرہ پگھلتاجارہاہے
حدودِ صحنِ گلشن سےنکل کر
صباگلیوں میں چلناچاہتی ہے
میرےبدن میں سلگنےلگاہےتیرابدن
میں تیرے قرب کےشعلوں میں جل نہ جاؤں کہیں
بولی اسی نےدےکربھرم رکھ لیامرا
وہ شخص جوکہ اپناخریداربھی نہ تھا
ہوا کی سانس میں خوشبو کےلمس گھل جائیں
شجر کی زرد ہتھیلی پہ اک گلاب تو ہو
تھکن سے چوربدن،دھول میں اٹاسرتھا
میں جب گراتومرےسامنےمراگھرتھا
اندھیری رات کی پوروں مٰن جگنو
بہ انداز شرر جل بجھ رہاتھا
کچھ ایسےلمحےبھی طاری ہوتےہیں فرقت میں
 کسی کے نقش بنا کر پڑے مٹانے بھی
پھراس کےبعدمری خواہشوں کےجسموں سے
اٹھی وہ بو کہ یہ مردے پڑے جلانے بھی
قیدِ قوسِ عذاب سےنکلے
رنگ کیا کیا حباب سےنکلے
اےہواکھول بادلوں کی گرہ
رخ گرفتِ نقاب سےنکلے
پلک سےروح تک بھیگاہوا ہوں
ترےخط کھول کر بیٹھاہواہوں
مری خواہش کاآوارہ بگولا
تجھےچھوکرمجھےجھلساگیاہے
چھناکاتومرےاندرہواتھا
تری آوازکیوں بھراگئی تھی
وہی رشتے،وہی ناطے،وہی غم
بدن سےروح تک اکتاگئی تھی
ہر ایک مصلحت کی گتہ کھولتےہیں ہم
سچ پوچھیےتوجھوٹ بہت بولتے ہیں ہم
اک ترے لمس کی خوشبوکوپکڑنےکےلئے
تتلیاں ہاتھ سے چھوڑ دیا کرتے تھے
کچھ اس کےسواخواہشِ سادہ نہیں رکھتے
ہم تجھ سے بچھڑنےکاارادہ نہیں رکھتے
ہمارے عشق جھوٹےکیوں نہ ٹھہریں
ہمارےخواب تک سچےنہیں ہیں
ہرآنکھ کوہم ساغرومینانہیں کہتے
ہرآنکھ پہ ہم تہمتِ بادہ نہیں رکھتے
ہمارےہاتھ میں آئینہ خانے
مگرآئینوں میں چہرے نہیں ہیں
کچھ ایسےقوس قوس اندھیروں میں توملا
دیکھاتوپورپور میں بینائی آ گئی
صادق نسیم
میں نےہرشام یہی سوچاہے
عمرگزری ہےکہ دن گزراہے
تمہارانام کسی اجنبی کےلب پرتھا
ذراسی بات تھی دل کومگرلگی ہےبہت
جب بھی تری قربت کےامکاں نظرآئے
ہم خوش ہوئےاتنےکہ پریشاں نظرآئے
عباس تابش
اتنےاسبابِ تکلم پہ بھی کاموش ہےتو
دیکھ خوشبوکےنہ لب ہیں نہ گلوہوتاہے
نمودِ خواب و خواہش ہورہی ہے
خزاں کی تیزبارش ہورہی ہے
یارکےغم کوعجب نقش گری آتی ہے
پورپورآنکھ کےمانندبھری آتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتناکچھ جان کےیہ بےخبری آتی ہے
اس قدرگوندناپڑتی ہےلہوسےمٹی
ہاتھ گھل جاتےہیں تب کوزہ گری آتی
دل پرپانی پینےآتی ہیں امیدیں
اس چشمےمیں زہرملایاجاسکتاہے
پھٹاپراناخواب ہےمیراپھربھی تابش
اس میں اپناآپ چھپایاجاسکتاہے
یہ جومجھ پرکسی اپنےکاگماں ہوتاہے
مجھ کوایسانظرآنےمیں بڑی دیرلگی
بولتاہوں توہونٹ جلس جاتےہیں
اس کو یہ بات بتانےمیں بڑی دیرلگی
ایک بےکارتمناکولگاکےدل پر
ہم نےٹوٹےہوئےحجرےکی مرمت کی ہے
محسن احسان
صبامیں تھانہ دل آویزیٔ بہارمیں تھا
وہ ایک اشارہ کہ اس چشمِ وضح دارمیں تھا
پرائےغم میں ہم عمربھرسلگتےرہے
خود اپنی آگ میں جلتےتو کیمیا ہوتے
گزررہےہیں خداجانےکس طرح تجھ بن
یہ سوچتی ہوئی راتیں یہ اونگھتے ہوئے دن
خوشبوخودآ کےمیرےبدن سے لپٹ گئی
محن یہ کس دیارسےمیں نےگزر کیا
حنوط ہوگئیں وہ خوہشیں کہ جن کےلئے
رقم کچھ ہم بھی سرِ لوحِ آرزو کرتے
اختر ہوشیارپوری
شیشوں کوتوخیرٹوٹناتھا
پتھرکےگھروں کوکیاہواہے
نکل کےگھرسےباہرآگیاہوں
کہ پسِ منظرسےنفرت ہوگئی ہے