Tuesday 28 February 2017

مضامین چھٹی جماعت، دوسری ششماہی

مضامین چھٹی جماعت:
·        میں کیا بننا چاہتا ہوں!
میرے سامنے ایک چمکتی ہوئی دنیا کا منظر ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔سائنس کی ترقی نے آدمی کو مشین بنا دیا ہے۔احساسات اور جذبات بھی مشینوں کی گھڑ گھڑا ہٹ جیسے ہو گئے ہیں۔ ایسے میں مجھے فیصلہ کرنے میں مشکل محسوس ہو رہی ہے کہ میں کیا بننا چاہتا ہوں۔ میں ماضی کی طرف پلٹتا ہوں تو تخلیقِ آدم ؑ کا واقعہ میری تو جہ اپنی جانب کھنچتا ہے۔ مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں تو سائنس کی حیرت انگیز ایجادات مجھے اپنے ارد گرد سے بے  گانہ  کر دیتی ہیں۔ ایک لمحے کو رُکتا ہوں۔میں کیا ہوں؟ میری پہچان کیا ہے؟ میں کیا کروں؟ میں کس طرح ہونے کی کوشش کروں؟ تو جیسے صحرا میں بھٹکنے والے کو ایک آبادی نظر آ جائے۔ اور زندگی کی امید پیدا ہو۔اسی طرح مجھے تاریخ میں حضورِ اکرم ﷺ کا دور نظر آتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ میرا دنیا میں ہونے کا مقصد کیا ہے؟کیا دنیا میں عیش و آرام کرنا  اور چلے جانا۔ پھر میرے بنانے کا مقصد کیا تھا؟ جب یہ بات ذہن میں آتی ہے۔تو مذہب کا تصور اور اہمیت ابھرتی ہے۔پھر دینِ اسلام کا سب مذاہب سے بہتر ہونا اور اسلام کا دنیا کے لیے آخری مکمل ہدایت نامہ اور منشورِ انسانیت(of the Holy Prophet Last Address) ہونا واضح ہوتا ہے۔اور یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سب سے بڑا کام انسان بننا ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا                                        مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
پھر ہمیں اخلاق،کردار اور اقدار و روایات کا پتا چلتا ہے۔ انسانیت کیا چیز ہے؟ ظاہر ہوتا ہے۔ اور انسانی احساس و جذبات کی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔ ہم سب پہ عیاں ہوتا ہے۔  الفت،محبت، ہم دردی، قربانی، ایثار جیسے جذبات کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ خونی رشتے اور دوست احباب کا علم ہوتا ہے۔عزت و احترام کیا چیز ہے؟ معلوم ہوتا ہے۔ نفرت، ہوس،حرص، لالچ، خود غرضی جیسے منفی جذبات کو جاننے لگتے ہیں۔
یوں دنیا کی ہر چیز  ایک خاص حد تک مجھے متاثر کرتی ہے۔   دنیا فانی ہے ،واضح ہوتا ہے۔ اور میں حضورِ اکرم ﷺ کی ذات کو  دین ودنیا کا واحد رہنما پاتا ہوں۔ اور ان کی سیرت کو اپنانا چاہتا ہوں۔ اسلام کی تعلیمات انتہائی سادہ ہیں۔اپنے حقوق کی حفاظت اور دوسروں کے حقوق ان کو دینا۔اپنا فرض پورا کرنا اور دوسروں میں اپنا فرض پورا کرنے کا احساس پیدا کرنا۔کیوں کہ حضورِ اکرم ﷺ کو دنیا کی بہترین شخصیت مانا گیا ہے۔مجھے بھی ان جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
·        وقت کی پابندی
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی                                گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
دنیا کی ہر چیز وقت کی پابند ہے۔لیکن پابندی سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو احکام اور کام جس کے ذمہ لگائے ہیں وہ ادا کرے۔یہ پابندی ہے۔اور یہ پابندی آزادی کو ختم نہیں کرتی۔آزادی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کے قانون میں رہتے ہوئے عطا کی ہے۔ آپ کی آزادی دوسروں پر پابندی نہیں اور دوسروں کی آزادی آپ کا حق ختم نہیں کرتی۔دنیا ایک خاص وقت سے لے کر ایک خاص وقت تک قائم رہے گی۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل نظام ترتیب دیا ہے۔جس دنیا میں ہم رہتے ہیں یہاں وقت کا ایک خاص نظام ہے۔جسے دن رات،صبح و شام،  ہفتہ عشرہ اور ماہ وسال سے سمجھا  جاتا ہے۔یوں صدیاں گزر گئیں۔ سورَج کا نکلنا،چاند اور تاروں کا رات کو آنا،موسموں کا بدلنا، فصلوں، پھلوں سبزیوں اور پھولوں کا مسکرانا وقت کا پابند ہے۔جو چیز وقت کی پابندی نہیں کرتی وہ وقت کے دھارے میں نہیں رہتی۔اور آخر مٹ جاتی ہے۔
کسان وقت پر پیج بوتا ہے،وقت پر پانی لگاتا ہے۔اور وقت پر اسے محنت کا صلہ ملتا ہے۔طالب علم وقت پر پڑھتا ہے،محنت کرتا ہے۔وقت پر امتحان کی تیاری کرتا ہے اور کام
یابی اس کے قدم چومتی ہے۔
انسانی زندگی بھی وقت کی محتاج ہے۔انسان دنی امیں ایک بچے کے روپ میں آتا ہے،بڑا ہوتا ہے۔تعلیم حاصل کرتا ہے۔دنیا میں عزت سے رہنے کے لیے محنت کرتا ہے۔اور جب تک اس کی زندگی ہے ،پ وری کرنے کے بعد اسے اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلا لیتے ہیں۔یعنی وقت زندگی کا نام ہے۔سانس لمحے ہیں جو کٹ رہے ہیں۔ہمیں وقت کی اہمیت سمجھتے ہوئے اس کی قدر کرنی چاہیے۔ کیوں کہ جب کل میدانِ حشر میں اللہ کے سامنے پیش ہوں تو شرمندہ نہ ہوں۔
صفائی سے بہتر نہیں کوئ
انسان کو تندرست اور صحت مند رہنے کے لیے صفائی ازحد ضروری ہے۔ جو لوگ صاف ستھرے نہیں رہتے۔ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں پاک رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
مثل مشہور ہے”صفائی میں خدائی ہے” صفائی سے انسان صحت مند رہتاہے۔ ہمیں اپنے جسم اور لباس کے ساتھ ساتھ اپنے بالوں ، دانتوں اور ناخنوں کی صفائی کا بھی دھیان رکھنا چاہیے۔ سکول اور جماعت میں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ہر طالب علم کو اپنا بستہ ، کتابیں اور کاپیاں صاف ستھری رکھنی چاہییں۔
سال 5 جون کو ماحولیات کا دن، 7اپریل کو صحت کا دن، اور 22اپریل کو کرہ ارض سے محبت کا دن منایا جاتا ہے۔ لیکن ہم ان کو اتنی توجہ نہیں دیتے
کیونکہ صفائی ستھرائی جتنا ہمارے مذہب اور عقیدے کا بنیادی جذو ہے اتنا ہی ہم نے اس کو بھلا رکھا ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن میں ابتداء سے ہی جسمانی اور روحانی صفائی اور پاکیزگی و طہارت پر زور رہاہے ۔ صفائی انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر احاطہ کرتی ہے اور دونوں کی اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔
جس انسان کی صحت خراب ہے اس کے لئے دنیا کی بہترین نعمت بھی بے کار  ہے وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردوں سے بدتر ہے ۔انسان کتنا ہی صحت مند، تندرست و توانا کیوں نہ ہو اسے اس صحت و تندرستی کو قائم رکھنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے ۔ہمارے ملک میں کروڑوں بچے غلاظت و گندگی کی بناء پر بیماری کا شکار ہوکر دم توڑ دیتے ہیں یہ بچے، گندے پانی یا خراب آب و ہوا کے سبب بیمار ہوتے ہیں ان سے تحفظ کا بہترین ذریعہ جسم کی صفائی ، غذا کی پاکیزگی و صفائی ، مکان کی صفائی ، محلے اور بستی میں صفائی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی صفائی کا خیال رکھنا ہے ۔
پاک صاف رہو
اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے “۔
ان آیات میں ایک طرف حکم ہے کہ پاکی حاصل کرواوردوسری طرف یہ خبر دیتا ہے کہ خدا پاک صاف لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔مسلمانوں کے لئے  اللہ کےحکم  کی پابندی ضروری ہے ۔ چنانچہ پاکیزگی اور صفائی ان کی زندگی کا جزو بن گئی اور ان کی فتح اور کامرانی کا سبب بنی ۔
اے نبی ﷺ! اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے بچو“ صفائی اور پاکیزگی کا پیغام حضور ﷺ نے پوری امت بلکہ پوری انسانیت تک پہنچا یا اور ارشاد فرمایا ”پاکیزگی نصف ایمان ہے
اسلام میں پاکیزگی کی دو قسمیں ہیں ایک روح کی پاکیزگی ۔ روح کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تما م برائیوں سے پاک صاف رکھے ۔ روح کی ناپاکی اور نجا ست وہ  برائیاں ہیں جن کے اختیار کرنے سے انسان کی روح گندی اور میلی ہوتی ہے ۔ روح کی پاکیزگی کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر برائی اور گناہ سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو اچھی عادتوں اور اچھے اخلاق سے سنوارے ۔رمضان کریم میں اسلامی احکامات پرعمل کر کے ہم باطنی پاکیزگی بھی حاصل کر سکتے ہیں کیوں کہ جس قدر بھی انسان گناہوں اور برائیوں سے بچے گا اسی قدر اس کی روح پاک صاف اور ستھری ہوتی چلے جائے گی ۔ روح کی پاکیزگی کا اثر جسم کی پاکیزگی پر بھی پڑتا ہے ۔
دوسری پاکیزگی جسم کی پاکیزگی ہے ۔ جسم کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کی ظاہری ناپاکی سے پاک صاف رکھے ،گندہ اورمیلا نہ ہونے دے ، مثلا ً غسل ہی کو لیجئے ۔ صحت مندی تازگی اور صفائی کے یہ تقاضے ہیں کہ انسان روزانہ غسل کرے اوراگر پانی کی قلت یا اور کسی دوسری وجہ سے یہ ممکن نہ ہوتو ہفتے میں ایک روز جمعہ کی نماز کے لئے اس کا اہتمام ضرور کرے ، پھر اسلام نے ہمیں درس بھی دیا ہے کہ ہم دانتوں کو صاف رکھنے کے لئے پابندی سے مسواک کریں ،  ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کی جا سکتی ہے ۔ کیوں کہ پیٹ کی بیسیوں بیماریاں دانتوں کے میل کچیل سے ہی پیدا ہوتی ہےں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگر مجھے امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں مسواک کو ہرمومن پر فرض قرار دیتا “۔
انسان کا لباس بھی جسم کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا آئینہ دار ہوتا ہے اسلام اگرچہ لباس میں شان و شکوہ‘ اسراف بے جا اور تکلف کو پسند نہیں کرتا لیکن لباس میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا مطالبہ ضرور کرتا ہے ۔ ظاہری شکل و صورت کو بھی قرینے سے رکھنے کی اسلام تاکید کرتا ہے کیوں کہ یہ بات بھی پاکیزگی اور صفائی کے ضمن میں آتی ہے ، اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی شکل و حشیوں کی سی بنائے رکھے ، میلا کچیلا بدن رکھے یا بے تکے بال بڑھائے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ُخدا تعالیٰ میلا کچیلا بدن اور بکھرے بال پسند نہیں فرماتا “ (ترندی(
جب بیرون صاف ستھرا ہو گا تو اس کا اثر انسان کے اندرون پر پڑے گا۔

٭ عار کی بات یہ ہے غیرمسلم معاشروں نے ہمارے اس اہم سبق کو اَزبر کرلیا ہے، ہم اس کو فراموش کر چکے ہیں۔ 

نظم"محنت"چھٹی جماعت۔۔۔اردو

نظم"محنت"چھٹی جماعت۔۔۔اردو
1)مشکل الفاظ کے معانی:
برگد
بوہڑ/ایک درخت
کہسار
پہاڑ
کوہ و بیاباں
پہاڑ اور ویرانے
نوعِ بشر
نسلِ آدم
پاؤں میں کانٹے ٹوٹنا
پاؤں زخمی ہونا
رعنائی
خوب صورتی
کوکھ
پیٹ
بالی
سٹہ
برگد کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھنا
سکون کا سانس لینا
جھانکی
نظر آئی


پھانکنا
کھانا
جلتا ہے انسان
انسان کا جسم دھوپ میں جلتا ہے




ڈالی
ٹہنی
1۔مختصر جواب دیں۔
‌أ)      اس نظم میں انسان کے جلنے سے کیا مراد ہے؟
جواب:جب کسان سخت گرمی،سردی میں کام کرتا ہے اور اس کا جسم جھلس جاتا ہے۔شاعر اسے انسان کا جلنا کہتا ہے۔
‌ب)  نوعِ بشر کو عزت،عظمت اور قوت کون دیتا ہے؟
جواب:محنت کرنے سے کسان کا چہرہ گرد(دول) سے اَٹ جاتا ہے۔اور ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں۔تب جا کر انسان کو عزت،عظمت اور قوت ملتی ہے۔
‌ج)    گاؤں والوں کو بر گد کی ٹھنڈی چھاؤں کیسے نصیب ہوئی؟
جواب:جب محنت کرتے کرتے پاؤں کانٹوں سے چھلنی ہو جاتے ہیں۔تو کہیں جا کر کسان کو ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھنا نصیب ہو تا ہے۔
‌د)      میدانوں کا سونا  اورکہساروں کی چاندی کیا ہے؟
جواب: اناج(فصلوں) کو میدانوں کا سونا اور پانی کو پہاڑوں کی چاندی کہا گیا ہے۔
‌ه)       پیاسی مٹی سے کون پھول کھلاتا ہے؟
جواب:جب کسان محنت کرتا ہے تو پیاسی مٹی سے پھول کھلتے ہیں۔کسان ہر قسم کی فصل زمین سے حاصل کرتا ہے۔یعنی ہر طرف خوشیاں بکھرتی ہیں۔
‌و)       شہر کیسے بستے ہیں؟
جواب:انسان صحراؤں،پہاڑوں اور ویران جگہوں کو آباد کر کے شہر بساتا ہے۔
6۔شاعر نے اس نظم میں محنت کی کون کون سی مثالیں دی ہیں؟
جواب:     1)           ع             محنت پتھریلی،پیاسی مٹی سے پھول کھلاتی ہے۔
2)                           میدانوں کا سونا ،چاندی ہے کہساروں پر                        محںت سے آج بشر کا ہاتھ ہے چاند ستاروں پر
2)                           محنت: صحرا کو وبیاباں پاٹ کے شہر بساتی ہے                  بھاری پتھر،سخت چٹانیں،کاٹ کے نہریں لاتی ہے
7۔نظم "محنت" کا خلاصہ تحریر کریں۔
اس نظم میں احمد ندیم قاسمی کہتا ہے کہ :کسان سخت پتھریلی، بنجر اور ویران زمینوں میں ہل چلاتے ہیں۔تو سونے جیسی فصلیں اگتی ہیں۔ویرانوں کو آباد کرتا ہے۔جوئے شیر لاتا ہے۔سخت گرمی اور سردی میں گرد( دھول) میں اٹا ،ہاتھوں میں چھالے اور پاؤں کانٹوں سے چھلنی ہوتے ہیں۔تب کہیں جا کے سکون کا سانس نصیب ہاتا ہے۔ایک ایک دانہ اکٹھا ہوتا ہے۔اور لوگوں تک اناج،سبزیاں اور پھل پہنچتے ہیں۔اور پھر شہروں میں ہل چل نظر آتی ہے۔
8۔درج ذیل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کریں۔
کہسار
پہاڑ
مری کو ملکۂ کہسار بھی کہا جاتا ہے۔
بسانا
آباد کرنا
انسان بنجر اور ویران جگہوں کو بساتا ہے۔
عظمت
عزت
اللہ تعالٰی نے انسان کو عظمت عطا کی ہے۔
چھالے
پھوڑے
سخت محنت کرنے سے کسان کے ہاتھوں پر چھالے ہو جاتے ہیں۔
پھانکنا
نگلنا/کھانا
جب بھی کسی کچے علاقے میں جاتے ہیں تو دھول پھانکنا پڑتی ہے۔
انبار
ڈھیر
کسان محنت کے پسینے سے مٹی کو سیراب کرتا ہے تب جا کے اناج کے انبار لگتے ہیں۔

9۔ نظم 'محنت' پڑھنے کے بعد "محنت کی عظمت" پر ایک مضمون تحریر کریں اور مضمون میں اس نظم کے اشعار بھی شامل کریں۔
محنت کی عظمت:
محنت: پتھریلی، پیاسی  مٹی سے  پھول کھلاتی ہے                                کھیت کی ہر بالی،ڈالی بن جاتی ہے،پھل پاتی ہے
محنت کی معنی سخت کام کرنا۔اور مشکل ترین کام کو پورا کرنا، کے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو قرآن پاک میں بار بار کوشش،جستجو اور محنت سے کام کرنے کا حکم دیا ہے۔کبھی تعقلوکہا، کبھی تفکرو کہا،کبھی تدبرو کہا اور کبھی ۔۔۔کہا۔اور ایک آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے"انسان کے لیے وہی ہے،جس کے لیے اس نے محنت کی"۔
لہٰذا پوری انسانیت اور خاص کر نوجوانوں کے لیے حکم ہے کہ وہ محنت کریں۔ ایک لمحے کو ذرا سوچیں اگر ہم تمام لوگ یہ سوچیں کہ دوسرے محنت کریں گے یا دوسرے کام کریں گے۔اور کوئی بھی کام نہ کرے تو اگلے چند لمحوں میں دنیا کا کیا ہوگا؟اس لیے محنت ہی میں عظمت ہے۔
یہ دنیا محنت کے دم قدم سے آباد ہے۔دنیا کا ہر شخص اپنے حصے کا کام کرتا ہے تب ہی دنیا ترقی کرتی ہے۔جو لوگ ذرا سست ہوتے ہیں۔یا کوم کرنے کو عار سمجھتے ہیں۔وہ دنیا سے کٹ جاتے ہیں۔اور پھر دنیا میں بے نام ہو جاتے ہیں۔اگر اللہ کا پسندیدہ بندہ بننا ہے تو ہر شخص کو کام کرنا چاہیے۔حضورِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ:'محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے'۔
بظاہر ہمیں لگتا ہے کہ کام کرنا بہت آسان ہے۔اور ہم بے شمار نعمتوں پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ایسا نہیں ہے بلکہ اس پھل اور نعمت کے پیچھے بے شمار لوگوں کی محنت ہوتی ہے۔جو نظر نہیں آ رہی ہوتی۔
10۔درج ذیل کا مفہوم واضح کریں۔
پھل پانا
محنت کا ثمر(پھل) پانا
چاند ستاروں پر ہاتھ ہونا
بلند مقاصد ہونا
انسان کا جلنا
دھوپ سے انسان کا جسم جھلس جا تا ہے
ننگے پاؤں میں کانٹے ٹوٹنا
پاؤں کانٹوں سے چھلنی ہونا
11۔درج ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔
پیاسی
سیراب
بسانا
اجاڑنا
عزت
ذلت
قوت
ضعف
چھاؤں
دھوپ
حروفِ استفہامیہ:وہ الفاظ جو کوئی بات پوچھنے یا سوال کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔انھیں حروف استفہامیہ کہا جا تاہے۔جیسے:
1۔یہ کون ہے؟                                                        2۔وہ کیا کرتا ہے؟                      3۔تم کیوں آئے ہو؟                  4۔وہ کب لاہور جائے گا؟

ان جملوں میں 'کون'،'کیا'،'کیوں'، 'کب' حروفِ استفہامیہ ہیں۔ان کے علاوہ کیسے، کہاں ،کدھر،کس طرح، اور کتنا بھی حروفِ استفہامیہ ہیں۔

Tuesday 7 February 2017

اسلامی ممالک کی تنظیم(OIC)، چھٹی جماعت،FGS

اسلامی ممالک کی تنظیم(OIC)
مختصر سوالات/جوابات:
1)     مسلمان قوم کس سے بندھی ہوئی ہے؟
جواب:مسلم قوم ایک کلمے سے بندھی ہوئی ہے؟
2)     مسلمان کس کو مانتے ہیں؟
جواب:مسلمان ایک اللہ،ایک رسولﷺ اور ایک قرآن کو مانتے ہیں۔
3)     علامہ محمد اقبالؒ  نے اس شعر میں کیا کہا ہے:    ایک ہوں، مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے                        نیل کے ساحل سے لے کر تا  بخاکِ  کاشغر
جواب:دریائے نیل کے کنارے(مصر)سے لے کر کاشغر(چین کا ایک شہر) تک مسلمان،مکہ معظمہ(دینِ اسلام)کی حفاظت کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔
4)     اسلامی اتحاد کی اشد ضرورت کب محسوس کی گئی؟
جواب:بیسویں صدی کے آغاز اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد اسلامی ممالک کی تنظیم کے قیام کی اشد ضرورت محسوس کی گئی۔
5)     اسلامی اتحاد کی ضرورت کی وجہ سے کیا فیصلہ کیا گیا؟
جواب:اسلامی ممالک کے اتحاد کی ضرورت کی وجہ سے ' اسلامی ممالک کی تنظیم' کی بنیاد رکھی گئی۔
6)     اسلامی ممالک کی تنظیم کے قیام کی تجویز کس نے دی؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کے قیام کا مشورہسعودی حکم ران شاہ عبد العزیز نے دیا۔
7)     اسلامی ممالک کی تنظیم کا پہلا اجلاس کب ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کا پہلا اجلاس 1926 ء میں ہوا۔
8)     اسلامی ممالک کی تنظیم کا پہلا اجلاس کہاں ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کا پہلا اجلاس مکہ مکرمہ میں ہوا۔
9)     اسلامی ممالک کی تنظیم کا دوسرا اجلاس کب ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کا دوسرا اجلاس 1931 ء میں ہوا۔
10) اسلامی ممالک کی تنظیم کا دوسرا اجلاس میں کیا فیصلہ ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کے دوسرے اجلاس میں بیت المقدس کو صدر دفتر بنانے کا فیصلہ ہوا۔
11)اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قائم کی گئی؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم از سرِ نو 1965 ء میں قائم ہوئی۔
12) جب اسلامی ممالک کی تنظیم از سرِ نو قائم کی گئی تو کون سا موقع تھا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم از سرِ نو قائم ہوئی تو یہ حج کا موقع تھا۔
13) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قائم کی گئی اسلامی ممالک کی کتنی اہم شخصیات شامل تھیں؟؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کے قیام کے وقت 165 مقتدر شخصیات شامل تھیں۔
14) اسلامی ممالک کی تنظیم کےازسرِ نو قیام کے موقع پر کیا فیصلے کیے گئے؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کے ازسرِ نو قیام کے بعد فیصلہ کیا گیا:
1)اسلامی ممالک کے سربراہوں کو شامل کیا جائے۔                      2)عالمِ اسلام کے باہمی اختلاف اور تنازعات حل کیے جائیں۔
15) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قائم کی گئی اس وقت عالم اسلام میں کیا مسائل تھے؟ جواب:
·        مصر،شام اور اردن جیسے ممالک۔۔۔۔۔۔اسرائیل کی جارحیت کا شکار تھے۔
·        پاکستان،بھارت کی جارحیت کا نشانہ بن چکا تھا۔
·        عراق،ایران کے تنازعے کے علاوہ قبرص کا مسئلہ در پیش تھا۔
16) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قائم کی گئی تو اجلاس کہاں ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قائم ہوئی تو اجلاس مکہ مکرمہ میں ہوا۔
17) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد کیا سانحہ پیش آیا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قائم ہوئی تو 1965 ء میں یہودیوں نے بیت المقدس میں مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگا نے کی شرم ناک حرکت کی۔
18) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد پہلا اجلاس کہاں ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو قیام کے بعد پہلا اجلاس مراکش کے شہر 'رباط' میں ہوا۔
19) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد پہلے اجلاس کی صدارت کس نے کی؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو قیام کے بعد اجلاس کی صدارت ،مراکش کے صدر شاہ حسین نے کی۔
20) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد پہلے اجلاس میں کتنے ممالک شریک ہوئے؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو قیام کے بعد پہلے اجلاس میں 26 ممالک شریک ہوئے۔
21) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد پہلی کانفرنس کو کیا کہا جاتا ہے؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کے بعد پہلے اجلاس کو "پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس' کہا جا تا ہے۔
22) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،تنظیم کا دوسرا اجلاس کب ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،دوسرا اجلاس 1974 ء میں ہوا۔
23) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،تنظیم کا دوسرا اجلاس کہاں ہوا؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،دوسرا اجلاس اسلامی جمہوریہ پاکستان(لاہور) میں ہوا۔
24) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،تنظیم کا دوسرا اجلاس کتنے ممالک کے سربراہان نے شرکت کی؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،دوسرے اجلاس میں چالیس(40) ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔
25) اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،تنظیم کا دوسرا اجلاس کی صدارت کس نے کی؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم ازسرِ نو کب قیام کے بعد،دوسرے اجلاس کی صدارت پاکستان کے وزیر اعظم جناب ذو الفقار علی بھٹو نے کی۔
26) دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کون سی ہے؟
جواب:اقوام متحدہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔
27) دنیا کی دوسری بڑی تنظیم کون سی ہے؟
جواب:دنیا کی دوسری بڑی تنظیم" اسلامی ممالک کی تنظیم "ہے۔
28) اسلامی ممالک کی تنظیم کا مرکزی دفتر کہاں پر ہے؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کا صدر دفتر جدہ میں ہے۔
29) اسلامی ممالک کی تنظیم کا جھنڈا کیسا ہے؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کا جھنڈا سبز رنگ کا ہے۔اس کے درمیان میں سفید دائرہ ہے۔اس میں سرخ رنگ کا ہلال بنا ہوا ہے۔اس پر 'اللہ اکبر' لکھاہوا ہے۔
30) اسلامی ممالک کی تنظیم کے اجلاسوں میں کن اہم مسائل پر زور دیا گیا؟
جواب:درج ذیل مسائل پے زور دیا گیا:        1)عالمِ اسلام کو در پیش مسائل کا حل                         2)آپس کے تنازعات کا خاتمہ
3)اتحاد و یک جہتی                      4)مسلم اقتصادی برادری کی بنیاد             5)سائنسی تحقیق،تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کا اشتراک عمل
31) مسلم ممالک کون کون سےبراعظم میں موجود ہیں؟
جواب:مسلم ممالک ،براعظم،ایشا،افریقہ اور یورپ میں موجود ہیں۔
32) مسلم ممالک کی کیا اہمیت ہے؟
جواب:مسلم ممالک کی درج ذیل اہم ہے:    1)دنیا کے اہم بری،آبی اور ہوئی راستے                 2)اہم پہاڑی سلسلے اور معدنی ذخائر
3)معدنی تیل کے ذخائر
33) پوری دنیا کے معدنی تیل کا کتنا حصہ مسلم ممالک میں موجود ہے؟
جواب:پوری دنیا کے تیل کا 75 فی صد مسلم ممالک میں موجود ہے۔
34) اسلامی ممالک کی تنظیم میں کس چیز کا فقدان ہے؟
جواب:مسلم ممالک میں اتحاد اور یک جہتی کا فقدان ہے۔ورنہ یہ طاقت ور ترین بلاک ہے۔
35) اسلامی ممالک کی تنظیم کس مقاصد کے لیے کوشاں ہے؟
جواب:مسلم ممالک کے مابین معاشرتی، تجارتی، معاشی اور اقصادی رشتوں کو مضبوط بنا کر افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی جائے۔
36) اسلامی ممالک کی تنظیم کے اہم مقاصد کیا ہیں؟
جواب:اسلامی ممالک کی تنظیم کے اہم مقاصد درج ذیل ہیں:          1)مسلمنوجون کو با عمل بنانا         2)مسلم امت کو متحدکرنا          3)معاشرتی اور معاشی توازن پیدا کرنا                    4)کم زور اور مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا