Tuesday 28 February 2017

مضامین چھٹی جماعت، دوسری ششماہی

مضامین چھٹی جماعت:
·        میں کیا بننا چاہتا ہوں!
میرے سامنے ایک چمکتی ہوئی دنیا کا منظر ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔سائنس کی ترقی نے آدمی کو مشین بنا دیا ہے۔احساسات اور جذبات بھی مشینوں کی گھڑ گھڑا ہٹ جیسے ہو گئے ہیں۔ ایسے میں مجھے فیصلہ کرنے میں مشکل محسوس ہو رہی ہے کہ میں کیا بننا چاہتا ہوں۔ میں ماضی کی طرف پلٹتا ہوں تو تخلیقِ آدم ؑ کا واقعہ میری تو جہ اپنی جانب کھنچتا ہے۔ مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں تو سائنس کی حیرت انگیز ایجادات مجھے اپنے ارد گرد سے بے  گانہ  کر دیتی ہیں۔ ایک لمحے کو رُکتا ہوں۔میں کیا ہوں؟ میری پہچان کیا ہے؟ میں کیا کروں؟ میں کس طرح ہونے کی کوشش کروں؟ تو جیسے صحرا میں بھٹکنے والے کو ایک آبادی نظر آ جائے۔ اور زندگی کی امید پیدا ہو۔اسی طرح مجھے تاریخ میں حضورِ اکرم ﷺ کا دور نظر آتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ میرا دنیا میں ہونے کا مقصد کیا ہے؟کیا دنیا میں عیش و آرام کرنا  اور چلے جانا۔ پھر میرے بنانے کا مقصد کیا تھا؟ جب یہ بات ذہن میں آتی ہے۔تو مذہب کا تصور اور اہمیت ابھرتی ہے۔پھر دینِ اسلام کا سب مذاہب سے بہتر ہونا اور اسلام کا دنیا کے لیے آخری مکمل ہدایت نامہ اور منشورِ انسانیت(of the Holy Prophet Last Address) ہونا واضح ہوتا ہے۔اور یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سب سے بڑا کام انسان بننا ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا                                        مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
پھر ہمیں اخلاق،کردار اور اقدار و روایات کا پتا چلتا ہے۔ انسانیت کیا چیز ہے؟ ظاہر ہوتا ہے۔ اور انسانی احساس و جذبات کی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔ ہم سب پہ عیاں ہوتا ہے۔  الفت،محبت، ہم دردی، قربانی، ایثار جیسے جذبات کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ خونی رشتے اور دوست احباب کا علم ہوتا ہے۔عزت و احترام کیا چیز ہے؟ معلوم ہوتا ہے۔ نفرت، ہوس،حرص، لالچ، خود غرضی جیسے منفی جذبات کو جاننے لگتے ہیں۔
یوں دنیا کی ہر چیز  ایک خاص حد تک مجھے متاثر کرتی ہے۔   دنیا فانی ہے ،واضح ہوتا ہے۔ اور میں حضورِ اکرم ﷺ کی ذات کو  دین ودنیا کا واحد رہنما پاتا ہوں۔ اور ان کی سیرت کو اپنانا چاہتا ہوں۔ اسلام کی تعلیمات انتہائی سادہ ہیں۔اپنے حقوق کی حفاظت اور دوسروں کے حقوق ان کو دینا۔اپنا فرض پورا کرنا اور دوسروں میں اپنا فرض پورا کرنے کا احساس پیدا کرنا۔کیوں کہ حضورِ اکرم ﷺ کو دنیا کی بہترین شخصیت مانا گیا ہے۔مجھے بھی ان جیسا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
·        وقت کی پابندی
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی                                گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
دنیا کی ہر چیز وقت کی پابند ہے۔لیکن پابندی سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو احکام اور کام جس کے ذمہ لگائے ہیں وہ ادا کرے۔یہ پابندی ہے۔اور یہ پابندی آزادی کو ختم نہیں کرتی۔آزادی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کے قانون میں رہتے ہوئے عطا کی ہے۔ آپ کی آزادی دوسروں پر پابندی نہیں اور دوسروں کی آزادی آپ کا حق ختم نہیں کرتی۔دنیا ایک خاص وقت سے لے کر ایک خاص وقت تک قائم رہے گی۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل نظام ترتیب دیا ہے۔جس دنیا میں ہم رہتے ہیں یہاں وقت کا ایک خاص نظام ہے۔جسے دن رات،صبح و شام،  ہفتہ عشرہ اور ماہ وسال سے سمجھا  جاتا ہے۔یوں صدیاں گزر گئیں۔ سورَج کا نکلنا،چاند اور تاروں کا رات کو آنا،موسموں کا بدلنا، فصلوں، پھلوں سبزیوں اور پھولوں کا مسکرانا وقت کا پابند ہے۔جو چیز وقت کی پابندی نہیں کرتی وہ وقت کے دھارے میں نہیں رہتی۔اور آخر مٹ جاتی ہے۔
کسان وقت پر پیج بوتا ہے،وقت پر پانی لگاتا ہے۔اور وقت پر اسے محنت کا صلہ ملتا ہے۔طالب علم وقت پر پڑھتا ہے،محنت کرتا ہے۔وقت پر امتحان کی تیاری کرتا ہے اور کام
یابی اس کے قدم چومتی ہے۔
انسانی زندگی بھی وقت کی محتاج ہے۔انسان دنی امیں ایک بچے کے روپ میں آتا ہے،بڑا ہوتا ہے۔تعلیم حاصل کرتا ہے۔دنیا میں عزت سے رہنے کے لیے محنت کرتا ہے۔اور جب تک اس کی زندگی ہے ،پ وری کرنے کے بعد اسے اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلا لیتے ہیں۔یعنی وقت زندگی کا نام ہے۔سانس لمحے ہیں جو کٹ رہے ہیں۔ہمیں وقت کی اہمیت سمجھتے ہوئے اس کی قدر کرنی چاہیے۔ کیوں کہ جب کل میدانِ حشر میں اللہ کے سامنے پیش ہوں تو شرمندہ نہ ہوں۔
صفائی سے بہتر نہیں کوئ
انسان کو تندرست اور صحت مند رہنے کے لیے صفائی ازحد ضروری ہے۔ جو لوگ صاف ستھرے نہیں رہتے۔ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں پاک رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
مثل مشہور ہے”صفائی میں خدائی ہے” صفائی سے انسان صحت مند رہتاہے۔ ہمیں اپنے جسم اور لباس کے ساتھ ساتھ اپنے بالوں ، دانتوں اور ناخنوں کی صفائی کا بھی دھیان رکھنا چاہیے۔ سکول اور جماعت میں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ہر طالب علم کو اپنا بستہ ، کتابیں اور کاپیاں صاف ستھری رکھنی چاہییں۔
سال 5 جون کو ماحولیات کا دن، 7اپریل کو صحت کا دن، اور 22اپریل کو کرہ ارض سے محبت کا دن منایا جاتا ہے۔ لیکن ہم ان کو اتنی توجہ نہیں دیتے
کیونکہ صفائی ستھرائی جتنا ہمارے مذہب اور عقیدے کا بنیادی جذو ہے اتنا ہی ہم نے اس کو بھلا رکھا ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن میں ابتداء سے ہی جسمانی اور روحانی صفائی اور پاکیزگی و طہارت پر زور رہاہے ۔ صفائی انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر احاطہ کرتی ہے اور دونوں کی اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔
جس انسان کی صحت خراب ہے اس کے لئے دنیا کی بہترین نعمت بھی بے کار  ہے وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردوں سے بدتر ہے ۔انسان کتنا ہی صحت مند، تندرست و توانا کیوں نہ ہو اسے اس صحت و تندرستی کو قائم رکھنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے ۔ہمارے ملک میں کروڑوں بچے غلاظت و گندگی کی بناء پر بیماری کا شکار ہوکر دم توڑ دیتے ہیں یہ بچے، گندے پانی یا خراب آب و ہوا کے سبب بیمار ہوتے ہیں ان سے تحفظ کا بہترین ذریعہ جسم کی صفائی ، غذا کی پاکیزگی و صفائی ، مکان کی صفائی ، محلے اور بستی میں صفائی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی صفائی کا خیال رکھنا ہے ۔
پاک صاف رہو
اللہ پاک صاف لوگوں کو پسند کرتا ہے “۔
ان آیات میں ایک طرف حکم ہے کہ پاکی حاصل کرواوردوسری طرف یہ خبر دیتا ہے کہ خدا پاک صاف لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔مسلمانوں کے لئے  اللہ کےحکم  کی پابندی ضروری ہے ۔ چنانچہ پاکیزگی اور صفائی ان کی زندگی کا جزو بن گئی اور ان کی فتح اور کامرانی کا سبب بنی ۔
اے نبی ﷺ! اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے بچو“ صفائی اور پاکیزگی کا پیغام حضور ﷺ نے پوری امت بلکہ پوری انسانیت تک پہنچا یا اور ارشاد فرمایا ”پاکیزگی نصف ایمان ہے
اسلام میں پاکیزگی کی دو قسمیں ہیں ایک روح کی پاکیزگی ۔ روح کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو تما م برائیوں سے پاک صاف رکھے ۔ روح کی ناپاکی اور نجا ست وہ  برائیاں ہیں جن کے اختیار کرنے سے انسان کی روح گندی اور میلی ہوتی ہے ۔ روح کی پاکیزگی کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ہر برائی اور گناہ سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو اچھی عادتوں اور اچھے اخلاق سے سنوارے ۔رمضان کریم میں اسلامی احکامات پرعمل کر کے ہم باطنی پاکیزگی بھی حاصل کر سکتے ہیں کیوں کہ جس قدر بھی انسان گناہوں اور برائیوں سے بچے گا اسی قدر اس کی روح پاک صاف اور ستھری ہوتی چلے جائے گی ۔ روح کی پاکیزگی کا اثر جسم کی پاکیزگی پر بھی پڑتا ہے ۔
دوسری پاکیزگی جسم کی پاکیزگی ہے ۔ جسم کی پاکیزگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کی ظاہری ناپاکی سے پاک صاف رکھے ،گندہ اورمیلا نہ ہونے دے ، مثلا ً غسل ہی کو لیجئے ۔ صحت مندی تازگی اور صفائی کے یہ تقاضے ہیں کہ انسان روزانہ غسل کرے اوراگر پانی کی قلت یا اور کسی دوسری وجہ سے یہ ممکن نہ ہوتو ہفتے میں ایک روز جمعہ کی نماز کے لئے اس کا اہتمام ضرور کرے ، پھر اسلام نے ہمیں درس بھی دیا ہے کہ ہم دانتوں کو صاف رکھنے کے لئے پابندی سے مسواک کریں ،  ٹوتھ پیسٹ بھی استعمال کی جا سکتی ہے ۔ کیوں کہ پیٹ کی بیسیوں بیماریاں دانتوں کے میل کچیل سے ہی پیدا ہوتی ہےں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اگر مجھے امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں مسواک کو ہرمومن پر فرض قرار دیتا “۔
انسان کا لباس بھی جسم کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا آئینہ دار ہوتا ہے اسلام اگرچہ لباس میں شان و شکوہ‘ اسراف بے جا اور تکلف کو پسند نہیں کرتا لیکن لباس میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا مطالبہ ضرور کرتا ہے ۔ ظاہری شکل و صورت کو بھی قرینے سے رکھنے کی اسلام تاکید کرتا ہے کیوں کہ یہ بات بھی پاکیزگی اور صفائی کے ضمن میں آتی ہے ، اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی شکل و حشیوں کی سی بنائے رکھے ، میلا کچیلا بدن رکھے یا بے تکے بال بڑھائے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ُخدا تعالیٰ میلا کچیلا بدن اور بکھرے بال پسند نہیں فرماتا “ (ترندی(
جب بیرون صاف ستھرا ہو گا تو اس کا اثر انسان کے اندرون پر پڑے گا۔

٭ عار کی بات یہ ہے غیرمسلم معاشروں نے ہمارے اس اہم سبق کو اَزبر کرلیا ہے، ہم اس کو فراموش کر چکے ہیں۔ 

No comments: