Tuesday 22 July 2014

احمد ندیم قاسمی(مظہرفریدی)/شائع شدہ" الزبیر" اردو اکیڈمی بہاول پور

افسانہ"بین"احمد ندیم قاسمی(مظہرفریدی)/شائع شدہ" الزبیر" اردو اکیڈمی بہاول پور
قاسمی مشاق کوزہ گرہے۔۔۔جوبھی کوزے بناتاہےوہ نقشِ لازوال بن جاتے ہیں۔وہ 'بین' کی' رانو'ہو یا'رئیس خانہ' کی 'مریاں '،اپناجواب آپ ہیں۔
o     جوہرِ انسانیت قاسمی کے افسانوں کابنیادی جوہرہے۔قاسمی نے ہرمزاج کے افسانے لکھے ہیں اورزندگی کے ہرانگ کوہررنگ  سے ظاہر کیا ہے۔ افسانہ 'گنڈاسا'کا ۔۔۔'مولا'، 'پرمیشرسنگھ 'کا۔۔۔۔ پرمیشرسنگھ ، 'عالاں 'کی۔۔۔۔۔عالاں،'الحمدللّلہ' کا۔۔۔۔۔،قاسمی نے روحِ عصر کے کرب کوجاننے کی کوشش کی ہے۔ کرداروں کے باطن سے اس کرب کوعیاں کیاہے۔جوقاری کے ضمیرکوجھنجھوڑاکر رکھ دیتاہے۔اور ایک لمحے کو شقی القلب انسان بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایک گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔انسانیت کو کیاہوا؟
افسانہ 'بین' میں"یہ روحِ انسانی کا'بین 'ہے جورانوکی ماں کی شکل میں ظاہرہواہے"۔
افسانے کا مختصر خلاصہ:غریب دیہاتی کے ہاں ایک پری وش بیٹی ،رانوکی پیدائش ہوئی۔وہ علاقہ سائیں دولھے شاہ کے مریدین کا تھا۔رانو کو فطرت نے لحنِ داؤدی عطا کیا۔جب قرآن پڑھتی تو محسوس ہو تا ہر چیز ساکت ہو گئی ہے۔وقت تھم گیا ہے۔اس کے حن کی شہرت دولھے شاہ کے گدی نشینوں تک بھی پہنچ گئی۔اور ابلیس کی مکاری بھی شروع ہوئی۔جب گدی نشیں نے اس علاقے کا دورہ کیا تو اس نے رانو کو دیکھا۔اور کہا کہ اس بار اسے سالانہ میلے (عرس) پر ضرور لانا۔والدین بیتی کو مزار اور گدی نشیں کے گھر والوں کو سپرد کر آئے(یہی ان کی خطا تھی)۔رانو نے مزار پر تلاوت شروع کی تو ایسا لگا کہ قرآن اتر رہا ہے۔لوگ نور، ایمان اور معرفتِ حق کو روح سے ادراک کرنے لگے۔لیکن ابلیس کا فریب رانو کی آواز اور عصمت کو کھا گیا۔جو آخرش رانو کی موت پر اختتام پذیر ہوا۔اور اپنے پیچھے ان گنت سوال چھوڑ گیا۔
یہ ا فسانہ پڑھنے کے بعد "دل وہ دھڑکاکہ قیامت کردی"۔روح بے چین تھی،سوچ رک گئی تھی۔کچھ بھی تونہیں بچاتھا۔حواس بحال ہوئے تواپنے آپ پر ترس آنے لگا۔'رانو'رنگ ونورکاپیکر۔۔۔خوش شکل ،خوش گلو۔دوسری طرف دولھے شاہ کا"چوہا"۔۔سالانہ عرس،وہ'رانو'جس کی آواز کاجادو، ہرکس وناکس، شقیق سے شقیق قلب کواشک آلود کرتارہا۔وہیں 'ابلیس ،فریبی جال بن رہاتھا'۔ آواز کی معصومیت کوداغ دارکردیاگیا۔خانقاہ کو"خونِ عفت"سے غسل دیاگیا۔ جانشیں،اس کے گرگے(دولے شاہ کے چوہے )'رانو'کومارتے ہیں۔افسانے میں کمالِ مکاری سے جا نشیں فرماتے ہیں:
"یہ نہیں بول رہی اس کے اندرکاکافرجن بول رہاہے"۔جوحالتِ وضومیں ہواس پر ابلیس حملہ آورنہیں ہوسکتا؟اورجواپنی آوازکوقرآن کے کلمات سے روشن کرچکی ہو!؟اوروہ بھی درگاہِ  دولھے شاہ پر!؟سوچ حیرت وحسرت میں کھوجاتی ہے۔
افسوس!ہم نے لذتِ نفس کے لیے 'اپنے بزرگان اورخانقاہوں کوبھی داؤپرلگادیا'۔
 "جب تک یہ مزارشریف پرقابض ہے۔ہمیں اورہمارے خان دان کے کسی مردعورت کوادھرنہیں آناچاہیے۔ورنہ کیاخبرجن کیاکربیٹھے" ۔  (قاسمی کے منتخب چالیس افسانے،سنگِ میل پبلی کیشننز لاہور،ص۱۱)
اگر دولھے شاہ کے مزارپرجن قابض ہوسکتاہے۔توپھروہ لوگ جوکہتے ہیں کہ مزار اورخانقاہیں ،فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں(نعوذ باللہ)،توکیاوہ سچ کہتے ہیں۔جو صاحبِ مزاراپنے گھروالوں کی دست گیری نہیں کرسکتا۔وہ عامۃ الناس کوکیافیض پہچائے گا؟ لیکن یہاں تومعاملہ دوسراہے۔ایک ابلیس نے ،نفسی خواہش سے مغلوب ہوکر ایک کلی کوبے کل کردیاہے۔روشی کی آواز کوکمالِ مکاری سے اندھیروں میں گم کردیاہے۔
ایسے عناصر جونہ صرف اسلام بلکہ خانقاہی نظام میں چورراستے سے داخل ہوتے ہیں۔ انھوں نے یقین کوشک اوراعتقادکوبدعت بنانے میں کلیدی
کردارادا کیاہے۔یہ افسانہ نہ صرف انسانی معاشرے کاالمیہ ہے۔بلکہ ایسے واقعات مسلم عقائدمیں نقب لگانے کے مترادف ہیں۔یہ سطورلکھتے ہوئے بھی ،میری سوچ میرا ساتھ نہیں دے رہی کہ میں کیالکھوں اورکیانہیں لکھوں۔احمدندیم قاسمی نے ایساشاہ کاافسانہ تخلیق کیا ہے کہ بس!معلوم نہیں ایسانادراحساس الفاظ کے پیکرمیں کیسے ڈھلا۔
"بین "میں انسانی اکائی دونیم ہوگئی ہے۔شخصیت کوریزہ ریزہ کردیاگیاہے۔اورمعاشرتی سطح پرعقائد کوایسی ضرب لگائی گئی ہے کہ عقیدت متزلزل ہوگئی ہے۔ شعورولاشعورمیں ایسی کش مکش اوربغاوت پیداہوئی ہے،جویقین کو بے حس اوراعصاب  کوشل کردیتی ہے۔
اس افسانے میں نفسیاتی سطح (روحانی سطح) پرمربوط معاشرہ، فکری انتشارسے دوچارہوگیاہے۔
ع                     میں کس کے ہاتھ پہ اپنالہوتلاش کروں
عام آدمی کی سادگی اورغیرمصنوئی رویے۔۔۔ریاکاری سے کوسوں دور۔۔۔مٹی سے رشتہ۔جب معصومیت  کے اعتبارکی دیوارٹوٹی توجنوں میں بدل گئی۔جب اس میں دیوانگی کاعنصرشامل ہوا تو جھوٹ اور مکر کو دامنِ فریب مین پناہ کے سوا چارہ نہیں رہا۔
 ہمیں دیکھتے ہی تم چلا پڑی تھیں "مجھ سے دور رہو بابا، میرے پاس نہ آنا اماں۔ میں اب یہیں رہوں گی۔ میں اس وقت تک یہیں رہوں گی جب تک سائیں دولے شاہ جی کا مزار شریف نہیں کھلتا اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک نہیں نکلتا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا میں یہیں رہوں گی۔ جب تک انصاف نہیں ہوگا میں یہیں رہوں گی اور مزار شریف کھلے گا۔ آج نہیں تو کل کھلے گا۔ ایک مہینہ بعد، ایک سال بعد، دو سال بعد سہی، پر مزار شریف ضرور کھلے گا اور دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔تب میں خود ہی اپنے بابا اور اپنی اماں کے قدموں میں چلی آؤں گی اور ساری عمر ان کی جوتیاں سیدھی کروں گی اور ان کے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی۔ پر اب میں نہیں آؤں گی، اب میں نہیں آ سکتی۔ میں بندھ گئی ہوں۔ میں مر گئی ہوں۔"
لیکن نہ قبرکھلی نہ ہاتھ نکلا انصاف تونہیں  ہوا۔معاملہ قیامت پہ ٹل گیا!؟
نسل درنسل انتظاررہا
قفل ٹوٹے نہ بے  نوائی گئی
ردِ عمل شدید تھا(عموماًایساہوتانہیں تھا)۔اس لیے مکروفریب نے ایک اورپینترابدلا،اورقلعہ نشیں ہوگیا۔ممکن ہیں لوگ سمجھے ہوں؟لیکن بظاہر خاموشی تھی۔طوفان سے پہلے کی خاموشی۔افسانہ ختم کیے،طویل وقت گزرگیا۔لیکن دل اورروح،'حالتِ بین 'میں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصنف نے یہ افسانہ ماں کی زبانی کیوں بیان کیاہے؟حالاں کہ جب یہ ظلم ہوا،ماں موجودنہیں تھی۔اولادکادرد۔۔۔ماں کی
یادداشتیں ۔۔۔ ماں سے بہتر،شایدکوئی بھی کرداراس خون کی بوند"کوبیان نہیں کرسکتاتھا؟اگرکوئی سہیلی بھی ہوتی توپیدائش ۔بچپن اورسولہ سال تک کی عمرکے وہ حالات جو گھرمیں وقوع پذیرہوتے ہیں،اورکوئی ان کے بارے میں کم ہی جانتاہوتاہے، عادات،اطوار،رویے،اوربہت سے حالات ہم سے مخفی رہتے۔باپ کاخوف۔۔۔ عفریت بن گیااورآخر سچ بن کررانوکونگل گیا۔ماں خودکلامی کرتے ہوئے کہتی ہے۔" جب تمھارے بابا نے موقع پا کر تمھیں دیکھا تھا تو اداس ہو گیا تھا اور میں نے کہا تھا: ’’تم تو کہتے تھے بیٹا ہو یا بیٹی سب خدا کی دین ہے، پھر اب کیوں منہ لٹکا لیا ہے۔‘‘ اور اس نے کہا تھا: ’’تو نہیں جانتی نا بھولی عورت، تو ماں ہے نا۔ تو کیسے جانے کہ خدا اتنی خوب صورت لڑکیاں صرف ایسے بندوں کو دیتا ہے جن سے وہ بہت خفا ہوتا ہے۔"
رانوکی ماں نے رانوکوخدااوربیبیوں کوامانتاً سپردکیاکہ میں تین دن بعداپنی امانت واپس لے جاؤں گی۔قرآن اور احادیث دونوں میں ا مانت کی جواہمیت بیان کی گئی ہے۔وہ ایک عام مسلمان سے مخفی نہیں ہے۔امانت میں خیانت کیسے ہوئی؟اس کاجواب توپورے معاشرے کودینا ہے۔
لوگ خاموش ،لیکن شدتِ غم میں برابرکےشریک۔ایک نادیدہ خوف کے جال نے انھیں جکڑرکھاتھا۔زبانین گنگ تھیں۔کیوں کہ مزارکے متولی جانشیں کم،نفس پرست زیادہ تھے۔اس نفس پرستی میں ہرجائزوناجائزطریقہ روارکھتے تھے۔ان کامزاج جاگیردارانہ تھا۔جس کے مطابق عام  لوگ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اورصرف ان کی خدمت کے لیے پیداکیے گئے تھے۔
دکھ اتنا گھمبیرہے کہ روح کی سسکیاں(سسکاریاں)گنبدِ بدن کو' ماہیٔ بسمل بے آب  'بنادیتی ہیں۔حیرت اس بات پرہے کہ احساس کی اس شدت کے ساتھ یہ افسانہ کیسے تکمیل ہوا۔دل کی شریانوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتالہو!کہاں ماں کی کرلاہٹ ہے؟اورکہاں مصنف کی روح کاروگ،قاری کے لیے فیصلہ کرنا،ممکن نہیں رہتا۔قاسمی یہ افسانہ تخلیق کرتے ہوئے کرب کی جس منزل سے گزراہے۔وہ المیہ(Tragedy) کی تاریخ کابذاتِ خود ایک الگ باب ہے۔المیہ کی اک نئی تاریخ اورتعریف رقم ہوئی ہے۔احسا کا یسا پیکر بہت کم نصیب ہوتا ہے۔
کتاب'چالیس افسانے'تومیرے ہاتھ میں تھی مگرمیراپوراوجودڈھے گیاتھا۔ایسااحساس کہ جذبے بے جان،جسم ساکت ،یقین جوکبھی متزلزل نہیں تھا۔ہوا!؟ اوروہ 'دردِزہ'جوبین کی جان ہے۔پیکرِ ماں، میں تھا۔مجھے بھی ویسادرداپنے اندرسے ،کہیں ،اٹھتاہوامحسوس ہوا۔کیوں کہ میرا بدن بھی توایک تماشائی کی طرح 'خالی اور بے حس کھڑاتھا'۔بظاہرمجھے کوئی آوازسنائی نہیں دے رہی تھی مگریہ پیکرِ گِل کہ گنبدِ جاں تھا۔ایسا گنبد کہ جس میں کوئی طاق،کوئی روشنی کانشاں تک نہیں تھا۔ بس اک بین کرتی "آواز" اورپھر گنبدِ بدن میں گونجتےآوازوں کے سائے ،مجھے گھیرے ہوئے تھے۔ ایسے ہی کئی لمحے ساکت وصامت گزرے،یہ مراخوف تھاکہ : 
'میراشعوراورلاشعورایک ہوگئے تھے'۔
افسانے کاابتدائیہ میں مختصر،جامع اورواضح اور ممکمل طور پرافسانے کاتانابانا بن دیاگیاہے۔
"بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی، جب تم سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھیں ۔ بکائن کے اودے اودے پھول اسی طرح مہک رہے تھے اور بیریوں پر گلہریاں چوٹی تک اسی طرح بھاگی پھرتی تھیں اور ایسی ہوا چل رہی تھی جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی۔ جب تم میری گود میں آئی تھیں تو دیے کی کالی پیلی روشنی میں اونگھتا ہوا کوٹھا چمکنے سا لگا تھا اور دایہ نے کہا تھا کہ ہائے ری، اس چھوکری کے تو انگ انگ میں جگنو ٹکے ہوئے ہیں ! اس وقت میں نے بھی درد کے خمار میں اپنے جسم کے اس ٹکڑے کو دیکھا تھا اور مجھے تو یاد نہیں پر دایہ نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ میں مسکرا کر تمھارے چہرے کی دمک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو یوں دیکھنے لگی تھی جیسے کوئی خط پڑھتا ہے"۔(چالیس افسانے،ص9)
افسانے کااختتام،ایک دائرہ مکمل ہوتاہے۔غلام عباس نے آنندی میں یہی تکنیک استعمال کی تھی۔ابتدا اوراختتام ایک ہی ہے۔وہی احساس جو ابتدامیں تھا۔لیکن اس میں اب ایک کرب جوجسم کے ساتھ ساتھ روح کو بے کل کیے دیتاہے،شامل ہے۔
اب میرے جگر کی ٹکڑی، میرے نیک اور پاک، میری صاف اور ستھری رانو بیٹی! آؤ میں تمھارے ماتھے کے بجھے ہوئے چاند کو چوم لوں ۔ دیکھو کہ بکائن کے اودے اودے پھول مہک رہے ہیں اور بیریوں پر گلہریاں تنے سے چوٹی تک بھاگی پھر رہی ہیں اور ایسی ہوا چل رہی ہے جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی اور چار طرف تمھاری تلاوت کی گونج ہے اور سائیں حضرت شاہ کے بھیجے ہوئے کفن کے جلنے کی بو اب تک سارے میں پھیل رہی ہے اور میرے اندر اتنا بہت سا درد جمع ہو گیا ہے جیسے تمھیں جنم دیتے وقت جمع ہوا تھا۔