Sunday, 10 February 2013

شکیب جلالی فکروفن۔میراوجودہے ورنہ اب تک ایک سوال،مظہرفریدی


میراوجودہے ورنہ اب تک ایک سوال۔شکیب جلالی فکروفن
میں عالمِ استغراق میں گم،سوچوں کے جال میں جکڑا،اپنے آپ سے دست وگریباں،اپنی  ہی ذات  کے آئینے میں گم تھا،کہ تین مسافر مرے قریب سے گزرے،لاشعوری طورپرشعوران کی آہٹ کے پیچھے چل پڑا۔انھوں نے جوکچھ کہاآپ بھی سن لیجیے(شکیب کی نظم زاویے)۔:
پہلابولا:    دیکھ لوتن پہ خون کی فرغل،خون کی شال۔(یہ ایک خونی/قاتل ہے)۔
دوسرابولا: یہ توخزاں کاچاندہے،گھائل،غم سے نڈھال۔دنیاکے غم کاماراہے(کچھ غمِ دنیا،کچھ غمِ جاناں)۔
تیسرابولا"اندھیارےکے بَن  میں جیسے شب کاغزال۔یہ آہوئے شب ہے۔جواپنے وجود کی تنہائی اوراندھیروں سے سمٹ کریہاں آن چھپاہے۔
وہ خود تھے،اپنے اپنے غم سے نڈھال،جبرکی چکی میں پستے  بدحال،ان کی سوچوں میں عکس تھا ،ان کی اپنی روح کا،اپناتھاجنجال۔کیوں کہ شکیب تواب بھی کہہ رہاہے:"میراوجود ہےورنہ اب تک ایک سوال"۔
"انفرادیت پسند"میں شاعر کہتاہے کہ انساں کی حقیقت کیاہے،"ہم ہیں موجود سویہ بھی کیامعلوم"۔اس کے باوجودانساںاتراتاپھرتاہے۔اور دوسروں کوکچھ نہیں سمجھتا!
نظم "پاداش"میں شکیب جلالی ایک عجب اندازسے خوب صورت پیغام دیاہے۔اگر موسِم(موسموں کے ضبر)،تیزدھارپانی کی رفتار(شوکتی دھاریں، تلاطم خیزموجیں) پتھروں کو پاش پاش کرنے کی بجائے،انھیں مدھر گیت سناکر، ان کے نوکیلے کونوں کوچکنی گولائیں میں بدل سکتے ہیں۔تو ، تُونے جس پتھرکوناکارہ،کم قیمت،بے ڈول اورانگھڑسمجھ کرپرانی سنگلاخ چٹانوں پردے مارا،اوراس کے وجودکے ریزے چاروں بکھرگئے تھے۔تم ادائے بے نیازی سے چل پڑے لیکن،اس پتھرکی سلگتی ہوئی چنگاریاں ، جذبِ  محبت سے مجبورہوکرتمھارے پاؤں کابوسہ لے بیٹھیں تواب چیختے کیوں ہو؟اوراب یہ  پتھرکون ہے۔۔۔۔۔؟نظم"اندمال"میں دیکھیے:
کبھی اس سبک روندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمھیں کیا خبر ہے
وہاں ان گنت کھر درے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم رسیلے مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کی ادا سونپ دی ہے
وہ پتھر نہیں تھا
جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر
پرانی چٹانو ں سے ٹکرا کے توڑا
اب اس کے سلگتے تراشے
اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں
تو کیوں چیختے ہو؟                         ص441
محبت کوبہ اندازِ دگربیان کیاہے۔اوراتنے خوب صورت تمثیلی اندازمیں دل کاعندیہ پہنچایاہے۔ اگرتم ایک نظرِ التفات سے،ایک موہوم سی مسکاہٹ سے،نرم لہجے میں بات کرتے توکیاایک انسان پیارسے محبسِ ذات میں بکھرنے اورلخت لخت ہونے سے ،بچ نہ جاتا۔اگریہ کام موسموں کے جبراور موجِ طوفاں سے ہوسکتاہے کہ ایک کھردرے پتھرکوسڈول کردیں۔تو کیاتم سے۔۔۔۔۔!؟اب اپنے پاؤں میں چبھے شراروں کوچنو!۔دراصل اس نظم کے دوحصے ہیں۔ایک حصے میں فطرت کے مناظر اورعلائق کو تمثیلی انداز میں فاعل،مفعول دکھایاگیاہے۔اورکس طرح ایک نوکیلا پتھر خوب صورت شکل وصورت میں ڈھل جاتاہے۔دوسراحصہ ' وہ پتھر نہیں تھا')شدتِ غم سے بھی ہوجاتے ہیں پتھرچہرے) سے شروع ہوتاہے۔لیکن اسے بے وقعت سمجھ کراس پہاڑوں پرمارکرپاش پاش کردیا جاتاہے۔اوراس سنگ ریزے اورچنگاریاں دورتک بکھرجاتاہیں۔اب انداز بے پروائی،اوردل ربائی سے جووہ شعلہ اندام خراماں خراماں ،بے نیازانہ چلتاہے توانھیں بکھرے ہوئے ریزوں میں سے کچھ سلگتے ہوئے ریزے اس کے پاؤں میں چبھ جاتے ہیں۔جوایک لاشعوری کراہ سے بدل جاتے ہیں۔ شاعرکہتاہے کہ وہ پتھرنہیں تھا۔لیکن تم نے اسے اس حال میں پہنچایا،اب اس کانتیجہ بھی بھگتو!اب چیختے کیوں ہو؟
شکیب کی ایک اورنظم"یاد"جو اسی خیال کوآگے بڑھاتی ہے۔
رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چیر گئی                              ص445
اس نظم میں کچھ رمزوایماہیں۔کچھ اشارے ہیں،جوتلازمے کی صورت ،ایک واقعہ کوتمثیلی اندازمیں بیاں کرتے ہیں۔لیکن اس مختصرنظم میں ہڈبیتی کوجگ بیتی میں تبدیل کردیاہے۔محبت اورانا(عزتِ نفس) کالطیف احساس ،جب انساں خاموشی سے مقتل میں سج جاتاہے۔
'لڑکھڑاتے جھونکے'سے اچانک'سنگِ سرخ'پر'آئینہ'گرکرچورچورہوگیا۔بظاہریہ ایک معمولی سی بات تھی۔یااس جھونکے کی ایک غیرمحسوس لغزش، مگراس آئینے کی کرچیاں دل کو خون آلودکرگئیں۔یعنی اندازِمحبوبانہ کی  مست خرامی یاایک اندازِ بے نیازانہ کے نتیجے میں ہمارادل (احساس،جذبِ محبت، عزتِ نفس کچھ کہہ لیجیے) ایک قاتک سنگلاخ پتھر پر گرپڑا،اوریوں جوبھی کچھ تھا ریزہ ریزہ ہوا۔اب اس مست خرام پیکرِحسن کوتوکیاہوناتھا؟ مگراپنی اس پذیرائی اورشکستگی کے بعد ردعمل پر ایک محب گم نام کادل زخم آلودہوا۔اوراپنی عزت افزائی پر نوحہ کناں بھی۔
شکیب مظاہرِ فطرت کوان ان مٹ اورلافانی احساس اورجذبے کی علامت بنادیتاہے۔جسے 'محبت'کہتے ہیں۔وہ محبت کاروناخودنہین روتا،وہ قاری کے دل میں ایک احساس،ایک چنگاری رکھ دیتاہے اورپھرکہتاہے تم بھی میری طرح سلگتے رہو۔اورقاری اس دردکواپنے دل میں اسی طرح محسوس کرتا ہے،جیسے شاعرخود۔اندمال"بھی ایک ایسی ہی نظم ہے ۔جس میں شاعر مظاہرِ فطرت کوتلازمات کےطوراستعمال کرتاہے۔
'شام'ڈھلتی آس،مایوسی اورجبر کی علامت کے طورسامنے آتی ہے۔اورداسموم نے کئی ہربھرے پتے خزاں رسیدکردیے۔اوراس طرح کے بے شمار ستم کہ گننے والے "ان گنت"کہہ کے آگے چل دیے۔اور'مرہم'میسرنی ہوا۔'کوئی علاج اس کابھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں'،توجواب میں ایک طویل خاموشی کے سواکچھ نہیں تھا۔لیکن:
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نو زاد کا خندۂ  زیر لب
زخمِ دل مندمل ہو گئے سب کے سب                           ص442
ہزارجبروتشددکے باوجود جب ایک معصوم کے چہرے پہ نگاہ پڑی اوراس کی معصوم ہنسی کائنات ِ بسیط کوشرمارہی تھی۔دل کےتمام زخم خودبخود مندمل ہوگئے۔ایک ولولۂ تازہ مل گیا کہ جب یہ معصوم ہنسی،دنیاکااصل حسن ہے توپھر'غمِ دہرکاجھگڑاکیاہے'۔
شاعرجب شدتِغم سے باہرآتاہے تویقیناً کائنات کا حسن اسے اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔شش جہت کودیکھتاہے۔اچانک اے اپنی جہت (حیثیت، تہذیب وتمدن،ثقافت یاکلچر) کوجاننے کی امنگ پیداہوتی ہے۔"جہت کی تلاش"میں وہ 'درخت'کی علامت کوتہذیب'کاتلازمہ بنادیتاہے۔نظم کچھ یوں بتاتی ہے کہ"ایک عجب درخت اگاہے۔زمین نگ ہے۔ہوا اورنم ناپیدہیں۔فضااورسمندرکومتھ کرچندابرکے ٹکڑے بنے ہیں تا درازشاخوں نے انھیں چھین لیاہے۔یہاں تک کہ تنے کوخبربھی نہیں ہوئی۔اورجریں تاتاریکی میں غلطان،روسنی کی کرن کوترستی ہیں۔اوردرخت کی ہیئت یوں ہے کہ زمیں میں پاؤں دھنسے ہوئے ہیں اورہاتھ فضامیں بلندہین۔عجب حالتِ اضطرارہے ۔اب اس میں پیوندبھی نئی طرزکالگاناپڑے گا"۔
قدیم تہذیب وتمدن،اخلاق وروایات  اورانسانیت وآدمیت کوترک کرکے نئے اصول وضوابط ترشنے ہوں گے۔جوجدید کلچرکاساتھ دے سکیں۔اس لیے شاعرخود تہذیب کی تلاش میں ہے۔کہ کیابنے گا؟شکیب جلالی نے نئے لب ولہجے اورنئے زاویے سے نظم کوبُناہے۔بہت سی اہم نظمیں ہیں۔لیکن
اس وقت میرے سامنے" عکس اورمیں"ہے۔
'آب جومیں اک طلسمی عکس ابھراتھاابھی'،احاطۂ  خیال میں اس عکس کے ابھرنے کے ساتھ کتنے  ہی دیپ جل اٹھے۔اورکتنی ہی  حسرتیں ،امنگیں بن کرچمک گئیں۔اورپھرسے کچھ کرگزرے کے ولولے دل میں انگڑائیاں لینے لگے۔کچھ دیرتک تویہ کیفیت رہی۔ اچانک حالتِ خواب وخیال  اسے زندگی کی تلخ حقیقتوں میں دوبارہ پھینک دیتے ہیں۔
آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس                                ص451
کفِ ساحل اورفقط نقشِ پااورحدِ نظر تک ایک لامتناہی سلسلہ اوربس!؟
شاعر زمانے کی بے ثباتی میں گھِرکربھی قنوطی نہیں ہوتا۔وہ زمانے اورمحبوب کویہ توکہتاہے کہ تم نے خودہی ظلم ایجادکیا،اب اس کااثرتم تک آپہنچاہے تو چلاتے کیوں ہو؟پھراسے ایک معصوم کھکھلاہٹ زندہ کرجاتی ہے۔سپنے اسے زیادہ دیرتک خواب آلودنہیں کرتے اورشاعرساحل پر نقشِ پاکاسلسلہ دیکھتاہے۔جوجہدِ مستقل کی دلیل ہے۔"شہرِ گل"میں بھی یاس ،آس میں بدلتی ہوئی نظرآتی ہے۔"حلقۂ برق میں اربابِ گلستاں محبوس"لیکن ایک غلغلہ اٹھتاہے۔
دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں
زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں                      ص457
زنجیریزں ٹوٹ گئیں اور'مہربلب تصویریں'زمزمہ ریزہوگئیں۔اب یہ ہوا کہ کلیوں نے لب کھولے،پھول مسکائے،صبانے گھنگروباندھ لیے،لیکن یہ سب کچھ توعالمِ خواب میں تھا۔پھر:
یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے
شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے؟              ص457
پہلاجملہ استفہامیہ ہے۔لیکن استفہام اس طرح کاکہ لگتاہے،"تعبیربھی ہے"۔یہ سوال بھی ہے اورمیرے خیال میں جواب بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اب"دعوت فکر"دی جارہی ہے۔
لوگ معنی تلاش ہی لیں گے
کوئی بے ربط داستاں سوچو                       ص453
ریت کے سمندرمیں زندگی کی کشتی کیسے رواں ہے؟اورفضاکی سرگوشی جوکلیوں کے لیے حیات آفریں ہواکری ہے۔پتیاں سن کرلرزنے کیوں لگتی ہیں۔دکانِ آئینہ سازپتھرون کی امان مین کیوں؟الامان!،بے مہریٔ بتان کے باوجود وفا ختم کیوں نہیں ہوتی؟اس کاسرچشمہ کیاہے؟بستیوں کے اجڑنے کے باوجود،جذبۂ   تعمیر ختم کیوں نہیں ہوتا؟اوراب سب سے اہم سوال اتھتاہے۔جس کے لیے اتنالمباسفرکیاگیاہے۔عمرِ جاوداں کی وجہ 'فکرِ سقراط' ہے یا'زہرکاپیالہ'ہے؟یہ سب باتیں ہوتی رہیں گے۔'خلقتِ شہرتوکہنے کوفسانے مانگے'(آپ نے شکیب  کی فکرکی گونج سنی)،آپ کاکام یہ ہے۔کہ کوئی داستان سوچ ڈالو،پھر'اورسے اورہوئے عشق کے عنواں جاناں'۔
نظم' شعلۂ دل'میں ایک خوب صورت کلاسیکل شعرکی گونج بہ رنگِ دگرسنائی دیتی ہے۔
کبھی بہ پاسِ تقدس ہماری نظروں سے
الجھ کے ٹوٹ گئی ہے تمھاری انگڑائی                              ص566
انگڑائی نہ لینے پائے تھے،وہ اٹھاکے ہاتھ
دیکھامجھےتوچھوڑدیے،مسکراکے ہاتھ
شکیب نے بڑی پرامیداوررجائی نظم کہی ہے۔وہ اپنی ایک نظم"ہمارادور،ص455"میں کہتے ہیں۔
*    جہاں آج بگولوں کارقص جاری ہے۔
*    فضائیں زردلَبادے اُتارپھینکیں گی۔
*    نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہوں گے۔
*    بڑے سکون سے تعمیرِ زندگی ہوگی
کہیں یز ید ، نہ آ ذ ر ، نہ اہرمن ہوگا
*    بتانِ عصرکےخالق کوباخبرکردو۔
نظم "جشنِ عید،ص462"۔
*    عید کیسے منائی:میں' کسی نے پھول پروئے،کسی نے خارچنے'۔
*    جشنِ عید کیسے ہوا:'کہیں توبجلیاں کوندیں،کہیں چنارجلے'۔
*    منظرَ عید:بطورِ خاص قلبِ داغ دارجلے،کسی نےبادہ وساغر،کسی نے اشک پیے،اطلس وکم خواب کالباس پہنا،کسی نے گریباں،کسی نےزخم سیے۔
*    حاصلِ عید:یک رنگی پیدانہ ہوسکی۔طبقوں کاامتیازرہا۔
(نوٹ: یہ مضمون نامکمل ہے۔باقی حصہ کسی اوروقت)

No comments: