Thursday, 7 February 2013

آنس معین کی نظم نگاری،مظہرفریدی


آنس معین  کی نظم نگاری
آنس کابنیادی فلسفۂ شاعری توایک ہی ہے۔وہی حیات وممات کی کش مکش،وہی کربِ زیست،وجودوعدم کے اسرار، رموزجاننے کی بے طرح خواہش،جسن کے زنداں سے آزادہونے کامرحلہ،اس ماہی بے آب زندگی میں بسمل کیکی تڑپ سے چھٹکارااورآخرمیں ایک معصوم بچے کی طرح سونے کی تمنا۔
اپنے ہی سانسوں کے جھونکوں سے دیابجھ جائے گا
جسم کے زنداں کادر کھل جائے گا
ختم ہوجائے گاپھریہ کرب بھی تنہائی کا
اورمیں قطرے کی طرح
وسعتِ دریامیں گم ہوجاؤں گا
ایک بچے کی طرح سوجاؤں گا
قطرہ اپنابھی وسعت میں ہے دریالیکن/اسے منظورتنک تابیٔ  منصورنہیں
"عشق دی منزل دورتوں دوراے متاں سمجھیں اوہِے"اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت انساں اس کائنات کی اصل حقیقت ہے۔یہ کائنات اسی حجرت انساں کے لیے تخلیق کی گئی۔یہ مرکزومحورِ کن فکاں ہے۔یہ دستِ قدرت کاآخری بیاں ہے۔یہ احسنِ تقویم کی تصویرہے۔یہ تخلیقِ  زندگی کی  آخری لکیرہے۔آنس بھی ان الوہی انکشافات سے مصحفِ قلب کومنورکیے ہوئے ہے۔وہ زمیں کی حقیقت جانتاہے۔وہ زندگی کاحدوداربعہ سمجھتاہے۔وہ ازل وابدکی حدوں کاشناورہے۔وہ وجودوعدم  کے باریک فرق کارازدارہے۔آنس کی زبانی سن لیجیے۔
زمیں  توبس ایک نقشِ پاہے
اورعالموں پہ محیط ہوں میں
کہ دستِ قدرت میں زندگی کی لکیرہوں میں
ایک حدیث ہے کہ میں نے آدم کو اپنی صورت پر پیداکیاہے(بصورتہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں)۔ایک جگہ آتاہے کہ ہم نے آدمؑ کوچالیس دنوں میں تخلیق کیا۔یعنی دستِ قدرت نے اس ہیکرِ خاکی کو عجب اکرام واحترام بخشا کہ ہر نقش،نقشِ لازوال بنادیا۔اورآخرمیں "احنِ تقویم"کی مہربھی ثبت کردی۔اسے خلیفۃ اللہ بھی کہہ دیا۔اپنی ذات کامظہربھی قرار دے دیا۔"اَلْاِنْسَانُ سِرِیْ وَاَنَاسِرُہٗ"کہہ کرتمام راز فاش کردیے۔
میں تویہ سمجھتاہوں
اک بیاض ہے چہرہ
اورخطوط چہرے کے
حرف حرف تیرے ہیں
تجربہ بھی تیراہے
دستخط بھی تیرے ہیں
سرمد نے کھال کھنچوائی،منصور دار کی زینت(اناالحق)بنا۔میرے ان کھدرکے کپڑوں میں خداہے۔جوخداکی قربت میں پہنچ گئے ۔انھیں پھراپنے خبرنہیں ملی۔کیوں کہ قطرہ جب جذبِ شوق میں دیامیں گم ہوتاہے۔تودریاب جاتاہے،اب وہ دوبارہ قطرہ بنناچاہے! وہ اپنی تلاش میں سرگرداں" حسنِ الحق"مین گم رہتاہے۔یہی اس کی زندگی ہے۔
یہ زندگی بھی عجیب شے ہے
ہرایک انسان حصولِ منزل کی جستجومیں لگاہواہے
جوسب فصیلیں عبورکرکے
ہرایک معلوم حد سے آگے نکل گئے ہیں
خوداب وہ اپنی تلاش میں ہیں
آتشِ عشق نے آتشِ شوق کوہوادی اورعقل لب بام کھڑی تماشادیکھتی رہی۔عشق کی آگ کے ماسوا,عشق نے سب کچھ بھسم کردیا۔ہرفردکی معراج مختلف ہے۔"موسیٰ نے کوہِ طورپہ مردے جِلاکے پی"کوہِ طورجل گیا"وَخَرَ مُوسیٰ صَائِقَہ

میں ایک شفاف آئینہ ہوں
کہ جس سے ٹکراکے ساری کرنیں پلٹ رہی ہیں
تمام رنگوں کی اصلیت کاگواہوں میں
کہ ہرحقیقت
مری نگاہوں سے معتبرہے
مگروہ چہرہ
جومیرے چہرے پہ سایہ زن ہے
وجودجس کامری نظرہے
میں اس کاچہرہ بھی اس کی آنکھوں سے دیکھتاہوں
جب قرب کی ان منزلوں سے آشنائی ہو۔"من توشدی،تومن شدم"کی منزل ہو من وتو،من اورتو کا فرق نہ رہاہو۔پھر تمام باتیں اور تأویلیں ،حرفِ غلط ہوجایا کرتی ہیں۔اس کااپناوجودکائنات کرمرکزِ خاص  بن جاتاہے۔دنیا کی کسی شے میں اس کاجی نہیں لگتا۔لیکن ازل سے ابدتک کافاصلہ اپنے اندر مسافتِ دنیارکھتاہے۔ کوئی اورطریقہ یاراستہ نہیں ہے۔اس لیے اسی راہ گزرسے گزرکرجاناپڑتاہے۔اگرچہ یہ فاصلہ مختصر ہے(مختصر اس لیے کہ چندروزہ زندگی کرنے کے لیے دنیامیں قیام ضروری ہے۔باقی توقرب کی وہ منزلین ہیںکہ جاننے والے جانتے ہیں)۔
خودآگہی بھی عجیب شے ہے
میں تم سے کٹ کر
تمام دنیاسے کٹ گیاہوں
خوداپنے اندرسمٹ گیاہوں
تمھارے اورمیرے درمیاں جوبھی فاصلہ ہے
وہ اک گواہی ہے قربتوں کی
وہ مختصر ہے
مگرامر ہے
اب اس دنیامیں چوں کہ جی نہیں لگتا۔اس لیے ہرشخص اپنی اپج کے مطابق کچھ کر بیٹھتاہے۔بعض اوقات پکڑ بھی ہوجاتی ہے۔اوردلدلی دنیا میں اسیر بھی ہوجاتا ہے۔کچھ اس اسیری سے بچنے کے لیے ایساطریقہ استعمال کربٹھتے ہیں جو پسندیدہ نہیں ہوتا۔اورلذتِ وصال کے چکرمیں ہجروفراق کے سایوں میں "آخرِ شب دیدکے قابل تھی بسمل کی تڑپ"کامظہربن جاتے ہیں۔
کہ میری طرح یہ ایک سادہ ورق ہے  جس پر
لکھاتھاجوکچھ وہ مٹ چکاہے
حسین یادوں کے گہرےپانی میں
سوچ کاایک  ننھاکنکر
جومیں نے پھینکاتھا۔۔۔۔کھوچکاہے
وہ دائرے جوبکھرگئے تھے سمٹ چکے ہیں
مگرابھی تک
لرزتے پانی پہ ایک چہرہ ساکانپتاہے
اس یاد کے ننھے کنکرنے 'بات ادھم کہہ دی'کہ وہ خودتوکہیں کھوگیا۔لیکن اپناوجود گم کرکے بھی وہ سطحِ آب پر ایسی تبدیلی کرگیا کہ چندلمحوں کے لیے پانی اپنی تلاش میں پھرسے سرگرداں ہوا۔اپنے وجودکوسمیتنے کےلیے پھرسے عرفان ذات کے عمل سے گزرا،اس عمل میں اسے جس بے کلی اورپریشانی کاسامناکرنا پڑا۔اس کانتیجہ یہ نکلاکہ وہ جواس میں منعکس ہورہاتھا،کانپتاتھا" لرزتے پانی پہ ایک چہرہ ساکانپتاہے"۔ اسی خیال کو آنس نے غزل کے ایک شعرمیں بھی بیان کیاہے۔
ہاتھ میں لے کرپتھرجب میں پاس کھڑاتھا ندی کے
کانپ رہاتھاپانی پراک چہرہ سہماسہماسا
اب"گزراہوں اس شہرسے کریدارنہیں ہوں"لیکن شہرِ دنیاسے گزرتوہوا ہے۔اس لیے یہاں کی کچھ چیزیں بھی گفت گومیں درآئی ہیں۔
دانش ورکہلانے والو!
تم کیاجانو!
مبہم چیزیں کیاہوتی ہیں
خزاں رسیدہ بازوتھامے
نبض کے اوپرہاتھ جمائے
ایک صداپرکان لگائے
دھڑکن سانسیں گننے والو
تم کیاجانو!
مبہم چیزیں کیاہوتی ہیں
دانش ورکہلانے والوں کو ایک سوال داغ دیاہے۔تم کیاجانو!،مبہم چیزیں کیاہوتی ہیں۔چند علایق کاسہارالے کرتم اندازے لگانے کی کوششکرتے ہو،اوریہ کوشش بھی ہربار کام یابی سے ہم کنارنہیں ہوتی۔

No comments: