Sunday 31 March 2013

ہمیں پہچا ن کون دے گا؟۔مظہرفریدی

ہمیں پہچان کون دے گا؟
لاوارث!بے شناخت بچے!جنھیں  وقت کا دھارا دارالامان یا ایدھی سنٹر پہنچا دیتاہے۔ایک گم نام راہی یا ایک ہم درد فرد کچرے کے ڈبے،کوڑے دان،کسی گلی کی نکڑ یا سرِ راہے دیکھتا ہے اور کسی 'امان'میں دے دیتاہے۔ایک پہلو اس کا با لکل الٹ بھی ہے،وہ ہے "اغوا" یا معذوربنا کر عمر بھر کے لیے ہاتھوں میں کشکول تمھا دینا!یہ ایک اورمسئلہ ہے(پھر کبھی سہی)۔
معاشرے کا وہ پہلو جسے ہم نہیں جانتے!اس کی شدت سے آشنا نہیں ہیں!ان کے مسائل کو نہیں جان سکتے!وہ کربِ ذات ۔۔۔جس سے یہ بچے دوچارہیں۔۔۔ناقابلِ بیاں ہے!جب کوئی بھی شخص اوروہ کالی وردی والابھی ہو،اورپوچھے،تم کون ہو؟والد کانام بتاؤ؟کہاں جاناہے؟شناختی کارڈ دکھاؤ؟توان سوالات کو سننے کے بعد۔۔۔وہ فقط منہ دیکھتاہے؟یہ سب کس چڑیا کے نام ہیں۔والد،گھر،کہاں،شناختی کارڈ!!
وہ اپنے آپ سے،معاشرے سے سوال پوچھتاہے!"ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیاہے؟"اوربے بس اورخاموش نگاہوں میں فقط ایک جواب ہوتاہے۔"کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلاویں کیا؟"
شناخت میرااورآپ کا مسئلہ نہیں ہے؟اوراس مسئلےکی شدت کابھی علم نہیں ہے۔وہ ننھے فرشتے جو کسی دارالامان یا ایدھی سنٹر کی روشنی بن کر پرورش پاتے ہیں،اور خوب صورت تاروںکا جھرمٹ سجاتے ہیں تو زمیں پوچھتی ہے،تم تارے تو ہو مگر کس زمیں کے؟جب چاند پیکر میں ڈھلتے ہیں،اورچاندی کی کرنیں کسی زمیں کی طرف پرواز کرتی ہیں تو زمیں پوچھتی ہے تم چاند تو ہو مگر کس زمیں کے؟جب سورج کی آب و تاب بن کر دنیا کی ترقی کو بالیدگی دینا چاہتے ہیں تو زمیں پو چھتی ہے۔تم سورج تو ہو مگر تمھاری زمین کہاں ہے؟
وہ بچے جو کسی ہم درد کی توجہ سے زندگی کے دھارے میں تو شریک ہوگئے لیکن اب کوئی اور دھارا انھیں قبول نہیں کرتا؟کسی خیراتی ادارے نے ان پر زندگی کا بوجھ تو لاد دیا لیکن انھیں پہچان نہیں دے سکتا؟انھین شناخت نہیں دے سکتا؟یہ زمیں کے سپوت،یہ دھرتی کے جائے،یہ ارضِ وطن کے بیٹے ،انھیں اب نام کون دے گا؟اور اگر کوئی ان سے پوچھے تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ اگر ان سوالات کےجوابات ان کے پاس ہوتے تو ،کیا ہمیں پوچھنا پڑتا کہ 'تم کون ہو؟'۔کیا ہم نہیں جانتے،کیا پورا معاشرہ نہیں جانتا؟کیا اقتدارِ اختیار کی کرسیوں پر سجنے والے اس بات سے بے بہرہ ہیں؟کیا آپ کیا میں،یہ سب نہیں جانتے؟ہم سب اس جرم میں برابرکے شریک ہیں۔لیکن یہ سوچتاکون ہے؟کسے فرصت کہ 'ان بے نام و نسب،بے شناخت اورمجھے کہنے دیں(تلخ سہی مگر سچ یہی ہے)بے چہرہ بچوں  کو چہرہ ملے گا،شناخت ملے گی،نام ملے گا؟ہم سب خاموش ہیں،خاموش تماشائی ہیں،'سب کچھ جلے ،مگر ایک میرا گھر نہ جلے'۔کیا یہ بچے ایک معاشرے کا حصہ بن سکیں گے؟
انھیں پہچان کون دے گا؟
کہ مامتا انھیں وقت کے خارزارِ زیست میں
خاموش آندھیوں کی زد پہ رکھ کر
کسی اور دائرے کی زدمیں آکر
زمانے کے گرم وسردمیں کھو چکی ہے!
اسے اپنے لختِ جگرکی
اوراس پھول سے چہرے کو اپنی مامتاکی
نہ کوئی پہچان ہے ،نہ ہوگی
فقط خیرات میں ملا ہے،اک نام اس کو
جو اس کی ذات پر اک داغ بنتاجارہاہے
نام ہے مگر گم ناموں سے کم تر
(کیانام ہے اسے ہم نام کہہ سکیں گے)
مگروہ قوم جو نام ونسب اورقبائل کو
فقط ایک تعارف جانتی ہے
تو کیا ان نام ونسب کے گم شدوں کو
کوئی ،کیا نام دے سکے گا؟
کہ ان کی سوچ میں اک واہمہ ہے!
میں کیاہوں؟
کہ ان کی روح پہ کچھ زخم ہیں کیسے؟
جو ان کے شعورولاشعورمیں پنپتے ہیں وہ جذبے کیا ہیں؟
مگران کی ایک سادہ سی یہ خواہش
ہمیں کوئی پہچان دے دو؟
مگر یہ بچے یہ نہیں جانتے کہ
جن سے یہ اپنی پہچان کا پوچھ بیٹھے ہیں
وہی تو ہیں جو ان کے گم نام ہونے کا سبب ہیں
انھی نے کبھی جاہ وحشم سے
انھی نے کبھی تیغ وتفنگ سے
انھی نے کبھی مال و کفن سے
ڈرایا اور اپنی اک اک ہوس سے
حواسِ ظاہری کے چہرے کو داغا
اگر یہ ،ان بے نام جسموں کو، نام دیں گے
تو کئی اک نام پردہ نشینوں کے عیاں ہوں گے
تو مرے معصوم بچو! یہ بے چہرگی ہی تمھارا نام ہے اور تمھاری پہچان ہے!

No comments: