Wednesday 19 September 2012

مامتا ,


 مامتا
بچپنے میں اک ہستی
ذات کاجومرکز تھی
لڑکپن میں بھی وہ میری
اتنی ہی ضرورت تھی
جوانی میں قدم رکھا
تونئے ولولے تھے دل کے
نئی امنگیں تھیں ترنگیں تھیں
خیال کی ہرآہٹ کا
وہ مرکزی حوالہ تھی
پھرایساموڑآتاہے
خوابوں کے ،عذابوں کے
نئے باب کھلتے ہیں
کوئی مانوس اجنی آکر
دور۔۔۔لے جاتاہے!
عجیب ایک سرخوشی
عجیب خوف ومستی بھی
ساتھ ساتھ چلتی ہے
کئی آئینے روشن
کئی دیپ جلتے ہیں
احساس کی سطح پہ پھر
اک خیال پلتاہے
اورکوکھ میں بھی اک
جی ہے کہ دھڑکتاہے
تخلیق کی مسرت بھی
انجانی ایک حسرت بھی
خوف بھی اورجرٔات بھی
کئی سمےگزرتے ہیں
دل کی دھڑکنیں اس کی
ان دھڑکنوں سے ملتی ہیں
اک وجودپلتاہے
اوراک نیاپیکر
وجودسے ہی ڈھلتاہے
تب ایک نیاجذبہ
وجودسے ابھرتاہے
سایدیہی مامتاہے!

No comments: