Friday 21 September 2012

'ذراتم ادھر سے گزر کرتودیکھو'۔مظہرفریدی


'ذراتم ادھر سے گزر کرتودیکھو'

یہ بات ہے توپھربات کرکے دیکھتے ہیں،چلوہم بھی ادھرسے گزرکے دیکھتے ہیں،جنابِ صدر،کون ہے جوگزرکرنہیں دیکھتا، جوبھی گزرتاہے ، اورجب بھی گزرتا ہے،دیکھتا ہے،بعض اوقات گزرتاکوئی اورہے،دیکھتاکوئی اورہے،'سرِ آئینہ مراعکس ہے،پسِ آئینہ کوئی اورہے' ،گزرنے کے خواہش کسے نہیں ہوتی، لاتعدادلوگ گزرتے ہیں،شایدمعاملہ 'اِدھر'پراٹک گیاہے،گزرنے والےگزرتے رہے کچھ بھی نہ ہوا،دیکھنے والے گزرگئے، گویا گزرنا اوردیکھنااس میں توکوئی اچنبا نہیں، اورنہ ہی جمالیاتِ لطیف اس میں کوئی مزاح پاسکتی ہے، ہاں ادھرسے گزرنا شاید معاملے کوکرخت لطافت عطاکر  سکتاہے۔
اس طرح کی خوش خبری ہمیں کراچی کی بس سروس سے موصول ہوئی 'اگرطبعِ نازک پرگراں نہ گزرے تو'ذراتم ادھر سے گزر کر تو دیکھو'،توگزرکر دیکھنے میں کن تجرباتِ تازہ کااندازہ ہوا، کچھاکھچ بس مسافروں سے لدی ہوئی،اوراس پہ خوش بوپسینے کی بسی ہوئی،مقابلہ نشست تھاجوقومی نشست بن گیا،جومحترم تھا،وہ خجستہ ہوا،جوشکراتھاآخرشکستہ ہوا،اس طور جواپناسفرتھاتمام،جیسے ٹھونسے ہوں بوری میں کھلونے گگ دام ۔ بقول ضمیرجعفری

جوگردن میں کالرتھا'لر'رہ گیاہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر'رہ گیاہے

خداجانے مرغاکدھررہ گیاہے
بغی میں توبس ایک پررہ گیاہے

کوئی مفت میں مفتخرہورہاہے
کراچی کی بس میں سفرہورہاہے

اک دن قلعۂ ملتان پرایک ماجرایہ ہوا،کسی نیک بخت نے خداکے خوف سے ،ایک بھیکاری کوکچھ دے دیا خیرات میں،پھر نہ پھوچھواس بے چارے کی داستاں،ایک لنگوٹی میں وہ بھی بیٹھا تھاوہیں،اور کسی منچلے نے پوچھاجواحوالِ یار،توبے ساختہ زباں سے  یہ کلمے اداہونے لگے۔

مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

اس سے آگے بڑھے تو کچھ قوال تھے ،سرتال میں یوں الجھے ہوئے جیسے کہ بد حال تھے،اس پر کچھ لوگوں پر اک حال تھا،اس پرایک مستور پر جنجھال تھا۔

گانے والے راگ میں ٹمراگ کے استاد تھے  
                                عقل میں ہم زلف تھے اورشکل میں ہم زاد تھے

تل میں بھونچال تھے،سُرسُرتیاں ایجادتھے 
                                یعنی اس فن کے پرانے صاحبِ اولاد تھے

ابتدا یہ تھی کہ وہ طبلوں کو سمجھاتے رہے
                                انتہا یہ تھی کہ طبلے آپ ہی گاتے رہے    

اس لیے سرکاری اسکولوں کے طلباء کانجی یاپبلک اسکولوں کے قریب پھٹکنابلکہ پرمارانا ،غیراخلاقی عمل سمجھا جاتاہے، دیہاتیوں کا شہریوں میں گل مل جانا یاان کی تقاریب میں شرکت کرنا،بھی مناسب نہیں سمجھاجاتا،اسی طرح معصوم طلباء کاچنگیز خاں یاہلاکوخاں جیسے اساتذہ کے قریب پھٹکنا،ایسے ہی غریب مریضوں کاہسپتالوں کے قریب سے گزرنایااندر گھسنے کی کوشش کرنااس لیے ناپسندیدہ عمل نہیں ہے کہ ہسپتال کاعملہ خدمت میں کویاہی کاموجب بنتاہے،یاخدانخواستہ ان کےآرام میں خلل پڑتاہے،یاوہ چوکس نہیں ہوتے بلکہ عوام کوان چھوتی اورخطرناک بیماریوں سے بچانے کی مہم کاحصہ ہے،جس سے عوام بعد میں پریشانی میں گرفتار ہوسکتے ہیں ،آپ خود اندازہ لگالیجئے کہ ملیریا یاتپ دق سے مرناکس قدر آسان عمل ہے چہ جائے کہ انسان کسی موذی مرض میں گرفتار ہوکرمرے ،اوراس کی روح مرنے کے بعد بھی پریشاں پھرے۔

ہاں البتہ جنابِ صدر اگر معاملہ لال مسجد کاہو ،لیکن یہ مسجد لال کیوں ہوتی ہے؟،کس طرح ہوتی ہے؟کون جانتاہے؟، یاپھر وزیرستان ، یاوہاں کا انتہائی پس ماندہ طبقہ جہاں طالبان، دہتشت گرد یااسامہ بن لادن  یااس کے کسی ساتھی کااحتمال ہوسکتاہو، جنابِ صدر کتنی بری بات ہے،ہے ناں!،اگروہاں اخباری نمائندوں کی جان کوبچانے کی خطر،ان کونہیں جانے دیاجاتاتوبراکیاہے،


ہراک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیاہے
تمہی کہوکہ یہ اندازِ گفتگوکیاہے

یہی حال شاہراہِ دستور کاہے،اب یہ بھی کوئی مہذب بات ہے کہ قانون کے رکھوالے سیاسی جماعتوں کی طرح جلوس نکالنے لگ جائیں۔ توشاہراہِ دستور کااللہ حافظ ہوگا،اس پربھی یہ الزام کہ 'ذراتم ادھرسے گزرکرتودیکھو'،ہماری ہر بات کومنفی انداز میں لیا جاتاہے، اور کہاجاتاہے کہ۔


'انہی کےووٹ سے اس قوم کا ایوان بنتاہے                                    وزیرآباد بنتاہے وزیرستان بنتاہے

جومولاجاٹ ہوتاہے،ایم این خان بنتاہے                                      انہی کی کھاد سے ہرکھیت کاکھلیان بنتاہے

انہی کی خ سے خیبر،میم سے ملتان بنتاہے                                        یہ جس پے پرکوپربخشیں ،وہی پردھان بنتاہے

کوئی دستور ہویہ لوگ بے منشور رہتے ہیں                                       یہی کوچہ ہے جس میں قوم کے جمہور رہتے ہیں

جنابِ صدر جمہور کی بات چھوڑ یے ،ایک منظرہرشہرکے اندرون کادیکھیے،جہاں ہرکوچہ وبازارسے یہ آواز آتی ہے،'ذراتم ادھر سے گزر کرتو دیکھو'، اورجوایک بارگزرگیااسے دوسری بارگزرنے کی ہوس نہیں،ااگر شیروانی میں گیاتھاتوواسکٹ میں لایاگیا،اگرتھری پیس میں ملبوس تھا تولنگوٹی میں پایاگیا، اوراحتیاطاً کوچے کے ہربچے اور مستور سے پٹوایاگیا،اس پر بھی کوئی کسر رہی تو' کلو' کے ابا کوبلوایا گیا،اور 'ان کے پاس بھجوایا گیا، جن کانعرہ ہے: 'پولیس کاہے فرض مددآپ کی'،کیوں کہ 'بات تو احساس کی ہے'،ہے ناں،اسی خدشے کے پیشِ نظر، جنابِ صدر، حکمرانِ وقت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام قدامت پرست ثالثوں کو جدید رنگ وآہنگ میں ڈھالنے کے لیے، اور قوم کے بہترین مفاد میں پی سی او ،کااجراء کیا جائے،اب کون ان لوگوں کو سمجھائے کہ ثالثوں کی حفاظت اورعوام الناس کوقانونی پیچیدگیوں سے بچانے کے لیے شاہراہِ دستورکوبندکردیاگیا۔تاکہ عوام شانت ہو کراپنے گھروں میں آرام کریں،اور منصفین بھی تومسلسل کام کرکے تھک گئے تھے۔آرام کرناان کابھی توحق ہے اوریہ حق دیناحکومت کی ذمہ
داری ہے سوحکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کی تو کیا برا کیا۔

اب دیکھنایہ ہے کہ کہیں آج کے منصفین یہ نہ کہیں ،ہمارے ہوتے ہوئے ،'ذراتم ادھرسے گزرکرتودیکھو'۔



No comments: