Friday 21 September 2012

اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں،مظہرفریدی


اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
آج کی دل کش ودل فریب دنیا،یہ نیویارک ہے ،دنیاکااہم ترین شہر،یہ ٹوکیوہے ٹجارتی دنیاکابے تاج بادشاہ،یہ لندن ہے ،یہ پیرس ہے،یہ پیکنگ ہے،یہ واشنگٹن ہے،یہ ہانگ کانگ ہے،دنیاکی چمک دمک کے لوگوں کودنیاکااس قدراسیرکردیاہے،کہ خواب میں بھی اب چاند ستارے نہیں اترتے بل کہ ہوائی کے کناروں اوراٹلی کے بازاروں میں گومنے کی امنگ پیداہوتی ہے۔محترمۂ صدر!مغربی استعماروں نے ترقی کاایسا غلغلہ اوررنگ وجل ترنگ ،نمود ونمائش،خواب وخواہش اورسائنس اورٹیکنالوجی کے آسماں کوچھوتی ہوئی ترقی،اورمشرق کاپساہوادرماندہ وپس ماندہ،مجبور ومہقور،مسدودومعذورانسان جب اردگردکاجائزہ لیتاہے توفضاء کی سرگوشیاں یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔
گر جنت بہ زمیں است                                امریکہ و یورپیں است
محترمۂ صدر!میری مٹی کاسونا مغربی ممالک میں سرف ہورہاہے۔میری قوم کی ذہانت وفطانت،یورپی ممالک کی ترقی میں گل گارے کاکام دے رہے ہیں۔میرے نوجوانوں کی ہڈیاں اینٹ اورپتھربن رہے ہیں۔وجہ محترمۂ صدر!وہ استعماری نظام ہے۔ جس نے پوری دنیاکے انسانوں پر ایک دبیز غلاف کی تہہ بٹھارکھی ہے۔شوکت وحشمت،دولت وطاقت،کے دکھاوے نے بہلاپھسلارکھاہے۔جس طرح امیرِ شہرکولوٹنے کی عادت ہوتی ہے۔امیرِ دنیا،اسیرِ کبرونخوت یورپی اقوام نےہمیں اپنے ریشمی لبادوں  اورکاغذی چہروں کے طلسم میں اسیرکر رکھاہے۔یہ طلسم طلسمِ سامری سے کم نہیں۔
محترمۂ صدر! مفکرِ اسلام ،حکیمِ الامت،شاعرِ مشرق سے جب اس کے معصوم بیتے نے معصوم سی فرمائش کی اورمغرب سے کوئی تحفہ لانے کامتمنی ہواتواس بلبلِ ہندوستاں نے ،اس طوطیٔ ہندنے ،اس صاحبِ ایمان نے اپنے بیٹے کوچنداشعار تحفے میں لکھ بھیجے۔
اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں                          سفالِ ہندسے میناوجام پیداکر
مراطریق امیری نہیں فقیری ہے                          خودی نہ بیچ ،غریبی میں نام پیداکر
اے بیٹے تجھے فرنگیوں کااحسان مندہونے کی ضرورت نہیں ہے۔تجھے فریب خوردہ لوگوں سے مرعوب ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ فریب خوردہ شاہیں ہیں جوگرگسوں میں پلے ہیں۔جو غلامانہ اور مرعوب کن خیالات سے لوگوں کومسحورکررہے ہیں۔وہ ضمیر فروش ہیں۔اے نورِ نظر تجھے درویشی ،قناعت اورانسان دوستی کواپنانا چاہیے۔
محترمۂ صدر! شاعرِ مشرق نے یہ وصیت تین چوتھائی صدی پہلے اپنے بیٹے کوکی تھی۔کیوں کہ وہ حکیم الامت ریخت ہوتی ہوئی یورپی تہذیب کانہ صرف گواہ ہے بل کہ نقیب بھی ہے۔اسے یورپ کی ترقی متأثر نہیں کرتی بل کہ خیال کادھارا اس ریخت میں چھپی شکست اور گم نامی کے اندھیروں کودیکھ رہاہے۔
                تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
                شاخِ نازک پہ جوآشیانہ بنے گاناپائے دار ہوگا
محترمۂ صدر!اک طرف ہمارے عاقبت نااندیش حکمران اور لوگ ہیں،جنھیں یورپی کلچر بہت "رچ" نظرآتاہے۔طائفے ہیں ،بے حیائی ہے، آزادی ہے۔اورحکمرانوں کوپونڈ اورڈالر کی خوش بوسے سرورآتاہے۔اوروہ ایسے بدمست ہاتھی بن جاتے ہیں کہ ملک ہربارداؤپہ لگ جاتاہے۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک خاک روب کومحملِ شاہی کی صفائی کاموقع ملا۔جونہی اس حصے میں داخل ہوا،خوش بوؤں کے سمندرمیں غرقاب ہوکردھڑام سے زمیں بوس ہوا۔سب پریساں ہوگئے یہ کیاماجراہوا؟وہ روزانہ صفائی کرنے والی کنیزکہیں نزدیک ہی موجودتھی۔ بولی جان کی اماں پاؤں توکچھ کوشش کردیکھوں۔اشارہ ملتے ہی جوتااتارناک پر رکھا۔فورا!ہوش میں آیااوراستفسارکرنے لگاکہ کیاہواتھا۔
محترمۂ صدر!ہمارے اذہان،افہام،اوہام توپہلے ہی اسیرِ نیرنگ فرنگ ہیں ۔جب بھوکوں ننگوں،حرص وہوس کے پجاری مفلوک الحالوں کو، دولت لکشمی کے چرن نصیب ہوتے ہیں۔وائٹ ہاؤس کی آب وہوامیں پہلاسانس لیتے ہیں۔ان کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔انھیں وہاں حورو غلماں ٹہلتے دکھائی دیتے ہیں۔اب ہوش کس ظالم کوآئے۔"مرکے پہنچے ہیں اس دل رباکے واسطے"اب ہرمعاہدہ عالمِ مدہوشی میں ہوتا ہے۔آپ ہی بتائیے محترمۂ صدر!کوئی مدہوش آدمی ہوش مندکام کرسکتاہے ؟ محترمۂ صدر!جس طرح ہرچمکتی چیزسونانہیں ہتی، ہربہتی چیز کمبل نہیں ہوتی،ہرروشنی ہدایت نہیں ہوتی،ہررات تاروں بھری اور چاند سے سجی نہیں ہوتی۔اسی طرح مغربی استعماروں کی محبت ومروت، امدادواحساں، نہ معلوم کس بغض وعِناداورحرص وہوس کاپیش خیمہ ہیں۔
محترمۂ صدر!سفال ہندسے میناوجام پیداکرنے کاعمل،ہمیں حیدروٹیپو،سراج الدولہ،فضلِ حق خیرآبادی،نواب سلیم اللہ خاں ، سردار عبدالرب نشتر،بہادریارجنگ،علامہ محمد اقبال ،اورمحمد علی جناح جیسے بطلِ جلیل دے چکاہے۔دریوزہ گری نے ہمیں اقوامِ عالم میں گداگر اور بھیکاری بنادیاہے۔اس لیے حکیم الامت نے فرمایاتھا
                                دیارِ عشق میں اپنامقام پیداکر                
نیازمانہ نئے صبح وشام پیداکر
                                خدااگردلِ فطرت شناس دے تجھ کو
                                                                سکوتِ لالہ وگل سے کلام پیداکر

No comments: