Wednesday 12 December 2012

موت کالمحہ جاناں،مظہرفریدی


موت کالمحہ جاناں
تو نے دیکھا ہی نہیں موت کالمحہ جاناں
 توابھی زیست کے کم و بیش کو سمجھی کب ہو؟
 موجِ حیات میں اٹھتے ہوئے زیر و بم
 بہاروں کا ترنم، کبھی جاڑوں میں درختوں کا ماتم
 کلی کاوہ کھِلتا ہو مصحفِ گل
 اور شام تلک غنچے کابکھرتا دامن
 بکھری ہوئی پھول سی پتیاں، اجڑا ہوا آنگن
تو ابھی ہجومِ  چشمِ تماشا ئی کیتمنائی ہے
ہجومِ غیر سناتوہے ،دیکھانہیں تم نے
تو ہےابھی خواب ستاروں کی دنیامیں مگن
چاندراتوں میں ،اپنی زلفوں کے پیچ وخم سے
کس مَلَک کے کاندھے پہ تجھے نیند آئی ہے
تم چکھاہی نہیں دردِ ہجرمیں خواب کی لذت کو
تم کسے ڈھونڈو گی،ابھی تو خود گم ہو
اندھی گلی کے اندھیرے بھی نہیں دیکھے تم نے
اور  یہ موت،یہ سانس کارُکنا،یہ زماں سے کٹنا
دیکھا ہے مگراس کوکبھی طاری نہیں کیا،خود پر
یہ نیند کے لمحے،یہ خوف دریچے،یہ خواب جزیرے
ان کی حقیقت کابھی ادراک کہاں ہے تم کو؟
اورتواور"مَحَبَّت"کابھی ،علم کہاں ہے تم کو!
تم ابھی خیال تمناؤں کی دنیامیں مگن ہو!
وصل کے سپنوں میں چنے لعل وجواہر تم نے
تم نے پیکرِ زیست پہ موت کالمحہ نہیں دیکھا!
محبت کے لبوں پہ ،موت کی مسکاں عجب ہوتی ہے
زیست کے چہرے پہ ،دنیاکادھواں نہیں دیکھا
تم کھلتی کلی ہو،مگر پھول کی الجھن سے ابھی ناواقف ہو!
وجودِ گل کواندیشۂ خوف وخطراوربھی ہے!
مصحفِ گل بن کے بکھرنے کاسفراوربھی ہے!

No comments: