Saturday 8 December 2012

مضمون نویسی،مظہرفریدی


مضمون نویسی
*    مضمون کے بنیادی اجزا۔
*    مضمون کیسے شروع کیاجائے۔
*    مضمون میں کن پہلوؤں کی وضاحت کی جائے ۔
مضمون کا عنوان بہت اہمیت رکھتاہے۔آسان طریقہ یہ ہے کہ:
*    "عنوان"کی تعریف یاوضاحت کی جائے۔
*    ابتدائی/بنیادی حالات بتائے جائیں۔
*    معاشرہ(معاشرے پر اثر/معاشرے کااثر/ماحول/تعلیمی فضا/سیاسی حالات/اخلاقی اقداروروایات/کردار/شخصیت وغیرہ)
*    عملی زندگی/مداومت عمل(مستقل مزاجی/تسلسل)/اصول وضوابط وغیرہ
*    اختتام
مثال:اگرہم حضورِ اکرم ﷺ کی حیات طیبہ یاشخصت پر لکھنا چاہتے ہیں توآپ سے پہلے کے حالات کاذکربھی کرناپڑے گا۔اگر ابتدائی حالات زیادہ معلوم نہ ہوں۔یا تاریخ پیدائش بھی معلوم نہ ہو کوکیاکیاجائے۔ایسے جملے لکھے جائیں کہ یہ کم زوری چھپ جائے۔
حیاتِ طیبہﷺ/آمدِ رسول اول وآخرﷺ/اسوۂ حسنہﷺ/میرانبیﷺ/(اوراس طرح کاکوئی بھی عنوان ہو تو اس مضمون سے مددحاصل کی جاسکتی ہے۔)
دنیا فساد کی جگہ بن چکی تھی۔شرک پرستی عام تھی۔ہرقبیلہ اورقوم نے اپنا الگ خدابنالیاتھا۔جہالت اور گم راہی کادور تھا۔بت پرستی کی وجہ سے فکر اورسوچ بھی محدود ہوگئی تھی۔ذرازراسی بات پر تلواریں بے نیام ہوجاتی تھیں۔کبھی پانی پینے پلانے پر،کبھی گھوڑاآگے بڑھانے پر صدیوں تک جنگ ہوتی رہتی تھی۔رحمتِ حق جوش میں آئی اور اپنا سب سے پیرا رسولﷺ دنیامیں مبعوث فرمایا۔قرآن مجید میں فرمان ہے:"لَقَد مَن َاللّہ ُ عَلَی المُؤمِنِینَ اِذ بَعثَ فِیھِم رَسُولاَ"
آپﷺ کابچپن اہلِ مکہ کے سامنے تھا۔آپﷺ شروع سے ہی بت پرستی سے نفرت کرتے تھے۔"حَلف الفضول(ایک امن معاہدہ)"میں شرکت کی۔آپ کی صداقت اورامانت کی وجہ سے مکہ کی مشور تاجرہ "حضرت خدیجۃ "نے آپﷺ کوشادی کاپیغام بھجوایا۔چالیس سال کی عمرمیں اعلانِ نبوت کیا۔شعبِ ابی طالب میں محصوررہے ۔لیکن توحید کی تبلیغ سے پیچھے نہیں ہٹے۔آخر آپﷺ یثرب کی طرف ہجرت کرنے پر مجبورکردئے گئے۔یثرب آپﷺ کے قدم پڑتے ہی مدینہ کہلایا۔نئی مدنی زندگی کاآغازہوا۔
تمدن آفریں خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کاگہوارہ
معاہدے کیے۔غزوات ہوئیں۔انسانی معاشرے کے اصول وضوابط طے ہوئے۔دشمن شیروشکرہوگئے۔ایثاراورقربانی جیسے جذبے پروان چڑھے۔صلحِ حدیبیہ جیسا معاہدہ بھی ہوا۔فتحِ مکہ میں ہرکس وناکس کاعام معافی کااعلان بھی ہوا۔اورآخری خطبہ جسے منشورِ انسانیت کہاجاتاہے،دیاگیا۔یوں صرف 23 سال کی قلیل مدت میں دنیانے ایک ایساانقلاب دیکھا،جس نے دلوں کوبدل دیا۔تاریخ عالم میں ایسی دوسری مثال ناممکن ہے۔یہ رحمت العامین صرف 63سال(ہجری اعتبار سے)کے بعد دنیاسے رخصت ہوگئے۔


اسی مضمون کو تقریرکے اندازمیں کیسے لکھاجاسکتاہے؟ہر شخص اپنے انداز سے لکھ سکتاہے۔تقریرلکھنے کاکوئی مروجہ اصول نہیں ہے۔ایک اندازیہ بھی ہے۔
بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر
وہ دانائے سُبُل،ختمُ الرُّسُل،مولائے کل ،جس نے
غبارِ  راہ  کو بخشا ، فروغِ  وادیٔ  سینا
یوں توچشمِ فلک نے کمال وزوال کے ان گنت مناظر دیکھے۔بھائی کے ہاتھوں بھائی کاقتل،طوفانِ نوح میں تیرتی کشتی،نمرود کو خدائی دعویٰ کرتے، ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالتے اورآخر مٹی میں ملتے دیکھا، پھرابراہیم ؑکو اسماعیلؑ کوقربان کرتے دیکھا۔فرعون کو خدائی دعویٰ کرتے اورپھر غرق ہوتے، سامری کوسامریت کاجال بچھاتےدیکھا۔لحنِ داودیؑ بھی دیکھا،تختِ سلیماںؑ بھی،کلیم ؑکی باتیں بھی سنیں،یدِ بیضابھی دیکھا،عیسیٰؑ کی مسیحائی دیکھی،پھر اسے مصلوب کرنے کامنصوبہ بھی،واقعہ فیل ہوا،انسانیت شرف انسانیت بھول چکی تھی،آدمیت سربہ گریباں،ظلمت وگم رہی کایہ عالم تھا:
کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کبھی گھوڑاآگے بڑھانے پہ جھگڑا
یہاں تک کہ باپ اپنے جگرکے ٹکڑےکو خود اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے لگے۔زمیں کاسینہ شدتِ غم سے شق ہوجاتا،ابرروتے لیکن شقاوتِ قلب میں کمی نہ آتی۔آخر رحمتِ حق جوش میں آئی اور"رَحمتُ الِّعَالَمِین"کو مبعوث فرمایا۔قیصر وکسریٰ کے کنگرے گر گئے ،آتش کدوں کی آگ  بجھ گئی ۔ "وَمَااَرسَلنَکَ اِلَا رَحمَتَ العَالَمِین"کاپیکر بن محبوبِ عالم کرتشریف لائے۔سسکتی آدمیت کوقرار آگیا۔مرتی انسانیت پھرسے زندہ ہوگئی۔ذراسی بات پرقتل وغارت کابازارگرم کرنے والے شیروشکرہوگئے۔
تَمَدُن آفریں،خلَّاقِ آئینِ جہاں داری
یعنی وہ صحرائے عرب شتربانوں کاگہوارہ
توحیدکاپرچارہوا،قرآن کارواج ہوا،ہرذی شعورتابع دارہوا۔اورآدمیت مدنیت کی راہ ہولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!؟؟؟؟

No comments: