Sunday 16 December 2012

اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں،مظہرفریدی


اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
آج کی دل کش ودل فریب دنیا،یہ نیویارک ہے ،دنیاکااہم ترین شہر،یہ ٹوکیوہے تجارتی دنیاکابے تاج بادشاہ،یہ لندن ہے ، یہ پیرس ہے،یہ پیکنگ ہے،یہ واشنگٹن ہے،یہ ہانگ کانگ ہے،دنیاکی چمک دمک نے لوگوں کودنیاکااس قدراسیرکردیاہے،کہ خواب میں بھی اب چاند ستارے نہیں اترتے بل کہ ہوائی کے کناروں اوراٹلی کے بازاروں میں گھومنے کی امنگ پیداہوتی ہے۔محترمۂ صدر!مغربی استعماروں نے ترقی کاایسا غلغلہ اوررنگ وجل ترنگ ،نمود ونمائش،خواب وخواہش اورسائنس اورٹیکنالوجی کے آسماں کوچھوتی ہوئی ترقی،اورمشرق کاپساہوادرماندہ وپس ماندہ،مجبور ومقہور،مسدودومعذورانسان جب اردکردکاجائزہ لیتاہے توفضاء کی سرگوشیاں یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔
 جنتگربر روئے زمیں است
امریکہ وانگلستان ویورپیں است
محترمۂ صدر!میری مٹی کاسونا مغربی ممالک میں سرف ہورہاہے۔میری قوم کی ذہانت وفطانت،یورپی ممالک کی ترقی میں گل گارے کاکام دے رہے ہیں۔میرے نوجوانوں کی ہڈیاں اینٹ اورپتھربن رہے ہیں۔وجہ محترمۂ صدر!وہ استعماری نظام ہے۔جس نے پوری دنیاکے انسانوں پر ایک دبیز غلاف کی تہہ بٹھارکھی ہے۔شوکت وحشمت،دولت وطاقت،کے دکھاوے نے بہلاپھسلارکھاہے۔جس طرح امیرِشہرکولوٹنے کی عادت ہوتی ہے۔امیرِ دنیا،اسیرِ کبرونخوت یورپی اقوام نےہمیں اپنے ریشمی لبادوں  اورکاغذی چہروں کے طلسم میں اسیرکررکھاہے۔یہ طلسم ، طلسمِ سامری سے کم نہیں۔
محترمۂ صدر! مفکرِ اسلام ،حکیمِ الامت،شاعرِ مشرق سے جب اس کے معصوم بیٹے نے معصوم سی فرمائش کی اورمغرب سے کوئی تحفہ لانے کامتمنی ہواتواس بلبلِ ہندوستاں نے ،اس طوطیٔ ہندنے ،اس صاحبِ ایمان نے اپنے بیٹے کوچنداشعار تحفے میں لکھ بھیجے۔
اٹھانہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہندسے میناوجام پیداکر
مراطریق امیری نہیں فقیری ہے               
خودی نہ بیچ ،غریبی میں نام پیداکر
اے بیٹے تجھے فرنگیوں کااحسان مندہونے کی ضرورت نہیں ہے۔تجھے فریب خوردہ لوگوں سے مرعوب ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ فریب خوردہ شاہیں ہیں جوگرگسوں میں پلے ہیں۔جن کے غلط مرعوب کن خیالات لوگوں کومسحورکررہے ہیں۔اے نورِ نظر تجھے درویشی ،قناعت اورانسان دوستی کواپنانا چاہیے۔
محترمۂ صدر! شاعرِ مشرق نے یہ وصیت تین چوتھائی صدی پہلے اپنے بیٹے کوکی تھی۔کیوں کہ وہ حکیم الامت ریخت ہوتی ہوئی یورپی تہذیب کانہ صرف گواہ ہے بل کہ نقیب بھی ہے۔اسے یورپ کی ترقی متأثر نہیں کرتی بل کہ خیال کادھارا اس ریخت میں چھپی شکست اور گم نامی کے اندھیروں کودیکھ رہاہے۔
                تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
                شاخِ نازک پہ جوآشیانہ بنے گا,ناپائے دار ہوگا
محترمۂ صدر!اک طرف ہمارے عاقبت نااندیش حکمران اور لوگ ہیں،جنھیں یورپی کلچر بہت "رِچ" نظرآتاہے۔طائفے ہیں ،بے حیائی ہے، آزادی ہے۔اورحکمرانوں کوپونڈ اورڈالر کی خوش بوسے سرورآتاہے۔اوروہ ایسے بدمست ہاتھی بن جاتے ہیں کہ ملک ہربارداؤپہ لگ جاتاہے۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک خاک روب کومحملِ شاہی کی صفائی کاموقع ملا۔جواس سے پہلے کبھی بھی اس حصے میں داخل ہواتھا،خوش بوؤں کے سمندرمیں غرقاب ہوکردھڑام سے زمیں بوس ہوا۔سب پریساں ہوگئے یہ کیاماجراہوا؟وہ روزانہ صفائی کرنے والی کنیزکہیں نزدیک ہی موجودتھی۔بولی جان کی اماں پاؤں توکچھ کوشش کردیکھوں۔اشارہ ملتے ہی جوتااتار،ناک پر رکھا۔فوراً!ہوش میں آیااوراستفسارکرنے لگاکہ کیاہواتھا؟
محترمۂصدر!ہمارے اذہان،افہام،اوہام توپہلے ہی اسیرِ نیرنگ فرنگ ہیں ۔جب بھوکوں ننگوں،حرص وہوس کے پجاری مفلوک الحالوں کو،دولت لکشمی کے چرن نصیب ہوتے ہیں۔وائٹ ہاؤس کی آب وہوامیں پہلاسانس لیتے ہیں۔ان کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔انھیں وہاں حور و غلماں ٹہلتے دکھائی دیتے ہیں۔اب ہوش کس ظالم کوآئے۔"مرکے پہنچے ہیں اس دل رباکے واسطے"اب ہرمعاہدہ عالمِ مدہوشی میں ہوتاہے۔آپ ہی بتایے محترمۂ صدر!کوئی مدہوش آدمی معقول کام کرسکتاہے؟محترمۂ صدر!جس طرح ہرچمکتی چیزسونانہیں ہوتی،ہربہتی چیزکمبل نہیں ہوتی،ہرروشن چیزسورج نہیں ہوتی،ہررات تاروں بھری اور چاند سے سجی نہیں ہوتی۔اسی طرح مغربی استعماروں کی محبت ومروت، امدادو احساں، نہ معلوم کس بغض وعِناداورحرص وہوس کاپیش خیمہ ہیں۔
محترمۂ صدر!سفال ہندسے میناوجام پیداکرنے کاعمل،ہمیں حیدروٹیپو،سراج الدولہ،فضلِ حق خیرآبادی،نواب سلیم اللہ خاں ، سردارعبدالرب نشتر ، بہادریارجنگ،علامہ محمد اقبال ،اورمحمد علی جناح جیسے بطلِ جلیل عطا کرچکاہے۔دریوزہ گری نے ہمیں اقوامِ عالم میں گداگراوربھیکاری بنادیا ہے۔اس لیے حکیم الامت نے فرمایاتھا:
                                دیارِ عشق میں اپنامقام پیداکر
نیازمانہ نئے صبح وشام پیداکر
                                خدااگردلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ وگل سے کلام پیداکر

No comments: