Sunday 2 December 2012

مجید امجد۔اردوشاعری کاچوتھاستون،مظہرفریدی،الزبیر اردواکیڈمی پہاول پور


اردوشاعری کاچوتھاستون

ہے اُفُق سے ایک سنگِ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ جائے گی بکھرکرما نندِآئینہ رات
نظمِ جدیدمیں فیض ،راشداورمیراجی اپنی اپنی جگہ اہم ہیں اورمنفردمقام کے حامل بھی ہیں ،لیکن مجیدامجداردوشاعری کا چوتھاستون ہے۔اس دورکی تین تحریکیں بہت اہم تھیں۔ علامہ اقبالؒ کی تحریک،اخترشیرانی کی تحریک(رومانی تحریک)،اورترقی پسندتحریک۔ترقی پسندتحریک کے غلغلے کی وجہ سے صرف تین نام ابھرکرسامنے آسکے۔فیض احمدفیض جوترقی پسندتھے اورپوری ترقی پسندتحریک ان کی پشت پرتھی ۔دوسرے میراجی (ثناءاللہ ڈار) اپنی ذات میں ایک انجمن اورحلقۂ اربابِ ذوق کے روحِ رواں ٹھہرے۔ تیسرے راشدجوکسی بھی ادبی تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔البتہ احراری تھے۔راشدکی زندگی ،نظریات اور شخصیت میں تضادات بہت زیادہ تھے۔ راشدکی شاعری میں بھی تضادات کا پیچیدہ اظہار وابلاغ ہے۔لیکن مغربی تہذیب کی دریوزہ گری نے انہیں کم ترکردیاہے۔یہ دھیان رہے کہ راشدمغربی تہذیب سے بہت زیادہ متأثر تھے ۔حالاں کہ خیالات کی دریوزہ گری اوراثر انگیزی توفیض کے ہاں بھی نمایاں ہے۔لیکن فیض بہت کائیاں شخص تھا۔پینترے بدلتا رہا۔ رندکے رندرہے ،ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
                نام نہادانٹلکچوئل گروہ نے موافقت اورمخالفت میں اسی مثلث کوپروان چڑھایا۔ بہت سے دوسرے اہم شعراءکے ساتھ مجیدامجد کوبھی نظراندازکیا گیا۔لیکن لال ،لال ہی ہوتاہے۔چاہے گڈڑی کا ہی کیوں نہ ہو۔حقیقت کب تک چھپی رہتی،وقت نے فیصلہ دے دیا ہے۔اوراب مجیدامجدکوجدیدشاعری کا سرخیل تسلیم کرناہی پڑے گا۔
بقول خواجہ ڈاکٹرمحمدزکرّیا"راشداورفیض دودریاہیں۔ایک پرشوراورتیزرو، جب کہ دوسراآہستہ رواورہموارہے،جب کہ امجدایک سمندرکی طرح وسیع اوربے کنارہے"۔ میر،غالب اوراقبالؒ کی طرح اسے بھی اپنے دورکا اہم ترین اور نمائندہ شاعرماننا پڑے گا۔میر،غا لب اوراقبالؒ  ہر تعریف وتوضیح سے بے نیازہوچکے ہیں،اورادب کے معیاراور علامت کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔مجیدامجدگمنامی سے شہرت کی رفعتوں، کی جانب گامزن ہے۔اس کانام نظم جدیدکے اہم ترین ناموں میں شامل ہوکران ناموں سے آگے نکلتاجا رہا ہے۔
مجیدامجدکی شاعری کا محورکائنات ہے۔کائنات کی ہرشے اورخاص طورپرانسان ہے۔ مجید امجدکی شاعری نہ فیض کی شاعری بنتی ہے ،نہ راشد کی اورنہ ہی میرا جی کی۔فیض کی شاعری سیاسی نعرہ بازی بن جاتی ہے اورراشدکی شاعری فکری ورزش کے بعد(complex) کا شکار ہو جاتی ہے ،جب کہ میرا جی کی شاعری جنس اورنفس کی پکاربن جاتی ہے۔میراجی ہندو مِتھ سے بہت زیادہ متأثرتھے (ایک دورمیں ہندومت میں نفس کی پوجابھی کی جاتی رہی ہے)۔
                                مجیدامجدکی شاعری سے قاری میں ایک ہمدردانہ رویہ جنم لیتاہے۔ مجیدامجد کیمرے کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔وہ ایک قطرے میں سمندرکا مشاہدہ کرتے ہیں۔یہی قطرہ ان کی شاعری میں وقت کی علامت بنتاہے۔
شاعری نہ صرف مجیدامجدکی روح کا مسئلہ ہے بلکہ جسم کا مسئلہ بھی ہے۔ یوں غم مجیدامجدکے جسم وجاں کا مسئلہ بن گیاہے۔یہاں جسم کا روح کے بعد آنا دراصل رنج سے خوگرہواانساں تومٹ جا تاہے رنج کی وجہ سے ہے۔یوں ایک زندہ غم مجیدامجدکی شاعری کی پہچان ہے۔اسی زندہ غم سے مجیدامجد کی شاعری کے سَوتے پھوٹتے ہیں۔یہ غم نہ صرف زندہ ہے،بل کہ متحرک بھی ہے۔مجیدامجدغم اوردنیا کی بے ثباتی ، عیش کی افسردگی،نشاط کی حقیقت، حیات کی ناپائیداری کا تذکرہ اس لئے نہیں کرتا،کہ انسان مایوس ہوجائے ،بلکہ اس لئے کرتاہے کہ انسان حقیقتِ حیات سے آشنا ہوجائے، اورخارزارِ زیست میں زندہ رہنے کے فن سے آشنا ہوسکے۔وہ نیِش کونُوش کرسکے۔زہرکواَمرَت بنا سکے اور نشاطِ ِزیست میں کھوکرمقصدِزِیست سے غافل نہ ہو جائے۔
مجیدامجدکی شخصیت کا ایک اہم پہلواس  کی خودداری ہے۔خودی اورخودداری اعلیٰ و اَرفع   جذبہ ہے۔مجیدامجدکی خودی تمام عمر دوسروں کے کام آتی رہی ۔آخری ایّام میں فاقہ مستی میں بھی خودداری نے سوال کرناتودورکی بات کسی سے ذکرتک کرناگوارا نہ کیا۔ مجیدامجد شہیدِ خودی   کے مرتبہ پرفائزہوگیا۔
                مجیدامجدکی بعض نظموں میں طنزِملیح اپنے تمام ترتیورکے ساتھ موجودہے۔ طنز تنقیدہی کی ایک صورت بھی ہے،نقدکا کام پرکھ اور جانچ ہے۔طنزاس سے ایک قدم اورآگے بڑھتا ہے اور اصلاح کا بِیڑااٹھاتاہے۔لیکن یہ اصلاح اندازِدگرسے ہوتی ہے۔تخیئل کی بلندی تیرِنیم کش بن جاتی ہے۔مجیدامجدنے کمالِ فنکاری سے وہ تما م ترتیوراپنی شاعری کا جزوبنا دئیے ہیں۔جوحسنِ شعرکی جان ہوتے ہیں۔یوں مجیدامجد کے مصرعے دھڑکتے ہیں،شعر سانس لیتے ہیں اورنظمیں ہمکتی زیست کا منظرپیش کرتی ہیں۔سسکتی زندگی اوررینگتی حیات میں بھی دامنِ امید، یاسیت آلودنہیں ہوتا۔ شاعرقنوطیت سے اپنا دامن بچا لیتا ہے۔قاری بھی غموں میں گھراہونے کے باوجودروشنی اوررِجا کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
                فطرت میں روح کے وُجودکوجدیدشعراءنے واضح طورپرمحسوس کیا ہے۔ان کے یہاں فطرت کے ذی روح اورناطق ہونے کا تصوربھی بہت واضح طورپرملتا ہے۔
علامہ اقبال کے مُنتخب کلام میں بانگ دراکی پہلی نظم'ہمالہ" ہے۔اقبالؒ نے ہمالہ کوذِی روح تصورکیا ہے اوراس سے گفتگوکی ہے۔آفتاب صبح بھی اسی قبیل کی نظم ہے۔ مجیدامجد بھی حسنِ فطرت کوانسان اورانسانیت سے متعلق بصیرتوں کے ادراک کا ذریعہ بناتے ہیں۔
مسائلِ حیات پرسوچنا ایک سنجیدہ فکری عمل ہے۔طنزاس فکری عمل میں ایک آلے کی حیثیت رکھتا ہے۔اوراگرطنزملیح ہوتوسونے پرسہاگہ ۔لیکن یہ مقامِ فن اس وقت ہاتھ آتاہے۔ جب سیلِ وقت اپنے تمام رازمُنکَشِف کردیتا ہے(ہاتھ لہوہوجاتے ہیں،تب کوزہ گری آتی ہے)۔ یوں قطرے میں سمندراورذرے میں صحرا نظرآتاہے۔
                مجیدامجدکی بعض نظموں کا اختتام اوربعض نظموں کے ہربندکا آخری مصرع ایک بے آوازتھپڑکی طرح زندگی کے چہرے پر پڑتاہے۔قاری حیرت سے دائیں بائیں دیکھتا    ہے، کہ کوئی دیکھتا نہ ہو۔جب کہ اندرکا انسان کسمساتاہے۔ ضمیربیدار ہوتا ہے۔اورقاری دائیں بائیں دیکھنے پرمجبورہوجاتاہے۔
                                مجیدامجداحساسات اورلاشعورکی سطح پربھی اپنی گرفت رکھتاہے۔اس لئے لاشعورکے نفسیاتی پہلو،منی ایچرپینٹنگز  (Miniature Paintings)سے،میورلز Murals) ) کی طرف سفرکرتے ہیں۔وہ ہرمنظرمیں یوں رنگ بھرتا ہے کہ رنگ باتیں کرتے ہیں اورباتوں سے خوشبوآتی ہے۔مجیدامجدبنیادی طورپرنظم کا شاعرہے،جولوگ نظم اورخاص کرنظمِ جدیدکوپڑھنے کا مزاج نہیں رکھتے،مجیدامجد شاید ان کے لئے اہمیت کا حامل نہ ہو۔آپ بیتی ہے،کہ طبیعت نظم کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی تھی ۔لہٰذاایک مدت تک نظم اورنظم جدید کہنے والوں کوپڑھنا ایک ناخوش گوارسا عمل تھا۔لیکن جب سے طبیعت نظم آشنا ہوئی ہے ،منظرست رنگ ہوگئے ہیں ۔
                کلامِ امجدکامطالعہ شروع کریں تومجیدامجدکی شخصیت اورشاعری ایک نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سجائی،لپٹی لپٹائی آپ کے سامنے آ بیٹھتیہے۔یوں دھیرے دھیرے رات گذرتی ہے توبات چل نکلتی ہے۔مجیدامجدکی شخصیت اورشاعری بھی پرت درپرت (خلوتِ اوراق میں) کھلتی چلی جاتی ہے۔پہلے پہل مجیدامجدنازِصداقت کئے بغیرمحفلِ دل میں آبیٹھتاہے۔پھر حرزِجاں بن جاتاہے اورآخرمیں مجیدامجدہوتاہے، نہ تو نہ میں۔
                صرف یہی نہیں اکثرنظمیں جومجیدامجدکی گھمبیرعبقری شخصیت کوسمجھنے کے لئے معلومات فراہم کرتی ہیں ۔وہ معاشرے کا عکس بن جاتی ہیں اورفردکی زندگی کے راز، منعکس ہونے لگتے ہیں۔اگلامرحلہ قاری کی اپنی شخصیت کے اِنکشَاف کا ہے۔معاشرہ اورمعاشرتی رویے آئینہ ہونے لگتے ہیں۔جوقاری کی شخصیت کا حصہ اورحافظہ ہیں۔اس لئے مجیدامجدکا مطالعہ ،جو اردونظم کوسمجھنے کے لئے شروع ہوا تھا،وہ معاشرے سے ہوتاہوااپنی شخصیت تک پہنچتاہے۔اس مطالعاتی سفرمیں خارجی اورداخلی سطح پرکئی سربستہ پہلوواضح ہوتے ہیں۔
                میر،غالب اوراقبال کی شاعری میں انفرادی سوچ دراصل اجتماعی شعورہی کا حصہ اورعلامت ہے اورفرداپنی بات کرتے ہوئے معاشرے کوالگ نہیں کرسکتا۔معاشرے سےکٹ کر نہیں رہ سکتا کیوں کہ شاعرکا شعوراجتماعی شعورہوتاہے۔جیسا کہ سلیم احمدنے غالب کی شخصیت میں اکائی کے بکھرنے کی بات کی ہے۔لیکن وہ اکائی کا بکھرنا۷۵۸۱ءکی جنگ آزادی میں ملی اکائی کا بکھرناہے،اورغیردانش مندانہ مصلحت اندیشی کی وجہ سے یورپی تہذیب کا اپنانا ہے۔ غالب توفقط بیان کرنے کا سزاوارہے۔مزیدتفصیل کے لئے راقم کا مضموں "پوچھتے ہیں وہ کہ غا لبؔ کون ہے"دیکھیے۔
                جب کہ مجیدامجدتک پہنچتے پہنچتے اجتماعی شعور،روئیے اورفکربکھرچکاتھا ۔فردہی سب کچھ تھا۔لہٰذامجیدامجدکی شاعری میں اجتماعی شعور بعض اوقات انفرادی بنتادکھائی دیتا ہے۔لیکن یہ انفراد  یت موجودیت پرستی(Existentialism (کی طرف نہیں لے جاتی اورنہ ہی یاسیت (sadism)یاقنوطیت بنتی ہے۔مجیدامجدکا عمومی رویہ اجتماعی ہے۔ اورانفرادیت آلودنہیں ہوتا۔ مجیدامجدکمالِ مہارت سے اپنا دامن بچا لیتا ہے۔اور فرد کومعاشرے اورآفاقی مناظرکی علامت بنا دیتا ہے۔
                مجیدامجدکی شاعری میں وقت'لمحے' کی شکل میں ظاہرہوتاہے۔اورلمحے کو مجیدامجدنے ایک قطرے کی صورت میں دیکھا ہے۔یہی قطرہموتی یاگہرِآبداربھی بن سکتا ہے۔ اوریہی قطرہ بلبلہ بھی بن سکتا ہے۔گہرآبداریابلبلہ بننااپنی استطاعت سے باہرہے ۔ ہردوحیثیتوں میں حالات 
اورماحول کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔اورقدرت کی عطا کا قانون اپنی جگہ اٹل ہے۔
                                مجیدامجدنے قطرے سے گہرِآبداریابلبلہ بننے تک اوراس گہرِآبداریاقطرہ کی کیفیت کوایسے زاویۂ فکراورپہلوؤں سے اجاگر کیا ہے۔کہ یہ اظہارزندہ غم بن گیاہے۔اگرچہ خوبیٔ قسمت سے گہرِآبداربن بھی جائے توبھی اس کے بعدبے شمار مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ ممکن ہے کہ سمندرکی تہہ میں پڑا رہ جائے۔ممکن ہے،طوفانی موجیں ساحل کی ریت پرپھینک دیں اور ساحل کی ریت تک پہنچنے کے بعدبھی کیا معلوم ؟کیا ہو؟اسی طرح بلبلہ چندلمحوں کی حالت (زندگی) میں اپنے محدودکرّے میں کتنے عکس اورنقش رکھتا ہے۔ان تمام کیفیتوں کااظہار مجیدامجد کی شاعری میں خصوصیت کا حامل ہے۔اس لئے مجیدامجدکی شاعری میں ،امروز،کا تصور ابھرتا ہے۔ہرنیادن ’امروز‘ ہے ۔ مجیدامجدلمحۂ موجودکا شاعرہے۔اور ہردورکا شاعرقرارپائے گا۔
                ماضی کی اندھیری رات،لمحہ موجودکا کرب،سیلِ زمانہ کے جبر،عہدِرواں کے مسائل ، صلیبِ فکرپرٹنگی ہوئی روح اورروحِ عصرکی بسمل کی تڑپ اوراس تڑپتی زیست کا دکھ ،جو آہوں، سسکیوں اورکرلاہٹوں سے نموپاتاہے۔ان سب کوبیان کرنے کے بعدمستقبل کے سہانے سپنوں میں کھوجانے کی بجائے،اختتام کی حسرت برقراررکھتا ہے۔یہ اظہارنہ ظالم کے ظلم پر تعزیر لگاتا ہے،نہ مظلوم کوسراب سپنوں کا باسی بناتاہے۔بلکہ حالات کے برزخ پرروشنی ڈالنے کے بعد، سوچ کومِہمِیزلگاتاہے،یاپھرغیرمتوقع اختتام کی صورت ایک جملہ طنزِ ملیح کی طرح کام کرچکنے کےبعد،گال پرانگلیوں کی صورت ابھرآتاہے۔اورقاری لاشعوری طورپراپنا گال سہلانے لگتاہے۔اور ایک لہر، سوچ کی صورت ،حبابِ شعورسے ،رگ وپے میں انگڑائی لیتی ہے۔
                 مجیدامجدکی تعلیم اورمطالعہ سرسری نہیں،عمیق تھا۔لیکن خودداری اورنوکرشاہی سے بے اعتنائی کے سبب تمام عمرمعمولی ملازمت کرتارہا۔حوادث ِزمانہ کا پامردی سے مقابلہ کیا۔      جَبرو اِستَبدادکے اِستحِصالی نظام میں سرنگوں نہیں کیا۔دریُوزہ گری مجیدامجدکا مَسلَک نہیں تھا۔ خارجی جبرحدسے گذرکرداخلی کرب سے جا ملا۔مجیدامجدنے غم سے دوستی کرلی۔اس غم نے جہاں ریختِ وجودمیں حصہ لیا،وہاں آہنگ اورلے کے ایسے پہلوبھی روشن کئے ،جونظم سے آزادنظم میں ڈھلے اورپھرنظم میں ہیئت کے کئی روپ ظاہرہوئے۔یہ غم ،ہزاررنگ سے ظاہر ہوا،اورہر رنگ ایک نیا آہنگ بن گیا۔شاعرکے احساسات وجذبات ،نئی علامات سے اظہارپانے لگے۔ مجیدامجد کی شخصیت نظموں میں پہلوبدل بدل کرمنکشف ہونے لگی۔
                مجیدامجدکی نظم ہراعتبارسے مکمل اورہم آہنگ ہوتی ہے۔پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک نظم کا ارتقاءپرت درپرت مفہوم کی گتھیاں سلجھاتاہے،اوروضاحت کرتاہے۔اوراس پر یہ بات مستزادہے،کہ داخلی دنیا کوخارجی حوالوں سے مستندبنایا جاتا ہے،منظرنگاری اور جزئیات نگاری کے ایسے نادرنمونے نظرآتے ہیں کہ داخلیت اور خارجیت یک جاںہوجاتے ہیں۔داخل کو خارج کی دنیا سے اورمناظرکودنیائے باطن سے ثابت کرنے کا فن بہت کم لوگوں کونصیب ہوا ہے ، لیکن مجیدامجدان میں سے ایک ہے۔
                باطن میں گنبدِذات کودیکھنا، ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرورہے۔یہ راستہ کرب ِ ذات  سے وکرگذرتاہے،اورگنبدِذات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جا کرگم ہوجاتا ہے۔  کیوں کہ سانسوں کی آوازکی بازگشت سے یہ مقبرہ گونجنے لگتاہے۔اورنظامِ تنفس بے ڈول ہو جاتا ہے ۔لیکن جو(لوگ) شہرِذات کے اس شورکوبرداشت کرجاتے ہیں۔ان پر جگنوؤں کے دیس سے سندیسے آتے ہیں اور گنبدذات میں اک دریچہ واہوتاہے۔ا ن کی روح کے اندرسے روشنی کی کرن پھوٹتی ہے۔جومینارِنوربن جاتی ہے۔ یوں قلب، یہ گنبدِ بے در، کشفِ ذات حاصل کرلیتاہے۔یہی انکشافِ حقیقت ہے۔اپنی ذات کی پہچان کا عمل،مجید امجدنے الفا ظ کے بے نام جزیروں کوگنبدِذات میں مقیدکرنے کے بعد، من کی روشنی سے اجالا ہے،اورانہیں نئی پہچان دی ہے۔نیا مفہوم آغازکیا ہے۔ نئی علامتیں بنائی ہیں ،نئی تراکیب تراشی ہیں۔ گنبدِذات میں ہر بات اتنی بارگونجتی ہے،کہ ہر پہلواورہرزاویہ سے آواز، گونج بن کر پلٹ آتی ہے۔اب اگرحوصلہ ہاردیاتوبے حاصلی کا کرب مٹی کا ڈھیربن جاتاہے۔ اوراگراس جبرکوصبرکی طاقت  مل گئی تو،ادب کی نئی سمتوں کا سراغ ملتاہے۔
کیوں کہ نہاں خانۂ قلب،تمام رازوں کا گنجینہ ہے۔ اس طرح گنبدِذات سے گنبدِقلب کا راستہ ملتا ہے۔یہ کنجِ صدرہے۔ کنجِ صدر سے ایک جگنوچمکتاہے۔یہ جگنوروشنی کا پیامبر ہے۔جب گنبدِذات کا بھیدکھلتا ہے۔باہرکی چمک دمک اور چہل پہل بے معنی ہوجاتی ہے۔کاغذی چہروں کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔اوردنیاکی بے بضاعتی عیاں ہوتی ہے۔یوں مکشوف ، دنیا سے بے نیازہو کر ، کنجِ تنہائی میں گم، مگن،مطمئن ہوتاہے۔
اب انکشاف ِذات اگرمادی ہے توآشوبِ آگہی بن جاتا ہے۔زندگی ،ایک مسلسل  بے کلی سے دوچارہوتی ہے۔ اور اگریہ انکشافِ ذات روحانی ہے اوربے کلی قلبی ہوتو،باطن کو طاقت ِدیدارسے روشناس کراتی ہے ۔اس لئے کنجِ خلوت میں بیٹھ کربھی سرحدِادراک کی خبر لاتا ہے۔
مجیدامجد،گمنام ،پابہ گل اوردنیا کی نظروں سے دورزندگی ،اک معمولی سے مکاں میں گزاردیتا ہے۔لیکن دھرتی سے مضبوط رشتہ استوارکرلیتاہے۔یوں مٹی اسے اپنارازدار بنالیتی ہے ۔ اورمیں کیا ہوں؟تم کیا ہو؟جیسے سوال اسے کلپاتے ہیں۔آخروہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہم سب کی حقیقت ،ایک مشت ِخاک ہے۔
مجیدامجداسی مشتِ خاک کا دیرینہ رازداربن جاتا ہے۔یہ باتیں شب رفتہ میں ہوئی تھیں۔شب رفتہ کے بعدکیا ہوا؟روح کوچاہت کی چاٹ لگ گئی۔چاہت نے الفت کا لبادہ اوڑھ لیا۔الفت بڑھی تواپنے ساتھ بے چینی،   بے قراری ، تڑپ اورکَسک لائی۔جب کسک کو ہجروفراق کی آنچ نے دل کی بھٹی میں کندن کیا ،تومحبت نے جنم لیا ۔ محبت جب تک ساحل تھی۔حاصل کی امیدا ورتمنا تھی۔جب طوفانوں سے آشنائی بڑھی اور ساحل  کی تمنا خام ہوئی، تو بے حاصلی نے جنم لیا،بے حاصلی نےنقش ذات تک محدودکیا ،گنبدِذا ت پہلے روشن تھا۔
                جب ذات محوربھی بن گئی۔تویہی نقطہ کائنات کا مرکز بن گیا۔پھریہی نقطہ قوس بنا، قوسیں دائرے بننے لگے۔دائرہ دردائرہ ، رازِدروں کا جہانِ معنی تھا۔رازِدروں نے جذبِ دروں تک رہنمائی کی۔جذبِ دروں نے آگہی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔آگہی چند قدم تک ساتھ رہی، آخر وجداں کے حوالے کرکے خودگم ہو گئی ۔ وجداں حدودِکائنات سے ماوراءہوا توالہام بن گیا۔یہی مجیدامجدکا الہام ہے۔اب اسے جوبھی معنی دےئے جائیں ۔لیکن یہ ان گنت سورج کی ایک ہلکی سی جھلک ضرورہے۔
                شبِ رفتہ کا مسافرجب ان گنت سورج کی سرزمین پرپہنچا تواس کی سوچیں زخمی تھیں،  دل لہوتھا۔لیکن وجودکا گیان حاصل تھا۔من کی اگن نے وجودکوخاکسترکرنے کی بجائے اکسیرکر دیاتھا۔اس نے خودکوپانے کی ہوس میں اپناآپ کھویانہیں،بلکہ اپنے آپ پراعتمادحاصل کیا۔ اورخودی کے جوہرنمودسے نموپائی۔اگرچہ جذبوں پریخ بستگی کا طویل موسم خزاں کی طرح چھانا چاہتاتھا۔لیکن احساس نے جذبے کی لو مدھم نہیں ہونے دی۔یوں آخری امید(Last leaf ) کی طرح،سخت کوش طوفانوں سے لڑتی رہی۔اورجس جذبے نے شاعرکومایوس نہیں ہونے دیا، وہ وجدان کا عرفان تھا۔حالاں کہ مجیدامجدکے باغ میں خزاں کا موسم آکرٹھہرگیاتھا،لیکن آپ کومجیدامجدکی پلکوں پرجھلملاتے ستارے دیکھنے کی حسرت رہی ہوگی۔ایک دھیما دھیما سااحساس ہرمصرعے کے ساتھ جسم میں سرایت کرتا جاتاہے۔لیکن زندگی کی تگ ودو کوسردکرنے کی بجائے، حرارت آفریں پیغام دیتا ہوا ّگے بڑھتاہے۔
                مجیدامجدکی شاعری روح میں شعورکی روکی طرح ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جب کہ اکثرہم عصرشعراءنے رومانس کا سہارالیا۔شاعری میںملائمت پیداکرنے کی کوشش کی، ناآسودہ جذبوں کے تزکیہ (Catharsis )    کے نام پرجذبات واحساسات کوبرانگیختہ کیا۔
                مجیدامجدانساں کے ازلی وابدی تقاضوں ،رشتوں اورجذبوںکوسامنے رکھتا ہے۔ کائنات ،انساں اورخداکے رشتے کوسمجھ کران دریچوں تک رسائی کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ جوہماری کوتاہ فہمی کی وجہ سے بندپڑے ہیں۔
مجیدامجدکی ابتدائی شاعری’ نظم پابند‘کی شاعری ہے۔لیکن اس ابتدائی دورکی شاعری میں بھی وہ اٹھان ،تیور،لفظیات،علامات اورتراکیب نظر آتی ہیں۔جس سے مجید امجدکے فن کا اندازہ ہوتاہے۔کہ آنے والے وقت ،میں کس قدراہم شاعربن سکتا تھا۔پہلی نظم ’تبسم‘میں حسی پیکر تراشی سے تصوراتی پیکرتراشی کوواضح کرنا،خوب ہے۔
                ع                 تبسم آہ جس کا رقص مضراب ِرگِ جاں ہے
                رگ ِجاں کا اک تاراوررقص ِتبسم کا مضراب بنناسبحا ن اﷲ۔دامنِ آتشیں ، جیسی فکری مصوری کی مثال ’خوش گوارنظارے ‘میں ملتی ہے۔شاعرکی مناظرِفطرت سے محبت اور مناظرکو فکری پیکرتراشی کا روپ دینا،نظم بہ نظم منفردہوتاچلا جاتاہے۔شاعرایک مصور اور ماہر نقاش (Painter )طرح لفظوں سے زندہ منظرتخلیق کرتاجاتاہے،بلکہ ان کوزباں بھی دیتاہے۔لیکن اس پیکرتراشی میں نفسیاتی کیفیات اور لا شعوری کشمکش کے اظہارکوبھی زباںملتی ہے۔یہ پیکر تراشی فنی جمال کے ساتھ سائیکی کے اہم گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔'گاؤں' کا ایک منظر دیکھیے۔
                                برفاب کے دفینے اگلتا ہواکنواں
                                                یہ گھنگھرؤں کی تال پہ چلتاہواکنواں
برفاب کے دفینے اگلتاہواکنواں ،خوب صورت منظرہے۔نہ صرف مکمل تصویرآنکھوں کے سامنے آجاتی ہے،بلکہ گھنگھرؤں کی تال اورکنویں سے گاؤں کا منظراورگاؤں کے لوگ چلتے پھرتے ،سانس لیتے ،زندگی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ایک قدم اورآگے بڑھتے ہیں نظم 'حسن' سامنے آتی ہے۔علامہ اقبالؒ کی نظم ’ حقیقتِ حسن‘ لاشعورسے شعورپراترنے لگتی ہے۔ اقبالؒ نے نظم کا بنیادی خیال گوئٹے کی نظم سے لیا ہے۔لیکن اقبالؒ نے مشرقی روایات واقدارکی بھٹی سے گزارکراپنابنالیاہے۔اورنظم کے خیال کوزمیں سے آسماںتک پہنچا دیا ہے۔یہ مکالماتی نظم ہے حسن اورخالقِ حسن کی گفت گو ہے۔جوشباب کی سوگواری تکجاتاہے۔
                جب کہ مجیدامجدنے حسن کو’الحسن‘ بنا کرپیش کیاہے۔خیال باندازِدگرخوب صورت اورمکمل ہوگیاہے۔امام غزالی ؒنے ایک حدیث قدسی کا حوالہ دیاہے۔
  'کُنتُ کَنزًاً مَخفِیاً فَاَحبَبتُ اَن اُعرِفَ فَخَلَقتُ خَلقَ' (ترجمہ۔میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا مجھ کومحبت ہوئی کہ میں پہچاناجاؤں پس خلقت کوتخلیق کیا)الحسن کوجب محبت ہوئی توحسن کوتخلیق کیا۔
                حسنِ مجسّم وہی ہے،جوکائنات کی تخلیق ِاول ہے۔اگرحسن کہے کہ کون ومکاں کے ظاہر ہونے کا سبب میں ہوں ،توکیا نہیں کہہ سکتا ؟نظم’ حسن‘ تصوراتی ،تجریدی مصوری کا کمال ہے۔ لیکن شاعرنے ایک اورTouchبھی دیاہے۔ہرمصرع نفسیاتی سطح پرجذبے کی پیکر تراشی سے احساس کی زباں بن جاتاہے ۔
(Prefect expression of psycho abstract  art ) کائنات کوتبسم رنگیں ،بہارِخلدکونگاہ ِفردوسیں ،گھٹا مرے گیسوؤں کا پرتو،ہوامیرے جذبات کی تگ ودو، جمالِ گل میرابے وجہ ہنس پڑنا،نسیمِ صبح میراسانس لینا،عشق احساس ِ بےخودانہ اور زندگی کوجذبِ والہانہ جیسی تراکیب سے بیان کرنا،نہ صرف حسی پیکرتراشی سے مددلے کرفکری پیکرتراشی کے حسن میں اضافہ کیاگیاہے۔بلکہ حسن کی ہرادا کوایک نیا رنگ دے کراحساس کوزباں دی گئی ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ یہ نظم ۱۹۳۵ءمیں لکھی گئی۔احساس ِبےخودانہ اورجذبِ والہانہ جیسی تصوراتی مصوری کی بلندی تک مجیدامجداپنی ابتدائی شاعری میں پہنچ رہا ہے۔
                یہ کائنات میرااک تبسمِ رنگیں
                                                بہارِخلدمیری اک نگاہِ فردوسیں
                گھٹا؟نہیں یہ میرے گیسوؤں کا پرتوہے
                                                ہوا؟نہیں میرے جذبات کی تگ ودوہے
                جما لِ گل ،نہیں بے وجہ ہنس پڑاہوں میں
                                                 نسیمِ صبح ،نہیں سانس لے رہا ہوں میں
                یہ عشق توہے اک احسا سِ بیخودانہ میرا
                                                یہ زندگی توہے اک جذبِ والہانہ میرا
ایساتونہیں کہ اردوشاعری اس سے پہلے ایسی پیکرتراشی سے تہی تھی۔ بقول آل احمدسرور 'پیکرکی تخلیق بھی شاعرانہ عمل ہے۔کسی روح کو جب تک پیکرمیں نہ ڈھالا جائے گا، شاعرانہ عمل مکمل نہیں ہوگا'۔غالب ،انیس اوراقبال کی شاعری میںایسے کئی مناظرہیں۔لیکن یہ مجید امجد کی ابتدائی شاعری ہے(یہ بات دھیان میں رہے)۔اب بات کہاں سے کہاں تک آپہنچی ہے۔پہلی نظرمیں اس نظم کا بنیادی نقطہ حضرت انساں ہے۔کیونکہ انسان ہی کائنات کا مرکزومحور ہے۔ دوسری  نظرمیں کاسہ لیس زیست وجہِ وجودِکائنات کے درپرملتجی ومضمحل دکھائی دیتی ہے اور آخر'الحسن' خودخالق بن جاتاہے۔
ع تبسم آہ جس کا رقص مضرابِ رگِ جاں ہے

No comments: