Thursday 14 April 2016

قومی زبان اردو

قومی زبان اردو                                                    مظہرفریدفریدی
نوٹ: یہ مضمون درج ذیل عنوانات کے تحت بھی لکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔'اردو زبان قومی وحدت کا نشان'، 'اردو بحیثیت قومی زبان'، 'اردو صوبائی رابطے کی زبان'، 'قومی زبان کی اہمیت اور اس کا فروغ'، 'قومی ترقی میں اردو زبان کی اہمیت'،' ہم اور اردو زبان'۔
(زبان کیا ہوتی ہے؟۔۔۔زبان اور قوم کا ربط،۔۔۔زبان اور اظہار،۔۔۔زبان اور ملکی اتحاد۔۔۔زبان اور شخصیت(تشخص کی علامت)،اردو اور عربی اور فارسی کے رابطے، زندہ وطن میں روحِ  ثقافت اسی سے ہے/آزادیٔ وطن کی علامت اسی سے ہے
مضمون: ہندو پہلے دن سے مسلم تشخص کی علامت 'اردو' کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے زبان اردو رہے لیکن اس کا رسم الخط  دیو ناگری ہو جائے۔ کیوں کہ نسخ یا نستعلیق رسم الخط کا تعلق اسلام اور قرآن سے ہے۔ اور مسلمانوں کو اسلام اور قرآن سے دور کرنے کی کسی بھی سازش سے دشمن کیسے باز رہ سکتا تھا۔ لیکن ہمارے راہنماؤں نے اس سازش کو پہچان لیا اور ان کی یہ سازش ناکام ہوگئی)۔
بولنے والے اور گونگے والے میں کیا فرق ہے، ہم سب جانتے ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کی ایک زبان ہوتی ہے جو ان لوگوں کو دنیا میں ایک الگ پہچان عطا کرتی ہے۔ ہندوستان میں بے شمار مذہب اور اقوام تھیں اور ہیں۔ان کا مذہب الگ تھا، لیکن سب سے زیادہ لوگ ہندو مت، جین مت اور بدھ مت کو ماننے والے تھے۔ کم وبیش 480 زبانیں اب بھی زندہ حالت میں موجود ہیں۔ مسلمانوں کے آنے پر یہ ساری چیزیں بدلنے لگیں۔ عام رابطے کی زبان بھی بدلی، اور یہ ہندوی، ریختہ، اردو معلیٰ سے اردو کے سفر تک پہنچی۔ لیکن مسلمانوں کی کتاب یعنی قرآن چوں کہ عربی زبان میں ہے اس لیے لا شعوری طور پر رسم الخط وہی اپنایا گیا جو عربی تھا یا عربی سے قریب ترین تھا۔ اگرچہ اردو اور عربی کے حروف کی تعداد میں بہت فرق ہے۔
یوں لا شعور اور اظہار میں عربی اور فاسی کا علم اور حوالے ایک لازمی بات تھی۔ لیکن یہودی، نصرانی اور ہندو گٹھ جوڑ نے  اور انگریز قوم  کی مکارانہ چالوں نے مسلمانوں کو انگریزی سیکھنے پر مجبور کیا۔ اور کالے انگریز یا کاٹھے انگریز نے اپنی خوئے غلامی کے نتیجے میں انگریزی زبان کو قوم پر مسلط کر دیا۔  جس کا کچھ اچھا نتیجہ نہیں نکلا۔
اردو زبان برصغیر میں مسلم قوم کی آمد اور یہاں کے میل جول کا لازمی نتیجہ ہے۔ نہ یہ مسلمانوں کی شعوری کوشش سے پیدا ہوئی نہ ہی اس میں ہندو قوم کا کوئی کردار ہے۔ یہ برصغیر  میں عوامی رابطے کا بہت اہم ذریعہ بن کر ابھری۔ اور ایک ہزار سالہ ثقافت اور  تہذیبی نقوش کو اپنے اندر جذب کیا۔ اور عربی اور فارسی کے بعد سب سے زیادہ اسی زبان میں لکھا گیا۔ یون اب اردو زبان ہماری پہچان ہے اسے ختم کرنا در اصل ایک ہزار سال کے نقوش اور مسلم پہچان کو مٹانے کے برابر ہو گا۔

No comments: