Wednesday 5 October 2016

تعلیمی نصاب اور ہم

تعلیم:

فردِ اول کی اولیت اور عظمت کا دارو مدار اس بات پر قائم کیا گیا کہ ،اسے دولتِ علم سے مزین کرنے کے بعد ، اس کے 

علم کو مستحکم کیا گیا۔ پیغمبرِ آخر  کو جو پہلا پیام آیا وہ بھی علم(پڑھنے) کے حوالے سے تھا۔ لیکن اب چوں کہ اس میدان میں 

(شاید) کوئی گنجائش باقی نہیں رہی اس لیے ہمارے حکم ران اس طرف مائل بہ کرم نہیں ہیں۔ دراصل تعلیم، علیمی ادارے 

اور ان کی حالتِ زار اس ملک کا وہ چہرہ ہوتا ہے جو قوموں کا باطن یا ضمیر کہلاتا ہے۔ اور ہمارا کوئی باطن یا ضمیر ہے؟ تو 

اس کا پتہ  شوشل   میڈ یا پر درج کیا جائے!

اور اگر تعلیمی نظام لولا لنگڑا جیس تیسا چل رہا ہو ،اور وسائل کی کمی کے باوجود پوری قوم دل و جان سے دامے، درمے ، سخنے اس میں لگی ہو۔ تو  اگلا مرحلہ نصاب() کا ہوتا ہے۔ آزادی سے پہلے ہمارا کوئی نصاب تھا یا نہیں؟ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہم نے کیا کیا؟ آخر آزادی حاصل کرنے والوں کی کوئی تعلیمی ترجیحات تو رہی ہوں گی۔  اور  تعلیمی ترجیح  کی پہلی سیڑھی نصاب ہوا کرتا ہے۔ اور وطنِ عزیز میں کئی طرح کے تعلیمی نظام رائج ہیں۔ اور ہم پاکستانی یا مسلمان بننے یا ہونے کے علاوہ  دنیا کا ہر اہم نصاب اپنانے کی ذہنی مشقت میں مبتلا ہیں۔ لیکن نہ آج تک اپنا نصاب ترتیب دیا ہے؟ نہ فکر ہے؟ اور نہ ہی اس عذاب کا ادراک ہے کہ نصاب کیا ہوتا ہے؟ اور قوموں کی زندگی میں نصاب کیا کیا اہمیت ہوتی ہے؟ کاش میرے ملک اور میری  قوم کو  کوئی حکم ران ایک تعلیمی نصاب مہیا کر دے۔  ایک مسلمان قوم کا نصاب کیسا ہونا چاہیے۔ فرد کو اپنے مخالف سے سیکھنا لازم ہوتا ہے۔ اور قومیں اپنے حریف پر فقط طنز نہیں کیا کرتیں۔ بلکہ اس کی قومی ترجیحات پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کیا کیا مسائل اور خرابیاں ہیں ،اہلِ  حَکَم کے علم میں (یقیناً) ہوں گی۔ علامہ محمد اقبالؒ،حکیم الامت، شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان( اسلام)، کیوں کہ ہمارا علامہ محمد اقبالؒ سے اب اتنا ہی ربط رہ گیا ہے؟ ، کا فرمان ہے:
طرزِ  کہن  پہ  اڑنا،  تعمیرِ نو سے ڈرنا

منزل یہی کٹھن ہے ،قوموں کی زندگی میں

No comments: