Saturday 30 June 2012

محبت(مظہر فرید فریدی)
بتاؤ تو کبھی مجھ کو ،تمھیں  مجھ سے محبت ہے،
تمھیں میری ضرورت ہے
محبت اورضرورت میں ،مگر اک فرق ہوتاہے
ضرورت تو فقط اک عارضی شےہے
ضرورت بڑھ بھی سکتی ہے
ضرورت کم بھی ہوتی ہے
محبت تو محبت ہے ،محبت ہوتی ہے یا  پھرنہیں ہوتی
محبت میں زیدوکم کا،کوئی خطرہ نہیں ہوتا
محبت ہوبھی سکتی ہے،
محبت اورنفرت میں  کوئی دوری نہیں ہوتی
محبت میں بھی شدت ہے،نفرت میں بھی شدت ہے
یہ وہ جذبہ ہے جس کے آگے بند نہیں ہوتا
محبت جب بھی ہوتی ہے ،اپنی تند فطرت میں
کسی خارج تعلق کو ،خاطرمیں نہیں لاتی
ضرورت کی ہر اک شے تودکانوں پر بھی ملتی ہے
ضرورت کی اک قیمت ہے،جوقیمت دے ضرورت لے
محبت بک نہیں سکتی،محبت جھک نہیں سکتی
مگرایسابھی ہوتاہے کہ یہ مجبورہوتی ہے
محبت میں مگراک باہمی تکریم ہوتی ہے
دیکھو!سنو!ذراسی بات پر یونہی پریشاں بھی نہیں ہوتے
محبت بکتے دیکھی ہے ،تم نے،بازاروں،چوراہوں  پر!
محبت بکتے دیکھی ہے!حسیں باغوں، عالی شاں مکانوں میں!
ارے پگلی!محبت وہ نہیں ہوتی؟
کسی بے حس  ضرورت کی روح نیلام  ہوتی ہے
ضرورت بھی توزندگی کا اک لازم فریضہ ہے
تمھیں معلوم کیا ؟کبھی تم نے، کسی ماہی کوکبھی بے آب دیکھاہے!
جواپنی  روح کابے گوروکفن لاشہ
اپنے بدن کے بےجان کندھوں پر اٹھائے ،آوارہ پھرتی ہے
اس کے  جسد کا ڈھانچہ،اس کی روح گھسیٹے پھرتی ہے
محبت پھر بھی کرتی ہے
ننھے پھولوں، مسکراتی تتلیوں کے پروں سے وہ
محبت پھربھی کرتی ہے،اپنے جسم کے بوسیدہ،فرسودہ تقاضوں سے
محبت پھربھی کرتی ہے،اپنے تسلسل کے آخری حوالوں سے
محبت پھر بھی کرتی ہے،مگردعویٰ نہیں کرتی
اسے اک آس ہوتی ہے
کہ اس کی محبت کو شاید سمجھ لیاجائے
محبت اس کو کہتے ہیں،
تمھیں اک فرق کرناہے
اپنی اورمیری محبت کا
اب اک فیصلہ کرلو
فقط ہم سچ ہی بولیں گے
بتاؤ توذراتم بھی!
تمھیں مجھ سے محبت ہے،تمھیں میری ضرورت ہے!




No comments: