Saturday 30 June 2012

ڈاکٹر شاہد کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


از مظہرفریدی
صادق  آباد
پیارے شاہد سداسکھی رہو
السلام علیکم۔مدت مدید ہوئی نہ کوئی خط نہ فون،لگتاہے دنیا کی دلدل میں پھنس کر رہ گئے ہو۔اردگرد کاغذی پھولوں کاہجوم،دولت کی چمک دمک ، تعلقات عامہ کے دفتر،ایسے میں ایک دور افتادہ گاؤں کا ایک غریب ماسٹر تمھیں کیسے یاد آسکتاہے؟"لیکن کیاکریں ،ہوگئے ناچار جی سے ہم"ایک بات تم بھی مانو گے باوجود تمام وکمال  تعلقات کے جب بوجھل پلکوں اور نیند سے خمار آلود ہاتھوں سے فون اٹھا،سنا اور خواب آلود دماغ سے ایک بھولی بسری آواز ٹکرائی تو ،تم یہ مانو یا نہ مانو/مجھے یقیں ہے/کہ دل تمھارا ایک ایسی معصوم شوخی سے کھل اٹھا تھا/اورایسے بانکپن سے جھومتاتھا /کہ ایسی خوشیاں اب شہر والوں کی قسمت میں کم ہی آتی ہیں۔
لیکن یہ تو ایک فیز ہے۔جوں ہی تمھاری آنکھ کھلے گی،دماغ بے دار ہو گا۔وہی دنیا اور دنیا کے جھمیلے۔پھر کون؟کہاں؟دنیاکی جمع تفریق،فون ہو تو گیا تھا ،بات کرتو لی تھی،پھر دیکھا جائے گا؟اوراک طویل انتظار ۔
کوئی جب تمھارا ردے توڑ دے/تڑپتاہواجب کوئی چھوڑ دے /تب تم مرے پاس آنے پیے /یہ دیپک جلاہے جلاہی رہے گا/تمھارے لیے!
مگرتم ایساکرنا ان تمام باتوں کو بھول جانا۔کہ نہ کوئی فائدہ نہ کوئی نقصان،مان نہ مان میں ترامہمان۔آخر اک دن ہم بھی تو فسانہ ہونے والے ہیں۔اگرہوسکے تو دعاؤں میں یاد کرلینا۔
                                                                                                والسلام
مظہر

No comments: