Saturday 30 June 2012


خود کلامی،مظہرفریدی

یونہی ایک دن میں چلا جا رہا تا
خیالوں میں گم تھا
کہ میں ایک ایسے رستے پہ نکلا
حدِ نظر تک جو سیدھا چلا جا رہا تھا
اک اجنبی آواز نے مجھ کوچونکا دیاتھا
 پلٹ کر جو دیکھا تو فقط میں ہی میں تھا
یا ساتھ مرے تنہا تھی، سوچیں
بے ساختہ میرے منہ سے یہ نکلا
کہ کون ہو تم؟
یہ لہجے میں ایسی بے زاری کیوں ہے؟
مگر اب میں حیران و ششدر کھڑا تھا
 کس سے میں باتیں کیے جا رہا ہوں
اپنے ہی اندر سے آواز آئی۔۔۔۔یہ میں ہوں!؟
میں اپنے میں سے، محوِ سخن تھا
 شکستہ تفکر ،شکست خوردہ لہجے میں بولا
کل شام چوراہے پہ تو نے مجھے، بھیڑ میں حیران دیکھا تو ،پہلو بدل کر سنی ان سنی کر کے رستہ تھا بدلا
تو معلوم ہے تم کو واں کیا ہوا تھا ؟
لیکن تمھیں اس سے مطلب!
 اس سے اک روز پہلے بھی تو اک حادثہ ہو گیا تھا
تیرے ساتھ ہی تو گیا تھاوہاں میں
وہاں موقع پا کر ،نظریں بچائیں اور تو رفو تھا
مجھے ہوش آیا تو نظریں گھمائیں ،دائیں بائیں دیکھا
تو  کو ئی  نہیں تھا
مگر ایک قطرہ ٹپکا تو دیکھا مرا سارا جثہ ،پسینہ پسینہ!
ماتھے پہ ایسی ندامت کے قطرے ، کہ خود سے بھی نظریں ملانے کی طاقت نہیں تھی
یونہی بے خودی میں ،میں چلتا رہا تھا
ٹھوکرجوکھائی توکیا دیکھتا ہوں؟
ایک مرقد مرے سامنے ہے!؟
یہ تربت ہے کس کی ؟
ایک آواز ابھری،کیسے ہو راہی؟
تم کو یہاں تک یہ تربت ہے لائی
یہ آواز تربت سے میں سن رہا تھا
مجھے اتنی جلدی بھلا بھی دیا ہے!
پھر وہ تربت یوں گویا ہوئی تھی
تیرا پیدا ہونا،تیرا وہ بچپن،مجھے یاد ہے سب
لڑکپن کی باتیں
 جوانی میں تم نے قدم جب تھا رکھا
تو کیسے خیالات تھے دل میں آئے
وہ حسینوں کے جھرمٹ، وہ گیسو،وہ کاکل !
وہ شرابی نین بھی
اور ہونٹ جیسے یاقوت و مرجاں
تیرا بدن بھی بناوٹ میں ایسا !
اگر کوئی دیکھے تو دیکھے ہی جائے
مگر تم نے اپنے میں سے ،دھوکا یہ کھایا
کہ تو میں ہی میں تھا
 دولت کی دیوی تھی، تیرے چرن میں
طاقت کا یزداں بھی تجھ میں سمایا
وہ دن تمھاری بھی یادوں میں  ہو گا!
کہ تو جب اہرمن بننے لگا تھا
اک نئی، سیتا ،راون کہانی پنپنے لگی تھی
مگر یہ تو میں تھی ،بچا کر جو لائی تجھے سانحے سے
ایسے کئی واقعے تیری جبیں پر رقم ہیں
مگر ہر بار میں تجھ کو بچاتی رہی ہوں
مگر کون جانے؟ کہ انجام کیا ہو؟
کیا تو بے خبر ہے؟
تربت سے اپنی!
تیرا بدن یہ کٹیلا ،سجیلا
مٹی میں اک دن سونے کو بے تاب ہو گا
کیا زادِ سفر ہے؟
بنایا ہے گھر کیا؟
تعمیرکی  ہے نئے گھر کی تو نے،
 نئے گھر کی تعمیر میں ہے،کیا لگایا؟
بدن ہے جلایا پکانے میں اس کو
کتنی شبوں کو سحر سے ملایا
 ترےسارے سنگی تھے ،کیسے قماشی؟
اک لہر میرے بدن میں تھی دوڑی
اور خوف کے جال نے، تفکر ،تجسم کا حلقہ کیاتھا
 میں سر تا پاؤں خفی کپکپی سے لرزنے لگا تھا
آنکھیں کھلی تھیں ،مگر جیسے ویراں مکاں اپنی ویرانی سے دبکا ہوا ہو!
آغوش وا تھا مگر جیسے بیوہ کا جوڑا سارے میں بکھرا پڑا ہو!
ہونٹوں پہ پپڑی، کہ  صدیوں کی تہہ تھی، لبوں پر جمی تھی !
تجسسس تھا جامد ،کہ جیسے تخئیل کی ساری اڑانیں
پروں کو اتارے ،پڑی ہانپتی ہوں
میرا بدن تو کھڑا تھا مگر میں، ڈھے گیا تھا
دیکھا تو تربت تھی میری
میرا بدن تھا ،جو محوِ سخن تھا !۔

No comments: