Saturday 14 July 2012

اردو/اولیول/ابن انشا/مظہرفریدی


ابنِ انشا،شیرمحمدخاں
نام:شیرمحمد خاں                        تخلص:مایوس صحرائی۔"اور"قیصر                            
قلمی نام:ابنِ انشا
ولادت:۱۵جون/۱۹۲۷ء،تھلہ /تحصیل پھلور/ضلع لدھیانہ
وفات:۱۱جنوری ۱۹۷۸ء ،لندن
دور جدید کے عظیم مزاح نگار ”مشتاق احمد یوسفی “ ابن انشاءکے بارے میں لکھتے ہیں
بچھو کا کاٹا روتا ہے اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے انشاءجی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔
لٹے پٹے تقیسم ِ ہند کے داغ تمغوں کی طرح سینے پہ سجائے ،جو لوگ پاکستان آئے ان میں سے ایک ابن انشا بھی ہیں۔ خاک وخون کی ہولی سے کشرے تھے،انھیں ارضِ مقدس کی اہمیت کااندازہ تھا۔تمام عمر لوگوں کویہ بتانے اورسمجھانے میں گزر گئی"یہ وطن ہماراہے،ہم ہیں پاسباں اس کے"۔صحافت کے پیشے سے ابلاغ کی دنیامیں داخل ہوئے۔منفرد شاعر،البیلا اورچلبلا نثر نگار،ظنزومزاح کاہتھیارلیے 'نگری نگری پھرامسافر'۔کبھی  'ابن بطوطہ کے تعقب میں'نکل گیا،کبھی چین کو 'چلتے ہوتوچین کوچلیے' شاید چین کی بانسری کاسراغ ملے۔آخر جاپان سے واپسی  پرکہابھائی'دنیاگول ہے' ،لیکن پاکستان کے حالات نہ بدلے۔کبھی 'چاند نگر'۔کبھی 'اُس بستی کے اک کوچے میں" سیر کی،آخر تھاکر دنیاسے کوچ کرگیا۔
شاعری (چاند نگر 1955ء اس بستی کے اک کوچے میں 1976 ء اور دلِ وحشی 1985 ء) طنز و مزاح (اردو کی آخری کتاب 1971، خمارِ گندم 1980ء ) سفر نامے (چلتے ہو تو چین کو چلئے 1967، دنیا گول ہے 1972، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں 1974 ء اور نگری نگری پھرا مسافر 1989) تراجم (اندھا کنواں اور دیگر پر اسرار کہانیاں (ریڈ گرایلن پو کی کہانیاں) مجبور (چیخوف کے ناول کا ترجمہ) ۔ لاکھوں کا شہر (اوہنری کے افسانوں کا مجموعہ)۔ شہر پناہ (جان سٹین بک کا ناول THIS MOON IS DOWN ) چینی نظمیں ایڈ گرایلن پو کے افسانوں کے ترجمے، سانس کی پھانس، وہ بیضوی تصویر، چہ دلاور است دزدے، عطر فروش دوشیزہ کے قتل کا معمہ، ولہلم بش کے جرمن قصے کا ترجمہ (قصہ ایک کنوارے کا) بیرنن منش ہاوٴزن جرمن گپ باز کے کارناموں کا ترجمہ (کارنامے نواب تیس مار خان کے )  بچوں کا ادب (تارو اور تارو کے دوست۔ بچوں کی جاپانی کہانی کا اردو ترجمہ از کیکو مورایا۔ (شلجم کیسے اکھڑا بچوں کیلئے ایک پرانی روسی کہانی کا ترجمہ) طویل نظم، یہ بچہ کس کا بچہ ہے ؟ قصہ دْم کٹے چوہے کا بچوں کیلئے منظوم کہانی، میں دوڑتا ہی دوڑتا LOOK AT THIS CHILD (یہ بچہ کس کا بچہ ہے کا انگریزی ترجمہ، 1965ء کی جنگ سے متعلق مضامین کا مجموعہ، برف کی پوٹلی "اختر کی یاد میں" معروف صحافی محمد اختر کی وفات پر لکھے جانے والے مضامین اور تعزیت ناموں کا مجموعہ اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سندھی شاعری کا اردو  ترجمہ بھی آپ نے کیا۔
اردو کی آخری کتاب“محمد حسین آزاد کی” اردو کی پہلی کتاب “کی دلچسپ پیروڈی ہے ۔ پیروڈی یونانی لفظ پیروڈیا سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہے ”جوابی نغمہ“ کے ہیں۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کے اس حربے کو براہ راست انگریزی ادب سے لایا گیا ہے ۔ جس میں لفظی نقالی یا الفاظ کے ردو بدل سے کسی کلام یا تصنیف کی تضحیک کی جاتی ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں ایک کامیاب پیروڈی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ ابن انشاءنے پیروڈی کے فن کو سمجھ کر برتا ہے۔
آزاد کی اس کتاب پر ”پطرس بخاری“ چندچیزیں پہلے لکھ چکے تھے۔لیکن دونوں مزاح نگاروں کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ پطرس کا نقطہ نظر محض تفریحی ہے جبکہ ابن انشاءمعاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اُ ن کا مقصد اصلا ح ہے۔پوری کتاب نجمی کے ١٠١ کارٹونوں کے ساتھ نئی بہار دکھاتی ہے ۔ ان کارٹونوں کی وجہ سے کتاب کی دلچسپی اور دلکشی میں اضافہ ہوا ہے۔اس لئے خالد احمد یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:"اردو کی آخری کتاب کے مصنف دو ہیں ایک ابن انشاءاور دوسرے نجمی"۔
 بقول مشتا ق احمد یوسفی"بے شمار خوبصورت لیکن متروک اور بھولے بسرے الفاظ کوان کی رواں دواں نثر نے ایک نئی زندگی اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نیا ہی نہیں ناقابل تقلید بھی ہے"۔
بقول خالد اختر"ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے"۔
سحر انصاری صاحب کا کہنا ہے کہ"ابن انشاءکا مزاح لفظوں کا ہیر پھیر ، لطیفہ گوئی یا مضحک کرداروں کا رہین منت نہیں ہے بلکہ ان کا مزاح تخیل کی تخلیق ہے" ۔
ابن انشا عدم عدل وانصاف اورسماجی ناہمواریوں پر خسک آنسو بہاتے ہیں۔اپنی تحیریروں میں کڑھتے ہیں۔وہ وطن عزیز کو اس طرح مسائل میں گھرادیکھ کرخون روتے ہیں۔لیکن ایک عام شاعر یاصحافی کی بات کون سنتاہے؟
*    چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا ۔ مرید اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الٰہی تو ایسا دانا فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات سربراہ مملکت یعنی بادشاہ وغیر ہ رہنا چاہیے۔ اور تو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہلال جرات ملنا چاہیے ۔ بلکہ خود لے لینا چاہیے۔ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں لیکن اُن کو دین الٰہی نہیں کہتے۔
*    کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا ۔ بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی کولمبس تو مرگیا اس کا خمیازہ ہم لوگ بھگت رہے ہیں۔
*    ہمیں قائدعظم کا ممنون ہونا چاہیے کہ خود ہی مرگئے سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کے لئے ایک جگہ پیدا کردی ورنہ ہمیں بھی گاندھی جی کی طرح ان کو مارنا پڑتا۔
*    جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا محمود و آیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ۔ باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔
اردو شعر و ادب میں بے پناہ شہرت پانے والے ابنِ اِنشاء کا اصل نام شیر محمد تھا۔ آپ 15 جون 1927 ء کو ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کی تحصیل پھلور کے گاوٴں تھلہ کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام منشی خان تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوٴں کے سکول میں حاصل کی۔ گاوٴں سے کچھ فاصلے پر واقع اپرہ قصبہ کے مڈل سکول سے مڈل اور 1941ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔
اسلامیہ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا مگر تین مہینے کے مختصر قیام کے بعد وہ بوجوہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر لدھیانہ چلے گئے ۔ بعد از اں لدھیانہ سے انبالہ آ گئے اور ملٹری اکاوٴنٹس کے دفتر میں ملازمت اختیار کرلی لیکن جلد ہی یہ ملازمت بھی چھوڑ دی اور دلی چلے گئے ۔ اس دوران میں آپ نے ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد پرائیویٹ طور پر بی اے کا امتحان پاس کرلیا۔
ابنِ انشاء کا نام ان خوش نصیبوں میں شامل ہے جنھوں نے اپنے پہلے مجموعے ہی سے لازوال شہرت حاصل کی۔ انسانی جذبات کی نزاکتوں اور دل کے معاملات کی عکاسی میں ابنِ انشاء غزل میں ممتاز مقام پر دکھائی دیتے ہیں۔
کل چودھویں کی رات تھی شب بھررہاچرچاترا
کچھ نے کہ ایہ چاند ہے کچھ نے کہاچہرہ ترا
انشا جی اٹھواب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگاناکیا
وحشی کو سکوں سے کیامطلب ،جوگی کانگرمیں ٹھکانہ کیا
غزل کے علاوہ ان کی نظموں میں بھی وہ چاشنی اور جاذبیت ہے کہ پڑھنے یا سننے والا عش عش کر اْٹھتا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی مشہور  زمانہ نظمیں اس بستی کے  اِک کوچے میں، فروگزاشت، سب مایا ہے ، یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، سائے سے، جب عمر کی نقدی ختم ہوئی، اردو ادب میں ان کا نام زندہ رکھنے کیلئے بہت کافی ہیں۔
ہم آج بھی ذات پات کے اسی گھٹیانظام میں گرفتارہیں۔کبھی مذہبی گرہ بندی،کبھی علاقائی عداوت،کبھی لسانی بغض،کبھی برادی نظام اورکبھی سیاسی منافرت نہ جانے کب تک یہ بت ہماری آستینوں میں سانپ بن کر ہمیں ڈستے رہیں گے۔ابن انشا کہتے ہیں"ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے“ انگلستان میں کون رہتا ہی؟ ”انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے“ فرانس میں کون رہتا ہی؟ ”فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے“ یہ کونسا ملک ہی؟ ”یہ پاکستان ہے“ اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟ ”نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی....“ ”اس میں سندھی قوم رہتی ہے“، ”اس میں پنجابی قوم رہتی ہے“، ”اس میں بنگالی قوم رہتی ہے“، ”اس میں یہ قوم رہتی ہے“، ”اس میں وہ قوم رہتی ہے“، ”لیکن پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“، ”سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“،”بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“، ”پھر یہ الگ ملک کیوں بنایا تھا“۔ ”غلطی ہوئی معاف کردیجیے آئندہ نہیں بنائیں گے"۔
"کچھ قصہ دال چپاتی کا "بھی ہمارے معاشرتی رویوں پرطنزہے۔
استاد امانت علی خان کی پرسوز آواز نے ساری دنیا تک پہنچایا۔
 انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
 شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
 کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسیرا کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا۔
اس کے جواب میں قتیل شفائی(اورنگ زیب خاں) نے کہاتھا:
یہ کس نے کہاتم کوچ کرو،باتیں نہ بناؤ انشاجی
یہ شہر تمھارااپناہے،اسے چھوڑ نہ جاؤ انشاجی

No comments: