Thursday 12 July 2012

احمد شاہ پطرس بخاری،اولیول،فرسٹ لینگویج اردو،مظہرفریدی


احمد شاہ پطرس بخاری
سیّد احمد شاہ بخاری خالص مزاح  نگار  ہیں۔مزاح نگاری ادب کی مشکل ترین صنفِ سخن ہے۔
بقول یوسفی"وار ذرا اوچھا پڑے، یا بس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعموم طنز سے تعبیر کرتے ہیں، ورنہ مزاح ہاتھ آئے تو بت، نہ آئے تو خدا ہے۔"
لیکن پطرس بخاری نے صرف پچپن صفحے کی کتاب لکھ کر دینائے ادب میں ایسانام پایا کہ "خامہ انگشت بدنداں"ہے۔کل نو مضامیں ہیں اور پظرس صفِ اول کے ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ پطرس کی تحریروں میں واقفیت، حسنِ تعمیر، علمی ظرافت، زیرِ لب تبسم، شوخی، طنز (کاٹ)اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔
بقول آل احمد سرور:پطرس نے بہت تھوڑے مضامین لکھے، مگر پھر بھی ہماری چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سرمایہ لے کر بقائے دوام کے دربار میں بہت کم لوگ داخل ہوئے ہیں۔
طرزِ تحریر کی خصوصیات
اسلوب کی شگفتگی
پطرس بخاری  کااندازِ بیاں سادہ،زباں آساں،الفاظ سے کھیلنے(برتنے)کافن جانتے ہیں۔تحریرکے مطالعے سے معلوم ہوتاہے جیسے کسی بے تکلف دوست سے گفت گو کررہے ہوں۔ ۔
وہ اپنی کتاب مضامینِ پطرس کے دیباچہ میں لکھتے  ہیں:
اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔
مزاح وظرافت
پطرس خالصتاً مزاح ہے۔ اس میں طنز، تمسخر اور عامیانہ پن جیسی اصناف سے زبردستی ہنسانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تحریر میں مزاح وشوخی کی آفاقی خوبی ہے جو ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ آپ نے شرارت کے سلیقے کو برقرار رکھتے ہوئے ظرافت کے میدان کو وسیع تراور غیرمحدود کر دیا ہے۔
مثال کے طور پر وہ ہاسٹل میں پڑھنا میں لکھتے ہیں:
"اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔"
واقعہ نگاری
واقعہ نگاری پطرس کے نگارش کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب اور فقروں کی ترتیب کا حسن استعمال کرتے ہوئے مضحکہ خیز واقعات کی تصویرکشی ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔
تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ اب میری حالت تصور میں لائیں تو معلوم ہوگا جیسے کوئی عورت آٹاگوندھ رہی ہے۔
عکاسِ زندگی
مصنف نے معاشرے اور روزمرّہ زندگی کا بھرپورتجزیہ کیا ہے اور اِس جائزے سے انسانی زندگی کے نازک ، لطیف اور نرم و ملائم پہلوؤں پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی تحریروں میں پیش کئے گئے کرداروںاور واقعات کا تعلق کسی خاص معاشرے سے نہیں ، بلکہ آپ نے تمام تہذیبوں میں پائی جانے والی یکساں صفات کی عکاسی کی ہے۔ اسی لئے پطرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
پطرس نے اپنی ظرافت کا مواد زندوں سے لیا ہے۔
ہاسٹل میں پڑھنا دنیا کے تمام طالب علموں کی عمومیت اور ہمہ گیری کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔
تحریف نگاری (Parody)
احمد شاہ پطرس بخاری نے اپنی تحریروں میں تحریف نگاری کو نہایت مہارت سے پروکر ایک انوکھی خوبصورتی پیدا کر دی ہے۔ آپ نے اس مشکل فن سے شوخ اور ظریف رنگ پیدا کیا اور قارئین کے لئے ہنسنے کے دلکش مواقع پیدا کئے ہیں۔
مثال کے طور ایک مصنف نے لکھا ہے:
بچہ انگوٹھا چوس رہا ہے اور باپ اُسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہے۔
پطرس اس کو یوں بیان کرتے ہیں:
باپ انگوٹھا چوس رہا ہے، بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے۔
بعض مواقع پر آپ نے یہ کمال اشعار سے بھی ظاہر کیا ہے۔ وہ غالب کے شعر کی تحریف کچھ اس طرح کرتے ہیں :
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہو
اصل شعر کچھ اس طرح سے ہے
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
مغربی ثقافت کا رنگ
احمد شاہ بخاری چونکہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اس لئے اُن کا مغربی ادب کا بھرپور مطالعہ تھا۔ انہوں نے مغربی مزاح نگاری کا گہرا تجزیہ کیا اور اُس کی تمام تر خوبصورتی اور لطافتوںکو سمیٹ کر مشرقی رنگ میں ڈھالا۔ آپ کے مضامین میں جو ثقافتِ مغرب کا رنگ نظر آتا ہے وہ قاری کو ذرا بھی گراں نہیں گزرتا اور نہ کسی تحریر کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔
بقول پروفیسر تمکین:"پطرس نے انگریزی ادب کی روح کو ہندوستانی وجود دے کر اپنی نگارش میں ایک خاص لطف و نکھار اور رکھ رکھاؤ پیدا کر دیا ہے جو اپنی وضع کی ایک ہی چیز ہے۔"
کردار نگاری
پطرس کے طرزِ تحریر میں ایک اور خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ کرداروں کے ذریعے ایک لطف اندوز ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انسانی فکرونفسیات کے تمام پہلوؤں پر مکمل گرفت رکھتے ہوئے ،مضمون کو جملہ بہ جملہ تخلیق کرتے ہیں کہ قاری مزاح کے لطف میں گم ہوجاتاہے۔
"مرید پور کا پیر" میں پیر کا کردار،" ہاسٹل میں پڑنا "میں طالب علم کا کردار ،" مرحوم کی یاد میں "میں مرزا کاکردار، یہاں تک کہ "کتّے" میں کتوں کا کردار اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
اختصاروجامعیت
پطرس کے مختلف مضامین ایک کامل اور ماہر ادیب کے فن کی عکاسی کرتے ہیں۔اپنی بات کہنے پرمکمل عبور رکھتے ہیں او ر بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت مختصر ،جامع ور دل نشین انداز میں رقم کر دیتے ہیں۔حسنِ انتخاب ہی کی وجہ ہے ، سرمایہ ادب لافانی بن گیا۔مثال کے طور پر ”ہاسٹل میں پڑھنا“:
ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے، کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔
ناقدین کی آراء
مختلف نقاد پطرس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں پطرس کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔حکیم یوسف حسن پطرس کے بارے میں کہتے ہیں:اگر میں یہ کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہند وپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔
غلام مصطفی تبسم لکھتے ہیں:بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری ہے اور پھر اُسے بیان پر قدرت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا مزاح پڑھنے والوں کی دل میں شگفتگی پیدا کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر خورشید السلام کا بیان ہے کہ:اُن کے اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں انگریزی ادب کا اثر موجود ہے اور اندازِبیان میں تخیّل کا عمل فرحت اللہ بیگ سے زیادہ قریب ہے۔
حاصلِ تحریر
گلشنِ مزاح میں پطرس نے جو پھول کھلائے ، اُن کی خوشبو ،علم دوست لوگوں کے اذہان کو معطر کررہی ہے۔ چند مضامین میں مزاح نگاری کے جوجوہر دکھائے وہ باعثِ پہچان بنے ، اورمعراجِ شہرت تک لے گئے۔ آپ کا ہر مضمون قابلِ قدر ہے اور مزاح نگاری کی نئی نئی جہتوں سے روشناس کراتاہے۔ پطرس بخاری مزاح نگاری میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے ۔
تو لایا تبسم کے روشن سویرے
اے پطرس! بہت خوب ہیں کام تیرے
طنزومزاح
معاشرتی ناہمواریوں کا شائستہ(ادبی)ردِ عمل طنزومزاح کہلاتاہے۔
معاشرتی ناانصافیوں اورظلم وجبرکے خلاف عمومی ردَ عمل غصہ،جھنجھلاہٹ یامنفی جذبوں کاآئینہ دارہوتاہے۔اگراس میں اقداروروایات اورتہذیب وتمدن کی پاس داری روارکھی گئی ہوتوادب بن جاتاہے۔ادبی رویوں کوجنم دیتاہے۔ خاموش مبلغ ہوتاہے۔تہذیب نفس کرتاہے۔تربیتِ فرد کرتاہے۔لیکن ،کب اورکیسے 'یا'کیوں ہوتاہے؟یہ کائنات اورانسان کے درمیان ایک ردِ عمل ہے۔یہ واقعات اورمحسوسات کے درمیان جذبات کے اظہار کانام ہے۔'ایک خاص فکر کاعکاس اورزاویہ نگاہ کی نمائندگی کرتاہے۔اس لیے صنف اورہیت کی پابندی اس کے لیے سمِ قاتل ہے۔یہ آزادخیال اور آزادروہے'۔
سوال :سائیکل خریدنے سے پہلے اورسائیکل خریدنے کےبعد 'مرزاصاحب'کے متعلق مصنف کے کیا خیالات تھے؟
'جب دوستی پرانی ہوجائے توگفت گوکی ضرورت نہیں رہتی،خاموشی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔'
ظاہرہے کچھ زیادہ پسندیدہ بات نہیں تھی۔اورجب گفت گوہوئی آپ سے تم ،تم سے تو ہوئی۔مصنف اورمرزاصاحب کے درمیان جملوں کاتبسدلہ ہواتو'غالب'بے طرح یادآئے۔"ہراک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیاہے؟"
اورآکر جب موٹر کار خریدنے کاذکر کیاتومرزاصاحب بولے'روپے کابندوبست کیسے کروگے'۔یہ نکتہ مجھے سوجھانہ تھا۔ آخر گفت وشنیدکے بعدمرزانے مشورہ دیا"ایک بائیسکل لے لو"۔جواباً کہا،وہ روپے کامسئلہ توجوں کاتوں رہا۔
'کہنے لگے مفت'
میں نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔وہ کیسے؟
کہنے لگے،مفت ہی سمجھو۔۔۔آخر دوست سے قیمت لینابھی کہاں کی شرافت ہے۔البتہ تم احسان قبول کرناگوارانہ کروتواوربات ہے۔
یقین مانیے مجھ پرگھڑوں پانی پڑ گیا۔شرم کے مارے پسینہ پسینہ ہوگیا۔چودھویں صدی میں ایسی بے غرضی اورایثاربھلاکہاں دیکھنے میں آتاہے۔۔۔اپنی ندامت اورممنونیت کااظہارکن الفاظ میں کروں۔
"۔۔۔۔۔۔میں اس گستاخی اوردرشتی اوربے ادبی کی معافی مانگتاہوں۔۔۔جوگفت گومیں روارکھی۔۔۔میں اعتراف کرتاہوں۔۔۔میں ہمیشہ تم کوازحدکمینہ،مسکین،خودغرض اورعیارانسان سمجھتارہاہوں۔۔۔تم نے اپنی شرافت اوردوست پروری کاثبوت دے دیاہے۔۔۔مجھے معاف کردو۔"
مرزاصاحب نے کمالِ فن کاری سے ہراک بات ٹھنڈے دل ودماغ سے سنی،اوردیکھاتیرنشانے پربیٹھ گیاہے۔اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اوربے وقوف بنایا۔جیسے:
*    جیسے میں سوارہوا،ویسے تم سوارہوئے۔
*    تم حساس اتنے ہوکہ کسی کااحسان لیناگوارانہیں کرتے۔
*    میں تم سے قیمت تھوڑامانگتاہوں۔۔۔۔اول توقیمت لینانہیں چاہتا۔لیکن۔۔!
*    قیمت ویمت جانے دو۔لیکن میں جانتاہوں تم نہیں مانوگے۔
*    اورجب سائیکل دیکھی۔۔۔ توعجیب وغریب مشین پرنظر پڑی۔
پہلے تویقین نہیں آیا۔۔۔چارہ نہیں تھا،آخرسوارہوا۔یوں لگا کہ جیسے کوئی مردی ہڈیاں چٹخاکر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔اوربائیسکل کے حصوں سے مختلف سروں کانکلنا۔جیسے وہ بائیسکل کم اورموسیقی کااسکول زیادہ تھا۔ اورجہاں سے وہ گزر جاتا اس کااحوال بھی جانیے۔
*    "۔۔۔سڑک پرجوبھی نشان بن جاتاتھا اسکودیکھ کرایسامعلوم ہوتاتھاجیسے کوئی مخمورسانپ لہراکرنکل گیا ہے۔"
اب مخمورسانپ اورمتزاصاحب کی فطرت کاموازنہ آپ خودکرلیجیے۔آخر آخر ۔جب بائیسکل کے اسرارورموزظاہر ہوتے گئے۔حیرت انگیزخوشی۔تحیراورتجسس میں تبدیل ہوتاگیا۔پہلے ایک مستری پھردوسرامستری۔۔۔۔۔
*    بھئی صدیاں گزرگئیں لیکن اس بائیسکل کی خطانعاف ہونے میں نہیں آتی۔
*    مگرکوئی اس کولے کرکرے گاکیا؟
جب مصنف کومعلوم ہوگیا کہ کمالِ خوب صورتی کےان کے  ساتھ ایکحسین دھوکاہوچکاہے۔توسائیکل کاسوچ سوچ کرکیاہوتاتھا۔
"ورنہ میں پاگل ہو جاتا اور جُنون کی حالت میں پہلی حرکت مُجھ سے یہ سَرزد ہوتی کہ مِرزا کے مکان کے سامنے، بازار میں ایک جلسہ منعقد کرتا۔ جِس میں مِرزا کی مکاّری، بے ایمانی اور دغابازی پر ایک طویل تقریر کرتا۔ کُل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کو مِرزا کی ناپاک فطرت سے آگاہ کر دیتا اور اِس کے بعد ایک چِتا جلا کر اِس میں زندہ جل کر مر جاتا۔"
غرض انتہائی ہلکے پھلکے اورمزاح کے اندازمین پطرس نے معاشرے میں پائی جانے والی دورنگی،اورمطلب براری کے لیے برسوں کی دوستی کو قربان کردینا۔ان سب باتوں کو ہم تک پہنچایاہے۔
مِرزا کے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔
مِرزا بولے، ’’اندر آجاؤ۔‘‘
مَیں نے کہا ’’آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خُدا رسیدہ بزُرگ کے گھر میں وضُو کیے بغیر کیسے داخل ہو سکتا ہوں؟‘‘
مِرزا باہر تشریف لائے تو مَیں نے وُہ اوزار اُن کی خدمت میں پیش کیا جو اُنہوں نے بائیسکل کے ساتھ مُفت ہی مُجھ کو عنایت فرمایا تھا اور کہا۔
’’مِرزا صاحب! آپ ہی اِس اوزار سے شوق فرمایا کیجیے۔ میں اب اِس سے بے نیاز ہو چُکا ہُوں۔‘‘
گھر پُہنچ کر مَیں نے پھر علمِ کیمیا کی اُس کتاب کا مطالعہ شُروع کیا جو مَیں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔

No comments: