Thursday 12 July 2012

مرزافرحت اللہ بیگ،اولیول،فرسٹ لینگویج اردو


مرزا فرحت اللہ بیگ
مرزا فرحت اللہ بیگ نے آنکھ کھولی تو پرانی تہذیب دم توڑرہی تھی۔ سرسید کی تحریک زوروں پر تھی۔ ایسے میں مرزا صاحب نے محسوس کیا کہ پرانی تہذیب  اعلی قدروں کی امین ہے۔ اوراس کے بغیر اپنی پہچان مشکل ہو گی۔ فرحت اللہ بیگ اپنی تحریر کے مقاصد خود بھی بیان کرتے ہیں:
"مضامین لکھنے میں میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پرانے مضمون جو بزرگوں کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں تحریر کی صورت میں آجائیں تاکہ فراموش نہ کئے جاسکیں اور خوش مزاقی کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرت کا پرچار کیا جائے"۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کااندازِ بیان ظریفانہ ہے۔بقول محمود نظامی:ان کی زبان میں ایک مخصوص چٹخارہ، ایک مخصوص چاشنی ہے۔ ان کی بے ارادہ ظرافت کی آمیزش بھی ایک نمایاں خوبی ہے جو اس طرز میں خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔
طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات
دہلی کی ٹکسالی زبان
دہلوی ہونے کے ناطے  ان کی زبان میں ٹکسالی زبان کاچٹخارہ آگیا ہے۔ تمام نقاد اس بات پرمتفق ہیں کہ مزاح نگاری میں فرحت کی کامیابی کی ضامن ان کی دلکش زبان ہے۔
فرحت کی زبان نرم و نازک تھی جیسے ریشم، لطیف تھی جیسے شبنم، سبک تھی جیسے جیسے پھول کی کلی، شیریں تھی جیسے مصری کی ڈلی۔ (عبدالماجد دریاآبادی)
مختصر جملے، موزوں الفاظ، خوش آہنگ لب و لہجہ، محاورات کا برمحل استعمال، نامانوس الفاظ سے گریز یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے فرحت کی تحریر کا تانا بانا بنا ہے۔
محاورات کا برمحل استعمال
فرحت کا کوئی مضمون محاورہ بندی سے خالی نہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے محاورے بھی استعمال کرجاتے ہیں۔ لیکن سلیقے سے۔ نثر میں محاورات کا استعمال عیب نہیں۔ یہ زبان کی دلکشی اور چاشنی کا باعث ہوتے ہیں اور تہذیب کی علامت ہیں۔
جزئیات نگاری
مرزا صاحب جزئیات کے نباض ہیں۔ وہ جس موضوع کوبیان کرتے  ہیں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس سے مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ " دلی کا ایک یادگار مشاعرہ " میں انہوں نے مختلف اشخاص، ان کا لباس، ماحول، حلیہ، چال ڈھال غرض پوری تہذیب کا نقشہ کھینچا ہے۔"مردہ بدست زندہ میں انسانی نفسیات کانقشہ کھینچ کر رکھ دیاہے۔
لطیف ظرافت
مرزا صاحب طبع ظریف تھی ۔ قہقہے کا موقع کم ہی ملتا ہے البتہ زیرِ لب تبسم کی کیفیت ضرور ملتی ہے۔ فرحت واقعہ، کردار اور موازنہ وغیرہ سے تبسم کوتحریک دیتے ہیں۔ الفاظ و جملوں کو ایسی شگفتگی و دلکشی سے پیش کرتے ہیں کہ دل ودماغ ایک کیف میں ڈوب جاتا ہے اور ہونٹوں پر تبسم خود ہی پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اعلی مزاح نگاری کا اصل کمال یہی ہے۔ طنز کا عنصر بہت کم ہے۔ وہ خوش مزاقی اور ہلکی و لطیف ظرافت کے قائل تھے۔ ان کے مضامین میں سنجیدگی اور ظرافت کا فنکارانہ امتزاج پایا جاتا ہے البتہ ان کے مضمون نئی اور پرانی تہذیب کی ٹکر میں طنز کا پیرایہ صاف نظر آتا ہے لیکن اس میں زہر ناکی نہیں ۔ ان کی ظرافت تصنع اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے۔
مقصدیت
ہرتحریک کاایک مقصد ہوتاہے۔مرزاصاحب کی ظرافت نگاری بھی ایک مقصدکے تابع ہے۔وہ گزرے ہوئے واقعات کا ذکرکرتے ہوئے ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے نادر نمونے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلینا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو ادبی مضامین محض تأثرات ہوکر رہ جائیں گے لیکن ان کی ظرافت اور شگفتہ بیانی ان میں بھی دلکش رنگ بھر دیتی ہے۔ وہ واقعات پہ گہری نظر ڈالتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کی ثقالت ختم ہوجاتی ہے اور ایک زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔ ڈپٹی نزیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ انکی زبانی میں لکھتے ہیں:
"کہتے بھی جاتے تھے بھٔی· کیا مزے کا خربوزہ ہے۔ میاں کیا مزے کا آم ہے مگر بندۂ خدا کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا ذرا چکھ کر دیکھو یہ کیسا ہے۔ میں نے تو تہیہ کرلیا تھا کہ مولوی صاحب نے اگر جھوٹوں بھی کھانے کو پوچھا تو میں سچ مچ شریک ہوجاوں گا۔"
کہانی کا عنصر
مرزا صاحب کےااکثر مضامین کہانی کا رنگ لئے ہوئے ہیں۔ اندازِ بیان افسانوی ہے جسکی وجہ سے قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ انہیں داستان سرائی کا بھی بہت شوق تھا۔ بعض مضامین تو ایسے ہیں جو ایک کہانی کے تقاضوں کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں۔ ان کے کچھ ایسے مضامین درج ذیل ہیں:
نذیر احمد کی کہانی،مردہ بدست زندہ،دلی کا یادگار مشاعرہ ،دہلوی معاشرت کی عکاسی۔
فرحت کو عہدِ مغلیہ کے اخری دور کی معاشرت اور تمدن کا صحیح اور دلکش اور بہترین عکاس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ مزاجاً مشرقی تھے۔ انہوں نے دلی میں آنکھ کھولی اور وہیں پرورش پائی۔ چنانچہ دلی والوں کے لباس، طورطریقوں اور تہواروں کے سلسلے میں ان کا قلم خوب گل کاریاں کرتا ہے۔ انہوں نے ماضی کی عظمت کے قصے، تقاریب کا احوال لکھا اور قارئین سے خوب داد وصول کی۔
خاکہ نگاری
فرحت اللہ بیگ کے یہاں خاکہ نگاری یا شخصیت نگاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ ان کے تحریر کردہ خاکے نظیر احمد کی کہانی کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح ایک وصیت کی تکمیل میں اور دلی کا یادگار مشاعرہ بھی مختلف شخصیات کا جامع تصور پیش کرتے ہیں۔
مرزا فرحت اللہ بیگ نہ مدلل مداحی کرتے ہیں اور نہ ہی ممدوح کے بجائے خود کو نمایاں کرتے ہیں۔ وہ جس کا نقشہ کھینچتے ہیں اس کی خوبیوں، خامیوں، عادات و اطوار، لباس، ناک نقشہ غرض ہر چیز چلتی پھرتی تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ مضامینِ فرحت کے مصنف عظمت اللہ خان لکھتے ہیں:
"ہنسی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ ایک نفسی انبساط ہے۔ اگر دل و دماغ پر ایک انبساط کی کیفیت چھا جائے اور کبھی کبھی لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کھل جائے۔ ایک آدھ بار قارئین پھول کی طرح کھل کر ہنس پڑیں تو ایسا مضمون خوش مذاقی کا بہترین نمونہ ہوگا"۔
آراء
مرزا صاحب کے قلم سے سلاست اور فصاحت کا دامن بہت کم ہی چھوٹنے پاتا ہے۔ (عبدالقادر سروری(
مرزا فرحت اللہ بیگ کا بیان بہت سادہ و دل آویز ہے جس میں تصنع نام کو نہیں۔ (مولوی عبدالحق(
فرحت کی زبان شگفتہ فارسی آمیز ہے اور بعض اوقات تمسخر کچھ اس طرح ملا ہوتا ہے کہ جس میں پھول اور کانٹے نظر آئیں۔ (ڈاکٹر سید عبداللہ(
خوش مذاقی کی سڑک کے داغ بیل مجھ جیسے گمنام شخص کے ہاتھوں ڈلوائی گئی۔ (مرزا فرحت اللہ بیگ(
حرفِ آخر
فرحت اللہ بیگ کا تحریریں ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے نوادرات کو محفوظ کرنے کی پرخلوص کاوشیں ہیں اور یہی ان کا نئی نسل پر احسان ِعظیم ہے۔

No comments: