Saturday 14 July 2012

اردو/اولیول/اگرمذہب گیا/اکبرالہ آبادی/مظہرفریدی


اکبرحسین اکبرالہ آبادی
                                                اگرمذہب گیا
                                        ہم نشیں کہتاہے کچھ پروانہیں مذہب گیا
                                                میں یہ کہتاہوں کہ بھائی یہ گیاتو سب گیا
                                        ہے عقیدوں کااثراخلاقِ انساں پرضرور
                                                اس جگہ کیاچیزہوگی وہ اثرجب دب گیا
                                پیٹ میں کھانازباں پر کچھ مسائل ناتمام
                                                قوم کے معنی گئے اورروح کامطب گیا
                                اتحادِ معنوی ان میں برائے نام ہے
                                                دیکھتے ہواک گروہ اک راہ ہوکرکب گیا
                                نوکری کے باب میں وہ پالیسی قائم نہیں
                                                ہوش میں آؤوہ رنگِ روزورنگِ شب گیا
                                ہم یہی کہتے ہیں صاحب سوچ لوانجامِ کار
                                                دوسراپھرکیاٹھکاناہے اگرمذہب گیا
اکبرحسین اکبر الہ آبادی

اکبرحسین اکبر الہ آبادی بارہ(الہ آباد)میں ۱۸۴۵ء میں پیداہوئے۔۱۸۵۷ء کی جنگِ آزاددی کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ذاتی محنت اوراہلیت سے  تعلیمی استعداد میں اضافہ کیا۔ایسٹ انڈیا ریلوے پندرہ روپے ماہانہ سے نوکری شروع کی۔مسلسل محنت سے سیشن جج اورڈپٹی کلیکٹرکے عہدے تک ترقی کی۔
·        ۲۱مئی ۱۹۹۸ء میں کان بہادر کاخطاب ملا۔
·        ۲۱اکتوبر۱۹۱۰ء میں بیوی کاانتقال ہوگیا۔ابھی صدمے میں تھے کہ
·        ۵ جون ۱۹۱۳ میں جوان بیٹا ہاشم ۱۳ سال کی عمرمیں اللہ کوپیاراہوگیا۔
·        آخریہ چراغ ۹ ستمبر۱۹۲۱ء  کوہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔(ان کے فکرکی روشنی ابھی تک تابندہ ہے)۔
·        زبانِ خلق نےانھیں "لسانُ العصر " کانام دیا۔
علامہ محمد اقبالؒ  بھی ان کابےحداحترام کیاکرتے تھے، علامہ اقبالؒ نے انھیں ایک خط میں لکھاکہ"میں آپ کو  اپنا پیرومرشد مانتا ہوں"۔
 اکبرحسین اکبر الہ آبادی نے ہر رنگ کی شاعری کی۔غزل بھی کہی۔رنگ دیکھیے!
ہنگامہ ہے کیوں برپا،تھوڑ ی سی جوپی لی ہے
ڈاکا تونہیں ڈالا،چوری تونہیں کی ہے
سورج کولگے دھبہ قدرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کوکہیں کافراللہ کی مرضی ہے
لیکن ان کی شہرت طنزیہ  اورظریفانہ شاعری کی وجہ سے ہے۔اکبر مغربیت  کے کھوکھے پن  کوجانتے تھے۔ان کی بیمار تہذیب ان کے سامنے تھیں۔اس لیے مغربی تہذیب وتمدن کے مخالف تھے۔
پرانی اور نئی  تہذیب میں بس فرق اتناہے
اسے کشتی نہیں ملتی،اسے ساحل نہیں ملتا
انگریز برِ عظیم میں تاجر بن کرآئے تھے اورمکرفریب سے تاج وربن بیٹھے۔ان کے اپنے مقاصد ،اپنا کلچر،اپنانظامِ تعلیم اوراپناحکومت کرنے کانداز تھا۔انھوں نے برعظیم پرحکومت کرنے کے لیے ایک تحقیقتی کمیشن مقرر کیا۔لاڈ میکاؤلے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا کہ :
·        کوئی گداگرنہیں(غربت نہیں)۔
·        سوفی صد لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔      (ان پرحکومت کرنا مشکل ہے)
لہٰذا انگریز سامراج نے یہ انتہائی اقدام اٹھائے۔ان دونوں چیزوں کوتباہ کرنے کے لیے:
·        برعظیم کی زبان عربی اورفارسی(سرکاری)، بدل کرسرکاری زبان انگریزی مقررکی۔انگریزی نظامِ تعلیم جاری کردیا۔(مسلمانوں کانظامِ تعلیم تباہ ہوگیا)۔
·        جاگیرداروں اورصاحبِ حیثیت لوگوں کو بے عزت کرنے کے لیے جاگیریں چھین لیں۔ اہم لوگ قتل کوادیے یاجنگِ آزادی کے (بغاوت)کے الزام میں  پھانی پرلٹکادیا،یا قید وبندمیں ڈال دیا۔زندگی کے لالے پڑ گئے۔
قوم کم زورہوگئی۔مرکزیت نہ رہی،لوگ بکنے لگے۔"مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی"
شیخ مرحوم کاقول اب مجھے یاد آتاہے
دل بدل جائیں گے،تعلیم بدل جانے سے
انگریزتعلیم کے ساتھ ،لوگ انگریزکلچر سے متأثرہونے لگے۔ذہنی غلامی سے قوم سیلِ مغرب میں بہہ گئی۔نادان لوگ قدیم نظامِ تعلیم (عربی،فاسی)کوفرسودہسمجھنے لگے۔اوراپنے آباؤُ اجداد کے خلاف باتیں بنانے لگے۔انگریزتعلیم کاشہرہ ہواکیوں کہ اس سے انھیں روزگارملنے لگاتھا۔
ہم ایسی کل کتابیں کابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن پڑھ کے لڑکے باپ کوخبطی سمجھتے ہیں
انگریزنظامِ تعلیم کامقصد لائق اور ہنرمندلوگ پیداکرنانہیں تھا بل کہ کلرک پیداکرناتھا۔لہٰذا آرٹس کی تعلیم عام ہوئی اور سائنسی تعلیم کی ہواتک نہ لگنے دی گئی۔اکبر اس نظامِ تعلیم اور انگریز کے مقاصد کوخوب سمجھتے تھے۔
چاردن کی زندگی ہے، کوفت سے کیافائدہ
کھاڈبل روٹی، کلرکی کر،خوشی سے پھول جا
مغربی تعلیم نے مسلم اقدار پربھی حملہ کیا۔مسلم اقداراخلاس وتقویٰ کی امین تھیں۔اللہ اوررسولﷺ کی محبت،اخوت وبھائی چارہ،ہمدردی وایثار سے مالامال تھیں۔
جب کہ مغربی طوگان خودغرضی وظاہرداری کادل دادہ،مادہ پرستی کا پرچار کنے والا تھا۔دولت ہی سب سے بڑی قدرتھی۔بقولِ اکبر:
نہیں کچھ اس کی پرشش الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اکبرنے عروج وزوال دیکھا،سیاسی ومذہبی تحریکیں دیکھیں،قوم کانفاق سامنے تھا۔اکبر قدیم روایات سے محبت کرنے والے تھے۔اورماضی سے مستقبل سنوارناچاہتے ھتے۔وہ جدیدعہد کی تباہ کاریوں سے بھی آگاہ تھے۔مسلم معاشرے کے زوال کاشدیدغم بھی تھا۔
اسلام کی رونق کاکیاحال کہیں تم سے
کونسل میں بہت سید،مسجدمیں فقط جمن
حالات کی مجبوری ،مسلمانوں کے رویے،اورقوم کے درد نے اکبرکوظریفانہ پیرایہ استعمال کرنے پرمجبور کردیا،نیزانگریز کی ملازمت اورپابندی سے بچنے کابھی یہی طریقہ تھا۔
مغربی   رنگ وروش پرکیوں نہ آئیں قلوب
قوم ان کے ہاتھ میں ،تعلیم ان کے ہاتھ میں
اگر مذہب گیا(مکالماتی نظم)
اس نظم میں اکبر نے مکالماتی انداز میں ایک (فرضی) دوست(بقول شخصے سرسیداحمد خاں)سے گفت گو کی ہے۔
دراصل مغرب میں ایک تحریک چلی تھی کہ "اب مذہب کی ضرورت نہیں رہی"وجوہات جو بھی تھیں، اس سے  وہ تمام اساطیر (Myth) متأثر ہوئے جن کی بنیاد مذہب پر تھی۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ بات پھیلادی گئی کہ دنیا میں کوئی مذہب نہیں رہا۔اس کااگلاقدم تھا کہ خداموجود نہیں ہے(دنیامیں)۔اوراس کاآخری حملہ تھاکہ خدامرچکاہے۔(یہ انگریز تہذیب کاخلاصہ تھا)۔
·        ہم نشیں:کہتاہے،کچھ پروانہیں،مذہب گیا۔(اگر مذہب نہ رہے تواس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا)۔
·        شاعر:شاعر نے جواب دیا کہ اگرمذہب نہ رہاتوسب کچھ ختم ہوجائے گا۔اورمذہب کی جگہ کیاچیز ہوگی یعنی وہ کسن ساقانون ،یااصول ہوں گے جو کسی ملک وقوم  کوچلانے کے لیے استعمال ہوں گے۔
کیوں کہ شاعرکاخیال تھا کہ عقیدہ انسان کے اخلاق وکردارپراثراندازہوتاہے۔جو لوگ کم علمی کے باوجوداسلام پرگفت گوکرتے ہیں۔دنیاپرستی(مادہ پرستی) میں کھوکردین سے بے گانہ ہوجاتے ہیں۔تصنع اوردکھاواکرتے ہیں۔گرہوں میں تقسیم ہیں(مذہبی گرہ بندی،سیاسی گروہ بندی،لسانی گروہ بندی، علاقائی گروہ بندی،ذات پات کانظام وغیرہ)ملک ،قوم اوردین کی بدنامی کاسبب  بنا۔
مسلمان انگریزسامراج اورہندوبنیے کےہاتھوں کٹ پیلی بنے ہوئےتھے۔قرآنِ عظیم میں ہے۔جس کامفہوم ہے:
"یہودو نصاریٰ کبھی تم سے راضی نہیں ہوسکتے،یہاں تک کہ تم ان کی ملت میں شامل ہوجاؤ۔"
اکبرانگریزی تعلیم کے خلاف نہیں تھے ۔لیکن مغربی کلچر کے شتر بے مہاری کے خلاف ضرورتھے۔وہ ناداں مسلمان جوانگریزوں سے متأثرہوکرمغربی کلچر کواپنی روایات پر فوقیت دے رہے تھے ان پرتنقید کرتے ہیں۔اکبرمسلم تہذیب وتمدن کودنیاکابہترین معاشرتی نظام سمجھتے تھے۔
اس لیے انجام سے خبردارکررہے ہیں کہ اگرتم نے مذہب کی پاس داری نہیں کی توکچھ بھی نہیں بچے گا۔

No comments: