Thursday 12 July 2012

نیاقانون،منٹو،اولیول اردو،فرسٹ لینگویج اردو،مظہرفریدی


نیا قانُون

منگو کوچوان اپنے اڈّے میں بہت عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اُس کی تعلیمی حیثیّت صفر کے برابر تھی اور اُس نے کبھی اسکول کا مُنہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اِس کے باوجود اُسے دنیا بھرکی چیزوں کا علم تھا۔ اڈّے کے وُہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دُنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے، اُستاد منگو کی وسیع معلُومات سے اچھّی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب اُستاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چِھڑ جانے کی افوّاہ سُنی تھی تو اُس نے گاما چوہدری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبّرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی۔ ’’دیکھ لینا چوہدری! تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘
اور جب گاما چوہدری نے اُس سے یہ پُوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو اُستاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا‘‘ولایت میں اور کہاں‘‘؟ اسپین میں جنگ چھڑی اور ہر شخص کو اُس کا پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈّے پر جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقّہ پی رہے تھے، دِل ہی دِل میں اُستادمنگو کی بڑائی کااعتراف کر رہے تھے اور اُستاد منگو اُس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلا تے ہُوئے اپنی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔
اُسی روز شام کے قریب جب وُہ اڈّے میں آیا تو اُس کا چہرہ غیر معمولی طورپر تمتمایا ہُوا تھا۔ حقّے کادور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چِھڑی تو اُستاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اُتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکّرانہ لہجے میں کہا۔ ’’یہ کسی پیر کی بددُعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقُو چُھریاں چلتے رہتے ہیں اور مَیں نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دُکھایا تھا اور اُس درویش نے جل کر یہ بددُعا دی تھی، جا تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہُوا ہے ہندوستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حقّے کا دم لگا کر اپنی بات شُروع کی۔ ’’یہ کانگرسی ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ مَیں کہتا ہوں یہ لوگ ہزار سال بھی سرپٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہوگا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہوگی کہ انگریز چلا جائے اور کوئی اٹلی والا آجائے گایا وُہ روس والا جِس کی بابت مَیں نے سُنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے‘ لیکن ہندوستان سدا غلام رہے گا۔ یہاں یہ کہنا بُھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بددُعا بھی دی تھی کہ ہندوستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘
اُستاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اِس نفرت کا ایک سبب تو وُہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وُہ اُس کے ہندوستان پراپنا سِکّہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظُلم ڈھاتے ہیں مگر اُس کے تنفّر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اُسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وُہ اُس کے ساتھ ایسا سلُوک کرتے تھے گویاوہ ایک ذلیل کُتّا ہے۔ اِس کے علاوہ اُسے اُن کارنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وُہ گورے کے سُرخ و سپید چہرے کودیکھتا تو اُسے متلی سی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں؟ وہ کہا کرتا تھا کہ اِن کے لال جھرّیوں بھرے چہرے دیکھ کرمجھے وُہ لاش یاد آجاتی ہے جِس کے جسم پر سے اُوپر کی جِھلّی گَل گَل کر جھڑ رہی ہو!
جب کسی شرابی گورے سے اُس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اُس کی طبیعت مکدر رہتی اور شام کواڈّے میں آکر ماربل مارکہ سگریٹ پیتے یا حقّے کے کش لگاتے ہُوئے اُس گورے کو جی بھر کر سُنایا کرتا۔
۔۔۔۔۔۔ یہ موٹی سی گالی دینے کے بعد وُہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا۔ ’’آگ لینے آئے تھے، اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے اِن بندروں کی اولاد نے۔ رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم اِن کے باوا کے نوکر ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
اِس پر بھی اُس کا غُصّہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اُس کا کوئی ساتھی اُس کے پاس بیٹھا رہتا وُہ اپنے سینے کی آگ اُگلتا رہتا۔ ’’شکل دیکھتے ہونا تُم اِس کی۔۔۔جیسے کوڑھ ہو رہا ہے۔۔۔ بالکل مُردہ، ایک دھپّے کی مار اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بَک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔تیری جان کی قسم! پہلے پہل جی میں آئی کہ ملعُون کی کھوپڑی کے پرزے اُڑادوں۔ لیکن اِس خیال سے ٹل گیاکہ اِس مردُود کو مارنا اپنی ہتک ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوجاتا اور ناک کو خاکی قمیص کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بُڑبُڑانے لگ جاتا۔
’’قسم ہے بھگوان کی، اِن لاٹ صاحبوں کے ناز اُٹھاتے اُٹھاتے تنگ آگیا ہوں۔ جب کبھی اِن کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں رگوں میں خُون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانُون وانون بنے تو اِن لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم! جان میں جان آجائے۔‘‘
اورجب ایک روز اُستاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور اُن کی گُفتگُو سے پتا چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اُس کی خُوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
وُہ مارواڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میںآئے تھے، گھر جاتے ہُوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔
’’سُناہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانُون چلے گا۔۔۔ کیا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘
’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کُچھ بدل جائے گا اور ہندوستانیوں کو آزادی مِل جائے گی۔‘‘
کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانُون پاس ہوگا؟‘‘
یہ پُوچھنے کی بات ہے۔کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘
ان مارواڑیوں کی بات چیت اُستادمنگو کے دل میں ناقابلِ بیان خُوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اورچابک سے بہت بُری طرح پیٹا کرتا تھا مگر اُس روز بار بار پیچھے مُڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتااور اپنی بڑھتی ہُوئی مُونچھوں کے بال ایک اُنگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اُونچے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہُوئے بڑے پیار سے کہتا۔ چل بیٹا۔ چل بیٹا۔۔۔۔۔۔ ذرا ہوا سے باتیں کر کے دکھادے۔‘‘
مارواڑیوں کو اُن کے ٹھکانے پُہنچا کر اُس نے انار کلی میں دینو حلوائی کی دکان پرآدھ سیر دہی کی لسّی پی کر ایک ڈکار لی اور مُونچھوں کو مُنہ میں دبا کر اُن کو چُوستے ہُوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔ ‘‘ہت تیری ایسی کی تیسی‘‘۔
شام کو جب وُہ اڈّے کو لوٹا توخلافِ معمُول اُسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اُس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہوگیا۔ آج وُہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سُنانے والا تھا۔ بہت بڑی خبر اور اِس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت مجبُور ہو رہا تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وُہ چابک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈّے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اُس کے دماغ میں بڑے اچھّے خیالات آرہے تھے۔ نئے قانُون کے نفاذ کی خبر نے اُس کو ایک نئی دُنیا میں لاکھڑا کر دیا تھا۔وہ اِس نئے قانُون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندوستان میں نافذ ہونے والا تھا اپنے دماغ کی تمام بتّیاں روشن کر کے غور و فکر کر رہا تھا۔ اُس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانُون پاس ہوگا؟‘‘ باربار گُونج رہاتھا اور اُس کے تمام جسم میں مسّرت کی ایک لہردوڑ رہی تھی۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اُس نے اُن مارواڑیوں کو گالی دی ۔۔۔۔۔۔ ’’غریبوں کی کُٹھیا میں گُھسے ہوئے کھٹمل۔ نیا قانُون اُن کے لیے کھولتا ہُوا پانی ہوگا۔‘‘
وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اُس وقت اُس کے دل کو بہت ٹھنڈک پُہنچی جب وُہ خیال کرتا کہ گوروں، سفید چوہوں (وہ اُن کواِسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانُون کے آتے ہی ہمیشہ کے لیے بِلوں میں غائب ہو جائیں گی۔
جب نتّھو گنجا پگڑی بغل میں دبائے اڈّے میں داخل ہُوا تو اُستاد منگو بڑھ کر اُس سے مِلا اور اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا۔ لاہاتھ اِدھر۔۔۔ایسی خبر سُناؤں کہ جی خُوش ہوجائے۔ تیری اِس گنج کھوپڑی پر بال اُگ آئیں۔‘‘ یہ کہہ کر منگو نے بڑے۔۔۔ مزے لے لے کر نئے قانُون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں۔دورانِ گُفتگُو اُس نے کئی مرتبہ گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا۔ ’’تُو دیکھتا رہ کیا بنتا ہے۔ یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضُرور کر کے رہے گا۔‘‘
اُستادمنگو موجودہ سویت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سُن چکا تھا اور اُسے وہاں کے نئے قانُون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اِسی لیے اُس نے ’’روس والے بادشاہ‘‘ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا اور پہلی اپریل کو پُرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں وہ اُنہیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سُرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔اُستاد منگو نے اِس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ‘‘ اور پھر نئے قانُون کے سات خلط ملط کر دیا تھا۔ اِس کے علاوہ جب کبھی وُہ کسی سے سُنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے تو اِن تمام واقعات کو نئے قانُون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دِل ہی دِل میں بہت خُوش ہوتا تھا۔
ایک روز اُس کے تانگے میں دوبیر سٹر نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے اور وُہ خاموشی سے اُن کی باتیں سُن رہا تھا۔ اُن میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہاتھا۔
’’جدید آئین کا دوسرا حصّہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ ایسی فیڈریشن دُنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سُنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریے کے اعتبار سے بھی فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘
اُن بیرسٹروں کے درمیان جو گُفتگُو ہوئی، چونکہ اُس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے اِس لیے اُستاد منگو صرف اُوپر کے جُملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اُس نے خیال کیا یہ لوگ ہندستان میں نئے قانُون کی آمد کو بُرا سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ اُن کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اِس خیال کے زیرِ اثر اُس نے کئی مرتبہ اُن دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔ ’’ٹوڈی بچّے!‘‘
جب کبھی وُہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچّہ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کرکے بڑا خُوش ہوتا تھا کہ اُس نے اُس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وُہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچّے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیّت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز وُہ گورنمنٹ کالج کے تین طلباء کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جارہا تھا کہ اُس نے اُن تین لڑکوں کو آپس میں باتیں کرتے سُنا۔
’’نئے آئین نے میری اُمید بڑھا دی ہے اگر۔۔۔۔۔۔ صاحب اسمبلی کے ممبر ہوگئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضُرور مل جائے گی۔ ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی۔شاید اِسی گڑ بڑ میں ہمارے ہاتھ میں بھی کچھ آجائے۔‘‘
’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
’’وہ بیکار گریجویٹ جو مارے مارے پِھر رہے ہیں اُن میں کچھ تو کمی ہوگئی۔‘‘
اِس گُفتگُو نے اُستاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیّت اور بھی بڑھا دی۔ اور وُہ اُس کو ایسی ’’چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔ ’’نیا قانُون۔۔۔!‘‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا۔ ’’یعنی کوئی نئی چیز!‘‘ اور ہر بار اُس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وُہ نیا ساز آجاتا جو اُس نے دو برس ہُوئے چوہدری بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اِس ساز پر جب وُہ نیا تھا،جگہ جگہ لوہے کی نِکّل چڑھی ہُوئی کیلیں چمکتی تھیں۔ اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا، وُہ تو سونے کی طرح دھمکتا تھا۔ اِس لحاظ سے بھی ’’نئے قانُون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضُروری تھا۔
پہلی اپریل تک اُستاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اُس کے حق میں بہت کچھ سُنا۔مگر اس کے متعلق جو تصوّر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چُکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانُون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا اور اُس کو یقین تھا کہ اُس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی، اُن سے اُس کی آنکھوں کو ضُرور ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے اُستاد منگو اُٹھااور اصطبل میں جاکر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اُس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسُرور تھی۔ وُہ نئے قانُون کو دیکھنے والا تھا۔
ُس نے صبح کے سرد دُھندلکے میں کئی تنگ اور کُھلے بازاروں کا چکّر لگایا مگر اُسے ہر چیز پُرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پُرانی۔ اُس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اُس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پردوں سے بنی تھی اور اُس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہُوئی تھی اور سب چیزیں پُرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اُس نے نئے قانُون کی خوشی میں اکتّیس مارچ کو خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنے میں خریدی تھی۔
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز، کالی سٹرک اور اُس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہُوئے بجلی کے کھمبے، دُکانوں کے بورڈ، اُس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہُوئے گُھنگھروں کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی۔۔۔ اُن میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ظاہر ہے کوئی بھی نہیں، لیکن اُستاد منگو مایو س نہیں تھا۔
’’ابھی بہت سویرا ہے۔ دُکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں۔‘‘ اِس خیال سے اُسے تسکین تھی۔ اُس کے علاوہ وُہ یہ بھی سوچتا تھا۔ ’’ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد یہ کام شروع ہوتا ہے۔ اب اِس سے پہلے نئے قانُون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘
جب اُس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلباء کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے خُوش پوش تھے۔ مگر اُستاد منگو کونہ جانے اُن کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کُن جلوے کا نظّارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وُہ تھوڑی دیر کے بعد انار کلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دُکانیں کُھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمد و رفت بھی بڑھ گئی تھی۔ حلوائی کی دُکانوں پر گاہکوں کی خُوب بِھیڑ تھی۔ میناری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوتِ نظارے دے رہی تھیں اور بجلی کے تاروں پر کئی کبُوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر اُستاد منگو کے لیے اِن تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔۔۔ وہ نئے قانُون کو دیکھنا چاہتا تھا ٹھیک اِسی طرح جس طرح وُہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
جب اُستاد منگو کے گھر میں بچّہ ہونے والا تھا تو اُس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری میں گُزارے تھے۔ اُس کو یقین تھا کہ بچّہ کسی نہ کسی دن ضُرور پیدا ہوگا۔ مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔ وُہ چاہتا تھا کہ اپنے بچّے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اُس کے بعد وُہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اِسی غیر مغلوب خواہش کے زیرِ اثر اُس نے کئی مرتبہ اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اُس کے اُوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچّے کے متعلق کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اِس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا۔
’’تُو ہر وقت مُردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اُٹھ ذرا چل پِھر ، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ تُو سمجھتی ہے کہ اِس طرح لیٹے لیٹے بچّہ جن دے گی؟‘‘
اُستاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہُوا تھا۔ وُہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسّس تھا۔ اُس کی بیوی کی گنگا دائی اُس کی اِس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طورپر یہ کہا کرتی تھی۔ ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا تُم پیاس سے بے حال ہو رہے ہو۔‘‘
کچھ بھی ہو مگر اُستاد منگو نئے قانُون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا اُسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانُون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ اُستاد منگو ہمیشہ اُن کے جلوس کے ہنگاموں اور اُن کے گلے میں ڈالے ہُوئے پُھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پُھولوں سے لدا ہُوا ہوتا، اُستاد منگو کے نزدیک وُہ بڑا آدمی تھا اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بِھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اُس کی نگاہوں میں وُہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانُون کو وُہ اپنے ذہن کے اِسی ترازُو میں تولنا چاہتا تھا۔
انار کلی سے نکل کر وُہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دُکان کے پاس اُسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اُس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا اور دِل میں یہ خیال کیا۔ ’’چلو یہ بھی اچھّا ہُوا۔۔۔شاید چھاؤنی ہی میں سے نئے قانُون کا کچھ پتہ چل جائے۔‘‘
چھاؤنی پُہنچ کر اُستاد منگو نے سواری کو اُس کی منزلِ مقصود پر اُتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو اُنگلیوں میں دبا کر سُلگایا اور اگلی نشست کے گدّے پر بیٹھ گیا۔ جب اُستاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اُسے کسی بیتے ہُوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وُہ عام طور پر انگلی نشست چھوڑ پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اُس کا گھوڑا ہنہنانے کے بعد بڑی دھیمی چال چلنا شروع کر دیتا تھا۔ گویا اُسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چُھٹّی مل گئی ہے۔
گھوڑے کی چال اور اُستاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سُست تھی۔ جِس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا اُسی طرح اُستاد منگو کے ذہن میں نئے قانُون کے متعلق نئے قیاسیات داخل ہو رہے تھے۔
وُہ نئے قانُون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر مِلنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا اوراس قابلِ غور بات کو آئینِ جدیدکی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اِس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اُسے یوں معلُوم ہُوا جیسے کسی سواری نے اُسے بُلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اُسے سڑک کے اُس طرف دُور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک ’’گورا‘‘کھڑا نظر آیا جو اُسے ہاتھ سے بُلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اُستاد منگو کو گو روں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اُس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اُس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہوگئے۔ پہلے تو اُس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اُس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اُس کو خیال آیا ’’اِن کے پیسے چھوڑنا بھی بیوقوفی ہے۔ کلغی پر جو مُفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کر دئیے ہیں، اِس کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں۔ چلو چلتے ہیں۔‘‘
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگہ موڑ کر اُس نے گھوڑے کو چابک دِکھایا اور آنکھ جھپکتے میں وُہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اُس نے تانگہ ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پُوچھا۔
’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگتا ہے؟‘‘ اِس سوال میں بَلا کا طنزیہ انداز تھا۔ صاحب بہادر کہتے وقت اُس کا اُوپر کا مُونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کِھچ گیا اورپاس ہی گال کے اُس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصّے تک چلی آرہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہوگئی، گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اُس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھااور اپنے اندر اُس نے اِس ’’گورے‘‘ کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب ’’گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہَوا کا رُخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا، مُڑ کر تانگے کے پائیدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک اُستاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اُوپر کو اُڑ گئیں۔ اُستاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اُترنے والا تھا، اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا، گویا وہ اُس کے وجود کے ذرّے ذرّے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا تھا، گویا وُہ اُستاد منگو کے اِس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دُھواں نگلتے ہُوئے کہا۔ ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑ بڑ کرے گا؟‘‘ ’’وہی ہے۔‘‘ یہ لفظ اُستاد منگو کے ذہن میں پیدا ہُوئے اور اُس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔ ’’وہی ہے‘‘ اُس نے یہ لفظ اپنے مُنہ کے اندر ہی اندر دہرائے اور ساتھ ہی اُسے پُورا یقین ہوگیا کہ وُہ گورا جو اُس کے سامنے کھڑا تھا، وہی ہے جس سے پچھلے برس اُس کی جھڑپ ہُوئی تھی اور اُس خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جِس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی شراب تھی، اسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ اُستاد منگو نے گورے کا دماغ دُرست کر دیا ہوتا بلکہ اُس کے پرزے اُڑا دئیے ہوتے۔ مگر وُہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہوگیا۔ اُس کو معلوم تھا کہ اِس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گِرتا ہے۔
اُستاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانُون پر غور کرتے ہُوئے گورے سے کہا۔ ’’کہاں جانا مانگتا ہے؟‘‘
اُستاد منگو کے لہجے میں چابک جیسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا ’’ہیرا منڈی‘‘
’’کرایہ پانچ روپے ہوگا۔‘‘ اُستاد منگو کی مُونچھیں تھرتھرائیں۔
یہ سُن کر گوراحیران رہ گیا۔ وُہ چلّایا ’’پانچ روپے۔ کیا تُم۔۔۔‘‘
’’ہاں، ہاں پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہُوئے اُستاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔
’’کیوں جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟‘‘
اُستاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہوگیا۔
گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیشِ نظر رکھ کراُستاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کر چُکا تھا۔ وُہ خیال کر رہا تھا کہ اُس کی کھوپڑی پھرکھجلا رہی ہے۔ اِس حوصلہ افزا خیال کے زیرِ اثر وُہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے اُستاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہُوئی پتلی چھڑی اُستاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چُھوئی۔ اُس نے کھڑے کھڑے اُوپر سے پست قد گورے کو دیکھا۔ گویا وُہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اُسے پیس ڈالناچاہتا ہے۔ پھر اُس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح اُوپر کو اُٹھا اورچشمِ زدن میں گورے کی ٹھوڑی کے نیچے جم گیا۔ دھکّا دے کر اُس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اُتر کر اُسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔
ششدرو متحیّر گورے نے اِدھر اُدھر سمٹ کر اُستاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اُس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اُس کی آنکھوں سے شرارے برس ر ہے ہیں تو اُس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا۔ اُس کی چیخ و پُکار نے اُستاد منگو کی باہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وُہ گورے کو جی بھر کے پِیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا۔ ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچّہ؟‘‘
لوگ جمع ہوگئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مُشکل سے گورے کو اُستاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ اُستاد منگو اُن دوسپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اُس کی چوڑی چھاتی پُھولی ہُوئی سانس کی وجہ سے اُوپر نیچے ہو رہی تھی۔ مُنہ سے جھاگ بہہ رہاتھا اور اپنی مسکراتی ہُوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وُہ ہانپتی ہوئی آواز سے کہہ رہا تھا۔ ’’وہ دن گُزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اب نیا قانُون ہے میاں۔ نیا قانُون!‘‘
وہ بیچارہ گورا اپنے بِگڑے ہُوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کے مانند کبھی اُستاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجُوم کی طرف۔
اُستاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانُون، نیا قانُون‘‘ چِلّاتارہا مگر کسی نے ایک نہ سُنی۔’’نیا قانُون، نیا قانُون، کیا بَک رہے ہو۔ قانُون وہی ہے پُرانا!‘‘ اور اُس کو حوالات میں بندکر دیا گیا!

خلاصہ:
کوچوان منگو افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ وہ ایک محب وطن شہری ہے جو اپنے مرتبے کے لوگوں میں بہت دانشور سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سیاسی شعور بیدار ہے اور یہ احساس کہ وہ ایک غلام قوم کا فرد ہے اس کے دل میں نفرت کا سمندر بن چکا ہے
کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
منگو کوچوان اپنی سواریوں کی گفت
گو بڑے غور سے سنتا تھا اور اس سے جو کچھ اخذ کرتا وہ بطور خبر اپنے ساتھیوں کو سنادیا کرتا تھا۔ اسے انگریزوں سے شدید نفرت تھی۔
ایک دن ٹانگے کی سواریوں کی گفتگو سے اسے کسی نئے قانون یعنی انڈیا ایکٹ کے نفاذ کا علم ہوتا ہے اور اسے یہ سن کر بے انتہا خوشی محسوس ہوتی ہے کہ پہلی اپریل کو اس قانون کے نفاذ کے نتیجے میں وہ اور اس کا ملک آزاد ہوجائیں گے۔ اس خبر کے ساتھ اس کے ذہن میں ایک خوشگوار انقلاب کا تصور انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔ آخر یکم اپریل کا سورج اس کے تصورکے مطابق حریت کے متوالوں کے لئے نویدِ سحر لے کر طلوع ہوتا ہے۔ وہ اپنے حسین تصورات میں گم اپنے ٹانگے پر شہر والوں کی بدلی کیفیات دیکھنے کے لئے نکلتا ہے مگر اسے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ گھومتے گھومتے وہ ایک جگہ سواری کی تلاش میں رک جاتا ہے۔
ایک انگریز سواری اسے آواز دیتی ہے۔ قریب پہنچ کر وہ اسے پہنچان لیتا ہے کہ ایک بار پہلے بھی اس کی تکرار اس سے ہوچکی تھی۔ وہ اس سے بہت حقارت بھرے لہجے میں پوچھتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے۔ انگریز میں منگو کو پہنچان لیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ پچھلی مرتبہ کی طرح کرائے پر اعتراض تو نہیں کرے گا۔ انگریز کا فرعون صفت رویہ اس کے دل میں آگ لگا دیتا ہے۔ انگریز منگو کے اس رویے کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکا۔ اور اس نے منگو کو چھڑی کے اشارے سے تانگے سے نیچے اترنے کے لئے کہا۔ جواباً اس نے انگریز کو تانگے سے اتر کر بے تحاشا پیٹنا شروع کردیا۔
متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس پر دیوانوں کی سی حالت طاری ہے تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ اسی چیخ و پکار نے منگو کا کام اور تیز کردیا جو گورے کو جی بھر کر پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جارہا تھا:
پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں اب ہمارا را ج ہے بچہ۔
لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ قانون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس بات کا احساس اسے تب ہوا جب اسے ایک گورے کو پیٹنے کے جرم میں حوالات میں بندکر دیا گیا۔ راستے اور تھانے کے اندر وہ نیا قانون پکارتا رہا مگر کسی ایک نہ سنی۔

منٹو
متنازع فن کار(افسانہ نگار)۔اردو کابہترین نثار۔منتو ۔جوزندگی بھرزندگی کوآئینہ دیکھاتارہا۔زندگی کے وہ پہلو۔ جو ہمارے اردگردسڑانددیتے رہتے ہیں۔اس کی بھبھک سے فضااورماحول دونوں پراگندگی کاشکارہوتے ہیں۔اورہم اندر کے خوف سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہبدبوکامرکزکہاں ہے؟کیاہے؟کیوں ہے؟جیسے ہمارے دل مین چورہوتوآئینے کے سامنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں آئینہ اس چورکونہ دیکھ لے۔یاپھرآئینے کوڈھک دیتے ہیں۔منٹونے آئینے کاغلاف اٹھایا ہے۔ گرد جھاڑی ہے۔اب جوکچھ ہے۔آئینے میں ہے۔
جوآئینہ منٹوکے پاس ہے وہ محدب بھی ہے اورمقعربھی۔منٹومعمولی سے معمولی چیزکوجیسادکھاناچاہتاہے آئینہ ویسا دکھاتاہے۔یہ منٹوکاآئینہ ہے۔منٹوکاافسانہ ہے۔
بقول منٹو"اگرآپ ان افسانوں کوبرداشت نہیں کرسکتے تواس کامطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔میری تحریرمیں کوئی نقص نہیں۔۔۔موجودہ نظام کانقص ہے۔"
'نیاقانون 'کی طرح "ٹوبہ ٹیگ سنگھ" بھی تقسیم  ہندپرایک افسانہ  ہے۔
اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کاتبادلہ۔ان میں ایک پاگل بشن سنگھ بھی تھا۔ٹوبہ ٹیگ سنگھ اس کے لاشعورمیں جم گیا۔جب تبادلہ شروع ہوا۔درمیان کی ایک جگہ بھاگ کرجاکھڑاہوا۔آخراس کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔۔۔تاروں کے پیچھے بھارت تھا۔۔۔ادھرویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔۔۔درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پرجس کاکوئی نام نہیں تھا۔ٹوبہ ٹیگ سنگھ پڑاتھا۔
منٹواپنے آپ پر:
ü     میں تحریروتصنیف کے تمام آداب سے واقف ہوں۔میرے قلم سےٍبے ادبی شاذونادر ہی ہوسکتی ہے۔میں فحش نگارنہیں افسانہ نگارہوں۔
ü     میں تختۂ سیاہ پرکالی چاک سے نہین لکھتا۔سفیدچاک استعمال کرتاہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اوربھی زیادہ نمایاں ہوجائے۔
ü     مجھے نام نہاد نقادوں سے کوئی دل چسپی نہین۔(ان کی)نکتہ چینیاں صرف پتیاں نوچ کربکھیرسکتی ہیں۔انھیں جمع کرکے ایک سالم پھول نہیں بناسکتیں۔
منٹواورمغرب(مغربی استعماریت)
پیدائش 11 مئی 1912ء (سمبرالہ۔لدھیانہ)
وفات: 18جنوری 1955 ء
"افسانہ مجھے لکھتا ہے ۔"
منٹو نے یہ بہت بڑی بات کہی تھی۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری انسانی جدوجہد بیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی جسے اردو افسانے نے لکھا ۔
منٹو نے نہ صرف اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کو پیچھے چھوڑ دیا بلکہ اس کے بعد آنے والی نسل بھی اس کی کہانی کا جواب پیدا نہیں کر سکی۔ شاید اسی لیے  منٹو نے لکھا تھا ۔
"سعادت حسن مر جائے  گا مگر منٹو زندہ رہے گا۔ "
ایک نمائندہ افسانہ نیا قانون ہے۔ جس کو صرف ہندوستان کے حالات تک محدود کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ منگو کوچوان دراصل غلامی میں پسنے والی ہر قوم کا ترجمان ہے۔ جو کہ آزادی کی آزاد فضاء میں سانس لینے کا خواہش مند ہے۔ جس کے اپنے کچھ خواب ہیں۔ انسانیت کے خواب ، آزادی کے خواب ، امن کے خواب ، محبت کے خواب لیکن انگریز کی صورت میں موجود مغربی استعمار اس کے ان خوابوں کو کچل کر جینے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر رہا ہے۔
سعادت حسن منٹو اردو کا وہ پہلا ادیب ہے جس نے اپنی تحریروں کے ذریعے استعمار کی اس نئے روپ کی نشاندہی کی۔منٹو کے انکل سام کے نام لکھے گئے خطوط میں دراصل ’’انکل سام‘‘ اسی نئی استحصالی قوت کی علامت ہے۔ جس کے بہروپ نے آج تک دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ انکل سام کے نام تیسرا خط دیکھیے:
"آپ نے خیر کئی نیک کام کیے ہیں اور بدستور کیے جارہے ہیں آپ نے ہیروشیما کو صفحہ ہستی سے نابود کیا ناگاساکی کو دھوئیں اور گردوغبار میں تبدیل کر دیا اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جاپان میں لاکھوں امریکی بچے پیدا کیے"۔
چچا سام کے نام پانچواں خط :
"اگر آپ نے دنیا میں امن قائم کردیا تو دنیا کتنی چھوٹی ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہے کتنے ملک صفحہ ہستی سے نابود ہوں گے ۔۔۔۔۔ میری بھتیجی سکول میں پڑھتی ہے کل مجھ سے دنیا کا نقشہ بنانے کو کہہ رہی تھی میں نے اس سے کہا ۔ ابھی نہیں پہلے مجھے چچا جان سے بات کر لینے دو ۔ ان سے پوچھ لوں کون سا ملک رہے گا کون سا نہیں رہے گا۔ پھر بنا دوں گا"۔
آج دنیا میں موجود تمام باہمی جھگڑوں اور جنگوں کے پس پردہ انہی قوتوں کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے ۔ افریقہ اور ایشیاء کے کتنے ہی علاقائی مسائل کو ہوا دے کر انھوں نے اپنی اسلحے کی فروخت کو یقینی بنایا ۔ یعنی بنیادی انسانی حقوق کی علم بردار قوتوں نے خود انسانوں میں کس طرح سے موت تقسیم کی۔ اس کے بارے میں سعادت حسن منٹو انکل سام کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔
"آپ پاکستان اور ہندوستان میں جنگ شروع کرا دیجیے ۔ کوریا کی جنگ کے فائدے اس جنگ کے فائدوں کے سامنے ماند پڑ گئے تو میں آپ کا بھتیجا نہیں ۔ قبلہ ذرا سوچیے ، یہ جنگ کتنی منفعت بخش ہوگی آپ کے تمام اسلحہ ساز کارخانے ڈبل شفت میں کام کرنے لگیں گے۔ بھارت بھی آپ سے ہتھیار خریدے گا اور پاکستان بھی۔ آپ کی پانچوں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہے میں۔"
اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ایک بہت بڑا فنکار تھا ۔ وہ نہ صرف انسانی نفسیات کا نباض تھا بلکہ اعلیٰ سیاسی شعور بھی رکھتا تھاجس کی نظر صرف اپنے دور پر محیط نہیں تھی بلکہ وہ مستقبل میں بھی جھانک سکتا تھا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے یہ الفاظ آج کے دور میں لکھے گئے کسی باشعور فرد کی تحریر ہیں۔
"ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے اس پر قائم رہیے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجیے دونوں کو پرانے ہتھیار پھیجیے کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دئیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کئے تھے۔ آپ کا فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہے گے۔"
افسانہ نیاقانون(تجزیہ)
"دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ” محض“ اچھا ہے اور نہ ” محض“ برا۔ اس کے افسانے نہ خالصتاً حسن و جمال کے مظاہرہیں
اور نہ محض برائیوں کے حامل۔ اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور درس اور دور بین نظر، اس کی جرات آمیز حق گوئی، اس کی تلخ مصلحانہ طنز اور اس کی شگفتہ فقرہ بازی کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہیں: کبھی بہت برے، کبھی بہت اچھے"۔
افسا نہ کی تمہید افسانوی فن کی بڑی اہم دشوار اور افسانہ نگاری کے نقطہ نظر سے بڑے کام کی منزل ہے۔
نیا قانون اس طرح شروع ہوتا ہے :۔
منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ا س کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
لیکن ان گوناگوں کاموں کے علاوہ جو کام منٹو کے افسانہ کی ہر تمہید نے اپنے ذمہ لیا ہے یہ ہے کہ وہ قاری کے ذہن کو بے دار کرکے ، اس کے دل میں گدگدی پیدا کرکے یا اس کے ذہن میں آگے بڑھنے کی خواہش پیدا کرکے افسانہ پڑھ لینے پر آمادہ کر دے۔
منٹو نے اپنے افسانوی فن کی ان نزاکتوں کو پوری طرح محسوس کرکے عموماً اپنا فن منصب پورا کرنے کی طرف توجہ دی ہے۔ اس نے اس ”انجام“ سے قاری کے ذہن کو متأثر کرنے کی خدمت بھی انجام دی ہے اور افسانے کو افسانے کی حیثیت سے مکمل کرنے کا کام بھی لیا ہے۔ منٹو کے بعض افسانوں کے انجا م دیکھ کر اس کے فن کی خصوصیت کا اندازہ لگائیے۔
ان کاافسانہ ”نیا قانون“ ا س طرح ختم ہوتا ہے :۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر وہ نیاقانون ، نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
نیا قانون“ نیا قانون کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا۔
اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔
نیاقانون“ کے خاتمہ میں استاد منگو خاں کی اس جذباتی شدت کا ایسا متضاد ردعمل ہے جس سے پڑھنے والے کے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھتی ہے۔
نیا قانون“ کے استاد منگو خاں کے جذبات کی پہلی منزل تو وہ ہے جب وہ ہندوستان میں نافذ ہونے والے جدید آئین کی خبر سن کر خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اس کا انجام یہ ہے کہ نیا قانون نافذ ہو جانے کے بعد بھی اس ایک گورے سے لڑنے کے جرم میں حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔
اس آغاز اور انجام کے درمیانی حصوں کو اس طرح پُر کرنا افسانے کا انجام پڑھنے والے کے لیے حددرجہ کرب انگیز بن جائے۔ منٹو کے فنی احساس کی پیدا کی ہوئی ترتیب اورتنظیم کا مظہر ہے۔
منٹو کے پاس معمولی سے معمولی بات کے اظہار کے لیے ایک غیر معمولی انداز موجود ہے۔
مثال ”نیا قانون“ کی ہے۔ استاد منگو نئے قانون کی خبر سن کر آیا ہے اور یہ خبر کسی دوسرے تک پہنچانے کے لیے بے قرار ہے۔ اتنے میں نتھو گنجا اڈے پرآتا ہے۔ منگو بلند آواز میں اس سے کہتا ہے:
ہاتھ لاادھر، ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے۔ تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اگ آئیں۔
منگو نے جب یہ بات کہی کہ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے تو یہ معمولی سی بات تھی لیکن یہ بظاہر معمولی ہونے والی بات منگو کے نزدیک بہت اہم تھی۔ منٹو نے منگو کے مزاج، اس کی ذہنی سطح او ر گنجے نتھو کی مختلف خصوصیتوں کو جمع کرکے ایک ایسا جملہ لکھا جو منگو کی ذہنی کیفیت کی پوری ترجمانی کرتا ہے۔ منگو کی جذباتی شدت کے اظہار کے لیے منٹو نے جو جملہ واضح کیا ہے، وہ منٹو کا منفرد رنگ ہے۔ ایک چلتے ہوئے غیر سنجیدہ فقرے کو ایک بے حد اہم اور گہرے مفہوم کا حامل اور ترجمان بنانا منٹو کے جدت پسند اسلوب کی ایک خصوصیت ہے۔
منٹو نے اپنے افسانوں میں سیدھے سادھے روزمرہ کی بول چال کے جملوں سے ایسی مثالوں اور تشبیہوں سے جو دوسروں کی نظر میں بالکل حقیر اور بے حقیقت تھیں اورایسے چلتے ہوئے فقروں میں سے جن میں سنجیدگی و متانت کا شائبہ تک نہیں ہوتا، گہری سے گہری، سنجیدہ سے سنجیدہ اور موثر سے موثر بات کہنے کا کام لیا ہے اور ہر جگہ اس سادگی اور عمومیت کو تصور آفرین، فکر انگیز اور خیال افروز بنایا ہے۔ پھر بھی بہت کم مقامات ایسے ہیں جنھیں پڑھ کر قاری کے دل میں یہ بات آتی ہو کہ دوسروں کے فکر اور تخیل کی شمع جلانے والے منٹو نے یہ باتیں کہنے کے لیے اپنے ذہن پر زور دیا ہے ۔ منٹو نے جو کچھ کہا ہے اس میں آورد نام کو نہیں ایک ایسی آمد ہے جو شخصیت کے زوراور اس کے بے لوث خلوص کی مظہر ہے۔ منٹو کے پورے اسلوب پریہی بے تکلفی اور بے ساختگی چھائی ہوئی ہے۔ اس کا پرتو ہمیں منٹو کی ان تشبیہوں میں بھی نظر آتا ہے جو اس کے ترکش فن کے بڑے جیدافگن تیر ہیں۔
ایسے تیروں کی منٹو کے ترکش میں کوئی کمی نہیں۔ بے شمار تشبیہوں میں سے چند پر نظر ڈال کر اندازہ لگائیے کہ منٹو کا ہمہ رنگ اور ہمہ صفت فن ان تشبیہوں میں سے کب کب اور کس کس طرح کام لیتا ہے۔
استاد منگو نے فوجی گوروں کے چہرے کا جو تصور پیش کیا ہے وہ کس قدر مکروہ اور گھناؤنا ہے:۔
ان کے لا ل جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔“ (نیا قانون)
منٹو کے دل میں (یا منٹو کے کسی کردار کے دل میں) کسی چیز ، کسی واقعہ یا شخص کا جو تصور ہے اسے دوسرے کے ذہن تک جوں کا توں پوری طرح منتقل کرنے کے لیے منٹو کے پاس الفاظ فقروں اور جملوں کی کمی نہیں۔
اسی طرح ان کا ذہن تازہ مشکل سے مشکل ذہنی اور جذباتی تجربہ کو اس کی مکمل نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایسی تشبیہیں وضع کرلینے پر قادر ہے جن کی طرف کسی اور کا ذہن منتقل بھی نہیں ہوتا۔ یہی خصوصیت اوپر کی مثال میں ہے۔
منٹو جس طرح الفاظ اور جملوں کے ذریعہ محبت، نفرت ، حقارت، رشک، حسد ، خلوص، صداقت اور رحم و کرم کے احساسات میں قاری کو پوری طرح اپنا ہم نوا بنا سکتے ہیں اسی طرح تشبیہوں کی مدد سے اور اکثر بالکل معمولی معمولی تشبیہوں سے وہ ہر طرح کے احسا س اور جذبہ کو اس طرح جیتا جاگتا بناکر پڑھنے والے کے ذہن میں اتار دیتے تھے کہ وہ جذباتی طور پر اپنے آپ کو افسانہ نگار کے سپرد کر دیتا ہے۔
استاد منگو کی زبان سے ماروا ڑیوں کو غریبوں کی کٹیا میں گھسے ہوئے کھٹمل کہلوانے اور اس بات کو اس طرح مکمل کرنے میں کہ "نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا" منٹو کے فن کی یہ خصوصیت نمایاں ہے۔
"جب استاد منگو کی نگاہیں گورے کی آنکھوں سے چار ہوئیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں کی گولیاں خارج ہو ئیں اور آپس میں ٹکراکر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑگئیں۔" بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں کی تشبیہہ میں کوئی نئی بات نہیں لیکن اس کے برمحل صرف نے ایک شدید احساس کو ایک واضح اور مڑی ہوئی شکل دے دی ہے۔
ایسی تشبیہیں جن میں یوں بظاہر کوئی نیا پن نہ ہو، دوسروں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتیں لیکن منٹو کا دور رس تصور ہمیشہ دو چیزوں میں موزوں ترین مشابہت تلاش کرکے اسے بڑی برجستگی سے صرف کرتا ہے اور ایک معمولی اور بظاہر بے حقیقت سی تشبیہہ ایک مکمل مفہوم کی حامل اور ایک گہرے تجربہ کی عکاس بن جاتی ہے۔
بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں جیسی اور بہت سی سیدھی سادھی لیکن اپنے تاثر کے لحاظ سے اہم تشبیہیں منٹو کے ہر افسانہ میں قدم قدم پر ملتی ہیں۔
جمالِ فن اور منٹو
جمال کیاہے؟'یا'حسن وجمال کیاہے؟کیاظاہری خوب صورت جمال 'یا'حس وجمال کانام ہے۔اگرنہیں تووہ کیا چیزیا"خوبی" ہے جسے ہم حس وجمال سے تعبیرکرسکتے ہیں۔لاشعورکی مددسے روح میں اتر کر انسانی "کرب 'اور'اذیت"کے اصل مرکز ومحورتک  رسائی حاصل کرنا اوراسے اپنے جسم کی بھٹی میں کندن کرکے ایک "خوں کی بوند"میں تبدیل کردینا جوسرخ لال(موتی) بن کرچمکنے لگے۔جمال فن ہے۔اوریہی فن کی جمالیاتی دریافت کاعمل بھی ہے۔
بقول شکیل الرحمٰن" ٹریجیڈی منٹو کی تخلیقات کی روح ہے  لہٰذا ٹریجیڈی کی جمالیات ہی کے  ذریعہ منٹو کی بہتر دریافت ہو سکتی ہے۔”۔۔۔۔۔" ذاتی تجربہ ذاتی نہیں  رہ جاتا اجتماعی شعور  اور  اجتماعی زندگی کی بھی نمائندگی کر نے  لگتا ہے۔"
حیات کش مکشِ ممات میں ہے۔اورحیات ہے ایک خوب صورت نوجوان عورت کی اورلیڈی ڈاکٹر کی سہولت میسر نہیں! وقت نہیں!(ہم ٹھہرے وضح دار! ادھر زیست کی ناؤ ہے!اُدھرامیدکاکنارہ ہے!کیا کیاجائے؟آپ کاسادہ ساجواب ہوگا،ڈاکٹر ،ڈاکٹر ہوتاہے اوورمڑیض،صرف مریض ہوتاہے۔تو جناب والا!ادب ،ادب ہوتاہے اورادیب ادیب ہوتاہے۔اب جب سرجن نے نشتر لگایا تو اندر سے کیسامواد نکلا'یا'نکلے یہ کون جاناتاہے؟
ایک اور مثال دیکھیے ایک معصوم کلی کونوچ لیاگیا۔ہزارکوشش کے باوجود 'شگوفہ'پھوٹ پڑا۔اب کیاکیجیے گا؟کیااس شگوفے کو مسل دیا جائے۔ یاکچرے کے ڈبے میں ڈال کر،ہم ایک اورکچرابابا تخلیق کرناچاہیں گے۔
(غلام عباس کاحوالہ دیناہے؟)
توصاحب !منٹو ،صرف اتناقصور وار ہے۔کہ اس نے سب سے پہلے وہ شگوفہ دیکھا اوراس کااظہار(اعلان) کردیا۔اس کچرے کے ڈبے پرسب سے پہلے کرشن چندرکی نگاپڑی اور"کچرابابا"تخلیق ہوگیا۔کس کس کو الزام دیجیے گا۔بہتریہ ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں اورکج رویوں کے ساتھ، ہم اپنے آپ کو قبول کریں۔تب کہیں جا کر "خاک کے پردے سے انسان نکلنے "کی امید کی جا سکتی ہے۔
منٹو کا ایک شہ کار افسانہ ہے"ٹوبہ ٹیک سنگھ"۔
                ’’بٹوارے  کے  تین سال بعد پاکستان  اور  ہندوستان کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں  کی طرح پاگلوں  کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے، یعنی جو مسلمان پاگل ہندوستان کے  پاگل خانوں  میں  ہیں  انھیں  پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو  اور  سکھ پاکستان کے  پاگل خانوں  میں  ہیں  انھیں  ہندوستان کے  حوالے  کر دیا جائے۔‘‘
                ’’ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے  ہر روز باقاعدگی کے  ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا اس سے  جب اس کے  ایک دوست نے  پوچھا ’مولی ساب یہ پاکستان کیا ہوتا ہے ‘ تو اس نے  بڑے  غور و فکر کے  بعد جواب دیا۔‘‘
                ’’ہندوستان میں  ایک ایسی جگہ ہے  جہاں  استرے  بنتے  ہیں۔‘‘
                ’’ایک دن نہاتے  ہوئے  ایک مسلمان پاگل نے  ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے  بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا  اور  بے  ہوش ہو گیا۔‘‘
                ’’ایک پاگل تو پاکستان  اور  ہندوستان کے  چکر میں  کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ  اور  زیادہ پاگل ہو گیا، جھاڑو دیتے  دیتے  ایک دن درخت پر چڑھ گیا  اور  ٹہنی پر بیٹھ کر دو گھنٹے  مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان  اور  ہندوستان کے  نازک مسئلے  پر تھی، سپاہیوں  نے  اسے  نیچے  اُتر نے  کو کہا تو وہ  اور  اوپر چڑھ گیا، ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے  کہا۔
                ’’میں  ہندوستان میں  رہنا چاہتا ہوں  نہ پاکستان میں  میں  اسی درخت پر ہی رہوں  گا۔‘‘
                اسی پاگل خانے  میں  بشن سنگھ تھا جو پندرہ برس سے  یہیں  مقیم تھا سب اسے  ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کہتے  تھے، ہر وقت کھڑا رہتا، پاؤں  سوج گئے  تھے، پنڈلیاں  بھی پھول گئی تھیں  یہ سکھ پاگل ہر وقت بڑبڑاتا رہتا ’اوپڑی دی گڑگڑ دی، انیکس دی، بے  دھیانادی، منگ دی وال آف لالٹین ’کبھی‘ آف دی لالٹین کی جگہ آف دی پاکستان گورنمنٹ ہو جاتا  اور  بعد میں  آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہو گیا۔
                وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہنے  والا تھا، پاکستان ہندوستان قضیہ شروع ہوا تو اس نے  دوسرے  پاگلوں  سے  پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے  کہاں ؟
                تبادلے  کی تیاریاں  مکمل ہو چکی تھیں  اِدھر سے  اُدھر  اور  اُدھر سے  اِدھر آنے  والے  پاگل خانے  سے  ہندو سکھ پاگلوں  سے  بھری ہوئی لاریاں  پولیس کے  محافظ دستے  کے  ساتھ روانہ ہوئیں  واہگہ کے  باڈر پر طرفین کے  سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے  سے  ملے اور ابتدائی کار روائی ختم ہونے  کے  بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا، جب بشن سنگھ کی باری آئی  اور  واہگہ کے  اس پار افسر اس کا نام رجسٹر میں  درج کر نے  لگا تو اس نے  پوچھا ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کہاں  ہے ؟ پاکستان میں  یا ہندوستان میں ؟ افسر نے  کہا ’پاکستان میں۔‘‘
                یہ سن کر بشن سنگھ اُچھل کر ایک طرف ہٹا  اور  دوڑ کر اپنے  باقی ماندہ ساتھیوں  کے  پاس پہنچ گیا، اسے  بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان چلا گیا  اگر  نہیں  گیا تو اسے  فوراً وہاں  بھیج دیا جائے  گا، مگر وہ نہ مانا اس کو زبردستی دوسری طرف لے  جانے  کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں  ایک جگہ اس انداز میں  اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں  پر کھڑا ہو گیا جیسے  اب اسے  کوئی طاقت وہاں  سے  نہیں  ہلا سکے  گی۔ چونکہ بشن بے  ضر ر تھا اس لیے  مزید زبردستی نہ کی گئی اس کو وہیں  کھڑا رہنے  دیا گیا  اور  تبادلے  کا باقی کام ہوتا رہا۔
                سورج نکلنے  سے  پہلے  ساکت بشن سنگھ کے  حلق سے  ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ اِدھر اُدھر سے  کئی افسر دوڑے  آئے  دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں  پر کھڑا رہا تھا اوندھا منہ لیٹا ہے، اُدھر خاردار تاروں  کے  پیچھے  ہندوستان تھا۔۔۔ ادھر ویسے  ہی تاروں  کے  پیچھے  پاکستان۔۔۔ درمیان میں  زمین کے  اس ٹکڑے  پر جس کا کوئی نام نہیں  تھا ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا!
یہ افسانہ  ایسانقش ہے جو موت کی چیخ کے ساتھ سینۂ کائنات پر ثبت ہو گیاہے۔نہ صرف حقیقت کی سطح پر بلکہ خیال(تجرید) کی سطح پر بھی ایساان مول ،ان مٹ اورامرنقش "خامہ انگش بدنداں ہے ،اسے کیاکہیے"۔منٹو ایسا جادوگرہے جو نہ صرف الفاظ کو نیامفہوم اورمعانی عطاکرتا ہے۔بلکہ خیالات کو ایساجمالیاتی مظہر عطاکرتا ہے۔کہ عقل محوِ حیرت،سوچ گنگ ہوجاتی ہے۔فن کارکاکمال یہ ہے کہ معاشرے میں بکھرے حقائق کواس طرح پیش کرے کی وہ تخیل اورتصور سے زیادہ حسیں بن جائیں اورحقیقت کادامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے۔بلکہ وہ"افسانہ،کہانی،یا تخلیق "حقیقت کامعیار بن جائے۔ جوتحریرایساسحر رکھتی ہے۔شعور کودائرہ دردائرہ ایک گنبدمیں محبوس کر کے اپنے مطابق سوچنے پرمجبورکردیتی ہے۔ ادب کہلاتی ہےیاادب عالیہ کے نام یایادکی جاتی ہے یاآفاقی ادب کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔
منٹونےوقت کی بھٹی میں خود کوکندن کرکے ایسا'چراغ'تخلیق کیاہے۔جس سے 'تخلیق'کاجن برآمدہواہے۔اب منٹومیں ایساتخلیقی اپج ہے۔جواپنے باطن میں ایسے زاویے اورزائچے رکھتاہے جوابھی تک قاری اورنقادپرظاہرنہیں ہوئے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تمام کردار انتہائی کرب واذیت کاشکار ہونے کے باوجود ایسے مزاح کی تخلیق کرتے ہیں۔جیسے شاید اب تک کوئی نام نہیں دیاجاسکا۔زیادہ سے زیادہ زہرناک یاطنزِ ملیح کہاجاسکتاہے۔لیکن یہ طنز روح کی چولیں ہلادیتاہے۔ہلکے پھلکے انداز میں کرداروں کاہر کام،ہرجملہ معمول کی کاروائی محسوس ہوتاہے۔ لیکن جوں  ہی فیصلے کااطلاق ہوتاہے۔اور"ٹوبہ ٹیک سنگھ کولے جایاجاتاہے۔منظر خوناب ہوجاتاہے۔ایک 'پاگل'(جسے افسانے میں پاگل کہاگیاہے)،ایک دیوانہ اس تقسیم کوماننے پر تیارنہیں ہے۔اورزمیں کے ایک ایسے ٹکڑے پر بھاگ کھڑاہوتاہے۔جو نہ ہندوستان ہے،نہ پاکستان ہے۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئ نام نہیں تھا _
" اہم سوال یہ کہ اس پاگل کو یہ معلوم کیسے ہوا؟"
"حیرت ،تجسس،کرب کاایسا باکمال مالاپ واظہار منٹو کے اس فن پارے کو آفاقیت عطاکرتاہے۔"
خارجی حقائق ،کلیشے اور ہیولے بن کرادراکِ شعورپراترنے لگتے ہیں۔تخلیقی فن کار اپنے پارس قلم سے انھیں ان مول لال وجواہر میں بدل دیتاہے۔یہ لال وجواہردراصل وہ خون کی بوندیں ہیں جو احساس پر جم جاتی ہیں۔یوں غیرمعمومی تخلیق کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ہردورمیں اس کی نئی تعبیروتفہیم کی جاتی ہے۔ اورمنٹوکی تفہیم کا سلسلہ بھی ناختم ہونے والاہے۔
فن کار(منٹو)نے اس سے ایسے رنگ نکالے ہیں جوصد رنگ ہیں۔اک غیر محسوس سی اطمینان کی لہر کے ساتھ ساتھ روح ایک ایسے کرب میں بھی مبتلارہتی ہے۔جواچانک کسی عظیم المیہ کوجنم دیتاہے۔خواب اورخوف کی اس لازوال کسک کے ساتھ افسانہ اتتام پذیرہوتاہے۔
'ہم نے تودل جلاکے سرِعام رکھ دیا'۔

No comments: