Sunday 1 July 2012

وقت گرہ گیر(مظہرفریدی)


وقت گرہ گیر
وقت گرہ گیر نے ہر کس و نا کس کو پابندِ سلاسل کر رکھاہے۔کہ اچانک گردشِ دوراں سے ایک پتھرپھسل کرلوحِ کائنات پر پڑتا ہے۔چھناکے کی آواز دور تک گشتِ باز بن جاتی ہے۔اور پھر چھناکوں کا ایک برابر ،لا منتہی تسلسل ۔۔۔ ۔۔!لیکن کون اس صدا پر چونکے؟ناچار یہ گونج بن کر اپنے ہی وجود میں گم ہو جا تی ہے۔مگر ایک جھروکے سے آدم یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔
وہ مشیت کے اس راز پر خاموش اور اپنے آپ میں مگن ہے ۔نامعلوم وجود سے عدم تک کتنا وقت گزر گیا ہے ؟ وقت خود اپنے گزرنے سے بے خبر تھا ،کہ عذابِ  آگہی سے نا بلدتھا ۔انسان اس راز سے بے خبر بھی نہیں تھا ،کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ ہو کہ خود شناسی سے بڑھ کر ،کربِ امتحان آدمی کے لیے بڑھ کر کوئی اور ہے ۔لیکن کیا کریں اسی آگہی کے بغیر انساں کچھ نہیں ؟نامعلوم ان تخلیق کے لمحوں میں کیا دعا کی گئی؟ ،لیکن عدوِ جاں نے تو اسے گم راہ کرنے کا پیماں باندھاتھا ۔یہ پیماں، شکستِ وجود کی پیداوار تھا ۔خواہشوں کی نا کامی کا شاخسانہ تھا ۔ہوسِ اقتدار کی ابتدائی کڑی کا زہر تھا ۔لیکن آرزو کے پورا نہ ہونے پر ،شیشہ غرور چور ہوا تو ،جھوٹی انا آڑے آ گئی ،اور بے حیثیت ،کم فہم مدِ مقابل آ ٹھہرا ۔یہ باتیں شعورِ ذات کے ان ابتدائی لمحوں کی ہیں،جب سپنوں کا سہانا پن تازہ تھا ۔خوابوں کا بدن نازک تھا ۔معصوم مسکراہٹوں کا بانکپن، بانکپن تھا۔اورا مکاں ان تمام تخئیلات کو وادی تحیر میں ڈالنے والا۔حسن کی کوئی نظیر نہیں ،بیاں کیسے کریں ؟یوں حالتِ تخئیل اور تحیئر میں اسے اسمِ ذات اور علمِ کائنات کا امرت زہر پلایا گیا ۔

No comments: