Saturday 14 July 2012

اردو/اولیول/انارکلی/امتیازعلی تاج/مظہرفریدی


ڈرامہ انارکلی
اردوادب کالازوال ڈرامہ۔۔۔واقعات کوایساحقیقی رنگ دیا گیا کہ اسی حقیقت مان لیاگیا۔بقول امتیاز علی تاج"جہاں تک میں تحقیق کرسکاہوں تاریخی اعتبارسے یہ قصہ بے بنیادہے"۔
لیکن اس ڈرامے کے اندازواسلوب نے ایساجادوکیاکہ اکبرِ اعظم،کولوگ ایک ظالم وجابر بادشاہ کے کردار میں بدل گیا۔ یہ ڈرامہ شیکسپیئر کی المیہ (Tragedies)کہانیوں سے کسی طرح کم نہیں.اردو ادب ،اکبر اعظم جلالالدین،اورڈرامہ کی روایت پر ڈرامہ "انارکلی" کے ان مٹ نقوش ثبت ہیں۔
ع                            محبت معزہ ہے اورمعجزے عام نہیں ہوتے
'دم لیاتھانہ قیامت نے ہنوز'یعنی ابھی نادرہ کوانارکلی کامفہوم ہی سمجھ میں نہیں آیاتھاکہ اولے پڑناشروع ہوگئے۔شیخو(شہزادہ سلیم)نے محبت کاجال ڈالا۔جوسنہراسانپ بن کرانارکلی کولپٹ گیا۔'نہ جائے ماندن،نہ پائے رفتن'آخروہ سونے کاپنجرہ موت کی دیوارمیں تبدیل ہوگیا۔
ابھی توحسن شوخ بھہ نہ ہواتھا کہ عشقِ مدہوش نے ہم آغوش کرلیا۔یوں سادہ اورمعصوم 'انارکلی'شش محل  میں محوِ رقص ،رقصِ اجل کے سپردہوئی۔
اکبرکایہ کہنا!موت۔
داروغہ۔(آہستہ سے)کس کی۔
اکبر(بڑھتے ہوئے جوش سے)جس کے رقص نے ہندوستان کے تخت کولرزادیا۔جس کے نغمے نے ایوانِ شاہی میں شعلے بڑھکادیے۔جس کے حسن نے جگرگوشۂ مغلیہ کے حواس طھین لیے۔جس کی نظروں نے ہندوستان کے شہنشاہ ۔خود شیخوکے باپ کولوٹ لیا۔جس کی ترغیب نے خون میں کوں کے خلاف زہرملایا۔جس کی سرگوشیوں نے قوانین فطرت کوتوڑناچاہا۔لٹاہواباپ،تھکاہواشہنشاہ،ہاراہوافاتح اسے فناکردے گا۔۔۔۔۔۔!؟
اور
"۔۔۔۔۔لے جاؤ اس حسین فتنے کو،اس دل فریب قیامت کو،گاڑدو،زندہ گاڑ دو،دیوارمیں زندہ گاڑدو۔"
ہیجانی کیفیت ہے۔اورشکست خوردہ ذہن کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ ہیجانی،ضذباتی اورکسی حدتکاحمقانہ(ظالمانہ)بلندآہنگ تقریرکاایک ایک لفظ قاری کے دل میں انارکلی کے لیے رحم اوراکبرکے خلاف نفرت پیداکرتاہے۔جب انارکلی کوگھسیٹ کرزنداں میں لے جایاجاتاہے۔تواس کے منہ سے صرف لفظ'سلیم'اداہوتاہے۔
مگر سلیم کہاں؟حکم تکمیل ہوتاہے۔سلیم کے ہوش میں آنے کے بعد جب اصل حالات وواقعات شہنشاہ کومعلوم ہوتے ہیں تووہ نادم ہوتاہے۔پر"اب پچھتائے کیاہوت،جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"دل آرام فی النار اورسلیم دیوانوں جیسی حرکات کرتاہے۔ثریا شیخوکوبرابھلاکہتی ہے۔انارکلی کے بعد تجھے بھی جینے کاکوئی حق حاصل نہیں۔
یہاں آکرعملِ موت خود پشیماں ہے۔اکبرکانامراد قدموں سے لوٹنا،سلیم کاسے پہچاننے سے انکارکردینا،قاری کوایک طرح  کی آسودگی دیتاہے۔یہ امتیازعلی تاج کاکمالِ فن ہے کہ قاری وہی سوچتاہے۔جوتاج چاہتاہے۔وہے دیکھتاہے۔ جو اسے تاج دکھاناچاہتے ہیں۔یوں سوال درسوال لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا۔ڈرامہ میں کردار،مکالماتکویک جاکرنے والی چیز نفسیاتی کش مکش ہے۔جوکش مکش کرداروں اورمکالمات سے جنم لے کرایک منطقی نتیجہ کی طرف  سفرکرتی ہے۔ انسانی فکرکوبے دست وپاکردیتی ہے۔اسی پرتمام ڈرامے کاانحصار ہے۔اوراسی پر مصنف کاکمالِ فن منحصر ہوتا ہے۔اس فن میں امتیازعلی تاج بے تاج بادشاہ ہیں۔
 انارکلی اورفن ڈرامی نویسی
(جلال الدین کی خواب گاہ کامنظر)
ڈرامہ:
اہلِ یونان میں اورقدیم ہندوستان میں  بھی اہمیت کاحامل ہے۔ڈرامہ کے معنی ہیں کرکے دکھانا۔کردار،مکالمات اوران مین ربط کے لیے پلاٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔بقولِ ارسطو(بوطیقا)"ڈرامہ کی دواقسام ہیں۔
(۱)۔المیہ(Tragedy)                           (۲)طربیہ(Comedy)
ڈرامے کے عناصرِ ترکیبی:
 (۱)۔پلاٹ(Plot):کہانی ۔واقعات کومنظم ومنضبط کرنا۔ابتداء واقعات کا تسلسل۔اورنقطۂ عروج(Climax) (۲)۔کردار(Character):ڈرامے کی جان کردار ہوتے ہیں۔                              
(۳).مکالمات(Dialogue):گفت گو جس قدر جان دار ہوگی۔اثر اتناہی دونا ہوگا۔جدید ذرائع ابلاغ میں مکالمہ کے ساتھ ساتھ صوتی اثرات،پسِ پردہ موسیقی،منظر،کرداروں کا لباس وانداز،اشارے اوربعض اوقات خاموشی بھی۔
انارکلی ۔تاریخی پس منظر۔سلطنتِ مغلیہ اوراکبراعظم کادور۔شہزادہ سلیم (اکلوتاجانشیں)۔کنیز رقاصہ نادرہ(انارکلی)۔رقیبِ روسیاہ(دل آرام)باقی تمام معاون کرداروں نے ایسا پس منظر عطاکیاکہ یہ ڈرامہ یونانی المیہ ڈراموں کی فہرست میں شامل ہوجاتاہے۔اس پرامیازعلی تاج کااسلوب،کردار،مکالمات اسے اردوادب میں ادبِ عالیہ کاان مٹ نقش بنادیتی ہیں۔یوں انارکلی ارسطوکے مقرر کردہ معیارپرپورا اترتاہے۔اورکیتھارسس()کے ساتھ ساتھ سوالات  کانا ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوتاہے۔
شامل نصاب حصہ، ڈرامہ "انارکلی"
بارہ دری کامنظرہے۔چہل پہل اوررونق عروج پر ہے۔ڈرامے کامرکزی کردار 'دل آرام'جشن کے حواکے سے پوچھ رہی ہے۔چھوٹی بہن کی بیماری کی وجہ سے کچھ دن نہیں تھی۔
عنبراورمرواریداسے بتاتی ہیں کہ اکبراعظم نے نادرہ کو۔۔۔بہترین رقص پیش کرنے پر "انارکلی کالقب دیاہے۔ اپنا موتیوں کاہارانعام کیاہے۔اورتمام کنیزوں میں مرکزی حیثیت عطاکی ہے۔
دل آرام ۔۔۔اس سے پہلے اہم ترین کنیزاورتمام محل کی نگاہوں کامرکزتھی۔یہ صورتِ ھال معلوم کرکے 'انارکلی' سے بدظن ہوجاتی ہے۔اوررقبت کاجذبہ سراتھاتے ہی طوفان کاروپ دھارلیتاہے۔
شہزادہ سلیم کی انارکلی میں دل چسپی۔۔۔دل آرام کاانارکلی کواکبراعظم کی نگاہوں سے گرانے کا منصوبہ ۔۔۔اوراندرہی اندر۔۔۔ جوجذبہ سلیم سے اظہار نہ کرسکاتھا(وجہ ،بزدلی)حسداورنفرت سے بدل جاتاہے۔اب دل آرام مریضِ محبت سے مریض بغض وعنادبن جاتی ہے۔
(یہیں سے کہانی نیاموڑ لیتی ہے)
کہانی کے المیہ کامرکزی کردار بھی یہی ہے۔کہانی کی دل چسپی کامرکزبھی یہی ہے۔یوں دل آرام ایک لافانی (منفی کردار۔۔۔رقیب)کرداربن کے ابھرتی ہے۔وہ پورے ڈرامے 'انارکلی' پر ایک آسیب کی طرح مسلط ہے۔
دل آرام انارکلی کونیچادکھانے اوراپناکھویاہوامقام پانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھاتی ہے۔اوراس بات پرعمل کرتی ہےکہ:"محبت اورجنگ میں ہر چیزجائزہوتی ہے"
محاذ قائم ہوتے ہین۔دل آرام،کنیزوں کالشکر،خواجہ سرا،داروغہ،تمام ہماشما اس کے دست وبازو ہیں۔
دوسر طرف محبت کی ماری "انارکلی" اورپروانۂ محبت شیخو(شہزادہ سلیم)ہے۔انارکلی کی چھوٹی بہن ثریا(انارکلی اورشیخو کی محبت کی امین اورپیام بر ہے) اوربختیار(شیخو کارازدارہے)۔پائیں باغ میں شیخواورانارکلی کی ملاقات ہوتی ہے۔دل آرام ، ٹوہ میں تھی دیکھ لیتی ہے۔انارکلی کودھمکاتی ہے۔راز کو طشت ازبام کرنے کااشارہ بھی کرتی ہے۔
انارکلی۔خوف زدہ آہو(ہرنی) کی طرح ثریاکوبتاتی ہے کہ انھیں دل آرام نے دیکھ لیاہے۔ظلِ الہٰی کاعتاب۔۔۔بیگمات کا غصہ اورآخر ذلت ورسوائی کی دردناک موت!؟
انارکلی خودکشی کاارادہ کرتی ہے۔ثریاگھبراجاتی ہے۔شیخو(شہزادہ سلیم)انارکلی کوتسلی دیتاہے۔اوروعدہ کرتاہے اگرشیخو بادشاہ بناتا اس کی ملکہ انارکلی ہوگی۔دل آرام یہ گفت گوسن لیتی ہے۔انارکلی کو طنزآمیز(جوزہرآلود ہوتاہے)مباک باد پیش کرتی ہے۔انارکلی شدتِ غم سے بے ہوش ہوجاتی ہے۔
شہزادہ سلیم اپنے رازدار بختیارسے مشورہ اورمددطلب کرتاہے۔بختیارشیخوکوانارکلی سے دست بردارہونے کامشورہ دیتاہے۔شہزادہ سلیم دل آرام کوبلاکر رازچھپانے کاحکم دیتاہے۔اوراسے یہ کہتاہے کہ جب ظلِ الہٰی کویہ معلوم ہوگاکہ دل آرام خود شہزادہ سلیم کی خاموش محبت میں گرفتار ہے توکیاہوگا؟دل آرام گواہ کی بات کرتی ہے۔بختیار سامنے آجاتاہے اورگواہ بن جاتاہے۔
دل آرام ۔۔۔کمالِ عیاری سے شہزادہ سلیم کے قدموں میں گرجاتی ہے۔
انارکلی خوف کی وجہ سے اپنے کمرے تک محدودہوجاتی ہے۔دل آرام انارکلی سے معافی مانگتی ہے لیکن انارکلی مطمٔن نہیں ہوتی۔اوراسے دل آرام کی چال سمجھتی ہے۔انارکلی کی ماں ،انارکلی کی ناسازیٔ طبیعت کابہانہ بناکردوسرے شہر جانے کی اجازت طلب کرتی ہے۔
اکبرِ اعظم ،شہزادہ سلیم کی لاابالی فطرت اوت جذباتِ جوانے سے زیادہ خوش نہیں ہے۔اکبرپریشان ہے۔ انارکلی کے رقص کی فرمائش کرتاہے۔انارکلی کی بیماری کاسن کراکبراسے دوسرے شہر جانے کی اجازت دے دیتاہے۔رانی جشنِ نوروز کا ذکر کرتی ہے۔اکبرانارکلی کو صرف رقص کے لیے مخصوص کرکے انتظام کسی اور کے سپردکرنے کاحکم دیتا ہے۔رانی انتظام دل آرام کے سپردکرتی ہے۔دل آرام کی پانچوں گھی میں(یہی رانی کی بہت بڑی غلطی کی)۔
دل آرام سازش کاجال بچھاتی ہے۔جشنِ نوروزکاہرمنظر،ہرعکس،ہرزاویہ ظلِ الہۃی کے سامنے ہوگا۔شہزادہ سلیم کا تخت،انارکلی کی رقص گاہ،حرکات وسکنات یہاں تک کہ آنکھوں کے اشارے ظلِ الہۃی کی نگاہوں سے چھپ نہ پائیں گے۔دل آرام اپنے مقصدمیں کام یاب ہوجاتی ہیں۔
انارکلی پراکبرِ اعظم کاعتاب قہربن جاتاہے۔انارکلی زنداں میں۔شیخو(شہزادہ سلیم) ایوان تک محدود۔اکبر اعظم سے ملنے کی کوشش پر ناکام۔رانی اکبرتک رسائی حاصل کرپاتی ہے۔لیکن اس وقت اکبر!جلال الدین اکبر!ظلِ الہٰی ہے۔اورباپ کہیں دور بہت دورہے۔رانی کی درخواست ٹھکرادی جاتی ہے۔
آخرثریا شہزادہ سلیم کوبڑھکاتی ہے۔سلیم شاہی جلال میں آجاتاہے۔بختیارکی کوشش سے شہزادہ سلیم کو،اناکلی سے ملنے کاموقع ملتاہے(یہ بھی چال کاحصہ ہے لیکن اس سے بختیار ناواقف ہے)۔
شہزادہ سلیم انارکلی کوبزورِبازولے جانے کی کوشش کرتاہے۔لیکن داروغہ کمالِ ہوشیاری سے جلال الدین کے آنے کا شوشہ چھوڑتاہے۔اورژیکوکوایک کمرے میں محبوس کردیاجاتاہے۔اورنیندآورمشروب پلادیا جاتا ہے۔
اکبربے چین ہے اوردل آرام کوطلب کرتاہے۔دل آرام کمال مکاری سے،مظلوم کابہروپ بدل کر،خوف ناٹک  کرکے۔اپنے سارے تیر جلال الدین اکبر(ایک جذباتی شہنشاہ)کے سینے میں پیوست کردیتی ہے۔اس پر طرہ یہ کہ داروغۂ زنداں اسی وقت آکرگواہی دیتاہے(جودل آرام کے ساتھ پہلے سے طے تھا)۔
ظلِ الہٰی کی مایوسی،غصہ اورجلال۔آگ کوروپ دھارلیتاہے۔اورجلال الدین اکبر،انارکلی کودیوارمیں چنوادینے کا حکم(ظالمانہ فیصلہ)صادرکرتاہے۔
شہزادہ سلیم کی آنکھ کھلتی ہے۔ انارکلی کی آنکھیں بندہوگئیں ہیں۔ شہزادہ سلیم کومعلوم ہوتاہے بہت دیرہوچکی ہوتی ہے۔
وہ بختیارکے خنجرسے خودکشی کی کوشش کرتاہے۔ثریاشہزادہ سلیم کواکساتی ہے اوربرابھلاکہتی ہے۔اوریہ بھی کہہ دیتی ہےکہ:"تمھیں اب جینے کاکوئی حق نہیں"۔بختیارثریاکوجھڑکتاہے۔
سلیم غصے سے نکلنے کی کوشش کرتاہے۔پردے کے پیچھے اسے دل آرام دکھائی دیتی ہے۔شیکواسے ماردیتاہے۔ بختیار گھبرا کے اکبرکواطلاع دینے جاتاہے۔اکبرسلیم کے پاس آتاہے۔لیکن سلیم اسے پہچاننے سے انکارکردیتاہے۔ اور خودکشی  کے لیے خنجرطلب کرتاہے۔شکستہ خوردہ باپ،اسے "ابا" کہنے کی درخواست کرتاہے۔لیکن سلیم اسے پہچانتانہیں۔
یوں جذباتی مکالموں پرڈرامہ اختتام پذیرہوتاہے۔اوراکبرشکستہ دل ،نامراد،مایوس،آسوبہاتا،لڑکھڑاتا سیڑھیاں چڑھنے لگتاہے"۔
سوالات:
*    سوال:ڈرامہ انارکلی کے مکالمات ادبِ عالیہ کاخوب صورت امتزاج اورادب کی جان ہیں۔ہرلفظ ،خیال واحساس کومہمیز لگاتاہے۔ثابت کریں۔
*    سوال:دل آرام۔ڈرامہ نارکلی کازندۂ جاوید ،مرکزی کردارہے۔جس سے ڈرامہ ایک عظیم المیہ بن گیا ہے ۔ اگر'دل آرام'کاکردارنہ ہوتاتوشایدیہ ڈرامہ اردوادب کاشاہ کار نہ بن پاتا۔کیاآپ اس سے متفق ہیں؟ ثابت کریں کیسے؟
*    انار کلی۔ایک کچی کلی ہے۔محبت۔کوف۔حیا۔سادگی سے مات کھاجاتی ہے۔محبت کرنے والوں کواس قدر سادہ بھی نہیں ہوناچاہیے۔آپ کاکیاخیال ہے؟
*    شہزادہ سلیم(نورالدین) جہاں گیر،جلال الدین اکبرکی نگاہوں کانور،سلطنتِ مغلیہ کاروحِ رواں،لیکن اس قدر 'بودا'محبت انسان کواگر بے کار کرتی ہے تومحبت نہیں۔افسوس شیخو زعمِ شہزادگی میں مات کھاگیا۔ "وگرنہ۔۔۔علاجِ تنگیٔ داماں بھی تھا!"وضاحت کریں۔
*    جلال الدین اکبر۔ظلِ الہٰی۔ہندوستان کامطلق العنان بادشاہ،لیکن ایک معمولی سے مہرے'دل آرام'کے ہاتھوں کٹ پتلی بن گیا۔کیاایساہوا؟اگرآپ اس سے متفق ہیں یانہیں تووضاحت کریں۔
     انارکلی اوردل آرام
یہ ایک ریڈیائی ڈرامہ ہے۔چوں کہ یہ سٹیج یاٹی وی  یافلم کے لیے نہیں لکھاگیااس لیے مکالمات اورصوتی اثرات اس قدر پرزور(بلند آہنگ) ہیں کہ منظرکوبتانے یاسمجھانے کی ضرورت نہیں پرتی۔
بقول تاج"اس کی موجودہ شکل میں تھیٹروں نے اسے قبول نہ کیا،جومشورے ترمیم کے لیے انھوں نے پیش کیے انھیں قبول کرنا مجھے گوارانہ ہوا"۔
*    تاج وقت کانباض
*    سطحی رقابت
عشق کی حرماں نصیبی۔۔۔فردکی بے بسی(اکبرکاخواب ،،،خواہش،،،اکبر اس میں زندہ رہنے کاخواہاں ہے۔ شہزادہ سلیم ڈرامے کامرکزی کردار۔۔۔لیکن اس قدر بے بس ہے!،انارکلی۔۔۔المیہ کااصل شکار۔۔۔'وہ' ہے۔جس کی اک نگاہِ عنایت نے اسے مرکزی ھیثیت دے دی۔اورشیخو خودبھی توانارکلی کی نگاہوں کامرکز ہے۔توکیاشہزادہ سلیم مرکزی کردارہے۔نہیں وہ جلال الدین اکبرکافرزند ہے۔اورمغلیہ سلطنت کاولی عہدہے۔اس لیے مرکزِ نگاہ ہے۔توکیاجلال الدین اکبر۔۔۔اس پورے ڈرامے کامرکز ہے۔بظاہرہر حرکت،ہر بات وہیں تک پہنچنے کی تک ودو میں ہے۔اکبرکی اک ہاں اس سارے معاملے کوختم کرسکتی تھی۔لیکن اس 'ہاں'کوکس نے روکے رکھا۔وہ تھی 'دل آرام'۔۔۔دل آرام  کے ارادے، مقاصد،رقابت اوربدلے کی آگ۔۔۔دل آرام کی بچھائی ہوئی بساط نے جلال الدین اکبر،شہزادہ سلیم (نورالدین)،نادرہ بیگم(انارکلی۔۔۔کوکٹ پتلی بنائے رکھا۔یہ سب سوچ سمجھ ہی نہیں سکے۔کہ اصل میں ان کے ساتھ کیاہورہاہے؟لہٰذا دل آرام نے جوچاہا،وہ ہوا۔اوروہ تھی"انارکلی" کی موت۔۔۔شہزادہ سلیم کادیوانی پن اورجلال الدین اکبر کی حرماں نصیبی،نامرادی اور شکست۔۔۔یہ ڈرامہ 'جلال الدیناکبر کاالمیہ ہے'۔
وہ شخص جویہ دعویٰ کرتاہے کہ "کتنے لوگوں کو نورتنوں نے جلال الدین اکبر بنادیا۔۔۔یہ میرے خواب ہیں  ۔۔۔ اورکیاخواب حقیقت ہوتے ہیں!؟
*    اگر ڈرامے میں رقابت کو سطحی مطالعہ بناکر پیش کریں تودل آرام کایہ ردِ عمل کیاکہلائے گا۔
"اب مجھے کیاخبر۔ذراسی چھٹی میں رنگ ہی بدل جائے گا(تأمل کے بعد)مجھے معلوم ہوتا توبیماربہن ایڑیاں رگڑ رگڑکردم بھی توڑ دیتی میں پاس نہ پھٹکتی"۔
*    اورابھی تک ہندوستان۔۔۔اک مسکین کتے کی طرح میرے تلوے چاٹ رہاہے۔مگرابھی تک میری زندگی کاسب سے براخواب ان دیکھاپڑاہے۔اورمیں اسے جنم دینے کاعزم اپنے میں نہیں پاتا۔
*    اکبر(گرم ہوکر)اس کامجھے یقیں ہوجاتاتومیں اپنے ذہن کاآخری ذرہ تک خواب میں تبدیل کردیتا۔
*    اکبر(سامنے مڑکرہاتھ پیشانی پررکھ لیتاہے)آہ میرے خواب !وہ ایک عورت کے عشووں سے بھی ارزاں تھے۔فاتح ہند کی قسمت میں ایک کنیز سے شکست کھانالکھاتھا۔
اکبرنے کسی سے مشورہ کرنا،اپنی توہین سمجھا۔نتیجہ یہ نکلاکہ اس کی اس کم زوری سے دل آرام نے فائدہ اٹھایا۔اپنی رقابت کی آگ کوپوراکرنے کے لیے اکبر کے خواب(کم زوری) اس کی ڈھال بن گئے۔اورپھر تمام کردار اس کے اشاروں پر ناچنے لگے۔اسے خود بھی علم تھا کہ اس کاانجام کچھ اچھانہیں ہو گا۔لیکن اس نے تو انارکلی کومتانا تھا،شہزادہ سلیم کودکھانا تھا،اوراکبر کو بے وقوف بنانا تھا۔اور اس نے ہر کام اس چالاکی اورہوشیاری سے کیا کہ کسی کو بھنک بھی نہ پڑی، یہاں تک کہ اس نے اپنی مطب براری کے لیے 'داروغہ'کوبھی پھانس لیا( یقیناً اس سے اظہارِ محبت کیاہوگا)۔لیکن اسے معلوم تھا 'وہ رہے گی توشادی ہوگی'۔لہٰذا اس نے اکبر کے تمام خواب چکناچورکردیے۔
اکبر تمھارایہ مشورہ ہے کہ میں اپنی تمام زندگی کے خواب چکناچور کرڈالوں ۔وہ خواب جومیرے دنوں کاپسینہ ،میری راتوں کی نیند،میری رگوں کالہو،میری ہڈیوں کامغز ہیں۔تمھارامشورہ ہے کہ میں ان سب کوچکناچورکرڈالوں۔
*    رانی(سراٹھاکر)کیوں امیدرکھیں؟ہم ہی تھے جواولادکی آرزومیں سائے کی طرح پھرتے تھے۔ہم ہی توتھے جواولادپاکر دونوں جہاں حاصل کربیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔پھراس سےتوقع کیسی؟
*    اکبر:تم ماں ہوصرف ماں!
*    رانی: (جَل کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ضبط کی کوشش کرتی ہے مگر نہیں رہا جاتا۔ پھٹ پڑتی ہے)۔ مَیں خُوش ہوں کہ مَیں صرف ماں ہُوں اور مُجھ کو رنج ہے کہ آپ شہنشاہ ہیں صرف شہنشاہ۔

No comments: