Saturday 14 July 2012

اردو/اولیول/انارکلی/امتیازعلی تاج


سید امتیاز علی تاج
امتیاز علی تاج پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے معروف مصنف اور ڈرامہ نگار تھے۔ ۱۳ ۱کتوبر ۱۹۰۰ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید ممتاز علی دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ تاج کی والدہ بھی مضمون نگار تھیں۔
تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل سکول سےمیٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ انہیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈرامہ سے دلچسپی تھی درصل یہ ان کا خاندانی روثہ تھا۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ "کہکشاں"نکالنا شروع کردیا۔ ڈرامہ نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔ گورنمنٹ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔
ڈرامہ کے فن میں اتنی ترقی کی کہ بائیس برس کی عمر میں ڈرامہ"انار کلی" لکھا جو اردو ڈرامہ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بعد بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔ کئی ڈرامے سٹیج، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے۔ انہوں نے بہت سے انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا اور یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ "قرطبہ کا قاضی" انگریز ڈرامہ نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور (خوشی) پیٹرویبر فرانسیسی ڈرامہ نگار سے لیاگیا ہے۔ (چچا چھکن) ان کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے۔ وہ بھی اردو مزاح نگاری میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے ریڈیو ڈرامے، اور ڈراموں پر تنقیدی مضامین بھی لکھے۔اس کے علاوہ محاصرہ غرناطہ (ناول) اور ہیبت ناک افسانے بھی مشہور ہوئے۔
تاج کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور ڈرامے کے صدارتی اعزاز سے نوازا۔
امتیاز علی تاج آخری عمر میں مجلس ترقی ادب لاہور سے وابستہ رہے۔ آپ کی زیر نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیں۔ آپ نے متعدد اردو ڈراموں کو بھی ترتیب دیا۔ 19 اپریل 1970ء میں رات کے وقت دو سنگدل نقاب پوشوں نے قتل کر دیا۔
تاج کی ڈرامہ نگاری پر تبصرہ
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، تاج کو انارکلی نے اردو ڈرامہ نگاری میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے پہلے اردو میں تھیٹریکل کمپنیاں ڈراموں میں مشکل عبارات اور پر تکلف الفاظ والے قدیم طرز کے مکالمے لکھواتی تھیں، جن میں اشعار کی بھرمار بھی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے کردار بھی قدیم داستانوں کی طرح نرے کٹھ  پتلیاں ہوتے تھے، جن میں صحیح انسانی کردار مفقود ہوتے تھے۔ وہ یا تو بدی  کے نمائندےہوتے یا سراپا نیکی۔ ادبی معیار پر اس طرح کے ڈرامے پورے نہیں اترتے، البتہ عام تماشائیوں میں یہ ڈرامے بہت مقبول تھے۔ انارکلی ان سے بالکل مختلف، مغربی ڈرامے کے معیار پر پورا اترنے والا ڈرامہ ہے۔ اس کی زبان بھی بڑی حد تک روزمرہ کے مطابق ہے اور کردار بھی فطری ہیں۔ اس کا پلاٹ ڈرامائی اوصاف کے عین مطابق کش مکش اور عروج و زوال کی منازل طے کرتا ہے، اور بالآخر ایک دردناک المیہ(Tragic) انجام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انارکلی کو پیشہ ور تھیٹر کمپنیوں نے اسٹیج نہیں کیا، لیکن شوقیہ انجمنوں اور کالجوں اور سوسائٹیوں نے اسے بڑے شوق سے کھیلا۔ بلکہ ملک میں سینما رائج ہونے کے بعد جب پیشہ ورانہ تھیٹروں پر زوال آیا، اور ساری کمپنیاں ختم ہوگئیں یا فلم سازی کرنے لگیں تب بھی انارکلی کی مقبولیت بدستور قائم رہی۔
تاج کی مزاح نگاری پر تبصرہ
ویسے تو تاج نے ڈراموں اور بعض افسانوں میں بھی بے تکلف شگفتہ مزاح کا رنگ بھرا ہے مگر چچا چھکن اس بات میں ان کا شاہکار ہے۔ اس میں انھوں نے ایک سادہ لوح مگر خود کو ہمہ دان سمجھنے والے کردار کی حماقتوں سے مزاح پیدا کیا ہے۔ مضحکہ خیز کردار اردو میں داستان گوئی کے زمانے میں بھی پسند کیا جاتا تھا، مگر وہ فوق الفطری باتوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد سرشار نے خوجی نام کا مزاحیہ کردار پیدا کیا، لیکن وہ بھی صحیح انسانی تصویر کم اور کارٹون زیادہ ہے۔ کم و بیش یہی صورت سجاد حسین کے حاجی بغلول کی ہے۔ مگر تاج کا چچا چھکن بالکل ہمارے معاشرے کا کوئی غیر معمولی انسان نظر آتا ہے۔ چند واقعات کو چھوڑ کر، جہاں تاج نے کسی قدر مبالغے سے کام لیا ہے، چچا چھکن کی حماقتیں، بدحواسیاں اور جھلاہٹیں، جن سے پڑھنے والے کو ہنسی آتی ہے، بالکل فطری معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح کے بعض مضحک کردار تاج کے ہم عصر ادیبوں نے بھی تخلیق کیے، مگر یا تو ان میں اتنی جان اور واقعیت نہیں ہے، یا وہ محض کسی افسانے کی مختصر سا عکس بن کر رہ گئے ہیں۔ البتہ شفیق الرحمن کا کردار شیطان اردو ادب میں خاصے کی چیز ہے، مگر اس کی نمایاں خصوصیت حماقت نہیں، مکاری اور ذہانت ہے، اور اس طرح وہ چچا چھکن سے بازی لے گیاہے، مگر اتنا ہی غیر فطری اور اوپری سا بھی ہوگیا ہے۔ چونکہ تاج نے نہ صرف علمی و ادبی شہرت کے مالک والد اور والدہ سے تربیت پائی تھی بلکہ خود بھی ادب کا خصوصاً انگریزی ادب کا غائر مطالعہ کیا تھا اس لئے ان کی ابدی نگارشات بھی اہلِ علم و ادب میں مقبول ہوئیں۔
ڈرامہ 'انارکلی' کی خصوصیات پر تبصرہ
ڈرامہ انارکلی جو ان کی شاہکار تصنیف مانا جاتا ہے، غالباً آج تک اردو میں لاثانی کہلاتا ہے۔ اس کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
تاریخی نوعیت
چونکہ انارکلی کی بنیاد ایک تاریخی روایت پر ہے، اور اس کا تعلق اس دور سے ہے جو برصغیر پاکستان و ہند میں ہر اعتبار سے نہایت شاندار اور مثالی ہے، یعنی مغل حکومت کے عروج کا زمانہ اس لئے اس کے پڑھنے والے کا اس میں پوری طرح دلچسپی لینا فطری بات ہے۔
موضوع کی دلچسپی
دوسری خصوصیت انارکلی کا موضوع ہے۔ اس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ محبت ایسا قوی جذبہ ہے جو کسی مخالفت یا رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا، اور محبت کرنے والا شخص نہ تو ذات، رتبہ اور حیثیت کی پرواہ کرتا ہے اور نہ مخالفوں کی سختیوں سے ڈرتا ہے، یہاں تک کہ موت سے بھی ہم کنار ہو جاتا ہے۔
کرداروں کی ندرت
تیسری خصوصیت اس کے زندہ اور دلآویز کردار ہیں، جن کے بغیر کوئی ڈرامہ پسند کیا جانا تو درکنار، سلیقے سے تصنیف بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انارکلی کا ہر کردار اپنی جگہ نہایت فطری اور جاندار ہے، خصوصاً اس کے دو کردار شہنشاہ اکبر اور دلِ آرام ڈرامہ پڑھنے والے پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ اگر بیک وقت ایک مطلق العنان اور دوراندیش حکمراں بھی ہے اور محبت کرنے والا باپ بھی بیٹے کی محبت اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ سلیم کی خواہش پوری ہونے دے، مگر شاہی حکومت کی ذمہ داریاں، اس جذباتیت میں مانع آتی ہیں، کیوں کہ آج کا کھلنڈرا اور لاابالی نوجوان (سلیم) آگے چل کر حکمرانی کے فرائض انجام دینے والا ہے، اور اس معاملے میں ذاتی جذبات پر قابو پانے کی تربیت اس کے لئے ضروری ہے۔ عقل اورجذبات کی اس کش مکش میں اکبر جس طرح مبتلا ہوتا ہے اس کی بری اچھی تصویر کشی ڈرامے میں کی گئی ہے۔ بالآخر عقل جذبات پر غالب آجاتی ہے، اور وہ باپ بن کر نہیں، شہنشاہ بن کر اس کا وہ فیصلہ کرتا ہے جو سلیم کے لئے موزوں بلکہ ضروری تھا۔
رہی دلِ آرام، تو وہ انارکلی کی رقیب ہے، کیونکہ وہ سلیم سے محبت کرتی ہے، اور کسی زمانے میں سلیم بھی اس کی طرف مائل تھا۔ مگر انارکلی کے آجانے پر سلیم نے دلِ آرام کو چھوڑ کر انارکلی میں دلچسپی لینی شروع کردی۔ یہ فعل سلیم کے لئے تو معمولی سی بات تھا لیکن دلِ آرام کے لئے یہ محبت کی کسی اور کی طرف منتقلی عذاب بن گئی، اور اس نے اپنے ساتھ کی اس کنیز انارکلی کو درمیان سے بالکل ہٹا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ یہ ای کی ایک سازش کا نتیجہ تھا کہ انارکلی سے سلیم کی دلچسپی اکبر کے علم میں آگئی، اور اس نے انارکلی کو دیوار میں چنوادیا۔ اس طرح دلِ آرام کی یہ خواہش تو پوری ہوگئی کہ انارکلی کا پتہ ہمیشہ کے لئے کٹ گیا، مگر اس کا انجام خود دلِ آرام کے لئے وہ نہ ہوا جس کی اسے خواہش تھی۔ سلیم کو جب اس سازش کا علم ہوا تو اس نے دلِ آرام کو بھی قتل کردیا۔ اور اس طرح یہ ڈرامہ ایک ٹریجڈی (المیہ) بن گیا۔
مکالمے
جس دور میں انارکلی لکھا گیا وہ ڈراموں کو تھیٹروں کے ذریعے دکھانے کا دور تھا۔ فلم خصوصاً ٹاکی فلم، نہیں چلی تھی، اور نہ لاوڈ اسپیکر رائج ہوسکا تھا۔ لوگ اسٹیج پر ڈرامہ دیکھتے اور اداکاروں کے مکالمے سنتے تھے۔ قدرتی بات تھی کہ ڈرامہ نگار اپنے کرداروں کے لئے مکالمے بھی ایسے لکھتا تھا جو چیخ کر اور بلند آواز سے ادا کئے جائیں، تاکہ تماشا دیکھنے والوں کی آخری قطار بھی انھیں سن سکے۔ خود تاج نے ایک مضمون میں ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے کہ تھیٹر کے اسٹیج پر جو اداکار جس بات کو اس طرح ادا کرے:
آج تم قہقہوں اور ٹھٹوں میں میری بات کو اڑادو، لیکن کل آہوں اور آنسوؤں کے ساتھ مجھے یاد کرو گے۔
 اسی بات کو ایک فلمی ایکٹر صرف اس طرح کہہ دے گا تم جانو کیوں کہ فلم میں یہ آواز آسانی سے آخر تک سنی جاسکتی ہے۔ چناں چہ اسٹیج کی اسی ضرورت کے لئے ڈرامے کے مکالمے سنتے تھے۔ انارکلی میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے، مگر اس کے باوجود، تاج نے کوشش کی ہے کہ اس میں روز مرہ کی بول چال سے زیادہ دور نہ جائیں، پھر بھی، اگر کہیں مکالموں میں خطیبانہ انداز پید ہوگیا ہے تو یہ اسٹیج کی وہی مجبوری ہے۔
البتہ چونکہ انارکلی کی کہانی  مغلیہ عہد سے تعلق رکھتی ہے، اور بادشاہ اکبر، شہزادہ سلیم اور شاہی محل کی کنیزیں سب اسی پر تکلف بول چال کی عادی ہیں جو مغل دربار کی خصوصیات میں سے تھی، اس لئے انارکلی جیسے ڈرامے اتنے اوپری اور غیر فطری بھی نہیں لگتے جتنے کسی آج کل کے مشرتی ڈراموں میں بعض ڈرامہ نگاروں نے استعمال کیے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ انارکلی کے مکالمے خاصے جاندار اور اپںی مفہوم و مدعا کو پوری طرح ادا کرنے والے ہیں، نہ کہ وہ ڈرامے کی خامی سمجھے جائیں۔
انار کلی(امتیاز علی تاج)
ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے ۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، رعب داب ، جلال و جمال اور بے پناہ قوت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن درحقیقت محبت بذات خود ایک بڑی طاقت ہے۔ صرف نام کا ہیر پھیر ہے۔چنانچہ قوت اقتدار اور قوت جذبات کا ٹکرائو جب ہوتا ہے تو ہر طرف اداسی ہی اداسی اور سوگ ہی سوگ چھا جاتا ہے۔
مگر جہاں تک انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ امتیاز علی تاج خود کہتے ہیں کہ :
" میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے بچپن سے نار کلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔
بہر حال اگر اس ڈرامے کی تاریخی اہمیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انار کلی فنی عروج اور دلفریب ادبیت کاخوبصورت امتزاج ہے۔ خوبی زبان ، بندش الفاظ ، چست مکالمات اور برجستگی جیسے ڈرامائی لوازمات نے ا س تخلیق میں ایک شان او ر وقار اور سربلندی پیدا کی ہے۔آئیے ڈرامے کی فنی فکری خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں،
کردار نگاری:۔ 
انار کلی کے کرداروں میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو اپنی خصوصیات کی بناءپر فن کے پیمانے پر بدرجہ اتم پورے اترتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکبر ، سلیم اور انار کلی اس ڈرامے کے کلیدی کردار ہیں۔ دل آرام کا کردار بھی اہم ہے۔ علاوہ ازیں ثریا مہارانی ، بختیار، داروغہ زندان سیات، مروارید اور انار کلی کی بوڑھی ماں ایسے ضمنی کردار ہیں جو تذبذب ، تجسّس اور کشمکش کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مصنف کا کمال ہے کہ اس نے ان ضمنی اور چھوٹے کرداروں کو بھی اپنے زور قلم کے بل بوتے پر ڈرامہ انارکلی کے شاندار کردار بنا کر پیش کیا ہے۔تاج نے اپنے کرداروں کی سیرت اور صورت کی تصویر کشی کرتے وقت ایسا زور قلم اور ادبی شکوہ دکھایا ہے کہ اسٹیج پر ایسے کرداروں کا دکھانا ناممکن اور محال ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارمے کے نمایاں کردار انار کلی کا تعارف وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
"چمپئی رنگ میں اگر سرخی کی خفیف سی جھلک نہ ہو تو شائد بیمار سمجھی جائے خدوخال شعراءکے معیار حسن سے بہت مختلف ، اس کا چہرہ دیکھ کر ہر تخیل پسند کو پھولوں کا خیال ضرور آتا ہے۔
کردار نگاری کے اعتبار سے ڈرامہ نگار نے ایسے ادبی اور فنی لوازمات کاخیال رکھا ہے کہ کسی کردار کے قول و دفعل میں تضاد کا کھٹکا بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی میں کردار نگاری اوج ثریا کو چھو رہی ہے۔
اکبر اعظم:۔ 
اکبر کے سینے میں باپ کا دل ہے لیکن وہ اپنے ولی عہد سلیم کو پختہ عمل کا مالک اور شاہانہ جاہ و جلال کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ سلیم کو شیخو کی حیثیت سے بلاشبہ ٹوٹ کر پیار کرتا ہے لیکن ولی عہد کی حیثیت سے وہ اسے ملگ گیری اور جہاں بانی کے جوہر سے متصف دیکھنے کا آرزو مند ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ ولی عہد اپنی ایک ادنی کنیز کے سر پر محبت کا آنچل ڈالے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکبر سلیم کی شادی کسی ایسی جگہ کرانا چاہتا ہے جہاں سلیم کے سےاسی ہاتھ مضبوط ہو سکیں۔
سلیم کا کردار:۔
سلیم انار کلی کا شیدائی تو ہے لیکن دل و جاں سے نہیں ایسا لگتا ہے کہ اس کے جسم میں گداز ہے لیکن دل اس دولت سے یکسر خالی ہے۔ بیشک وہ باتوں کے بے شمار گھوڑے دوڑاتا ہے مثال کے طور پر:ا”للہ پھر یہ سہمی ہوئی محبت کب تک راز رہے گی۔ مہجور دل یونہی چپ چاپ دیکھا کرے گا۔
سلیم کے آخری جملے نہ صرف سلیم کے مستقبل کے متعلق ممکنہ اندیشوں کا اظہار ہے بلکہ اس سے اس کی قلبی کیفیت اور فطرت کی جانب بھی ایک واضح اشارہ ملتا ہے کہ اسے محبت کے مقابلے میں شہنشاہی کی کوئی اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔ آگے چل کر سلیم کی یہ گفتگو اس کے کردار کی وضاحت کرتی ہے۔
انار کلی:۔ 
جہاں تک انار کلی کا تعلق ہے وہ درحقیقت عشق و وفا اور فکر و فن کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔ وہ نہ تو زندگی سے خوف کھاتی ہے اور نہ ہی موت سے آنکھیں چراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا بھی ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی کے بارے میں فکر مندرہتی ہے اور اکبر اعظم کے رعب میں آخر سلیم کی بے وفائی کے شکوک و شبہات کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ اس کے جذبہ عشق کے آگے جب موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور بعد کے لوگ انار کلی کے نام کو بطور ایک استعارہ محبت لیتے رہتے ہیں۔ اور ان کی وفا کی مثالیں بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔
دل آرام :۔ 
دلارام شہزادہ سلیم کی پہلی منظور نظر اور محل سرا کی خاص کنیز ہے۔ لیکن سلیم سے انار کلی کے تعلقات قائم ہونے کے بعد آتش رقابت سے بری طرح جل رہی ہے۔ وہ شہزادے پرآنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔ مگر انار کلی کو بہر صورت تباہ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ اس کے کردار اور جذبہ رقابت کو ظاہر کرنے کے لئے تاج نے صرف ایک جملے سے کام لیا ہے۔ اس وقت دل آرام جشن نوروز کے لئے زبردست تیاری کر رہی ہے۔ اور سازشوں کے جال پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ کہ ایک واقف حال کنیز اس سے پوچھتی ہے۔
"پھر آخر کےا کرو گی؟دلا آرم جواب دیتی ہے "ناگن کی دم پر کوئی ؤں رکھ لے تو وہ کیا کرتی ہے"۔
مکالمہ نگاری:۔ 
جہاں تک انار کلی کے مکالموں کا تعلق ہے تو یہ بھی بڑے جاندار اور پر وقار ہیں ۔ اس ڈرامے کا ہر کردار موقع و محل کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی کے مکالمے کسی موقع پر بھی نہ تو ڈھیلے اور سست پڑتے ہیں اور نہ اپنی اہمیت و حیثیت سے محروم ہوتے ہیں۔ بلکہ ڈرامائی کیفیت سے ہلچل اور تجسّس پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض ناقدین اس ڈرامے کی زبان پر اعتراض کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ایسے اعتراضات معمولی معمولی خامیوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔ جبکہ ان خامیوں کے مقابلے میں انار کلی کی خوبیاں نقطہ عروج تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں چستی مکالمات ، نزاکت الفاظ اور حسن و بیان اپنی مثال آپ ہے چنانچہ پروفیسر محمد سعید انار کلی کے مکالموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ
" الفاظ میں شاعری ہے مگر تک بندی نہیں حرکات میں زندگی ہے مگر حقیقت نہیں، غرض جو لفظ ہے دلنشین اور جو حرکت ہے دلکش ہے۔
مکالمہ نگاری کے سلسلے میں مصنف نے کرداروں کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح کا بطور خاص خیال رکھا ہے۔ لیکن اس ادیبانہ و فنکارانہ تدبیر گری کے باوجود وقتاً فوقتاً انارکلی اعتراضات کی زد میں آتی رہی۔
مثلاً پروفیسر عبدالسلام کہتے ہیں کہ :" اس ڈرامے کی ایک اہم کمی اور خامی خود کلامی کا افراط ہے
پروفیسر عبدالسلام نے ڈرامہ انار کلی میں خود کلامی پر اعتراض کیا ہے جبکہ ایک دوسرے نقاد ڈاکٹر حنیف فوق اس خود کلامی کے سلسلے میں یوں فرماتے ہیں۔
"تاج نے خود کلامی کو خلاقانہ طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے جیتے جاگتے پیکر تراشے ہیں۔
انار کلی میں خود کلامی کوئی فالتو چیز محسوس نہیں ہوتی۔ ڈرامہ نگار نے اسے موقع و محل کے مطابق پیش کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس ڈرامے میں خود کلامی خامی کے بجائے خوبی اور حسن معلوم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب مکالمہ نگار کی حیثیت سے سید تاج اپنے کرداروں کے عادات و اطوار ، ان کے مزاج اور سوچ سے گہری وقفیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے مکالموں میں ہر کردار اپنی انفرادیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس کی مخصوص حالت آخر دم تک برقرار رہتی ہے۔
منظر نگاری:۔ 
تاج ہر منظر کی ایسی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انار کلی کی عبارت فن اور خیال کا ایک بے مثال مرقع بن گئی ہے۔ وہ جس منظر کو پیش کرتے ہیں اس کی ہوبہو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ مثلاً سلیم کے محل کا منظر اس طرح پیش کرتے ہیں۔
"گھنے پیڑ وں کے طویل سلسلے میں کھجوروں کے کم بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظرآرہے تھے راوی ان دور کی رنگینیوں کو اپنے دامن میں قلعے کی دیوار تک لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
منظر کشی کے لحاظ سے مندرجہ بالا منظر بے شک لاجواب ہے لیکن درحقیقت فن ڈرامہ نگاری کے حوالے سے یہی منظر اسٹیج ڈرامے کا نقص بن جاتا ہے۔ اسٹیج پر نہ تو گھنے درختوں کے طویل سلسلے اگائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی دریائے راوی کو اسٹیج پر سے گزارنا ممکن ہے۔ لیکن اس طرح کے حسین و جمیل اور جیتے جاگتے مناظر نے انارکلی کی ادبی چاشنی کو دوبالا کر تے ہوئے اس کے حسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔
اسلوب
بلاشبہ انار کلی میں زبان و بیان کا کہیں کہیں جھول ملتا ہے۔ مثلاً انار کلی کی قید کے بعد اکبر کا دلآرام کو طلب کرے پوچھنا کہ ”لڑکی تجھے شیخو اور انار کلی کے کیا تعلقات معلوم ہیں“ حالانکہ شیخو اور انارکلی کے آپس میں تعلقات کے متعلق سوال پوچھ رہے تھے۔ لیکن الفاظ سے معنوں کاخاص پتہ نہیں چلتا ۔ عین ممکن ہے تاج نے اکبر کے ذہن و قلب میں پائی جانے والی زبردست ہلچل دکھانے کے لئے جان بوجھ کر کیا ہو ۔ بہر حال ایسے مواقع بہت کم ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کے مکالموں میں چستی ، برجستگی ، لطافت بیان اور حسن کلام کی خو ش کن مثالیں بکثرت نظرآتی ہیں ۔
بقول پروفیسر مرزا محمد سعید:”انار کلی کے مصنف نے مناظر کو اپنے موضوع کا ہم پلہ بنانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔اور ہر ایک منظر میں اشخاص ڈرامہ کی حرکات و سکنات ،بات چیت ، تراش خراش اور منظر کی عمومی کیفیت کے عین مطابق ہے۔
فکری تجزیہ
اس ڈرامے میں ڈرامہ نگار نے شہزادے اور کنیز کے خیالات اور جذبات کو محبت کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اکبر اگر شہزادے اور کنیز کی محبت کا مخالف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غربت اور بے بسی کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ سماج میں غریب انسان کی پر خلوص اور لازوال محبت کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کے خیالات مادہ پرستی پر مبنی ہیں۔ چنانچہ و ہ انار کلی کی عظیم محبت کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ادنیٰ کنیز سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔
 لہٰذا ڈاکٹر حنیف فوق کی رائے بجا ہے کہ:” امتیاز علی تاج کی بہت بڑی جیت یہی ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماج اور ماحول سے منقطع کرکے پیش نہیں کیا۔ اس طور پر انار کلی حقیقت نگاری کا اپنا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے۔ جواب تک اردو ڈراموں میں نہیں ملتا۔
اس میں شک نہیں کہ تاج ایک خاص حوالے سے گزرے ہوئے زمانے کی ترجمانی کر جاتے ہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو جذباتی ، نفسیاتی اور معاشرتی حوالوں سے زندگی آج بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کئی صدیاں پہلے تھی۔ اس لئے کہ آج بھی وہی مادہ پرستی ، شان و شوکت کی پاسداری اور طبقاتی اونچ نیچ کی گرم بازاری ہے۔ اس اعتبار سے امتیاز علی تاج کے قلم کو بلاشبہ عصر حاضر کا ترجمان کہہ سکتے ہیں۔
انار کلی کس کا المیہ ہے؟
یہ ڈرامہ کسی ایک فرد کا المیہ نہیں بلکہ اکبر اعظم ،سلیم ، دلآرام او رانار کلی سبھی کا المیہ ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کردار کے حسب حال ہم اسے کم یا زیادہ المیہ قراردے سکتے ہیں۔
اکبر اعظم کا المیہ:۔ 
ایک مشہور نقاد احتشام حسین نے کہا تھا کہ انار کلی کا ڈرامہ اکبراعظم کا المیہ ہے۔ لیکن یہ کلی سچائی نہیں ہے۔ اکبر کے حق میں تو یہ ڈارمہ باقی کرداروں کے مقابلے میں کم المیہ ٹھہرتا ہے۔ اکبر جاہ و جلال کا متوالا اور سیاہ سفید کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ ادنیٰ کنیز شہزادے کے ساتھ شادی کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور اس کے ایک اشارے پر انارکلی کو دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں احتشام حسین نے نجانے ڈرامے کو صرف اور صرف اکبر کا المیہ کےسے قرار دیا ۔ جبکہ اس کی سلطنت بھی قائم ہے۔ ہاں اکبر اور سلیم کے درمیان جو چپقلش اور ناچاقی پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اسے اکبر کا معمولی سا المیہ کہہ سکتے ہیں۔
دل آرام کا المیہ:۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر فقیرا خان فقری اسے سب سے زیادہ دل آرام کا المیہ قرار دیتے ہیں۔دل آرام ایک ایسا بد قسمت کردار ہے جس کی ٹریجڈی کی طرف کسی نقاد کا خیال نہیں گیا۔دل آرام کے احساسات و جذبات کا کسی کو پاس نہیں۔ نقادوں نے اس ڈرامے کو فرداً فرداً اکبر ، سلیم یا انارکلی کا المیہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دل آرام کو چالبازاور انتقامی جذبات کی مالک قرار دیا ہے لیکن کسی نے دل آرام کے دل میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی دل آرام تو انار کلی سےپہلے سلیم کو چاہتی ہے۔ انار کلی تو بعد میں آن ٹپکی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں جذبات میں کیا دل آرام کو رقابت کا حق بھی نہیں پہنچتا؟اگر ہم اسے یہ حق بھی نہیں دیتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہم انتہائی ظالم ، جانبدار اور انسانی احساسات و نفسیات کے منکر ہیں۔ دل آرام کو انار کلی کے مقابلے میں زیادہ بے یارو مددگار ہے۔ دل آرام کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ جسے چاہتی ہے ٹوٹ کر پیار کرتی ہے۔ وہی شہزادہ سلیم انار کلی کا بدلہ لینے کے لئے دل آرام کی نازک اور صراحی جیسی گردن پر ہاتھ رکھ کر اسے موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ دل آرا م غریب سے نہ تو کوئی محبت کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کا انتقام لینے والا ۔ اور نہ سوگ منانے والا۔ چنانچہ یہ ڈارمہ بڑی حد تک دل آرام کا المیہ ہے۔
انار کلی کا المیہ:۔ 
ڈارمہ انار کلی کو انار کلی کا المیہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ وہ ایک نازک اندام اور معصوم کلی کی طرح محبت کے دائو پیچ سے ناواقف کم سن لڑکی تھی۔ پہلے شہزادہ سلیم نے اسے اپنے جال محبت میں گرفتار کر لیا۔ اور بعد میں جب وہ اپنی محبت کی خاطر سب کچھ سہنے پر رضا مند ہو گئی تو اسے زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا۔ حالانکہ اس میں وہ اکیلی قصور وار نہیں تھی۔ لیکن چونکہ وہ صرف ایک کنیز تھی اس لئے اسے قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس کی محبت کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی ۔ اور اسے محبت کرنے اور کنیز ہونے کی اتنی بڑی سزا دی گئی۔ لیکن اس نے اپنے تمنائے دل کے لئے جان دی ۔ لہٰذا آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے
سلیم کا المیہ:۔ 
میرے خیا ل میں ڈارمہ انار کلی سب سے زیادہ شہزادہ سلیم کا المیہ ہے۔ جس کے کئی وجوہات ہیں۔
پہلی سب سے بڑی وجہ ےہ ہے کہ ٹریجڈی زندہ لوگوں کی ہوتی ہے۔ نہ کہ مردہ لوگوں کی ۔ لہٰذا ہم اسے سلیم کا الہٰذا ہم اسے سلیم کا المیہ قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انارکلی تو مر گئی لیکن ایک با وفا عاشق کی طرح ساری زندگی شہزادہ سلیم ان کی موت کے خیال سے نبرد آزما رہا ہوگا۔ وہ ساری زندگی اپنی محبت اور انار کلی کی اس طرح جدائی میں تڑپاتا رہا ہوگا۔ اس کی فرقت میں اس نے نجانے کتنی راتیں رو رو کر اپنا دامن اشکوں سے بھر ا رہا ہوگا۔ زندگی کے ہرموڑ پر انار کلی کی باتیں، اس کی دلآویزمسکراہٹ بار بار سلیم کو یاد آتی ہوگی۔ اور وہ زندگی بھر اس کی یادوں کے دریا میں غوطہ زن رہا ہوگا۔
سلیم کے المیہ کی دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ انارکلی کی موت کے انتقام میں وہ دلآرام کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔ اس کا ضمیر ساری زندگی اسے اپنے اس فعل پر ملامت کرتا رہے گا۔ کیونکہ قتل ہر حال میں قتل ہوتا ہے۔ خواہ ایک کنیز کا ہو یا بادشاہ کا۔ ایک ہوش مند انسا ن بعد میں اپنی حرکت پر دل ہی دل میں پشیما ن ہوتا ہے۔ اور اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ لہٰذااگر ہم سلیم کے کردار کا نفسیاتی جائزہ لیں تو وہ تمام زندگی دلآرام کے ساتھ زیادتی پر یقینا پچھتا رہا ہوگا۔ اور یہی پچھتاوا اس کی زندگی کا بڑا المیہ ہے ۔ یعنی اس کا احساس جرم اسے ہر وقت بے چین رکھتا ہوگا۔
تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ سلیم جیسا شہزادہ جس کے باپ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس قدر بے بس اور لاچار ہے کہ اپنی محبت کو حاصل نہیں کر سکا ۔ دنیا جہاں کی دولت ، طاقت اس کے ادنیٰ غلام ہیں۔ لیکن اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔ کہ و ہ تمام چیزوں کے باوجود اپنے عشق کو تکمیل ذات تک پہنچانے میں قطعی ناکام رہا۔ اور اپنی محبوبہ کی زندگی کے چراغ کو گل ہونے سے نہ بچا سکا۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اتنی بڑی سلطنت کا والی وارث ہونے کے باوجود وہ تہی داماں ہے۔ اور اپنی محبت کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جس پر وہ ساری زندگی آنسو بہاتا ہوگا۔ 
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اب یہ قاری کاکام ہے کہ وہ خود نتیجہ اخذ کرے کہ انارکلی کس کاالمیہ ہے۔
انارکلی کے بارے میں چند نقادوں اور ادیبوں کی رائے:
انار کلی کے بارے میں ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا ہے۔ "انار کلی کی زبان میں روانی اور انداز بیان میں دل فریبی ہے اور زبا ن شستہ و برجستہ ہے۔"
پریم چند: ” مجھے جتنی کشش انار کلی میں نظرآئی ، کسی اور ڈرامے میں نہیں
پطرس بخاری: ”انار کلی اور اردو ڈرامہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔
عباد ت بریلوی: ” انار کلی کی اشاعت ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔
حفیظ جالندھری: ” یہ تصنیف ڈرامہ کی تاریخ میں نہ صرف ایک اہم کردار کے طور پر زندہ رہے گی بلکہ ڈرامہ نویسوں کے لئے مشعل راہ کا م دے گی۔
"جب یہ ڈرامہ لکھا گیا،وہ دور دراصل ریڈیائی ڈرامے کادورتھا۔کہانی،مکالمات،پلاٹ اوراثر انگیزی تمام لوازمات کاخیال اس حوالے سے اہم تھا کہ تمام ترتأثر اورلوگوں کی توجہ آوازکی مرہونِ منت رھی۔لہذا آواز میں ایسااثر ہوکہ ہر سننے والا دم بخود رہ جائے۔اس لیے کردار سازی،کے علاوہ مکالمات،اورادائیگی کو پراثر بنانے کے لیے ایسی تکنیک استعمال کی گئی کہ فلم(منظر) کی کمی محسوس نہ ہو۔اس حوالے سے یہ ڈرامہ اپنانقش ثانی نہیں رکھتا۔جدید ابلاغ کے دورمیں بھی فلم،ٹی وی،یاتھیٹر میں بھی اسے اسی تکنیک کے تحت برتنا بہت آسان تھا۔اس ڈرامے میں اتنی لچک موجود ہے کہ فلمانا کچھ مشکل نہیں تھا۔لیکن فلم،تھٹر یا ٹی وی کے ملکان یاہدایت کار اپنا ہاتھ اوپررکھنے کے لیے ایسے اعتراضات کرنا اپناحق سمجھتے تھے۔



عشق کی علامت، وفا کی دیوی اور محبت کی تصویر ۔ ۔ ۔ انارکلی
عبد الرحمان چغتائی کی بنائی ہی انارکلی کی خیالی تصویر انارکلی عشق کی علامت ، وفاکی دیوی، اور محبت کی تصویر ہے اور مقبرہ انارکلی کو اس کا نقش  قرار دیا جاتا ہے۔ برصغیر میں عشقیہ و رزمیہ داستانوں میں انارکلی ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ سلطنت اور محبت کی جنگ انارکلی کا فسانہ ہے۔
دوسری جانب اس امر کا تعین کرنا خاصا تحقیق طلب کام ہے کہ یہ واقعہ حقیقت تھا یا محض افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ایک روایت کے مطابق ایران کا ایک سوداگر اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان آیا۔ راستے میں ڈاکوؤں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ڈاکوؤں نے سوداگر کو قتل کر دیا اور اس کی خوبرو بیٹی راجہ مان سنگھ حاکم کابل کے پاس فروخت کر دی گئی۔ راجہ مان سنگھ نے اسے شہنشاہ اکبر کے حضور تحفتاً پیش کیا۔ اکبر نے اسکے حسن سے متاثر ہر کر اسے انار کلی کا نا م دیا۔ اور اسے دربار میں رقاصہ خاص کا درجہ دیا گیا۔
سلیم اور انارکلی
یہ بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انار کلی کا کوئی وجود بھی تھا یا نہیں یا یہ محض ایک فرضی داستان ہے۔ یہ سب باتیں متنازعہ ہیں اور مختلف آراء ہیں۔
مولوی نور احمد چشتی اپنی تصنیف ’تحقیقات چشتی‘ میں لکھتے ہیں کہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کی داستان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، ان کے خیال کے مطابق شہنشاہ اکبر نے نادرہ بیگم یا شریف النساءکو اسکے حسن کی وجہ سے انار کلی کا خطاب دیا تھا۔ اپنے مسحور کن حسن کی وجہ سے وہ دوسری بیگمات کے حسد کا شکار ہوئی اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ایک اور روایت کے مطابق جب اکبر دکن کی مہم پر تھا تو یہ حسین عورت کسی بیماری میں چل بسی۔
سید محمد لطیف اپنی کتاب ’تاریخ لاہور اور اس کے آثار قدیمہ‘ میں لکھتے ہیں کہ کسی موقع پر شہنشاہ اکبر نے اسے اور شہزادہ سلیم کی مسکراہٹوں کو آئینے میں دیکھا اور اس بنا پر اسے دیوار میں زندہ چنوا دیا۔
 انار کلی کے بارے میں سب سے پہلا تذکرہ ایک انگریز ولیم فنچ کا ہے جو کاروبار کے سلسلے میں 1611ءمیں لاہور آیا تھا۔
فقیر سید اعجاز الدین نے ولیم فنچ کا ذکر اپنی کتاب’لاہور‘ میں کیا ہے کہ فنچ نے لاہو رمیں ایک مقبرہ دیکھا جس کے بارے میں اسے بتایا گیا یہ ایک خاتون نادرہ کا مقبرہ ہے جسے اکبر کے حکم سے دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ اس بات کو دیگر محققین تسلیم نہیں کر رہے تھے کیوں کہ اکبر کے دور میں شیش محل تعمیر نہیں ہو ا تھا بلکہ اس کو شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا لیکن بعد ازاں ایک اور انگریز مو’رخ نے 1935ءمیں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک رسالے میں مضمون لکھا جس میں انہوں واضح کیا کہ جن آئینوں سے اکبر نے سلیم اور ایک کنیز کو دیکھا تھا وہ دو فٹ چوڑے اور تین فٹ لمبے آئینوں کی ایک قطار تھی جو اس دور میں قلعہ لاہور کے رہائشی حصے میں نصب تھی۔ ایک مورخ ٹیری نے اپنے رسالہ ٹیری جرنل میں 1655ءمیں لکھا کہ شہنشاہ اکبر نے شہزادہ سلیم کو تخت سے الگ کرنے کی دھمکی دی تھی، اور اس کی وجہ اکبر کی منظور نظر کنیز انار کلی تھی۔
سلیم اور انارکلی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  داستان کا مرکزی کردار شہزادہ سلیم(شیخو،نورالدین جہاں گیر) اس معاملہ میں بالکل خاموش ہے اس نے اپنی خود نوشت تزک ِجہانگیری میں اپنے بے شمار دوسرے مشاغل اور دل چسپیوں کو بیان کیا ہے۔ لیکن انار کلی کے واقعہ کا کہیں ذکرنہیں کیا۔
کنہیا لال ہندہ اس حوالے سے ’تاریخ لاہور‘ میں لکھتے ہیں کہ ”انارکلی ایک کنیز نہایت خوبصورت اکبر بادشاہ کے محل کی تھی جس کا اصلی نام نادرہ بیگم تھا۔ بادشاہ نے باسبب اس کے کہ حسن و جمال میں لاثانی تھی اور رنگ سرخ تھا، انارکلی کے خطاب سے اس کو مخاطب کیا ہوا تھا ۔
جن دنوں بادشاہ دکن و خاں دیس کی مہموں میں مصروف تھا ، یہ لاہور میں بیمار ہو کر مر گئی۔ بعض کا قول ہے کہ مسموم ہوئی۔
 بادشاہ کے حکم سے یہ عالی شان مقبرہ تعمیر ہوا اور باغ تیار ہوا جس کے وسط میں یہ مقبرہ تھا۔ سکھ سلطنت کے وقت باغیچہ اجڑ گیا، چار دیواری کی اینٹیں خشت فروش اس کو گرا کر لے گئے، مقبرہ باقی رہ گیا۔ اس میں جو سنگ مرمر کا چبوترہ تھا اس کا پتھر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اتروالیا۔ قبر کا تعویذ ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا گیا“۔                                         
اس تمام تاریخوں حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اکثرمور ٔخین کی رائے ہے کہ انار کلی کی داستان محض ایک افسانہ ہے جسے امتیاز علی تاج کے ڈرامے انار کلی نے لازوال شہرت بخش دی ہے اور امر بنا دیا۔ امتیاز علی تاج نے یہ ڈرامہ 1922ءمیں لکھا تھا اور انہوں نے بھی اس ڈرامے کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ان کی اس کہانی کے پس منظر میں محض وہی تاریخی حقیقت ہے جس کا ولیم فنچ نے ذکر کیا ہے باقی سب محض کہانی ہے۔
کچھ مورٔخین کا خیال ہے کہ وہ جگہ جسے انار کلی کا مقبرہ کہا جاتا ہے (موجودہ سول سیکریٹریٹ، لوئر مال روڈ، لاہور) دراصل جہانگیر کی ایک ملکہ صاحب جمال کا مقبرہ ہے اس جگہ کے اطراف میں انار کلی باغ تھا۔ اسی مناسبت سے اس مقبرے کو انار کلی کا مقبرہ قرار دیا جاتا ہے۔ انار کلی کے نام کے حوالے سے لاہور میں قائم ہونے والے انار کلی بازار کی شہرت بھی دوامی ہے۔
http://roshnipk.com/blog/wp-content/uploads/2010/10/anarkali-tomb-5.jpgانارکلی کا مقبرہ مغل طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ کنہیا لال ہندی اس مقبرے کی عمارت کا نقشہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس مقبرے کی عمارت ہشت پہلو ہے اور ہر پہلو میں ایک ایک دروازہ ہے۔ اندر سے مقبرہ دو منزلہ ہے اور وسط میں عالی شان گنبد ہے۔ دوسری منزل میں چھوٹی بڑی نو کھڑکیاں ، چھوٹے گنبد ہیں۔ پہلے اس کے آٹھ دروازے نیچے اور آٹھ اوپر کی منزل میں تھے اب زیریں منزل کے آٹھ دروازے بدستور ہیں اور اوپر کے دروازوں میں تغیر و تبدل ہو گیا ہے۔
گزشتہ برس پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ نے ایک منصوبے کے ذریعے لاہور کے سول سیکرٹریٹ میں واقع انار کلی کے مقبرے کو اس کی اصلی شکل میں بحال کرنے اور اس کی حدود کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کر کے ایک تاریخی عمارت کے طور پر عام لوگوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور مقبرے کے عقب میں واقع 24سرکاری کوارٹرز ملازمین سے خالی کروا کے منہدم کر دیے گئے ہیں۔ مقبرے کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کرنے کے لیے عقب میں اس کا اپنا ایک دروازہ تعمیر کیا جائے گا جس کے بعد سول سیکرٹریٹ کے اندر اس کے گرد دیوار بنا کے اس کو ایک علیحدہ تاریخی عمارت میں تبدیل کیا جائے گا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے کھدائی کا کام جاری ہے جو کہ مقبرہ اور اس کے ارد گرد کے تاریخی اہمیت کے حامل آثار اور تاریخی حقائق فراہم کرنے میں مدد دے گی۔ مقبرہ انار کلی مغلیہ دور میں تو ایک مقبرہ ہی رہا ۔
محکمہ آثار قدیمہ کے عہدے دار سلیم الحق کے مطابق صدیوں سے رنگ وروغن کی مختلف تہیں جو اس مقبرے پر جما دی گئی ہیں ان کو بھی سائنسی انداز میں ہٹایا جائے گا تاکہ اس عمارت کی اصل شکل و صورت سامنے آئے اور پھر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی وہی شکل بحال کرنے کی کوشش کی جائے جو تعمیر کے وقت تھی۔ ان کے مطابق سکھوں کے دور حکومت میں اس مقبرے کو کھڑک سنگھ کی رہائش گاہ بنا دیا گیا تھا اور مقبرے چوں کہ چاروں طرف سے کھلے ہوتے ہیں لہذا رہائش گا ہ میں تبدیل کرتے وقت اس کی باہر کی طرف واقع محرابوں کو دیواریں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا۔ مقبرے کی یہ تجاوزات بھی ایک طرح سے سکھ دور کے طرز تعمیر کی نمائندہ ہیں لہذا یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جن تجاوزات کو ہٹانا ضروری نہیں ہے ان کو سکھ دور کی علامت کے طور پر قائم رکھا جائے اور باقی تجاوزات کو ختم کر کے مقبرے کو اصلی شکل میں بحال کیا جائے۔
تاریخی طور پر اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ قبر انارکلی کی ہے ۔ قبر کے پتھر پر بھی کچھ اشعار اور سن وفات 1599ءدرج ہے مگر کوئی نام درج نہیں ہے۔ قبر پر مجنوں سلیم اکبر کا نام کندہ ہے ۔اس دور میں جہانگیر کا نا م نورالدین سلیم لکھا جاتا تھا جبکہ بعد ازاں وہ بادشاہ بنا تو اس کا نام نورالدین جہاں گیر ہو گیا تھا لہذا مجنوں سلیم اکبر کا نام بھی تحقیق طلب معاملہ ہے۔ البتہ بعض تاریخ دانوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ مقبرہ جہاں گیر کی ایک بیوی صاحب جمال کا تھا جو جہاں گیر کی عدم موجود گی میں لاہور میں وفات پاگئیں اور یہیں دفن ہو گئیں۔ لیکن مغل بادشاہ اپنی بیگمات کے مقبروں پر لازمی طور ان کے نام کندہ کرواتے تھے مگر یہاں کوئی نام کندہ نہیں ہے۔ مختلف محققین کے مطابق اس تاریخی حقیقت کے باوجود کہ 1599ءمیں اس صاحب مزار کا سن وفات ہے اکبر اور ان کا بیٹا سلیم دونوں لاہور سے باہر تھے ، عام لوگ اس کو انار کلی کا مقبرہ ہی کہتے ہیں ۔
انارکلی کے کردار کو امر کرنے کا سہرا ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے ’انارکلی‘لکھ کر اس کردار کو عشق و محبت کی داستانوں میں ان مٹ تاریخ رقم کر دی ہے۔ ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان کش مکش پر مبنی ہے ۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، جلال و جمال اور بے پناہ  منظر نگاری کی گئی ہے۔ ڈرامہ نگار نے اس ڈرامہ میں محبت کو ایک  آفاقی اورلازوال طاقت  ثابت کیا گیاہے ۔ انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔
امتیاز علی تاج خود کہتے ہیں”میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے ۔ بچپن سے انارکلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔
ادبی اعبتار سے یہ ڈرامہ اردوزبان کی شان ہے۔بقول رشید احمد صدیقی "مغل عہد کی تین باتیں یاد گار ہیں۔ اردوزباں،تاج محل اور غالب"۔اسے اب یوں ہونا چاہیے :
چیزیں ہیں چار ،تحفۂ عہدِ مغلیہ ،آج کل
اردو زباں،انارکلی،غالب اورتاج محل
انار کلی کی کہانی،ڈرامہ کا پلاٹ،مکالمات،اسلوب اوراندازِ بیان(طلسماتی وجادوئی اثر)،روزمرہ،محاورات، تراکیب، استعارات، تشبیہات،بندش الفاظ، برمحل، ظلِ الہیٰ جلال الدین اکبر کاجلال،شیخو(سلیم)کی بے نیازی اورجاں نشیں ہونے کے باوجود کسی ایسی طوقت کے استعمال سے گریز جس کاتعلق سلطنت،قوتیا عنانِ حکومت سے ملتاہو۔محبے کے نشے میں چور دلِ رنجور اور بے نیاز،انار کلی سادہ ومعصوم،ملول ومحزون،اوچھے ہتھ کنڈوں سے دور محبت کاسرور،نہ لالچ نہ فتور،یوں یہ لافانی کردار تاریخ کاحصہ بن گیاہے،دل آرام  انتقام کانام،چال باز وچال ساز،اوراس قول کی حامی کہ "محبت اورجنگ میں ہرچیز جائز ہوتی ہے۔لیکن تمام تر ہوشیاری اور چالاکی کے باوجود ناکامی مقدر ہوچکی ہے۔اوربد نامی نام کا حصہ بن چکی ہے۔
انارکلی  ایک زندہ  کردار ہے۔ وہ  عشق و وفا اور فکر و فن کا  حسین و جمیل پیکر  ہے۔ وہ نہ زندگی سے ڈرتی ہے اور نہ ہی موت سے کتراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا  ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی قبول نہیں۔ اس کے جذبۂ عشق کے آگے  موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ آج لوگوں میں انار کلی محبت کاستعارہ ہے۔ اور اس کی داستاں  زبان زد عام ہو ہے۔
حیقیقت کچھ بھی ہو۔ انارکلی اور شیخو کا عشق فرضی داستان تھا یا نہیں۔ مقبرہ انارکلی میں ،انارکلی ہے یا نہیں۔ اس بات سے قطع نظر ادب و ثقافت پر اس کردار نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ صدیوں سے مقبرہ انارکلی عشق اور محبت کی علامت ہے اور عشق کی علامت، وفا کی دیوی اور محبت کی تصویر انار کلی ہے!؟۔

No comments: